کیا سلفی حافظ ابن حجر اور النووی رحمہما اللہ کے ساتھ موجودہ بدعتیوں والا سلوک کرتےہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Do Salafis treat Hafiz Ibn Hajar and Nawawi رحمہما اللہ as present-day Innovators?

سوال:  آپ کا ایسے طالب علم کے بارے میں کیا کہنا ہے جو ابتدائی طلبہ کو فی ظلال القرآن کتاب پڑھنےکی ترغیب دیتا ہے اور یہ کہ اسے اپنے گھروں میں رکھا جائے۔ اور جب وہ طلبہ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ ابھی ابتدائی طالبعلم ہیں  جو صحیح غلط میں تمیز نہيں کرسکتے اور جو کچھ مؤلف کے پاس  وحدۃ الوجود پایا جاتا ہے، تو  وہ دلیل پکڑتے ہيں کہ کتاب فتح الباری، شرح صحیح مسلم اور ریاض الصالحین بھی تو پڑھتے ہیں حالانکہ ان کتابوں میں بھی تو غلطیاں ہيں، تو پھر آپ کس طرح سے ان کتابوں کو پڑھتے ہيں لیکن اس کتاب کو نہيں پڑھتے۔ اور جب اس سے یہ کہا گیا کہ اس کے پاس تو وحدۃ الوجود بھی پایا جاتا ہے (یہی معاملہ ہمارے ہاں ڈاکٹر اسرار احمد کا بھی ہے کہ خارجیت اور وحدۃ الوجود دونوں پایا جاتا ہے)تو وہ جواب میں کہتا ہے: بس اور کیا؟ یعنی گویا کہ اس کے نزدیک وحدۃ الوجود کا عقیدہ کوئی بڑی قابل اعتراض بات نہيں ہے۔ پس کیا اس  کی جانب سے یہ باتيں درست ہیں:

1- اس کتاب کو پڑھنے کی طلبہ کو ترغیب دینا۔

2- اس کا ان دو اماموں النووی اور ابن حجر  کے برابر اس صاحب کتاب کو قرار دینا کہ: ان سب کی غلطیاں عقیدے میں ہيں، اور ان کی علمی منزلت ہے؟

جواب از شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ:

 جہاں تک بات ہے کتاب الظلال کی یا جو بھی سید قطب کی کتابیں ہیں تو ہم انہيں  پڑھنے کی نصیحت نہیں کرتے  کیونکہ بعض تکفیری جماعت والے اور بعض نوجوان جو جماعت التکفیر میں چلے گئے وہ اسی سید قطب  رحمہ اللہ  کی عبارتوں کی وجہ سے  گئے۔ اور سید قطب ایک ادیب شمار ہوتا ہے ناکہ مفسر، لہذا ان کی تفسیر ایک ایسے شخص کی تفسیر ہے جو خود اعتراف کرتا ہے کہ میں گیارہ  سال تک الحاد کی زندگی گزارتا رہا، تو پھر وہ تفسیر کیسی ہوگی؟!

لیکن یہ اخوان المفلسین(یعنی اخوان المسلمین) کی طرف سے بس بلند بانگ دعوے ہوتے ہیں جو کسی شخص کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش  کرتے ہيں اگرچہ ایک پیاز جتنی اس کی اوقات نہ ہو، کہتے ہيں دکتور (ڈاکٹریٹ) ہے اور یا دکتور !حالانکہ درحقیقت وہ ایک سانڈھ ہوتا ہے ناکہ دکتور۔

اور جب ہم جامعہ اسلامیہ میں تھے تو چاہے آپ علم میں بہت نامور ہوں، آپ سے وہ کہیں گے کیا آپ نے سعید حویٰ کی کتابیں اللہ، الرسول اور الاسلام پڑھی ہيں، اب اگر آپ کہیں گےکہ نہیں میں نے نہيں پڑھیں تو وہ آپ سے کہیں  گے: تمہارے پاس تو پھر کوئی علم ہی نہيں ہے۔

اور بلاشبہ میں الحمدللہ کہتا ہوں کہ میں نے جب طلب علم کی طرف توجہ کی تو علم نافع حاصل کیا اور یہ اللہ سے دعاء کرتا ہوں کہ وہ ہمارے بھائی ربیع بن ہادی کی حفاظت فرمائے کہ انہوں نے سید قطب کے عقائد بیان کیے اور جو کچھ ان میں انحراف پایا جاتا ہے۔ اسی طرح سے اللہ رحم فرمائے ہمارے بھائی عبداللہ بن محمد الدویش الحافظ پر  جن کے جیسا حفظ میں میری آنکھوں نے نہيں دیکھا،کیونکہ ان کی کتاب  المورد العذب الزلال في بيان أخطاء الظلال میں سید قطب کی بہت سی غلطیاں بیان ہوئی ہیں۔

پس سید قطب مفسرین میں شمار نہیں ہوتے نہ ہی اس میں نامور شخصیات میں سے، بلکہ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جو بغیر بصیرت کے اسلام کے لیے بس جوش و جذبہ رکھتے تھے۔ اور ہم بھائیوں کو تفسیر ابن کثیر  پڑھنے کی نصیحت کریں گے کہ جس کے بارے میں الشوکانی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

آپ کی تفسیر بہترین تفاسیر میں سے ہے، اگر سب سے بہترین نہ بھی ہو۔

اور السیوطی رحمہ اللہ   طبقات الحفاظ میں فرماتے ہیں:

بلاشبہ ابن کثیر بہترین تفاسیر میں سے ہے۔

پس یہ جو تفسیر ابن کثیر ہے یہ قرآن کی تفسیر قرآن سے  اور احادیث نبویہ سے ہے، اور سنت میں سے صحیح و ضعیف اور معلول و سلیم میں تمیز کرتی ہے، اور اسی طرح سے بناوٹی اسرائیلی قصوں سے بھی پاک ہے۔اسی طرح سے میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے سلف کی تفاسیر پڑھیں جیسے تفسیر ابن جریر، تفسیر البغوی اور اس کے علاوہ تفسیر ابن ابی حاتم  اور تفسیر مردویہ میں سے جس قدر موجود ہیں، تو ان میں خیر کثیر پایا جاتاہے۔ ہمیں اس الظلال کی ضرورت ہی نہیں خدشہ ہے کہ ہم ضلال (گمراہی) میں مبتلا ہوجائيں گے۔ اگر آپ کو الظلال پڑھنی ہی ہو تو ہم آپ کو نصیحت کریں گے کہ جو بھائی عبداللہ بن محمد الدویش نے لکھا ہے یا جو شیخ ربیع بن ہادی  حفظہ اللہ  نے لکھا ہے اسے پڑھیں۔

سوال: تو کیا یہ بات صحیح ہےکہ ہم امام النووی وابن حجر اور اس کتاب والے کے درمیان عقیدے میں غلطی کے تعلق سے برابری کریں ، یہ بات علم میں رہے کہ بعض لوگ حسن البنا، عبداللہ عزام، فتحی یکن اور الغزالی کے فتاوی ٰتقسیم کرتے ہیں جب ہم اس کتاب کو قبول کرتے ہیں   تو عنقریب ہم ان کتب کو بھی قبول کریں گے  اس دعوے کے ساتھ کہ بے شک امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ کے پاس بھی تو غلطیاں تھیں، جیسا کہ  ہمارے ہاں بحرین اور امارات میں شیخ البانی  رحمہ اللہ  کی کیسٹ الاعتدال فی سید قطب پھیلا رکھی ہیں؟

جواب: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ

اگر تم نے شرم نہ کی تو جو چاہے کرو۔[1]

مجھے توقع نہیں تھی کہ کوئی شخص اتنی جسارت کرسکتا ہے کہ وہ سید قطب اور حافظ ابن حجر کی برابری کرے، وہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہ  جنہوں نے سنت کی بے نظیر خدمت کی  اور آپ کی کتاب فتح الباری تو ایک علمی خزانہ اور ایک مستقل مکتبہ تصور کی جاتی ہے۔

تو یہ لوگ تلبیس کرتے ہیں، لیکن عنقریب یہ تلبیسات کھل کر سامنے آجائيں گی، اور ہم ان کو کہتے ہیں: زیادہ تیزی دکھانے کی ضرورت نہيں ہے قادیانی ہوں یا تیجانی، شیعہ، صوفی، باطنی، جہمی اور  متعزلہ بھی تلبیسات کرتے رہے پھر ان کی تلبیسات کا پردہ چاک ہوگیا۔ اوررہے  تم لوگ تو الحمدللہ تمہارے تو جیتے جی تمہاری تلبیسات کا پردہ چاک کردیا گیا ہے۔

چنانچہ سید قطب اور الحافظ ابن حجر و النووی رحمہم اللہ کے مابین تقابلہ کرنا تو ایسا ہے کہ جیسے کہا جاتا ہے:

فأين الثريا من الثرى — و أين معاوية من علي[2]

سوال: میں نے بعض کبار اہل علم  سے سنا جو حکم لگاتے ہيں کہ النووی اہل سنت میں سے ہيں، اور بعض دوسرے ا ن پر حکم لگاتے ہیں کہ وہ کٹر اشعری تھے، ان میں سے کونسی بات صحیح ہے؟ اس وجہ سے  ہم بہنوں میں شدید حیرت  پائی جاتی ہے، ہم آپ سے افادے کی امید رکھتی ہیں؟

جواب از شیخ عبید الجابری  رحمہ اللہ :

 اے میری بیٹی! سب سے پہلی بات یہ ہے کہ النووی معتبر محدث تھے اور اب تک اہل علم صحیح مسلم پر ان کے تراجم (ابواب کے عناوین) پڑھتے آرہے ہیں، اور آپ کی کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں جن میں سے المجموع شرح المہذب، منہاج شرح صحیح مسلم اور دیگر کتابیں ہیں۔

دوسری بات: میں نہیں جانتا کہ کسی نے النووی کو بدعتی قرار دیا ہو۔ اسی طرح سے ابن حجر دین و فقہ و علم میں امامت کے اہل تھے۔  مجھے تو یہ بات صرف اب بیس برس پہلے  پتہ چلی کہ تبدیع (بدعتی قرار دینے) کا علمبردار  وہ دونوں حافظوں ابن حجر و النووی رحمہما اللہ کو بدعتی قرار دیتا ہے یعنی یہ شخص جو مصری ہے اس کا نام محمود بن محمد الحدادہے(حدادی فرقہ اسی کی جانب منسوب کرکے کہا جاتا ہے)،پس یہ لوگ اور ان کے پیروی کرنے والے بہت گندی زبان رکھتے ہیں۔ ہمارے  بڑے بھائی الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی (اللہ ان کی حفاظت کرے اور برکت دے ان کی عمر، علم اور عمل میں)  نے اس فرقے کے اصولوں کی حقیقت آشکارا فرمائی ہے اور انہیں بھرپور دلائل و براہین کے ساتھ توڑا ہے، تو ان کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔اگرچہ حدادیوں کی بدعت اب بھی  باقی ہے، یہ ہوگئی دوسری بات۔

تیسری بات: ان دو حافظوں ابن حجر اور النووی کے ہاں تاویلات پائی جاتی تھیں۔ اور مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بلاشبہ النووی  رحمہ اللہ  کا ایک مخطوطہ ملا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے اس تاویل سے یا جو کلام کی تاویل ہے خصوصاً اس سے رجوع کرلیا تھا، اگرچہ میں نے وہ دیکھا نہیں ہے۔ جو کچھ مجھ پر ظاہر ہوتا ہے ان دو کتابوں کو اچھی طرح سے دیکھ کر یعنی منہاج للنووی اور فتح الباری شرح صحیح البخاری للحافظ ابن حجر  رحمہما اللہ    کہ ان کے ہاں اضطراب پایا جاتا ہے۔ پس وہ کافی مرتبہ کہتے ہيں یہ بھی کہا گیا، اور یہ بھی کہا گیا، اور بھی کہا گیا، اور کبھی کبھار وہ تاویل کرجاتے ہيں، تو اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ان پر معاملہ مشتبہ ہوگیا تھا۔

خلاصۂ کلام یہ ہے جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ میں اہل علم اور دین میں امامت رکھنے والوں میں سے کسی کو نہيں جانتا کہ جس نے ان دو حافظوں کو بدعتی قرار دیا ہو۔

لہذا اے میری بیٹی! اس سے آپ پھر یہ جان چکی ہوں گی کہ بے شک ان دونوں کی کتابوں سے استفادہ کرنے میں کوئی مانع نہیں۔ اور یہ اس کے لیے ہے جو شرعی علم میں مہارت رکھتااور وسیع اطلاع رکھتا ہو مردوں میں ‎سے ہو یا عورتوں میں سے۔ البتہ جہاں تک عوام کا معاملہ ہے تو انہیں ان کی ضرورت ہی نہیں(یعنی وہ اس درجے تک پہنچے ہی نہيں کہ ان کا مطالعہ کرپائيں)۔ اور شیخ محب الدین الخطیب  رحمہ اللہ  کی فتح الباری پر تعلیقات ہیں جسے مکتبہ سلفیہ نے شائع کیا ہے، لیکن ظاہر یہی ہوتا ہے کہ وہ مکمل نہیں ہوپائی ہیں(ان کے علاوہ شیخ ابن باز اور الالبانی رحمہما اللہ کی طبع ہوچکی ہیں، الحمدللہ)۔

خلاصہ یہ ہے کہ بے شک ابن حجر اور النووی دونوں اصحاب حدیث، فقہ اور علم  تھے۔ اور اہل علم  جب کبھی فتح الباری لابن حجر اور المنہاج شرح صحیح مسلم للنووی پر سے گزرتے ہیں تو وہ ان دونوں کی غلطیاں بیان کرتے ہیں۔

کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ آپ کیسے سید قطب پر تو محمول کرتے ہیں لیکن ان دو شخصیات پر محمول نہيں کرتے؟

جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ:بے شک ان دو اماموں اور حافظوں کی ان کی کتابوں میں جو غلطیاں ہيں انہيں کوئی نہیں پڑھتا سوائے ان کے جو علم و فقہ والے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ: اہل علم نے ان دو اماموں کی غلطیاں بیان کی ہیں جب بھی وہ ان کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہيں یا اپنے طلبہ پر ان میں سے کچھ پڑھتے ہيں تو اسے بیان کردیتے ہيں۔

تیسری بات: یقیناً جس قدر مجھے علم ہے اور مجھے فاضل بھائیوں نے بھی جو کچھ بتایا ہے اس کے مطابق آج تک کسی نے اس طرح نہیں کیا کہ کوئی کتاب لکھے جس میں یہ بات مقرر کرے کہ بلاشبہ حق وہی ہے جو ان دو حافظوں نے اختیار کیا ہے، اور وہ اسے بطور منہج مقرر کرتے ہوں کہ جس کی اتباع کرنا واجب ہو، اور جو ان کے علاوہ ہوں وہ غلط ہے۔ برخلاف سید قطب کے، کیونکہ ان کا منہج ان کی کتابوں میں لوگوں پر علانیہ بیان کیا جاتا ہے اور ان پر وہ منہج کے اصول و قواعد مقرر کرتا ہے، اور سید قطب کی کتابوں کی طرف دعوت دینے والے داعیان اور ان کا دفاع کرنے والے بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ بلکہ خفیہ جلسے منعقد کیے جاتے ہیں جہاں سید قطب  تکفیری  کامنہج پڑھایا جاتا ہے۔ اور میں یہ کہتا ہوں: وہ صرف تکفیری ہی نہيں بلکہ اس دور میں تکفیر کے علمبردار ہیں۔ اور ان گمراہی کے داعیان میں سے وہ ہیں جو  ان کی کتاب معالم فی الطریق پڑھاتے ہيں ۔۔۔اسی طرح سے ان کی  کتابیں تفسیر فی ظلال القرآن اور التصویر الفنی تو اس شخص کےاس  منہجی بگاڑ کا اچھی طرح سے معلوم ہوجاتا ہے  جسے اس نے دعوت الی اللہ میں منہج بنایا ہے۔ پس اے مسلمان حضرات و خواتین اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں۔

ہم نے بہت سے مواقع پر تفصیلی کلام کیا ہے سید قطب  پر اور اس کی گمراہیوں پر۔ اور ہمارے بھائی شیخ ربیع بن ہادی  حفظہ اللہ  کی کتابوں نے تو بالکل روشن و قطعی دلائل کے ساتھ سید قطب کی گمراہی کو واضح کیا ہے اور یقیناً اس کا منہج فاسد تھا۔ مجھے جو ان میں سے یاد ہے العواصم من القواصم اور دوسری کتاب شاید المطاعن، اور ایک اور اضواء علی عقیدۃ سید قطب یا اس عنوان کی کوئی اور، اس میں میں نے بہت کچھ پڑھا، اور اس کے کئی ایک موضوعات کا مطالعہ کیا ہے، جس سے ہماری بصیرت میں یعنی سید قطب کے تعلق سے بصیرت میں اضافہ ہوا۔ اللہ تعالی ہمارے بھائی شیخ ربیع کو جزائے خیر عطاء فرمائے جو کچھ انہوں نے اس بگڑے ہوئے مجرم کی گمراہیوں کو واضح فرمایا ہے، جو میں آپ سے کوئی خفیہ طور پر نہیں کہہ رہا، اگرچہ میں اس کی تکفیر نہيں کرتا، لیکن میں اسے ملامت بھی نہيں کرتا جو کوئی سید قطب کے منہج کی وجہ سے اور اس کے  انبیاء کرام  علیہم السلام   اور موسیٰ و آدم  علیہما الصلاۃ والسلام کی شان میں گستاخی، وحدۃ الوجود کے عقیدے وغیرہ  جیسے فاسد عقائد کی وجہ سے تکفیر کرتا ہو۔[3]

شیخ صالح آل الشیخ  حفظہ اللہ  سے سوال ہوا:

جزاکم اللہ خیراً آپ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو  ہمارے ہاں ظاہر ہوئے ہيں وہ یہ کہتے ہيں کہ: آپ لوگ الترابی، التلمسانی، الغزالی، القرضاوی کا رد کرتے ہيں انہيں بدعتی قرار دیتے ہيں، ان کی غیبت کرتے ہیں اور ان کے محاسن و خوبیوں چھوڑ دیتے ہيں، حالانکہ بعض ایسے آئمہ بھی تھے جو بدعت میں واقع ہوگئے جیسے ابن حجر اور النووی، تو کیسے ان متقدمین   کا تو خیر کے ساتھ تذکرہ کرتے ہیں اور متأخرین کے خلاف بولتے ہیں؟

جواب:سب سے پہلے تو یہ جو مثال سائل نے دی ہے اس کی جہالت پر دلالت کرتی ہے، کس طرح وہ حافظ ابن حجر اور النووی کا الترابی، الغزالی اور القرضاوی جیسوں سے تقابلہ کررہا ہے، کہاں زمین کی مٹی اور کہاں ثریا ستارہ؟! اور کہاں اونٹ اور کہاں اس کی گوبر؟! کیونکہ بلاشبہ وہ لوگ تو سنت سے محبت کرنے والے، اس کی شرح کرنے والے، اس کی وضاحت کرنے والے تھے۔ جتنی کچھ انہوں نے تاویل کی یا اس میں واقع ہوئے وہ امور اسلام میں سے جو کچھ انہوں نے بیان و وضاحت فرمائی اس کی نسبت بہت کم ہے۔ آج تک اہل علم ان کے کلام سے فائدہ اٹھا رہے ہيں، بلکہ کتاب و سنت کے نصوص کو ان کی وضاحت کے مطابق سمجھ رہے ہیں۔ کیونکہ یقینا ًوہ حقیقی اہل علم تھے ۔ البتہ جہاں تک بات ہے ان موجودہ لوگوں جیسے الترابی، الغزالی، القرضاوی اور التلمسانی اور ان جیسے دوسرے تو یہ ایسے سرغناں ہیں  جو سنت کی پابندی سے نکل جانے اور اسے اٹھا پھینکنے کی دعوت دیتے ہیں، تو دونوں کی حالت بالکل مختلف ہے۔ یعنی  ایک حالت یہ کہ جو غلطی کرجاتا ہے اور صواب سے ہٹ جاتا ہے کسی مسئلے میں یا فروع میں سے کسی فرع میں، یا کسی اکا دکا عقیدے کے مسئلے میں،  اور دوسری حالت یہ کہ جو اصل و بنیاد سے ہی اس کے مخالف ہے۔

تو یہ جن لوگوں کا آپ نے کہا ہے توحید کو کوئی مقام نہیں دیتے، نہ اس کی طرف کوئی دھیان دیتے ہیں، بلکہ  الٹا ان کی طرف سے اہل توحید کو تو بہت بڑی اذیتوں کا سامنا ہوا ہے جیسا کہ یہ بات دیکھی جاسکتی ہے۔ پس الترابی اس کا حال تو معلوم ہے وہ یہ رائے رکھتا ہے کہ اسلام کے اصول اور فقہ کے اصولوں کی تجدید ہونی چاہیے، اور کہتا ہے کہ اصول فقہ  تو بس علماء نے خود سے اصطلاح بنادی تھی کہ اس کے مطابق وہ نصوص کو سمجھیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہيں کہ ہم کوئی اس کے پابند ہيں! لہذا کہتا ہے کہ: ہم پر واجب ہے کہ اس دور میں فقہ کے نئے اصول بنائيں جس کے مطابق ہم کتاب و سنت کو سمجھیں جو اس دور کے مطابق ہوں!

اور الغزالی سنت کا رد کرتا ہے اگر وہ اس کی عقل و فہم کے خلاف ہو۔

اور القرضاوی بھی اسی منہج پر چلتا ہے، اگرچہ وہ اس کا اظہار الغزالی کی طرح کھل کر نہيں کرتا۔

اور جہاں تک بات ہے التلمسانی کی تو نہ وہ توحید عبادت کو جانتا ہے اور نہ سنت کو، بلکہ وہ اس میں بہت بڑے خلط ملط کا شکار ہے، جو کہ حیرت کی بات نہیں! (کیونکہ اس کا منہج ہی یہ ہے)

چنانچہ یہ چار افراد اور جو ان کی طرح کے ہيں سب ایک ہی مدرسے کی پیداوار ہیں اور وہ ہے اخوان المسلمین کا مکتبۂ فکر، اور یہ مکتبۂ فکر اپنے اصول و مناہج کے لحاظ سے جانا پہچانا ہے۔ تو پھر کوئی عجب نہيں کہ مستقبل میں بھی انہی جیسے لوگ وہاں سے نکلتے رہیں، اور کوئی عجب نہيں کہ اس قسم کے لوگ اس زمانے میں موجود ہيں جب تک وہ اس مکتبۂ فکر کے اصولوں پر تربیت پاتے رہیں گے۔

ان کا رد کرنا اور جن باطل اصولوں پر وہ گامزن ہيں ان کا رد کرنا متعین ہے کیونکہ بلاشبہ وہ دعوت کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہيں۔اور نوجوان ان کی بڑی تعظیم و احترام کرتے ہیں کیونکہ یہ داعیان اسلام ہيں۔

جبکہ حافظ ابن حجر اور النووی رحمہما اللہ  ان کے متعلق ہم نے آج تک نہيں سنا  کہ کوئی عقائد میں سے کسی ایسے عقیدے کا دفاع جس میں انہوں نے غلطی کی تھی انہيں حجت بناکر کررہا  ہو کہ حافظ ابن حجر یا النووی تو اس کے قائل ہيں۔ ان کی جو غلطیاں تھی وہ اسی زمانے میں گزر چکی البتہ لوگوں کا ان کےبھرپور  علوم  اور روشن فہم سے فائدہ اٹھانا ا ب بھی باقی ہے۔ اور جہاں تک ان کی بات ہے توان  کا کوئی تقابلہ بنتا ہی نہیں اور انہیں ان لوگوں کی صف میں شمار کرنا جائز ہی نہيں ہے، زمین کے کیچڑ کو کو ثریا ستارے پر قیاس نہیں کرسکتے۔[4]


[1] صحیح بخاری 3484

[2] فضائح ونصائح ص 65-66، اس شعر کا مطلب ہے کہ: کہاں ثریا ستارہ اور کہاں زمین کا کیچڑ اور کہاں علی اور کہاں معاویہ رضی اللہ عنہما۔ شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ سے اس عبارت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: بے شک علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص نہیں کی جائے گی۔ لہذا اگر اس کلام سے مقصود معاویہ کی شان میں تنقیص ہو تو پھر جائز نہیں ہے، لیکن ان کے درمیان فرق مراد ہو تو وہ ثابت ہے۔ جہاں تک بات ہے: این الثری من الثریا۔۔۔تو یہ دو ایسی چیزوں کے بارے میں کہاجاتا ہے جو ایک دوسرے سے بالکل دور ہوں، ایک غایت درجے بلندی پر تو دوسری غایت درجے پستی میں ہو، اس پر کہا جاتا ہے: این الثری من الثریا؟ لیکن علی اور معاویہ رضی اللہ عنہا و ارضاھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں۔ اور علی بلاشبہ معاویہ سے افضل ہیں، بلکہ وہ تو پوری امت سے افضل ہیں سوائے ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے۔ وہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں  سوائے ان تینوں کے جو ان سے پہلے ہیں یعنی ابو بکر و عمر و عثمان۔ چنانچہ ان کے معاویہ سے افضل ہونے میں کوئی اشکال نہیں، لیکن معاویہ کی شان میں تنقیص اور کمی نہ کی جائے، ان کا اس طور پر ذکر نہ کیا جائے جو نازیبا ہو۔ [فتویٰ: حكم التفضيل بين علي ومعاوية رضي الله عنهما] (مترجم)

[3] من أسئلة اللقاء المفتوح الأسبوعي بموقع ميراث الأنبياء لفضيلة الشيخ عبيد الجابري -حفظه الله- موقع ميراث الأنبياء

[4] أسئلة في المنهج لقاء جمع بين الشيخين صالح آل الشيخ وعبيد الجابري

ترجمہ وترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*