نئے سال کی مبارکباد دینا، جشن منانا اور تعاون کرنا؟ – علماء کرام کے کلام سے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فتوی کمیٹی ، سعودی عرب کا بیان جو ملینیم کے سلسلے میں منائی جانے والی تقریبات میں شرکت سے متعلق تھا میں علماء کرام فرماتے ہیں:

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کافروں کی عیدوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کا تعاون کرے جیسے ان کی عیدوں کا اعلان تشہیر، یا ملینیم منانا (جوکہ سوال میں مذکور ہے)۔ نہ اس کی طرف دعوت دے خواہ کسی بھی وسیلے کے استعمال کے ذریعے ہو چاہے میڈیا کے ذریعے ہو، یا گھڑیال وسائن بورڈز ہوں، یا خاص ملبوسات کی تیاری ہو یا  یادگاری اغراض ہوں، یا عیدکارڈز ومدرسے (اسکولوں) کی اس موقع مناسبت سے خاص رجسٹرز وکاپیاں وغیرہ کی اشاعت ہو، یا اپنی تجارتی اشیاء پر خصوصی رعایت کی پیشکش ہو یا قیمتی انعامات کی اسکیم ہو،  یا کوئی خاص ورزش و کھیل کود کا پروگرام منعقد کرنا ہو، یا ان کے خاص شعار کو نشر کرناہو۔

ایک دوسرے فتوی رقم 20795 میں سوال ہوا:

سوال : کیا غیرمسلموں کو نئے عیسوی سال اور (مسلمانوں کو) نئے ہجری سال، اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارکباد دینا جائز ہے؟

جواب: ان مناسبات پر مبارکبادی دینا جائز نہيں، کیونکہ بلاشبہ انہيں منانا غیر شرعی ہے۔

شیخ احمد بن یحیی النجمی رحمہ اللہ سال نو کی مبارکباد دیے جانے کے بارے میں فرماتے ہیں:

—یہ عادت باطل ہے اور بدعت سمجھی جائے گی اور ہر بدعت گمراہی ہے جسے چھوڑنا اور اس پر عمل نہ کرنا واجب ہے۔

اگر کہا جائے کہ یہ تو عادات میں سے ہے (ناکہ عبادات میں سے) اور عادات کے بارے میں اصل (شرعی قاعدہ) یہ ہے کہ وہ حلال وجائز ہیں (الا یہ کہ ان کی حرمت کی دلیل ہو)۔ تو ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ ان لوگوں (کافروں) نے اس دن کو باقاعدہ عید بنالیا ہے۔ اور اس میں وہ وہ چیزیں مشروع کردی ہیں جو نہ اللہ تعالی نے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشروع فرمائی ہیں۔

جبکہ اسلام نے سوائے دو عیدوں کے یعنی عید الفطر اور عید الاضحی اور ہفتہ وار عید یعنی جمعۃ المبارک کے کوئی عید مشروع قرار نہیں دی۔ جو بھی شریعت مخالف عید وعادات لوگوں نے نکال لی ہیں وہ سب باطل ہیں۔۔۔

(فتح الرب الودود : ج1ص37)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*