عورت کا عورتوں کو مسجد میں درس دینے کا حکم؟

The ruling regarding Women delivering Duroos to Women in Masajid?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ البانی  رحمہ اللہ  الصحیحہ حدیث 2680 کے تحت فرماتے ہیں:

’’جَاءَ نِسْوَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقُلْنَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقْدِرُ عَلَيْكَ فِي مَجْلِسِكَ مِنَ الرِّجَالِ، فَوَاعِدْنَا مِنْكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ، قَالَ: مَوْعِدُكُنَّ بَيْتُ فُلَانٍ، وَأَتَاهُنَّ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، وَلِذَلِكَ الْمَوْعِدِ، قَالَ: فَكَانَ مِمَّا قَالَ لَهُنَّ، يَعْنِي: مَا مِنَ امْرَأَةٍ تُقَدِّمُ ثَلَاثًا مِنَ الْوَلَدِ تَحْتَسِبُهُنَّ، إِلَّا دَخَلَتْ الْجَنَّةَ، فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: أَوْ اثْنَانِ؟ قَالَ: أَوْ اثْنَان‘‘([1])

(عورتیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس آئيں اور کہا: یا رسول اللہ! مردوں کی وجہ سے ہم مجلس میں آپ سے مستفید نہیں ہوپاتیں۔ پس آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہمارا ایک دن مقرر کرلیں کہ ہم آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس آیا کریں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: تم فلاں کے گھر پر جمع ہوجانا۔ پس وہ اس مقررہ دن پر حاضر ہوا کرتیں جو ان کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ ان مجالس میں دیگر دینی باتوں کےساتھ  یہ بات بھی فرمائی کہ: کسی بھی عورت کے اگر تین بیٹے فوت ہوجائیں اور وہ ان پر صبر کرکے اللہ  تعالی سے اجروثواب کی امید رکھے تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ ان میں سے کسی عورت نے کہا اگر دو بیٹے ہوں؟ فرمایا: دو پر بھی ایسا کرنے سے جنت میں داخلہ ہوجائے گا)۔

اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں جن میں کچھ کا میں ذکر کرتا ہوں:

1- جس کسی کے دو بیٹے بھی فوت ہوجائیں اور وہ ان پر صبر کرے تو وہ دخول جنت کا سبب ہوں گے اور جہنم سے آڑ بن جائیں گے۔ اور یہ صرف بیٹوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ کوئی بھی اولاد ہو بیٹی ہو یا بیٹا، کیونکہ دیگر کئی احادیث سے ثابت ہے کہ عام جنس مراد ہوتی ہے۔ اس میں سے ایک عمدہ جملہ آپ کو ’’الترغیب والترہیب‘‘ 3/89-91 میں مل جائے گا۔ ۔ ۔

2- صحابی عورتوں کی فضیلت کہ وہ دینی امور کی تعلیم کی کتنی حریص تھیں۔

3- اس میں عورتوں کا اپنے دینی معاملات کے بارے میں سوال کرنے کا جواز ہے، اور اس بارے میں یا کسی اور ضروری حاجت کے تعلق سے وہ مردوں سے بات کرسکتی ہيں۔

4- کسی خاص دن کا وعدہ کرنے لینے کا جواز۔ امام بخاری  رحمہ اللہ  نے بھی اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے کہ: ’’هل يجعل للنساء يوما على حدة في العلم؟‘‘ (کیا دینی تعلیم کے لیے عورتوں کا علیحدہ دن مقرر کرنا چاہیے)۔

میں یہ کہتا ہوں: پچھلے کچھ عرصے سے یہاں دمشق میں جو یہ عام ہورہا ہے کہ عورتیں کثرت سے کسی معین وقت میں مسجد جاتی ہیں جہاں انہی میں سے ایک خاتون انہیں درس دیتی ہیں جنہیں یہ لوگ اپنے زعم میں داعیات کہتے ہیں، تو یہ بات ان نئی باتوں اور محدثات میں سے ہے جو عہدی نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور نہ عہد سلف صالحین میں ہوا کرتا تھا۔ بلکہ جو بات مقرر ہے وہ یہ ہے کہ مردوں میں سے کوئی صالح عالم ان کی تعلیم کا بیڑا اٹھائے کسی خاص جگہ پر جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوا۔یا پھر مردوں کے ہی درس میں مسجد میں ان کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر کردی جائے۔ ورنہ تو علم اور سوال کے معاملے میں مرد ہی ان پر غالب رہیں گے اور وہ علم اور سوال پر دسترس حاصل نہیں کرپائیں گی۔

اور اگر آج کسی عورت کو علم اور فقہ سلیم جو کتاب وسنت سے ماخوذ ہو میں سے کچھ عطاء کیا گیا ہے تو کوئی حرج نہیں اگر وہ عورتوں کے لیے کوئی خاص مجلس مقرر کرلے انہی عورتوں میں سے کسی کے گھر پر۔ یہی ان کے لیے بہتر ہے۔ اور کیوں نہ ہو جب خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے عورتوں کے تعلق سے مسجد میں باجماعت نماز تک پڑھنےکے بارے میں فرمایا:

’’وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ‘‘([2])

(اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں)۔

جب یہ معاملہ نماز کے بارے میں ہے کہ جس میں اعلیٰ ترین ادب وحشمت کو اختیار کرنے پر عورت مجبور ہے اس کے باوجود اس کے لیے باکثرت گھر سے نکلنا نہیں تو پھر علم دین کے سلسلے میں بھی ان کے گھر ہی افضل کیوں نہ ہوں۔ خاص کر اس لیے بھی کہ ان میں بعض اپنی آوازیں بلند کرتی ہیں اور دوسری بھی اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس شور میں اس کی ہمنوا بن جاتی ہيں، جبکہ مسجد میں یہ انتہائی قبیح ومذموم حرکت ہے۔ اور یہ بات تو ہم نے نہ صرف سنی ہیں بلکہ افسوس کے ساتھ خود مشاہدہ بھی کیا ہے۔ پھر میں نے اس بدعت و نئے کام کو کچھ دوسرے ممالک میں بھی دیکھا جیسے عمان وغیرہ میں۔ ہم اللہ تعالی سے ہرقسم کی بدعات ومحدثات سے بچنے کا سوال کرتے ہیں۔

اسی طرح سے شیخ صحیح ترغیب وترہیب کی حدیث 1999 پر تعلیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

۔۔۔اور اس حدیث کی تخریج الصحیحہ 2680 میں بھی ہے، اور میں نے وہاں عورتوں کا مسجد میں عورتوں کے لیے دروس کے حلقے قائم کرنے کی بدعت پر تنبیہ بھی کی ہے جیسا کہ بعض عورتیں یہاں دمشق میں کرتی ہیں۔ اور ہمارے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان واقعی سچا ہے کہ:

’’وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ‘‘([3])

(اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں)۔

سلسلہ الھدی والنور میں سوال ہوا کہ: بعض عورتیں دوسری عورتوں کو دعوت دینے کی غرض سے نکلتی ہیں کہ گھر گھر جاتی ہیں اور اپنے خاص دورس میں شرکت کی دعوت دیتی ہیں ۔ اور اس کی بہت کثرت ہوگئی ہے۔ پس کیا یہ بات حکم الہی کے خلاف تو نہیں کہ عورتیں اپنے گھروں میں ٹکی رہیں۔ کیونکہ یہاں تو وہ باہر جارہی ہیں کبھی کہاں تو کبھی کہاں خصوصاً شیخ یہاں تو عورت کو ڈرائیونگ کی بھی اجازت ہے تو وہ کبھی اس کے پاس جاتی ہے اور کبھی کسی کے پاس، تو کیا یہ شریعت کے خلاف ہے؟

جواب: میرا خیال ہے یہ بھی عصر حاضر کی اس مشکل کا شاخسانہ ہے جو عبارت لوگ عموماً استعمال کرتے ہیں کہ داعیان اور داعیات۔ اور یہ بلاشبہ بدعات میں سے ہے۔ یہ صحیح نہیں کہ ایسی عورتیں ہوں جو باقاعدہ داعیات کہلاتی ہوں۔ البتہ اس میں کوئی حرج نہيں بلکہ واجب ہے کہ عورتوں میں سے بعض دینی علم کی معلمہ ہوں کہ جس سے عورتیں سوال کرسکیں۔ کیونکہ بہت سی عورتیں بڑے اہل علم مرد حضرات سے اپنے خاص قسم کے سوال کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ اگر عورتوں میں واقعی کوئی ایسی عالمہ ہے جو سابقہ بیان کردہ معیار پر پوری اترتی ہے یعنی کتاب وسنت کا علم۔ تو عورتوں کو چاہیے کہ اس کے پاس حاضر ہوکر علم حاصل کرلیں ناکہ وہ ان کے پاس علم دینے کے لیے چکر لگائے۔ کیونکہ ہمارا برحق عقیدہ  ہے جیساکہ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ:

 ’’وكل خير في اتباع من سلف، وكل شر في ابتداع من خلف‘‘

(ہر خیر سلف کی اتباع میں ہے، اور ہر شر خلف کی ایجاد کردہ بدعتوں میں ہے)۔

اور ہمارے یہاں تو بعض عورتوں میں معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے اور شاید دوسرے ممالک میں بھی کہ وہ باقاعدہ منبر پر چڑھ کر عورتوں کو خطاب کرتی ہیں۔ جبکہ مسجد کے صحن میں وہ مرد حضرات بھی آتے جاتے رہتے ہیں جن کی نماز باجماعت فوت ہوگئی ہو تو وہ داخل ہوتے ہیں نماز پڑھتے ہيں سب دیکھتے ہیں لہذا میں بلاجھجھک یہ کہتا  ہوں کہ یہ بدعت ہے۔ اور جو بات عورت پر واجب  ہے وہ وہی ہے جو سوال میں آپ نے بیان کی کہ عورت اپنے گھر پر ٹکی رہے۔ اگر کوئی عورت دیگر عورتوں سے اس طور پر ممتاز بھی ہو کہ اسے شریعت الہی کا علم ہے پھر بھی اس کے لیے یہ دلیل نہیں کہ وہ مردوں کی طرح آزادانہ گھومتی پھرے۔ اور گھر سے نکلنے کی کثرت میں اس کی مساوی ہونے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ ہمارے رب کریم نے اپنی کتاب میں یہ آیت ہی ان کے لیے نازل نہیں فرمائی کہ:

﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾ 

(اور اپنے گھروں پر ٹکی رہو)

(الاحزاب: 33)

لہذا عورت کے لیے دین میں اصل یہی ہے کہ وہ اپنے گھر سے ہرگز نہ نکلے سوائے اس انتہائی حاجت کے جو اس کے نکلے بغیر پوری نہ ہوتی ہو۔

اور یہاں سے یہ فرق معلوم ہوا کہ ایک عالمہ عورت کے لیے جائز نہيں کہ وہ مردوں کی طرح داعیہ بن کر باہر نکلے،  بلکہ جو عورت علم حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے نکلنا چاہیے۔ کیونکہ اس کے لیے جائز ہے جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ وہ مسجد کے لیے جائے ۔ یا جیسا کہ عہد نبوی میں بھی یہی معاملہ رہا۔ حالانکہ یہ بات بھی علم میں رہنی چاہیے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کے لیے فرمایا:

’’وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ‘‘([4])

(اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں)۔

اس کے باوجود آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کے مسجد کے لیے نکلنے سے منع نہیں فرمایا خواہ عشاء کی نماز ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ صریح طور پر اس بات کی نہی وارد ہوئی ہے کہ:

’’لا يمنعنَّ أحدكم زوجته أن تخرج لصلاة العشاء‘‘

(تم میں سے کوئی بھی اپنی بیوی کو ہرگز بھی عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے باہر مسجد کی طرف نکلنے سے منع نہ کرے)۔

اور عورتیں نماز فجر کی جماعت پڑھ کر بھی واپس لوٹا کرتی تھیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:

’’مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ‘‘([5])

(اپنی چادروں یا کپڑوں میں مکمل لپٹی ہوئی نماز پڑھ کر لوٹتی تھیں)۔

پس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا عورتوں کے پنج وقتہ نماز باجماعت کے لیے مسجد جانے کا اقرار کرنا مگر ساتھ میں یہ بھی فرمادینا کہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ  طلب علم کے لیے نکلنا بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ پس اگر کوئی عورت علم رکھتی ہو اور وہ اپنے گھر میں ہی ٹکی رہے تو کوئی مضائقہ نہيں کہ دیگر عورتیں اپنے اوقات کار اور طاقت کے مطابق اس کے پاس حاضر ہوجایا کریں۔۔۔لیکن خود یہ عورت مردوں کی طرح باہر نہ نکلے، کیونکہ اس میں مردوں سے مشابہت ہے۔

(سلسلة الهدى والنور للألباني – الفتاوى رقم الشريط: 189)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

۔۔۔یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا حجرۂ مبارک مسجد کے بالکل ساتھ ہی تھا اور یہ بھی معلوم ہے کہ بعض صحابہ اور صحابیات دینی امور کے متعلق ، یا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے گھر پریا اہل وعیال کے ساتھ معاملات کی بابت فتاویٰ پوچھا کرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود ایسی کوئی بھی حدیث منقول نہیں خواہ ضعیف ہی ہو کہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات میں یا وفات کے بعد مسجد میں کوئی علمی حلقے یا مجلس منعقد کیا کرتی تھیں۔

ایک اور مقام پر فرمایا کیسٹ 25/1 بی سائیڈ:

۔۔۔آجکل فیشن بن گیا ہے جسے تھوڑا بہت علم آجاتا ہے وہ داعی یا داعیہ کہلانے لگتا ہے ۔۔۔ پھر آپ نے عورت کے علم ودعوت کے سلسلے میں وہی قواعد بیان فرمائے جو اوپر بیان فرمائیں ہیں([6])۔

شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ  سے سوال کیا گیا: عورت کیسے اپنی جنس کی بہنوں کو دین سے تمسک کی طرف دعوت دے؟ کیا ان کے لیے ان میں سے کسی ایک کے گھر پرجمع ہونا افضل ہے یا مسجد میں؟

جواب: میری رائے میں عورت کے لیے ممکن تو ہے کہ وہ مرد کی طرح دعوت دے لیکن عورت کا گھر سے نکلنا اتنا آسان نہيں جتنا مرد کے لیے ہے ۔ اسے مدنظر رکھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ وہ ہر صورت میں مرد کی طرح نہيں۔ لیکن یہ جو گرلز کلیات وکالجز ہوتے ہیں جن میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے وہ عورتوں کے مابین دعوت الی اللہ کا ایک بڑا میدان ہے۔ البتہ جہاں تک سوال ہے کہ عورتیں جمع ہوکر کسی ایک بہن کے گھر پر درس کا اہتمام کرتی ہیں تو میں اس پر ذرا توقف کرتا ہوں۔ کیونکہ اگر آپ اس کے فائدے اور جس ضرر کا خدشہ ہے ان کے مابین موازنہ کریں گے تو میرا کہنا ہے کہ عورت کے لیے اولی و افضل یہی ہے کہ وہ گھر پر ٹکی رہے، اگرچہ گھر پر ہی رہ کر علم حاصل کرے یا جتنا آسانی سے ممکن ہے کتب کا مطالعہ کرے۔ اور اس صورت میں کہ ان عورتوں کے گھر اگر قریب قریب ہوں پڑوس میں ہی تو معاملہ پھر بھی کچھ سہل ہے۔ البتہ باقاعدہ جہاں گاڑی میں بیٹھ کر جانا پڑے یا پھر جس کے گھر پر درس ہے وہ اجتماع کی جگہ بہت دور ہو تو اس بارے میں میں توقف اختیار کرتا ہوں۔ اور ان شاء اللہ اللہ تعالی سے اس بارے میں استخارہ کرکے ہی کوئی فتویٰ دے سکوں گا۔

(رسالة للشيخ العثيمين رحمه الله بعنوان دور المرأة في إصلاح المجتمع سے ماخوذ)

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا: فضیلۃ الشیخ وفقکم اللہ، لیبیا سے یہ سائل کہتا ہے: عورتوں کا مسجد میں تعلیم اور مراجعہ کی خاطر اجتماعی قرأت کرنا کیسا ہے۔ اگر یہ ناجائز ہے تو کیا لڑکی اس بات کی وجہ سے مسجد چھوڑ سکتی ہے؟

جواب: واللہ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کے لیے گھر میں ٹکے رہنا ہی اصل ہے خواہ نماز کے لیے ہو یا تعلیم قرآن کے لیے ہو۔ البتہ جو ان کے لیے قرآنی تعلیمات کے لیے گھر سے نکلنے کا اہتمام کرتے ہیں، پتہ نہيں کیسے کرتے ہیں، کیونکہ یہ تو گھر میں ٹکی رہنے سے بہت دور بات ہوجاتی ہے۔

لہذا میری رائے ہے کہ عورتوں کی تعلیم گھر پر ہو، نماز بھی گھر پر ہو، یہی اصل ہے۔ اور یہی ان کے لیے زیادہ حفاظت کا سبب ہے۔

اب عورتیں آزادانہ گھومتی ہیں، گاڑیوں میں جاتی ہيں۔ عورتوں کی فطرت میں ہے کہ لوگ دیکھیں، آنا جانا لگا رہے۔ اور آپ لوگوں نے ان کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا ہے اس دلیل کے ساتھ کہ وہ علم حاصل کررہی ہیں۔ اب نہ انہیں گھر سے لگاؤ ہوتا ہے نہ اسے بنانے کی فکر کرتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ حصول علم کا کیسا طریقہ ہے !

میری رائے یہی ہے کہ اسے چھوڑ دینا اولیٰ ہے۔ اور عورتوں کو گھر پر ٹکے رہنا چاہیے۔ جو علم انہیں پہنچ جاتا ہے وہ ان کے لیے کافی ہے ان شاء اللہ کوئی خاص ضرورت نہیں کہ وہ تبحر علمی حاصل کریں([7])۔

(ویب سائٹ سحاب السلفیہ سے ایک آڈیو)

البتہ بعض علماء اس کی مشروط اجازت دیتے ہيں:

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ  سے عورتوں کا مساجد میں تدریسی سرگرمیاں انجام دینے سے متعلق سوال پوچھا گیا اور کہا گیا کہ سماحۃ الشیخ بعض طالب علم ایک دوسری رائے رکھتے ہيں یعنی وہ اسے صحیح نہيں سمجھتے، آپ اس بارے میں کیا رہنمائی  فرمائیں گے؟

جواب: اگر عورتوں کے لیے یہ ممکن ہو کہ وہ مساجد میں تدریس جاری رکھیں اس طور پر کہ کوئی فتنہ نہ ہو، پردے میں ہوں اور ان کی لیے الگ مخصوص جگہ ہو جہاں مرد بالکل بھی آجا نہیں سکتے ہوں۔ اس صورت میں اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں۔

(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتویٰ رقم 18303)

اس کے علاوہ دیگر فتاویٰ میں عورت اور دعوت دین کے تعلق سے یہی فرماتے ہیں کہ عورت مرد کی طرح ہے دونوں کو خطاب ہے لیکن اپنے اپنے شرعی دائرہ کار ہيں اور شرعی آداب ہيں انہيں ملحوظ رکھا جائے۔

(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتویٰ رقم 211، نور علی الدرب 43704)


[1] مسند احمد 7310۔

[2] صحیح ابی داود 567۔

[3] حدیث کا حوالہ گزر چکا ہے۔

[4] حدیث کا حوالہ گزر چکا ہے۔

[5] صحیح بخاری 578، صحیح مسلم 646۔

[6] مزید تفصیل کے لیے پڑھیں عورتوں کا دعوت دین کے سلسلے میں غلو کرنا از شیخ البانی  رحمہ اللہ  ہماری ویب سائٹ  پر۔

[7] خصوصاً آج تو انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے سلفی علماء کرام کے دروس الحمدللہ باقاعدہ براہ راست اور ریکارڈ شدہ نشر ہوتے رہتے ہیں، اور فی زمانہ خواتین کے لیے سب سے بہترین طریقہ یہی ہے۔ (مترجم)

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*