آیت ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ کی تشریح – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

Explanation of the Verse from Qur’an: “And I created not the Jinns and humans except they should worship Me (Alone)” – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

الحمد لله، وصلى الله على محمد وعلى آله وسلم ([1])

کتاب  توحید

اور فرمان الہی ہے:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾  

(اور میں نے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا ہے مگر صرف اپنی عبادت کے لیے)

(الذاریات: 56)

شیخ  صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

اس کتاب کا موضوع:

اس توحید کا بیان ہے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر واجب قرار دی ہے۔ اور اسی کے لیے انہیں پیدا فرمایا ہے۔ اور اس چیز کا بیان جو اس کے منافی ہے جیسے شرک اکبر، یا پھر جو اس کے واجب کمال یا مستحب  کے منافی ہے جیسے شرک اصغر وبدعات۔

کتاب کا معنی:

مصدر ہے كَتَبَ کا بمعنی جَمَعَ۔ اور قلم سے کتابت  حروف وکلمات کا مجموعہ ہوتا ہے۔

توحید کا معنی:

مصدر ہے  وَحَّد  کا یعنی کسی کو واحد قرار دینا۔ یہاں اس سے مراد ہے:

’’إفراد الله بالعبادة‘‘

(اللہ تعالی کو عبادت میں اکیلا جاننا)۔

﴿خَلَقْتُ﴾ : خلق کا مطلب ہے کسی چیز کو بغیر سابقہ نمونے کے نئے سرے سے ایجاد کرنا۔

﴿لِيَعْبُدُوْنِ﴾ : عبادت کا لغوی معنی ہے: تذلل وخضوع۔ اور شریعت میں اس  سے مراد ہے:

’’اسم جامع لما يحبه الله ويرضاه من الأقوال والأعمال الظاهرة والباطنة‘‘

(عبادت ایک ایسا جامع اسم ہے جو ہر ان ظاہری وباطنی اقوال و اعمال کو شامل ہے جسے اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے)۔

اس آیت کا اجمالی معنی:

اللہ تعالی نے یہ خبر دی ہے کہ بے شک اس نے انسانوں اور جنوں کو نہیں پیدا فرمایا مگر صرف اپنی عبادت کے لیے۔ پس یہ ان کی تخلیق کی حکمت کا بیان ہے۔ وہ ان سے یہ نہیں چاہتا جو آقا اپنے غلاموں سے چاہتے ہیں کہ وہ انہیں رزق اور کھانے کے حصول کے سلسلے میں ان کی معاونت کریں۔ بلکہ وہ تو صرف اور صرف انہی کی مصلحت چاہتا ہے۔

اس آیت کی مناسبت اس باب سے:

یہ آیت توحید کے وجوب پر دلالت کرتی ہے، جو کہ اللہ تعالی کو اس کی عبادت میں اکیلا جاننا ہے۔ کیونکہ بلاشبہ اس نے جن وانس کو پیدا ہی نہیں فرمایا مگر اسی مقصد کے لیے۔

اس آیت سے کیا استفادہ ہوتا ہے:

1- ثقلین یعنی جن وانس پراللہ تعالی کو اس کی عبادت میں اکیلا قرار دینے کاوجوب۔

2- جن وانس کی تخلیق کی حکمت کا بیان۔

3- بلاشبہ جو خالق ہے صرف وہی عبادت کا مستحق ہے  اس کے علاوہ جو تخلیق نہیں کرتا وہ اس کا مستحق نہیں۔ پس اس میں بت پرستوں وغیرہ کا رد ہے۔

4- اللہ تعالی کا اپنی مخلوق سے بےنیاز ہونے، اور مخلوق کا اللہ کے آگے محتاج ہونے کا بیان۔ کیونکہ بلاشبہ وہی خالق ہے اور  باقی سب مخلوق ہیں۔

5- اللہ تعالی کے افعال میں حکمت ہوتی ہے اس کا اثبات۔


[1] یہ جملہ بعض نسخوں میں ہے اور بعض میں نہیں، اور ایک مخطوطہ نسخے میں ان الفاظ کی بھی زیادتی ہے: ’’وبه أستعين, ولا حول ولا قوة إلا بالله‘‘ (اور میں اللہ تعالی سے مدد چاہتا ہوں، نہیں ہے نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی توفیق مگر اللہ تعالی کی مدد سے)۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*