اگر یوم عرفہ جمعہ یا ہفتے کو ہو تو ان کا روزہ رکھنے کا حکم؟

Ruling regarding fasting the day of ‘Arafah falls on Friday or Saturday?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فتوی کمیٹی، سعودی عرب

فتوی رقم 6655

سوال: خود طلاب العلم کے مابین اس بات پر بحث مباحثہ شدت پکڑ چکا ہے عوام تو دور کی بات رہے کہ جمعہ کے دن روزے رکھنے کا کیا حکم ہے اگر اس دن یوم عرفہ ہو، کیا اس اکیلے دن روزہ رکھنا جائز ہے اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو یا پھر اس سے ایک دن پہلے یا بعد میں روزہ ملانا ضروری ہوگا، یہ جانتے ہوئے کہ اگر ایسا دن جمعہ کے روز پڑ جائے تو وہ ان احادیث کے خلاف جائے گا جن میں صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ پس ہم آپ مشایخ کرام سے امید رکھتے ہیں کہ اس التباس کا ازالہ فرمائيں اور اس بارے میں صحیح شرعی حکم کی وضاحت فرمائیں؟ اللہ تعالی آپ کو اس پر بہترین جزاء عطاء فرمائے۔

جواب: یوم عرفہ کا روزہ رکھنا مشروع وجائز ہے اگر وہ جمعہ کے دن پڑتا ہو اگر اس سے پہلے آپ نے روزہ نہ بھی ملایا ہو، کیونکہ یہ بات نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ نے اس دن کے روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے اور اس کی فضیلت اور عظیم ثواب کا ذکر فرمایا ہے،  چنانچہ  فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کہ:

” صوم يوم عرفة يكفر سنتين: ماضية ومستقبلة، وصوم يوم عاشوراء يكفر سنة ماضية “([1])

(یوم عرفہ کے روزے سے دو سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں: ایک گزشتہ سال اور ایک آئندہ سال، جبکہ عاشوراء کے روزے سے گزشتہ سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں)۔

اسے احمد، مسلم اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔

لہذا یہ حدیث جمعہ والی حدیث کے عموم کو خاص کردیتی ہے جس میں ہے کہ:

” لَا يَصُومَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِلَّا أَنْ يَصُومَ يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ “([2])

(تم میں سے کوئی ہرگز بھی اکیلے جمعے کے دن روزہ نہ رکھے الا یہ کہ اس سے ایک دن قبل یا ایک بعد بھی روزہ ملا لے)۔

اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔

 چنانچہ  اس نہی کے عموم سے مراد یہ لی جائے گی کہ اگر کوئی مسلمان اکیلے جمعے کے دن کا روزہ رکھے محض جمعہ کے دن کی وجہ سے۔ لیکن اگر کوئی کسی اور ایسے سبب سے روزہ رکھتا ہے جس کی شریعت نے ترغیب دی ہے اور اس پر ابھارا ہے تو پھر یہ ممنوع نہیں ہوگا، بلکہ مشروع ہوگا اگرچہ صرف اس اکیلے دن کا ہی روزہ کیوں نہ ہو۔ البتہ اگر وہ اس سے پہلے بھی ایک روزہ رکھ لیتا ہے تو یہ زیادہ اولیٰ ہے کیونکہ اس میں دونوں احادیث پر عمل کر لینے میں احتیاط پائی جاتی ہے، اور اجر میں بھی زیادتی ہے۔

وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عضو                        عضو                        نائب رئيس اللجنة                   الرئيس

عبد الله بن قعود            عبد الله بن غديان          عبد الرزاق عفيفي           عبد العزيز بن عبد الله بن باز

(فتاوى اللجنة الدائمة >  عبادات  >  الصيام  >  أقسام الصيام  >  الصيام المستحب  >  صيام يوم عرفة لغير الحاج  > س: قد احتدم النقاش بين طلاب العلم فضلًا عن العامة في صوم يوم الجمعة، إن وافق يوم عرفة؛ فهل يجوز صومه منفردًا إن جاء يوم (جمعة) أم يجب صوم يومًا قبله أو بعده علمًا بأنه إن جاء يوم جمعة…)

فتوی رقم 14562

سوال: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یوم عرفہ اس دفعہ جمعہ کے دن تھا ، اور ہم نے اس دن روزہ بھی رکھا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس فرمان کے پیش نظر کہ:

”اس دن کے روزہ سےایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف ہوتےہیں“۔

اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ لیکن ہمیں ہماری جامع مسجد کے امام نے کہا کہ: جمعہ کے دن روزہ جائز نہيں سوائے اس کے لیے  جس نے اس سے پہلے ایک روزہ ملایا ہو۔ یہ سن کر ہم میں سے اکثر نے روزہ توڑ دیا اور بعض نے روزہ رکھا باوجودیکہ وہ اس بارے میں حیران وپریشان تھے۔ یہ بات علم میں رہے کہ ہم نے عرفہ کے دن کا روزہ اس دن کے احترام اور اس اجر کی ترغیب میں رکھا تھا جو اس کے روزے کا ہے، ناکہ جمعہ کے دن کی فضیلت کی وجہ سے۔ پس آپ ہمیں اس بارے میں فتویٰ دیں، اللہ تعالی آپ کو نفع دے کہ: کیا حق اس مسجد کے امام اور جنہوں نے اس کے کہنے پر روزہ چھوڑ دیا ان کے ساتھ ہے، یا پھر حق ہمارے ساتھ ہے کہ ہم نے روزہ رکھا۔ اور ہمیں عام طور پر بھی ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے اگر اس جیسے دن عرفہ یا عاشوراء کو پڑتے ہوں؟ والسلام۔

جواب: یہ بات نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ نے جمعہ کے دن کو دیگر دنوں سے ہٹ کر روزے کے لیے خاص کرنے  سے منع فرمایا ہے۔ اور یہ حکم دیا ہے کہ اس سے پہلے یا بعد میں بھی روزہ ملایا جائے۔ البتہ اگر جمعہ کا دن یوم عرفہ یا عاشوراء میں پڑتا ہو تو اس دن روزہ رکھنا جائز ہے اس طور پر کہ یہ یوم عرفہ یا یوم عاشوراء ہے ۔ امام مسلم ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے حدیث لائے ہيں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

”لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَا تَخُصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي صَوْمٍ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ“ ([3])

(جمعہ کی رات کو دیگر راتوں سے ہٹ کر قیام کے لیے خاص نہ کرو، اور نہ ہی جمعہ کے دن کو دیگر دنوں سے ہٹ کر روزے کے لیے خاص کرو، الا یہ کہ کوئی ایسا روزہ (جمعہ کے دن پڑ جائے)  جو تم میں سے کوئی رکھتا ہے)۔

اور ان مذکورہ روزوں کی فضیلت میں یہ وارد ہے کہ اس سے سابقہ سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں، اور عرفہ کے لیے تو ثابت ہے کہ بے شک اس سے گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف ہوتےہیں۔

لہذا جو روزے دار اس زاویے سے روزہ رکھتا ہے تو اس کے لیے یہ جائز ہے۔

صحیح مسلم میں ابو قتادہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

”صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ“

(یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ اس کے ذریعے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرماتا ہے)۔

اور عاشورا ء کے بارے میں فرمایا:

”إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ“

(بلاشبہ میں  اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کے ذریعے گزشتہ سال کے گناہ معاف فرماتا ہے)۔

وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عضو                       نائب الرئيس                          الرئيس

عبد الله بن غديان          عبد الرزاق عفيفي           عبد العزيز بن عبد الله بن باز

(فتاوى اللجنة الدائمة >  عبادات  >  الصيام  >  أقسام الصيام  >  الصيام المستحب  >  صيام يوم عرفة لغير الحاج  > س: تعلمون أن يوم عرفة كان يوم الجمعة ، وقد صمناه لقوله صلى الله عليه وسلم: صيام عرفة يكفر السنة الماضية والباقية رواه مسلم ، وقد قال لنا إمام الجامع: عندنا لا يجوز صيام الجمعة إلا من…)

299- اکیلے جمعہ کے دن روزہ رکھنے کا حکم اگر اس دن یوم عرفہ ہو

کیسٹ 294 سوال رقم 9:

اس دفعہ یوم عرفہ جمعہ کےدن  ہوا، میں نے اس دن روزہ رکھا لیکن میں نے اس سے پہلے جمعرات کا روزہ نہیں رکھا تھا، پس کیا میرے اوپر کوئی گناہ ہوگا؟

جواب: ہمیں امید ہے کہ آپ پر اس بارے میں کوئی گناہ نہيں ہوگا، کیونکہ آپ نے اپنے روزے سے اکیلے جمعے کے دن کے روزے کا قصد نہیں کیا تھا، بلکہ آپ نے تو فقط یوم عرفہ کی وجہ سے روزہ رکھا تھا۔ لیکن اگر آپ اس کے ساتھ جمعرات کا بھی روزہ رکھ لیتیں تو وہ زیادہ محتاط ہوتا۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن کا اکیلانفلی  روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، اور آپ نفلی روزہ رکھ رہی تھیں، لہذا اگر اس کے ساتھ جمعرات کا بھی ملا لیتیں تو زیادہ محتاط ہوتا۔ اگرچہ آپ کا مقصد تو صرف یوم عرفہ ہی تھا، لیکن بہرحال ایک مومن کا یہ کوشش کرنا کہ وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل موافقت کرے اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی حتی الامکان بجاآوری کرے  زیادہ محتاط رویہ ہے۔

البتہ اگر جمعہ کا روزہ اس کی فضیلت کے قصد سے رکھا جائے تو یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ لیکن روزہ اس لیے رکھا کہ یہ یوم عرفہ ہے تو پھر ہمیں امید ہے کہ اس پر کوئی حرج نہيں، البتہ اگر احتیاط برتی جائے اور اس کے ساتھ جمعرات کا بھی روزہ ملا لیا جائے تو یہ زیادہ سلامتی والا طریقہ ہے۔

سوال: اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن پڑتا ہو تو کیا اس اکیلے دن کا روزہ رکھنا جائز ہے؟ جزاکم اللہ خیراً۔

جواب: جمعہ کے دن کا جو روزہ منع ہے وہ اس صورت میں ہے کہ جب اس سے مقصود مطلقاً بذاتہ جمعہ کا دن ہو، تو پھر ضروری ہے کہ اس کے ایک دن پہلے یا بعد میں روزہ ملایا جائے۔لیکن اگر اس دن کوئی فرض روزہ پڑ جائے یا شوال کے چھ روزے ہوں، یا 9 یا 10 محرم کے روزے یا پھر یوم عرفہ کا روزہ ہو تو پھر اس دن روزہ رکھنے میں کوئی مانع نہيں، بشرطیکہ انسان محرم حاجی نہ ہو۔

(مجلة البحوث الإسلامية >  عبادات  >  الصيام  >  أقسام الصيام  >  الصيام المستحب  >  صيام يوم عرفة لغير الحاج  > س : إذا صادف يوم عرفة يوم جمعة هل يجوز صيامه منفردا ؟ جزاكم الله خيرا)

فتوى نمبر 11747

سوال: اس سال لوگوں کے درمیان سنیچر(ہفتے) کے دن عرفہ ہونے کی وجہ عرفہ کے روزے کے بارے میں اختلاف ہوگیا ہے، چنانچہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دن کا روزہ ہم نے اس لئے رکھا کہ وہ عرفہ کا دن ہے، نہ کہ سنیچر کا دن ہونے کی وجہ سے ، جس دن کہ روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے، اور بعض لوگوں نے اس دن روزہ اس لئے نہیں رکھا کہ وہ سنیچر کا دن تھا کہ یہود کی مخالفت میں اس دن کی تعظیم کرنے سے منع کیا گیا ہے، میں نے اس دن کا روزہ نہیں رکھا اور میں اس بات کو لے کر پریشان ہوں، اور مجھے اس دن کے شرعی حکم میں اشکال ہوگیا ہے، میں نے اس مسئلے کے بارے میں شرعی اور دینی کتابوں میں چھان بین کی، لیکن مجھے اس دن کے بارے میں کوئی واضح اور قطعی حکم نہیں ملا، لہذا میں آنجناب سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اس بارے میں حکم شرعی کی رہبری کریں، اور تحریری جواب ارسال کریں، اللہ آپ کو اس جواب پر اور مسلمانوں کو دنیا اور آخرت میں نفع بخش علم فراہم کرنے پر ثواب عطا فرمائے؟

جواب: صرف عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا جائز ہے چاہے وہ سنیچر کو آئے یا ہفتے کے کسی اور دن آئے، اس لئے کہ ہفتے کے سارے دن برابر ہیں؛ کیونکہ عرفہ کا روزہ اپنی جگہ ایک مستقل سنت ہے، اور سنیچر کے دن کے روزے سے ممانعت والی حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس حدیث میں اضطراب ہے، اور وہ صحیح احادیث کے مخالف ہے۔

( جلد کا نمبر 10، صفحہ 397)

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

ممبر                                  نائب صدر برائے کمیٹی                          صدر

عبد اللہ بن غدیان               عبدالرزاق عفیفی               عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

(دائمی کمیٹی کے فتوے > پہلا مجموعہ > دسویں جلد: زکوۃ وروزہ > روزہ > نفلی روزے > سنیچر کے دن عرفہ کا روزہ رکھنا)([4])

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ

آپ سے جمعہ کے دن کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا؟

جواب: جمعہ کا  روزہ مکروہ ہے لیکن علی الاطلاق نہیں۔  چنانچہ  جمعہ کا روزہ اس کے لیے مکروہ ہے جو اسی دن کا قصد کرے اور صرف اس ایک دن روزہ رکھے۔ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

“جمعہ کے دن کو روزے کے لیے اور اس کی رات کو قیام کے لیے خاص نہ کرو”۔

لیکن اگر انسان جمعہ کے دن روزہ رکھتا ہے اس لیے کہ وہ کسی ایسے دن آگیا جس میں وہ روزے رکھنےکا عادی ہے تو پھر اس پر کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سے اگر وہ اس کے پہلے یا بعد میں روزہ ملا لیتا ہے تو بھی بلاکراہت کوئی حرج نہيں۔

پہلے کی مثال: اگر کسی انسان کی عادت ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن چھوڑتا ہے، تو جو روزہ رکھنے والا دن ہے اتفاقًا اس دن جمعہ پڑ جائے تو ا س پر کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سے اگر اس کی عادت ہو کہ وہ عرفہ کا روزہ رکھتا ہے اور وہ جمعہ کے دن پڑ جائے تو بھی بلاشبہ اس میں اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ صرف جمعہ کا روزہ رکھنے پر اقتصار کرے۔ کیونکہ اس نے اس اکیلے دن کا روزہ اس لیے نہيں رکھا کہ یہ جمعے کا دن ہے بلکہ اس لیے رکھا ہے کہ یہ یوم عرفہ ہے۔ اسی طرح سے اگر جمعے کو یوم عاشوراء کا بھی روزہ رکھے اور اسی پر اقتصار کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ یوم عاشوراء میں افضل یہ ہے کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ ملایا جائے۔

(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين – 20/ 51)

دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں:

میں چاہتا ہوں کہ اس بات کی وضاحت کروں جو حدیث ابو داود میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے آئی ہے کہ فرمایا:

”لَا تَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ إِلَّا فِي مَا افْتُرِضَ عَلَيْكُمْ وَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلَّا لِحَاءَ عِنَبَةٍ أَوْ عُودَ شَجَرَةٍ فَلْيَمْضَغْهُ “ ([5])

(ہفتے کے دن کا روزہ نہ رکھو، سوائے ان دنوں کے جن میں تم پر یہ فرض ہوں۔ہفتے کے دن اگر تمہیں (کھانے کو) کچھ نہ ملے تب بھی کسی انگور کی شاخ کا چھلکا یا کسی درخت کی لکڑی ہی چبالو )۔ (یعنی بہرحال روزہ نہ رکھو)۔

اس حدیث کے تعلق سے امام ابو داود فرماتے ہیں: امام مالک بن انس (جو کہ مشہور امام ہیں) نے فرمایا:  بے شک یہ حدیث جھوٹ ہے۔ یعنی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر جھوٹ باندھی گئی ہے اور صحیح نہیں ہے([6])۔

اور حقیقت میں جو اس حدیث پر غور وفکر کرے گا تو وہ اس کی سند میں اضطراب پائے گا، اسی طرح سے اس کے متن میں شذوذ یا نکارت بھی ہے۔ جہاں تک سند میں اضطراب کا تعلق ہے تو اس پر اہل علم نے کلام فرمایا ہے جو چاہے اس جانب رجوع کرسکتا ہے۔ اور جہاں تک متن میں شذوذ اور نکارت کی بات ہے تو وہ اس طرح سے ہے کہ یہ بات نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں جویریہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ:

”أَنَّ النَّبِيَّ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهِيَ صَائِمَةٌ، فَقَالَ: أَصُمْتِ أَمْسِ ؟ قَالَتْ: لَا، قَالَ: تُرِيدِينَ أَنْ تَصُومِي غَدًا؟ قَالَتْ: لَا، قَالَ: فَأَفْطِرِي “ ([7])

(نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان پر بروز جمعہ داخل ہوئے، جبکہ آپ روزے سے تھیں، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: کیا تم نے کل روزہ رکھا تھا؟ فرمایا: نہیں، پھر پوچھا: کیا تم کل بھی روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتی ہو؟ فرمایا: نہیں۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: پھر روزہ کھول دو)۔

اور یہ بات معلوم ہے کہ جمعے کے بعد آنے والا کل ہفتہ ہوتا ہے، پس یہ تو بذات خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے جسے بخاری نے روایت کیا ہے، کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بلاشبہ ہفتے کے دن کے روزے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔

اسی طرح سے جو حدیث اہل سنن نے ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت کی ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا:

” ما هي أكثر الأيام التي كان الرسول صلى الله عليه وسلم يصومها؟ قالت: يوم السبت ويوم الأحد“ ([8])

(کون سے دنوں میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اکثر روزے رکھا کرتے تھے؟ فرمایا: ہفتے اور اتوار کے دن)۔

پس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی قولی اور فعلی سنت سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ہفتے کے دن کا روزہ حرام نہیں ہے۔

علماء کرام کا اس حدیث پر عمل کے تعلق سے اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں:اس پر مطلقاً عمل نہيں کیا جائے گا، اور ہفتے کے دن کے روزے میں کوئی مضائقہ نہیں خواہ اکیلا رکھا جائے یا ملا کر، کیونکہ یہ حدیث ہی صحیح نہیں ہے۔ اور جو حدیث صحیح نہ ہو تو اس پر احکام میں سے کسی حکم کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔

اور ان میں سے بعض اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیتے ہيں اور کہتے ہیں: اس میں اور دیگر احادیث میں یوں جمع کیا جاسکتا ہے کہ جس سے منع کیا گیا ہے وہ اس اکیلے دن کا روزہ رکھنا ہے کہ اس کے ساتھ جمعے کا یا اتوار کا روزہ نہ ملایا جائے۔ ا س جانب امام احمد  رحمہ اللہ  گئے ہیں اور فرماتے ہیں کہ: اس میں کوئی حرج نہیں اگر ہفتے کے ساتھ کوئی اور دن بھی ملا لے، جیسا کہ اس کے ساتھ جمعے کا یا اتوار کا روزہ ملا لے۔

اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ: اگر ہفتے کا دن ایسے دن میں پڑ جائے جس میں روزہ رکھنامشروع ہے جیسے عرفہ یا روزہ یا دس محرم کا روزہ تو پھر اس دن روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہے کیونکہ جو بات منع ہے وہ بذاتہ اس ہفتے کے دن کا قصد کرکے روزہ رکھنا ہے ناکہ اتفاقاً یہ ایسے دنوں میں پڑ جائے جن میں روزہ رکھنا مشروع ہے۔ اس بات پر میں نے اس لیے تنبیہ کی ہے کیونکہ بعض بھائیوں نے یہ بات سنی کہ کچھ لوگو ں نے ہفتے کے دن کا روزہ رکھا تاکہ نو دس کا روزہ رکھ سکیں تو دوسروں نے انہيں روزہ کھول دینے کا حکم دیا،حالانکہ درحقیقت ایسا شخص مجتہد ہے، لیکن ضروری نہيں کہ ہر مجتہد صواب کوپائے۔

(اللقاء  الباب المفتوح رقم 61)

شیخ محمد ناصر الدین البانی  رحمہ اللہ

شیخ رحمہ اللہ  سے پوچھا گیا جسے جمعرات کو روزہ رکھنے کا موقع نہ ملا ہوتو کیا وہ جمعے کے دن والے عرفہ کا اکیلا روزہ رکھ سکتا ہے۔

شیخ نے فرمایا کہ عرفہ کا روزہ تو فرض نہيں ہے، لہذا اکیلے جمعے کے دن کا روزہ نہ رکھا جائے۔

کیونکہ قاعدہ ہے کہ جب حاظر (جو چیز منع کردہ ہے) اور مبیح (جو چیز مباح وجائز ہے) میں تعارض ہوجائے تو پھر حاظر کو مقدم کیا جاتا ہے۔

(مفہوم- سلسلة الهدى والنور – الشريط 484)

اسی طرح اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ جس میں ہے کہ: جمعے کے دن روزہ نہ رکھے کوئی مگر یہ کہ وہ ایسے دن پڑتا ہو جس میں کوئی روزے رکھنے کا عادی ہو۔

شیخ فرماتے ہيں کہ ایک دن پہلے یا بعد میں۔

سائل نے کہا کہ نہيں یہ ایک دوسری حدیث ہے جس میں بس یہ الفاظ ہیں۔

شیخ فرماتے ہیں کہ اکیلے روزے کی ممانعت ہے کہ نہیں؟ ممانعت تو موجود ہے۔ لہذا یہ بعد والا جملہ تخصیص کے لیے نہيں ہے بلکہ اسی کی تفسیر کرتا ہے کہ ایک روز پہلے یا بعد میں جو روزے رکھتا ہے وہ رکھے۔

معنی یہ ہوا کہ کوئی نہ رکھے الا یہ کہ وہ جمعرات یا ہفتے کا روزہ اس کے ساتھ ملاتا ہو۔

کسی نے پوچھا یعنی اصل ممانعت محض اتفاقاً اس دن جمعے کا آجانا ہے ناکہ جمعے کے دن کا قصد کرنا۔

شیخ فرماتے ہیں بالکل ایسا ہی ہے۔

(مطلب یہ کہ خواہ یہ کہا جائے کہ ہم نے جمعے کا دن کا خصوصی قصد نہيں کیا بلکہ فلاں روزے جیسے عرفہ کا قصد کیا ہے پھر بھی منع ہے، کیونکہ اصل ممانعت بس اس دن کے آجانے کی ہے ناکہ اس کے خصوصی قصد کی)([9])

(مفہوم: سلسلة الهدى والنور-الشريط 495)

اسی طرح  سلسلة الهدى والنور-الشريط 204 میں بہت سختی سے ان لوگوں کا رد فرماتے ہیں جو اس ہفتے کے دن روزے رکھنے سے ممانعت والی حدیث سے بعض روزے مستثنیٰ قرار دیتے ہيں کہ گویا کہ ایسے لوگ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پیش قدمی کرتے ہيں کہ عام ممانعت میں سے فلاں فلاں خارج ہے۔

اسی طرح سے جو اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں شیخ نے ان کا بھی رد فرمایا۔

اور پہلے بیان کردہ قاعدہ کہ حاظر مبیح پر مقدم ہوتا ہے کی مثال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جیسے پیر اور جمعرات کے روزے کی بھی فضیلت ہے لیکن اگر عید پیر یا جمعرات کو پڑ جائے تو اجماع ہے کہ روزہ نہيں رکھا جائے گا خواہ اس کی کتنی ہی فضیلت ہو، کیونکہ اس دن روزہ حرام ہے۔

اور شیخ  رحمہ اللہ  ہفتے کے روزے کو عید کی طرح ہی حرام سمجھتے ہیں([10])۔

آخر میں شیخ یہ بھی فرماتے ہیں بعض ساتھیوں کو  یہ بات پریشان کردیتی ہے کہ یوم عرفہ کی تو اتنی اتنی فضیلت ہے اور عاشوراء کے روزے کی بھی تو ہفتے کےدن روزہ چھوڑ دینے سے ہم سے اتنے سارے فضائل چھوٹ جائیں گے!

شیخ فرماتے ہيں کہ ہم تو اس حدیث پر نظر رکھتے ہيں کہ جو اللہ کی رضا کے لیے کوئی چیز چھوڑتا ہے اللہ اسے اس سے بہتر عطاء فرماتا ہے۔ لہذا ہم نے اپنی خواہش سے تو یہ روزہ نہیں چھوڑا بلکہ اللہ رسول کے فرامین پر عمل کرتے ہوئے ایسا کیا ہے تو وہ ہمیں محروم نہیں فرمائے گا۔

اس کے علاوہ شیخ البانی  رحمہ اللہ  کا شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ کے ساتھ اس موضوع پر مناقشہ بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے جو سنا جاسکتا ہے۔


[1] صحیح مسلم 1162۔

[2] صحیح بخاری 1985، صحیح مسلم 1144۔

[3] صحیح مسلم 1144۔

[4] اس فتوے کا ترجمہ الافتاء کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔

[5] اسے امام الترمذی نے اپنی سنن 744 میں اور امام ابو داود نے اپنی سنن 2421 میں روایت فرمایا  اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی اور صحیح ابی داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[6] البتہ شیخ البانی  رحمہ اللہ  نے ارواء الغلیل میں اس کا صحیح ہونا اور امام ابو داود کا اپنی سنن میں اس حدیث کو منسوخ کہنا اسی طرح سے امام مالک کے تعلق سے اسے جھوٹ قرار دینے کو غلط ثابت فرمایا ہے۔ (مترجم)

[7] صحیح بخاری 1986، اس کے علاوہ خود امام ابو داود بھی اس حدیث کو لائے ہيں اور باب قائم کیا ہے کہ ہفتے کے دن روزہ رکھنے کی رخصت کا بیان۔ (مترجم)

[8] مسند احمد26209  کے الفاظ ہیں:

”كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَصُومُ يَوْمَ السَّبْتِ وَيَوْمَ الْأَحَدِ أَكْثَرَ مِمَّا يَصُومُ مِنَ الْأَيَّامِ، وَيَقُولُ:  إِنَّهُمَا عِيدَا الْمُشْرِكِينَ، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أُخَالِفَهُمْ “

اس میں وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ یہ مشرکین (یہود ونصاری) کی عید کے دن ہيں، اور میں ان کی مخالفت کرنے کو پسند کرتا ہوں۔ (مترجم)

[9] البتہ اس کی علت دیگر احادیث میں وارد ہے جیسے ہفتہ اتوار یہود ونصاری کی عید ہیں۔ یا پھر ہفتے کی یہودی تعظیم کرتے ہیں۔  جیسا کہ امام الترمذی نے ہفتے کے روزے کی ممانعت والی حدیث روایت کرنے کے بعد خود فرمایا کہ: اس کا معنی اس بات کی کراہیت ہے کہ کوئی شخص ہفتے کے دن کو روزے کے لیے خاص کرے کیونکہ یہودی ہفتے کے دن کی تعظیم کرتے ہیں۔  اللہ اعلم (مترجم)

[10] حالانکہ عید کے دن روزے کی حرمت تو قطعی ہے اس طور پر کہ اس سے آگے پیچھے روزے ملانے سے بھی اس کی حرمت ختم نہیں ہوتی، لیکن ہفتے کے دن کی اس کی طرح کیونکر ہوسکتی ہے کہ اس بارے میں حدیث موجود ہے کہ جمعے کو روزہ رکھنے والا اس کے بعد یعنی ہفتے کو روزہ ملائے۔ البتہ شیخ البانی  رحمہ اللہ  اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہيں کہ یہ صرف اس شخص کے لیے ہے جس نے لاعلمی میں جمعے کا روزہ رکھ لیا ہو جبکہ اس سے پہلے جمعرات کا نہ رکھا ہو، تو پھر یہ بطور مجبوری کے اس کے ذمے ہوگا کہ اب ہفتے کا روزہ رکھو، نہ کہ اختیاری طور پر۔اللہ اعلم (مترجم)

ترجمہ، تفہیم وترتیب: طارق علی بروہی