علماء اور امراء کی معروف میں اطاعت کرنے سے ہی حالات میں بہتری آتی ہے – شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

Obeying the scholars and rulers in good, is the way in which the affairs will be improved – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ  نے اس بات پر زور دیا کہ حکمرانوں کی معروف میں اطاعت کی جائے، کیونکہ بلاشبہ اسی کے ذریعے امت کے امور میں بہتری آتی ہے، اورامن واستقرار حاصل ہوتا ہے، اور لوگ فتنوں سے بچ جاتے ہیں۔ اور آپ فضیلۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ولاۃ الامر سے مراد علماء اور امراء وحکام وصاحب سلطنت ہیں۔ اور سماحۃ الشیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ ان کی اطاعت معروف میں ہوگی اللہ عزوجل کی معصیت میں نہيں۔ اور آپ سماحۃ الشیخ نے ساتھ میں یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اس حکمران کی کہ جو معصیت کا حکم کرتا ہے صرف اس معصیت میں اطاعت نہیں ہوگی، لیکن اس کے باوجود رعایا کو یہ حق نہيں کہ وہ اس وجہ سے اس کے خلاف خروج کریں۔ پھر سماحۃ الشیخ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ کب حاکم پر خروج جائز ہوتا ہے کہ جس کا ضابطہ شریعت مطہرہ میں موجود ہے  کہ جو رعایا ان کے خلاف نکلی ہو اس کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح برہان ودلیل ہو اس حاکم کے کھلم کھلا کفر کی، ساتھ ہی ان کے پاس اسے تبدیل کرنے کی قدرت وطاقت بھی ہو، پس اگر ان کے پاس قدرت نہ ہو عاجز ہوں، تو پھر انہيں خروج نہيں کرنا چاہیے اگرچہ کفر بواح (کھلم کھلا کفر) ہی کیوں نہ دیکھ لیں۔ کیونکہ اس صورت میں ان کے خروج سے امت میں فساد ہوگا، لوگوں کو نقصان پہنچنے گا اور یہ فتنے کا موجب ہوگا۔ جبکہ یہ ساری باتیں شرعی خروج کے جو مقاصد ومصلحتیں ہیں جیسے لوگوں اور امت کی اصلاح ومنفعت  ان کے خلاف ہے ۔ اور سماحۃ الشیخ نے فرمایا کہ اس حالت میں رعایا کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بھرپور نصیحت کرے، حق بات کہے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتی رہے، اس صورت میں وہ برئ الذمہ ہیں۔

اسی طرح جامع الامام فیصل بن ترکی، ریاض میں منعقدہ اس کانفرنس میں کیے گئے سوالات کے جوابات میں شیخ نے حکام کی اطاعت کی اہمیت، لزوم جماعت، اللہ تعالی اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف سے عظیم وعید ان کے لیے جو ناحق حکومت سے بغاوت کریں اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کریں بیان فرمائی۔ ساتھ ہی سماحۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جو قوانین شریعت کے موافق ہوں تو ان میں کوئی حرج نہيں جیسا کہ ٹریفک وغیرہ اور ایسی چیزوں کے قوانین ہوتے ہیں جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے، اور ان میں شریعت کی مخالفت نہيں ہوتی۔ البتہ جن قوانین میں شریعت کی صریح مخالفت ہوتی ہے تو وہ ٹھیک نہيں، اب جو ان کو حلال سمجھتا ہے یعنی ان شریعت مخالف قوانین کو جن پر علماء کرام کا اجماع ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔

اور جب شیخ سے پوچھا گیا کہ ان شریعت مخالف قوانین کو حلال سمجھنے والے حکام کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا: ہم ان کی معروف میں اطاعت کریں گے معصیت میں نہيں یہاں تک کہ اللہ تعالی کوئی اس کا نعم البدل لے کر آئے۔

اور جب شیخ سے اسلامی منظر عام پر پائی جانے والی موجودہ دور کی مختلف اسلامی جماعتوں سے متعلق پوچھا گیا  اور یہ کہ ان میں سے کون سی اتباع کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ تو شیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ جس جماعت کی اتباع سب پر واجب ہے وہ وہ جماعت ہے کہ جو کتاب وسنت کے منہج پر اور جس چیز پر محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور آپ کے صحابہ  رضی اللہ عنہم  تھے اس پر قائم ہو۔

ساتھ ہی شیخ نے وضاحت فرمائی کہ ان موجودہ جماعتوں میں سے ہر جماعت میں حق وباطل کی آمیزیش پائی جاتی ہے، تو ان کا کہا مانا جائے گا حق بات میں یعنی جس پر کتاب وسنت کی دلیل موجود ہو، جبکہ جو بات دلیل کے خلاف ہوگی تو وہ ان پر رد کردی جائے گی، اور ان سے کہا جائے گا کہ تم نے اس میں غلطی کی ہے۔

اور شیخ کی یہ بھی رائے ہے کہ اس سلسلے میں اہل علم پر یہ عظیم واجب ہے اور ان کا بہت بڑا کردار ہے کہ وہ حق بیان کریں اور ان جماعتوں کا ضرور رد کریں ہر اس بات پر جس میں وہ غلطی پر ہيں، جو ان کی جماعتوں کی تفاصیل جانتے ہیں وہ ایسا کریں۔

شیخ نے یہ بھی واضح کردیا کہ یہ جماعتیں معصوم نہیں ہیں، اور ان میں سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے لیے عصمت کا دعویٰ کرے۔ جو بات واجب ہے وہ یہ کہ حق کی جستجو وتلاش ہو جو کہ کتاب وسنت یا اس امت کے سلف کے اجماع کے موافق ہو، البتہ جو بات دلیل کے خلاف ہو تو اس کو پھینک دینا واجب ہے چاہے وہ بات ان جماعتوں کی طرف سے ہو یا ان کے علاوہ کسی کی طرف سے جیسے مشہور مذاہب  ہیں حنابلہ، شافعیہ، مالکیہ، ظاہریہ، حنفیہ وغیرہ۔ کیونکہ جو اصل ہے وہ کتاب وسنت کی دلیل کی اتباع ہے اور جو ان دونوں کے موافق ہو تو وہ ہی حق ہے اور جو ان کے خلاف ہو تو وہ  باطل ہے۔ اور شیخ نے ان لوگوں سے خبردار کیا جو کتاب اللہ اور سنت محمدیہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے علاوہ کسی طرف دعوت دیتے ہيں تو ایسوں کی پیروی نہيں کرنی چاہیے نہ تقلید، بلکہ اللہ کی رضا کے لیے ان سے دشمنی رکھنی چاہیے۔

انٹرویو کا مکمل متن مندرجہ ذیل ہے:

سوال 1: قرآن مجید کی آیت میں ولاۃ امور کی اطاعت سے کیا مراد ہے، کیا اس سے مراد علماء ہیں یا حکام اگر وہ اپنے نفس پر اور اپنی عوام پر ظلم ہی کیوں نہ کرنے والے ہوں؟

جواب: اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ (النساء: 59)

(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور جو تمہارے حکمران ہیں۔ پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ  تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ  تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے)

اور اولوالامر سے مراد علماء اور امراء ہیں امراء المسلمین اور ان کے علماء، ان کی اطاعت اللہ تعالی کی اطاعت میں کی جائے گی اگر وہ اللہ تعالی کی اطاعت میں حکم دیتے ہیں، لیکن اللہ تعالی کی نافرمانی میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ پس علماء اور امراء کی معروف میں اطاعت ہوگی کیونکہ بلاشبہ اسی طرح سے حالات سنور سکتے ہیں، امن وامان حاصل ہوسکتا ہے، اوامر کا نفاذ ہوسکتا ہے، مظلوم کو انصاف مل سکتا ہے اور ظالم کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر ان کی اطاعت نہ کی جائے گی تو امور بگڑ جائيں گے اور فساد برپا ہوجائے گا، طاقتور کمزور کو کھا جائے گا۔

پس واجب ہے کہ ان کی اطاعت الہی میں اطاعت کی جائے یعنی معروف میں خواہ امراء ہوں یا علماء، ایک عالم اللہ تعالی کا حکم بیان کرے گا اور ایک امیر (حکمران) اس حکم الہی کو نافذ کرے گا۔ یہ صواب بات ہے اولی الامر کے تعلق سے کہ اس سے مراد اللہ اور اس کی شریعت کا علم رکھنے والے علماء، اور اس سے مراد امراء المسلمین بھی ہیں، ان پر ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اوامر کو نافذ کریں اور عوام کے ذمے ہے کہ وہ اپنے علماء کی حق بات سنیں اور اپنے امراء کی بھی معروف میں سنیں۔ لیکن اگر وہ معصیت کا حکم دیں خواہ وہ حکم دینے والا امیر (حکمران) ہو یا عالم ہو تو بلاشبہ ان کی اس میں اطاعت نہیں کی جائے گی۔

اگر امیر آپ کو کہے: شراب پیئو، تو آپ شراب نہ پئیں، یا آپ سے کہیں سود کھاؤ تو آپ اسے نہ کھائيں۔ اسی طرح سے ایک عالم اگر آپ کو معصیت الہی کا حکم دیتا ہے تو اس کی اطاعت نہ کریں۔ جو متقی عالم ہوگا وہ تو کبھی اس کا حکم دے گا بھی نہیں لیکن ہوسکتا ہے فاسق عالم ہو تو وہ اس کا حکم دے سکتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اگر کوئی عالم یا امیر کسی ایسی چیز کا حکم دیں جو اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی ہو تو اس معصیت الہی میں اس کی فرمانبرداری نہ کریں، بلکہ اطاعت تو صرف اور صرف معروف میں ہی ہوتی:

’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘[1]

(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔

لیکن پھر بھی آئمہ پر خروج کرناجائز نہيں اگرچہ وہ معصیت کے مرتکب ہوں، بلکہ پھر بھی معروف میں ان کی سمع وطاعت واجب رہے گی ساتھ ہی ان کو نصیحت کی جاتی رہے گی، اور ان کی اطاعت سے اپنے ہاتھ کو نہيں کھینچا جائے گا، کیونکہ نبی رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’عَلَى الْمَرْءِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِي الْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ وَفِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةِ اللهِ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةِ اللهِ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ‘‘[2]

(ایک (مسلمان) انسان پر (حکمران کی) بات سننا اور اطاعت کرنا واجب ہے چاہے چستی کی حالت میں ہو یا بے دلی کی، اور ہر چیز میں خواہ پسند ہو یا ناپسند، جب تک کسی معصیت الہی کا حکم نہ دیا جائے، پس اگر معصیت الہی کا حکم دیا جائے تو (اُس کی اِس بات میں) سننا اور اطاعت کرنا نہیں ہے)۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً‘‘[3]

(جس نے اپنے امیر میں معصیت الہی میں سے کوئی چیز دیکھی تو وہ اس معصیت الہی کو ناپسند کرے جو وہ کررہا ہے، لیکن اپنا ہاتھ ہرگز بھی اطاعت سے نہ کھینچے، کیونکہ جو جماعت سے الگ ہوگیا اور اس حال میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا)۔

اور فرمایا:

’’مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ وَأَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ  فَاقْتُلُوهُ كَائِنًا مَنْ كَانَ‘‘[4]

(جو تمہارے پاس آئے جبکہ تم (ایک امام پر) جمع ہو اور تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالے اور اس کے خلاف سرکشی چاہے تو اسے قتل کردو، خواہ وہ کوئی بھی ہو)۔

مقصود یہ ہےکہ ولاۃ امور کی خواہ علماء ہوں یا امراء معروف میں سمع وطاعت واجب ہے ۔ اسی کے ذریعے امور منتظم ہوتے ہيں اور احوال کی اصلاح ہوتی ہے، لوگوں کو امن نصیب ہوتا ہے اور مظلوم کو انصاف ملتا اور ظالم کا سدباب ہوتا ہے، اور راستے محفوظ ہوتے ہيں۔ جائز نہيں کہ ولاۃ امور پر خروج کیا جائے اور ان کی خلاف بغاوت کی جائے الا یہ کہ ان لوگوں کے نزدیک جو اس پر خروج کررہے ہيں اس کا کھلم کھلا کفر کرنا ظاہر ہو جس کی ان کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح دلیل وبرہان بھی ہو، اور وہ اپنے اس خروج کے ذریعے مسلمانوں کو نفع پہنچا سکتے ہوں، اور ظلم کا ازالہ کرسکتے ہوں اور ایک نیک صالح حکومت قائم کرسکتے ہوں۔ لیکن اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو ان کے لیے خروج کرنا روا نہیں اگرچہ انہوں نے کھلم کھلا کفر ہی کیوں نہ دیکھا ہو۔ کیونکہ بایں صورت ان کے خروج سے لوگوں کو نقصان ہوگا اور امت میں بگاڑ وفساد برپا ہوجائے گا، یہ فتنے اور ناحق قتل وغارت کا موجب ہوگا۔ البتہ اگر ان کے پاس قدرت وقوت ہے اس بات کی کہ وہ اس کافر حاکم کو معزول کرسکیں اور اس کی جگہ ایک نیک صالح حاکم کو لا سکیں جو اوامر الہی کی تنفیذ کرتا ہو تو پھر وہ یہ کرسکتے ہيں، مگر انہی شرائط کے ساتھ کہ انہوں نے کھلم کھلا ایسا کفر دیکھا ہو جس بارے میں ان کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح دلیل وبرہان ہو، ساتھ میں ان کے پاس حق کی نصرت اور ایک صالح قیادت کے نعم البدل مہیاء کرنے اور حق کو نافذ کرنے کی طاقت وقدرت بھی ہو۔

سوال 2: کیا ان کا اس سے عاجز ہونا برئ الذمہ ہونے کے لیے کافی ہے یعنی وہ برئ الذمہ شمار ہوں گے؟

جواب: جی بالکل، وہ حق بات کہیں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، یہی ان کے لیے کافی ہوگا۔ معروف ہر وہ چیز ہے جو معصیت نہيں چنانچہ اس میں مستحب، واجب اور مباح سب شامل ہیں جیسے ٹریفک کے قوانین کی مخالفت نہ کرنے کا حکم پس رکنے کے اشارے پر رکنا واجب ہے۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کا فائدہ ہے اور یہ اصلاح کا کام ہے، اور اسی طرح جو اس کے مشابہہ امور ہیں۔

سوال 3: وضعی قوانین بنانے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان پر عمل کرنا جائز ہے؟ کیا ایسی قانون سازی کرنے پر حکمران کافر ہوجاتا ہے؟

جواب: اگر قانون شریعت کے موافق ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسے وہ ٹریفک کے قوانین وضع کرتا ہے تاکہ مسلمانوں کو نفع ہو یا اس کے علاوہ دیگر چیزوں میں جو مسلمانوں کو نفع دیتی ہیں، اور ان میں کوئی شرعی مخالفت نہ ہو، بلکہ محض مسلمانوں کے امور کی سہولت اور آسانی کی خاطر ایسا کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ لیکن جو قوانین شریعت کے مخالف ہوں تو انہیں بنانا جائز نہيں، پس اگر کوئی ایسا قانون بنایا گیا جیسا کہ زانی پر کوئی حد نہیں یا چور پر بھی کوئی حد نہيں یا شراب خور پر کوئی حد نہیں تو ایسا قانون باطل ہے، اب اگر وہ حاکم اس کو حلال سمجھتا ہے تو کافر ہوجائے گا کیونکہ اس نے ایسی چیز کا استحلال کیا (یعنی حلال جانا) جو کہ نص اور اجماع کے مخالف ہے۔ اور یہ ہر شخص کے لیے ہے کہ جو بھی اللہ تعالی کے حرام کردہ ایسے محرمات کو حلال جانتا ہے کہ جس پر اجماع ہے تو وہ اس کے ذریعے کافر ہوجاتا ہے۔

سوال 4: اس قسم کے حکمران کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟

جواب: ہم معروف میں اس کی اطاعت کریں گے، لیکن معصیت میں نہيں، یہاں تک کہ اللہ تعالی اس کا نعم البدل لائے۔

سوال 5: سماحۃ الشیخ آپ جانتے ہیں جو کچھ فتنے آجکل منظر عام پر چل رہے ہیں کہ بہت سی جماعتیں ہیں جیسے تبلیغی جماعت، اخوان المسلمین اور سلفیہ وغیرہ جماعتیں، اور ہر جماعت کہتی ہے کہ: بے شک اتباع سنت کرنے میں بس وہی صواب پر ہے ، آپ بتائيں کہ ان جماعتوں میں سے کون صواب پر ہے اور ہم ان میں سے کس کی پیروی کریں؟ اور ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ باقاعدہ ان کا نام لے کر ہمیں بتائیں؟

جواب: وہ جماعت جس کی اتباع کرنا اور اس کے منہج پر چلنا واجب ہے وہ اہلِ صراط مستقیم ہیں، وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے متبعین، اور کتاب وسنت کے متبعین ہیں کہ جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سنت کی طرف قولاً اورعملاً دعوت دیتے ہیں۔ جبکہ جو دیگر جماعتیں ہیں ان میں سے کسی کی بھی اتباع نہ کرنا سوائے اس چیز میں جس میں وہ حق کے موافق ہوں۔ برابر ہے چاہے وہ اخوان المسلمین ہوں یا تبلیغی جماعت ہو یا انصار السنۃ ہو یا پھر جو یہ کہتے ہیں کہ وہ سلفی ہیں یا جماعت اسلامی ہیں یا جو اپنے آپ کو جماعت اہل حدیث کہلاتے ہیں یا کوئی بھی فرقہ جو اپنے آپ کو کوئی بھی نام دیتا ہو، ان کی  پیروی واتباع صرف حق میں ہوگی۔ اور حق وہ ہوتا ہے جس پر دلیل قائم ہو جو دلیل کے مخالف ہو تو ان پر رد ہوگا، اور ان سے کہا جائے گا: تم نے اس میں غلطی کی ہے۔ پس ان کی موافقت لازم ہے صرف اس چیز میں جس میں وہ آیت کریمہ یا حدیث شریف یا سلف امت کے اجماع کے موافق ہوں۔

البتہ جس چیز میں وہ حق کی مخالفت کرتے ہوں تو ان پر بے شک رد ہوگا اور اہل علم ان سے کہیں گے کہ: تمہارا یہ قول اور یہ فعل خلاف حق ہے۔ یہ بات ان سے اہل علم کہیں گے کیونکہ وہ ان اسلامی جماعتوں کے بارے میں بصیرت رکھتے ہيں۔  اہل علم وہ ہیں جو کتاب وسنت کا علم رکھتے ہيں اور کتاب وسنت کے ذریعے دین میں تفقہ کے حامل ہیں، یہ وہ ہیں کہ جو ان جماعتوں کی تفصیلات جانتے ہیں۔ کیونکہ ان جماعتوں کے ہاں حق وباطل دونوں پائے جاتے ہیں یہ معصوم نہیں ہیں، ہر کوئی غیر معصوم ہوتا ہے لیکن حق وہی ہوتا ہے جس پر دلیل قائم ہو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور سلف امت کے اجماع سے، خواہ ان جماعتوں میں سے ہوں یا پھر حنابلہ، شافعیہ، مالکیہ، ظاہریہ یا حنفیہ میں سے یا ان کے علاوہ کسی میں سے، جس بات پر بھی دلیل قائم ہوگی تو وہ حق ہے جو دلیل کے مخالف ہوگی یعنی کتاب وسنت اور اجماع قطعی کی دلیل کے خلاف ہوگی تو وہ غلطی شمار ہوگی۔

اور جہاں تک بات ہے ان لوگوں کی جو غیر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے دعوت دیتے ہيں تو ایسوں کی نہ اتباع ہوگی نہ تقلید۔ بلکہ اطاعت واتباع اسی کی ہوگی جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف دعوت دیتا ہے، اور حق کو پاتا ہے، اگر وہ بھی غلطی کرجائے تو اس تک سے کہہ دیا جائے گا کہ تم نے غلطی کی اور اگر صحیح ہوگا تو اس سے کہا جائے گا تم نے صحیح کیا، اور صرف صواب میں ہی اس کی پیروی کی جائے گی، اور اس کے لیے توفیق کی دعاء کی جائے گی۔ اگر وہ غلطی کرجائے تو اس سے کہا جائے گا کہ تم نے فلاں چیز میں غلطی کی ہے اور فلاں دلیل کی مخالفت کی ہے، تم پر واجب ہے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کرو اور حق کی طرف رجوع کرو۔ یہ بات اہل علم واہل بصیرت کہیں گے۔ جبکہ جو عامی لوگ ہیں وہ اہل علم میں سے نہيں، علماء تو وہی ہیں جو کتاب وسنت کا علم رکھتے ہیں اور معروف ہیں کہ وہ کتاب وسنت کی اتباع کرتے ہیں، پس ایک عامی کو چاہیے کہ جس بات میں اشکال ہو تو وہ ان سے سوال پوچھے کہ جو کتاب وسنت کو جانتے ہيں  مثلاً ان سے پوچھے کہ فلاں کی دعوت کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ جو ایسے ایسے کہتا ہے تاکہ وہ بصیرت پر ہو اور حق کو جان جائے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43)

(اہل ذکر  سے پوچھ لو اگر تمہیں علم نہ ہو)

اور یہ اہل ذکر وہ اہل علم ہیں جو کتاب وسنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا علم رکھتے ہیں، جبکہ جو اہل بدعت ہیں تو وہ اہل ذکر میں سے نہیں، اور بدعت کے داعیان بھی اہل ذکر میں سے نہیں ہيں۔

والله ولي التوفيق وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله وصحبه.


[1]صحيح البخاري أخبار الآحاد (7257)، صحيح مسلم، الإمارة (1840)، سنن النسائي، البيعة (4205)، سنن أبي داود، الجهاد (2625)، مسنح أحمد بن حنبل (1/94)۔

[2] صحيح البخاري، الأحكام (7144)، صحيح مسلم، الإمارة، (1839)، سنن الترمذي، الجهاد (1707)، سنن أبي داود، الجهاد (2626)، سنن إبن ماجه، الجهاد (2864)، مسند أحمد بن حنبل (2/142)۔

[3] اخرجہ البخاری فی کتاب الفتن، باب قول النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : “سترون۔۔۔”، حدیث رقم 7054، ومسلم فی کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃالمسلمین عند ظھور الفتن، حدیث رقم 1849، مسند احمد بن حنبل (1/297)، سنن الدارمی، السیر (2519)۔

[4] صحیح مسلم، الامارۃ، (1852)، سنن النسائی، تحریم الدم (4020)، سنن ابی داود، السنۃ (4762)، مسند احمد بن حنبل (4/341)۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: حوار مع سماحته في ندوة عقدت بجامع الإمام فيصل بن ترك في الرياض ونشرته جريدة الشرق الأوسط في 4 \ 11 \ 1413 هـ