
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مقتدی کے لیے بالخصوص تراویح میں امام کے پیچھے مصحف قرآنی اٹھانا جائز ہے کہ وہ امام کی قرأت کے ساتھ ساتھ اسے دیکھتا رہے؟
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ:
نہیں، یہ سنت میں سے نہیں ہے۔
سائل: لیکن اگر وہ ایسا کرے تو کیا اس کی نماز جائز (صحیح)ہے۔
شیخ: نماز تو جائز (صحیح)ہے۔
سائل: لیکن ہم کہیں گے کہ یہ خلاف سنت ہے؟
شیخ: جی بالکل۔
(سلسلة الهدى والنور – کیسٹ رقم -679)
شیح البانی رحمہ اللہ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
ایک مسئلہ ہے جو ہر رمضان واقع ہوجاتا ہے کہ بہت سے آئمہ مساجد جب لوگوں کو تراویح کی جماعت کرواتے ہیں تو وہ مصحف اٹھا کر اس میں سے براہ راست پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ ضرور یہ آپ کے ملک میں بھی ہوتا ہوگا جیسا کہ ہمارے ملک میں ہوتا ہے ۔ لیکن ہم یہ دیکھیں کہ آیا یہ مشروع ہے؟ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرا جواب نہیں ہے۔ البتہ بعض افاضل علماء کرام ہیں جو اسے جائز کہتے ہیں ۔ اس بارے میں ان کی دلیل سند کے اعتبار سے ایک صحیح روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک غلام تھا جو انہیں رمضان میں جماعت کرواتا اور مصحف سے دیکھ کر پڑھتا، یہ روایت صحیح ہے۔ لیکن میرا جواب یہ ہے کہ یہ روایت سلف کے عمومی منہج کی تصویر کشی نہیں کرتی بلکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا انفرادی فعل بیان کرتی ہے۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ اولاً آپ رضی اللہ عنہا پر مسجد جاکر مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ فرض نماز پڑھنا واجب نہیں قیام اللیل تو دور کی بات ہےجو کہ نفل نماز ہے۔ پھر نہ صرف یہ کہ وہ ان پر واجب نہيں بلکہ ان کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے گھر کی دہلیز میں نماز پڑھیں۔
لہذا اولاً: جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ اس مسئلے میں سلف کے عمومی منہج کی عکاسی نہیں کرتا جب ہم سلف کی جامع طور پر بات کرتے ہيں کہ ان کے رجال ، علماء وطلاب العلم۔۔۔الخ۔
ثانیاً: یہ مسئلہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا اور ان کے غلام کے ساتھ مخصوص تھا چنانچہ اگر کوئی کہنے والا کہے کہ اس طرح کی صورت اختیار کرنا جائز ہے۔ تو ہم کہیں گے ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی اتباع میں ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ انہوں نے کیا۔لیکن اسے آئمہ مساجد کے لیے عام سنت بنالینا کہ جو مردوں کو مسجد میں جماعت کرواتے ہیں تو یہ اس چیز کے خلاف ہے جس پر سلف تھے۔ ہم سلفیوں کو سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی جزئی مسئلہ جیسا کہ یہ ہے سلف کے عام منہج کے مخالف ہو تو ہم اسے قاعدہ سے مطلقاً خارج کردیں گے یا اسے مستثنیٰ قرار دے کر اسے ایک معین صورت دے دیں گے جو قاعدے کے خلاف نہ ہو۔
قاعدہ یہ ہے کہ آئمہ مساجد جو لوگوں کی امامت کرواتے ہيں وہ اپنے حفظ اور یادداشت سے قرأت کریں۔ یہ ایک دوسرے مسئلے سے کچھ مشابہت رکھتا ہے کہ اولین سلف سے یہ وارد نہیں کہ وہ قرآن کریم سے تعویذ بنایا کرتے ہوں یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت نہیں۔ البتہ یہ مصحف سے دیکھ کر نماز پڑھانے والا مسئلہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے مگر یہ خاص قضیہ ہے۔۔۔
پھر میں یہ بھی کہتا ہوں اگر ہم آئمہ مساجد کے لیے قیام رمضان میں مصحف سے دیکھ کر قرأت کا دروازہ کھول دیں گے تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت شدہ شریعت کے تعطل کا باعث بنے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’تعاهدوا هذا القرآن وتغنوا به فوالذي نفس محمد بيده إنه أشد تفلتا من صدور الرجال من ۔۔۔عقلها ‘‘([1])
(اس قرآن کے حفظ ودرس تدریس پر خصوصی توجہ دو، اور اسے خوش الحانی کے ساتھ پڑھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے یہ لوگوں کے دلوں سے اونٹ کے رسی چھڑا کر چلے جانے سے بھی زیادہ تیزی سے نکل جاتا ہے)۔
’’تَعَاهَدُوا هَذَا الْقُرْآنَ‘‘ کا معنی ہے کہ اس کے حفظ اور تعلیم پر خصوصی توجہ دو اگر اسے پڑھتے نہیں رہو گے تو وہ ضائع ہوجائے گا اور دل سے چلا جائے گا۔
اب اگر آئمہ مساجد سے یہ کہا جائے گا کہ قرآن مجید حفظ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بس مصحف کھولو اور کسی اونچی میز پر رکھ کر صفحات پلٹتے رہو اور نماز پڑھاتے رہو۔ اس کا معنی تو یہ ہوا کہ اس حکم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی اس کے حفظ پر خصوصی توجہ دو اور اسے دہراتے رہو میں عملی فرق ہوگیا۔ لہذا یہ ایسی بدعت ہوئی جو کہ سنت کے مخالف ہے۔ یعنی صرف بدعت نہیں بلکہ ایسی بدعت جو سنت کے مخالف ہے اور وہ بدعت جو سنت کے مخالف ہو اس کی مخالفت پر سب متفق ہیں اگر لوگ جانتے ہوں۔
لہذا ہم اسے جائز نہيں سمجھتے جو خاص طور پر مسجد الحرام اور اس کے اردگرد دیگر مساجد میں عام ہورہا ہے کہ امام نماز میں براہ راست مصحف قرآنی اٹھا کر پڑھتا ہے کیونکہ یہ اولاً سلف کا عام عمل نہیں رہا۔ پھر اس میں صحیح سنت کی تعطیل بھی ہے کہ جس میں قرآن کو حفظ کرنے اور دہراتے رہنے کا حکم ہے۔ اور یہ ایسا ہی ہےکہ اگر کوئی قرآنی تعویذ لٹکانے کو جائز کہے یا کسی چیز پر قرآن پڑھ کر اسے پی لینے کو جائز کہے تو یہ اس کی رائے ہوگی عام شریعت نہیں بن سکتی۔
سوال: ۔۔۔ کبھی کبھار امام کے پیچھے قاری صاحب مصحف لے کر کھڑے ہوتے ہیں تاکہ اگر امام غلطی کرے تو اسے لقمہ دے، تو کیا اس کا امام کی قرأت کی طرح ہی حکم ہوگا؟
جواب: بالکل وہی حکم ہوگا بلکہ یہ اسی پہلی حرکت کے برے آثار میں سے ہے۔۔۔میں نے واللہ اعلم ایک بار طائف میں نماز پڑھی ایسے امام کے پیچھے جو مصحف سے دیکھ کر پڑھ رہا تھا ۔ دیکھو سبحان اللہ! جب بھی میں بدعت کا ذکر کرتا ہوں تو مجھے یہ اثر یاد آتا ہے کہ کوئی بھی بدعت ایجاد ہوتی ہے تو اس کی جگہ ایک سنت مردہ ہوجاتی ہے۔چنانچہ وہ امام کیا کررہا تھا کہ جب وہ قرأت ختم کرتا اور رکوع کرنا چاہتا تو مصحف کو اپنے بغل میں دبا دیتا، ذرا اس کا تصور تو کریں کہ اس کا رکوع آخر کیسا ہوگا! اور پھر سجدہ بھی بعض مذاہب میں جیسے عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کو کہتے ہیں ویسا ہوتا ہوگا! ۔۔۔ اس سنت کی مخالفت اور اس بدعت کی ایجاد کی وجہ سے کتنی سنتیں مردہ ہوگئی۔
(آڈیو ویب سائٹ الآجری)
سوال: نماز تراویح میں مقتدی کا مصحف قرآنی اٹھانا کیسا ہے؟
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
مجھے اس کی کوئی اصل معلوم نہیں۔ جو بات ظاہر ہے وہ یہ کہ انسان کو چاہیے کہ نماز میں خشوع واطمئنان اختیار کرےاور مصحف کو نہ اٹھائے۔
بلکہ اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھے جیسا کہ سنت ہے۔ اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ہتھیلی یا کلائی کے آس پاس رکھ کر اپنے سینے پر باندھے۔ یہی راجح وافضل ہے۔ لیکن مصحف کو اٹھانا اسے ان سنتوں پر عمل کرنے سے مشغول رکھے گا۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا دل اور نگاہیں مصحف کے صفحات اور آیات کی تلاش میں لگے رہیں گے اور وہ امام کی قرأت سماعت نہیں کرپائے گا۔ میری رائے یہی ہے کہ اسے ترک کرنا اور خاموش رہ کر تلاوت سننا اور مصحف کو نہ اٹھانا ہی سنت ہے۔
اگر اس کے پاس علم ہے تو وہ امام کو لقمہ دے سکتا ہے اور اگر علم نہیں تو کوئی دوسرا لقمہ دے سکتا ہے۔ اوراگر یہ مان بھی لیا جائے کہ امام سے غلطی ہو اور کوئی بھی لقمہ دینے والا نہ ہو تو یہ نقصان دہ نہیں سوائے سورۂ فاتحہ کے معاملے میں۔ اس کا مسئلہ صرف سورۂ فاتحہ میں ہوسکتا ہے کیونکہ سورۂ فاتحہ نماز کارکن ہے جسے صحیح ادا کرنا لازم ہے۔ البتہ اگر فاتحہ کے علاوہ دیگر آیات چھوڑ دیتا اور کوئی پیچھے اسے لقمہ دینے والا بھی نہ ہوتو اس کا کوئی نقصان نہیں۔ البتہ اگر کوئی امام کو بتانے کی خاطر حاجت کے پیش نظر مصحف اٹھا لیتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن ہر ایک ہی مصحف اٹھا کر کھڑا ہوجائے تو یہ خلاف سنت ہے۔
سوال: بعض مقتدی مصحف اٹھا کر امام کی قرأت کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، کیا اس میں کوئی حرج ہے؟
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
جتنا مجھ پر واضح ہوتا ہے اس کے مطابق ایسا نہيں کرنا چاہیے۔ اولیٰ یہ ہے کہ نماز کی جانب مکمل توجہ وخشوع ہو اور سینے پر ہاتھ باندھ کر جو کچھ امام پڑھ رہا ہے اس پر غوروتدبر کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾
(اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو ،اور خاموش رہا کرو ، تاکہ تم پر رحمت ہو)
(الاعراف: 204)
فرمان الہی:
﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ، الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ﴾
(یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی، جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں)
(المؤمنون: 1-2)
اور کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا‘‘([2])
(امام تو بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ قرأت کرے تو خاموش رہو)۔
سوال: مصحف میں دیکھ کر قرأت کرنا کیسا ہے سماحۃ الشیخ؟
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ:
اس میں کوئی حرج نہیں۔ صواب بات یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہيں۔ اگر اسے ضرورت ہو مصحف میں سے دیکھ کر پڑھنے کی کیونکہ اس نے قرآن حفظ نہيں کیا، تو کوئی حرج نہیں کہ وہ مصحف میں سے پڑھ لے۔
یہ بات ثابت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا غلام ذکوان مصحف میں سے دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا۔ اسی امام بخاری رحمہ اللہ نے (صحیح بخاری میں) جزم کے ساتھ تعلیقا ًروایت کیا ہے ۔
تو اصل یہ ہی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں جو منع کرتا ہے اس کے ذمے دلیل ہے۔ اصل تو قرأت کا جائز ہونا ہے خواہ اپنے حفظ سے ہو یا مصحف میں سے، یہ ہے اصل۔ اب جو یہ کہتا ہےکہ مصحف میں سے منع ہے تو اسے چاہیے کہ دلیل فراہم کرے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، اس کا معنی ہے کہ مصحف سے دیکھ کر قرأت کرنے کی اصل جائز ہونا ہے۔ جس پر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمل کروایا جو کہ لوگوں میں سے فقیہ ترین تھیں۔
[نور على الدرب – حكم قراءة الإمام من المصحف في التراويح]
سوال: مقتدیوں کا نماز تراویح میں امام کے پیچھے مصحف لے کر کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے اس دلیل کے ساتھ کہ ہم امام کی قرأت کے ساتھ ساتھ قرآن دیکھ رہے ہیں؟
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
اس غرض کے لیے مصحف کو اٹھانے میں کئی زاویوں سے سنت کی مخالفت ہے :
1: انسان کا قیام کی حالت میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا فوت ہوجاتا ہے۔
2: اس میں بلاضرورت کثیر حرکت کی ضرورت پیش آتی ہےجیسے مصحف کوکھولنا، پھر بند کرنا، اپنی بغل میں دبانا یا جیب میں رکھنا وغیرہ۔
3: یہ حرکتیں نمازی کو نماز سے مشغول رکھتی ہیں۔
4: نمازی کا نماز میں سجدے کی جگہ پر نظر رکھنا بھی فوت ہوجاتا ہے حالانکہ اکثر علماء کی یہی رائے ہے کہ سجدے کی جگہ پر نظر رکھنا سنت اور افضل ہے۔
5: ایسا کرنے والا ہوسکتا ہے یہ بھول جائے کہ وہ نماز میں ہے اگر اس کا دل مکمل طور پر اس میں حاضر نہ ہو۔ برخلاف اس کے کہ کوئی خشوع کے ساتھ اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر ، سر تھوڑا سا جھکا کر سجدے کی جگہ نظر رکھے تو وہ زیادہ قریب ہے کہ نماز میں دل سے حاضر ہو اور اسے احساس ہو کہ وہ امام کے پیچھے ہے۔
سوال: نماز میں امام کے پیچھے مصحف اٹھا کر اس کی قرأت کے ساتھ ساتھ دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
مصحف سے امام کی متابعت کرنا یعنی انسان مصحف قرآنی اٹھا کر امام کی قرأت کے ساتھ ساتھ دیکھتا رہے۔ تو یہ اس صورت میں کرنے میں کوئی حرج نہیں جب امام کا حفظ کمزور ہو اور وہ کسی ایک مقتدی کو کہے کہ مصحف اٹھا رکھو اور اگر غلطی ہو تو لقمہ دینا، کیونکہ یہ ضرورت کے پیش نظر ہے۔
البتہ اگر اس طرح سے نہ ہو تو میرے خیال میں مقتدی کو امام کے پیچھے مصحف اٹھا کر اس کی قرأت کے ساتھ ساتھ نہیں چلنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے بہت سی مطلوبہ باتیں فوت ہوجاتی ہیں اور وہ ایسی بات میں واقع ہوجاتا ہے جو غیر مرغوب ہے(یعنی اس کی ترغیب نہيں دلائی گئی)۔ پس اس کا سجدے کے مقام پر نظر رکھنا فوت ہوجاتا ہے۔ اسی طرح سے سینے پر ہاتھ باندھنا جو کہ سنت ہے وہ بھی فوت ہوجاتا ہے۔ اور جو غیر مرغوب باتیں ہیں جیسے مصحف اٹھانے کے لیے حرکت کرنا، اسے کھولنا، لپیٹنا، رکھنا وغیرہ یہ تمام ایسی حرکات ہیں کہ جن کی حاجت نہیں۔ اور علماء کرام فرماتے ہیں: نماز میں بلاضرورت حرکت کرنامکروہ ہے کیونکہ یہ خشوع کے منافی ہے۔
بلکہ بعض علماء فرماتے ہیں: نظر کی حرکت نماز کو باطل کردیتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی نظر میں سطر کے اول سے آخر تک پھر ایک صفحے سے دوسرے تک حرکت دیتا رہے گا جبکہ اس میں بہت کثیر حروف ہیں لہذا نظر کی حرکت بھی کثیر ہوگی۔ اور یہ نماز کو باطل کردیتی ہے۔
چنانچہ میری اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت ہے کہ وہ اس حرکت کو چھوڑ دیں اور بلا مصحف کو دیکھے اپنے نفس میں خشوع کو لوٹانے کی کوشش کریں۔