اپنی قربانی دوسرے علاقے میں کروانے کے لیے تنظیموں کو پیسہ دینا؟

Giving money to organizations to make their sacrifice in another area?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: سماحۃ الشیخ کیا یہ کفایت کرتا ہے کہ ہم  قربانی خریدنے کے لیے مال بھیجیں  اور اسے بیرون ملک فقراء و مساکین کے لیے ذبح کیا جائے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

کوئی حرج نہيں چاہے اسے اپنے گھر میں ذبح کرے یا باہر کہیں، لیکن اپنے گھر پر کرنا افضل ہے۔ اگر وہ اپنے گھر پر ذبح کرتا ہے تو اس میں سے کھائے اور اپنے آس پاس  کے لوگوں میں بھی تقسیم کرے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ افضل ہے یعنی  وہ اپنے گھر پر ذبح کرے، اس میں سے کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے۔ البتہ اگر وہ چاہتا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں جہاں فقراء موجود ہیں وہاں دوسری قربانیاں کرے  تو اسے اس کا اجر ملے گا، کیونکہ بلاشبہ یہ صدقات میں سے ہے[1]۔

شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

اے مسلمانوں! قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے اس شخص کے حق میں جو اس کی استطاعت رکھتا ہو، کہ وہ اپنے گھروں (علاقوں) میں اسے ذبح کرکے اس میں سے خود بھی کھائے اور اپنے پڑوسیوں کو بھی اس میں سے ہدیہ پیش کرے،  اور ساتھ ہی اپنے گردونواح کے فقراء پر صدقہ بھی کرے۔

مگر آجکل جو لوگوں نے ایک نئی بات ایجاد کی ہے کہ وہ ایسے خیراتی اداروں کو اس قربانی کا پیسہ دے دیتے ہیں کہ وہ ان کی طرف سے ان کے شہر سے باہر قربانی کردیں، تو یہ خلاف سنت ہے اور عبادت کو تبدیل کرنا ہے۔ پس واجب ہے کہ اس فعل کو ترک کیا جائے اور قربانی کو قربانی کرنے والے کے گھر (علاقے) میں ذبح کیا جائے جیسا کہ سنت اس بات پر دلالت کرتی ہے اور جیسا کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسلمانوں کا عمل رہا تھا، اور یہ عمل یونہی چلتا رہا کہ اب یہ نئی باتیں ایجاد ہوئیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بدعت میں شمار نہ ہو۔

کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے:

’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([2])

(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([3])

(دین میں نئی نئی باتوں سے بچو، کیونکہ (دین میں)  ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔

البتہ جو (دوسرے علاقوں) کے محتاجوں پر صدقہ کرنا چاہتا ہے تو صدقے کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے، مگر عبادت کو اس کی حقیقی شرعی صورت سے صدقے کے نام پر بدلنا ناجائز ہے:

﴿وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ، وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ  اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ 

(اور جو رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤں، اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو بے شک  اللہ تعالی شدید سزا دینے والا ہے)[4]۔

(الحشر: 7)


[1] نور على الدرب حكم دفع مبلغ من المال لشراء أضحية وذبحها في الخارج للفقراء والمساكين

[2] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).

[3] مسلم الجمعة (867) ، النسائي صلاة العيدين (1578) ، ابن ماجه المقدمة (45) ، أحمد (3/371) ، الدارمي المقدمة (206).

[4] مجلۃ الدعوۃ – عدد  1878بتاریخ27/11/1423ھ

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی