یا اللہ! یا محمد! کہنے کا حکم – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا

اور یہ کہ بلاشبہ مساجد اللہ ہی کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔

[الجن: 18]

سوال: اکثر مساجد کے محرابوں پر لکھا ہوتا ’’یا اللہ، یامحمد‘‘  کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا جائز ہے؟

جواب: یہ وہ عام عادت ہے جو ہم نے پاکستان اور افغانستان میں دیکھی ہے، اور تو اور صد افسوس کی بات ہے کہ ہم نے مجاہدین کی گاڑیوں تک پر یہ لکھا ہوا دیکھا، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو مجاہدین کہلاتے ہیں!وہ اس بارے میں کوئی نصیحت قبول نہیں کرتے اور اس قسم کے شرکیات پر مصر رہتے ہیں! ان کی دکانوں اور مساجد پر آپ یہ سب کچھ لکھا ہوا پائیں گے ’’یا اللہ، یا علی، یا غوث، یا حسین، یا عبدالقادر، یا فلاں یا فلاں‘‘ اور آخر تک جتنے شرکیات ہیں!

یہ غیراللہ سے استغاثہ (فریاد) ہے۔ اگر آپ کہیں یا محمد تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اللہ تعالی کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ لہذا اگر آپ کہیں یا اللہ یا محمد اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی کی برابری والا قرار دے دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آئے ہی اس قسم کی بت پرستی کو ختم کرنے کے لیے تھے تاکہ ملت ابراہیمی کا دوبارہ سے قیام ہو۔ جس میں سرفہرست شرک کا خاتمہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا کو، دلوں کو، اذہان وعقول کو شرک کی نجاست سے پاک کرنے کے لیے ہی تشریف لائے تھے۔اور ہمیں نصوص قرآن وسنت اور عملی تطبیقات کے ذریعہ خالص توحید کی تعلیم فرمائی۔ اور ہمیں پکی قبروں اور اوثان کو منہدم کرنےکاحکم فرمایا:

’’لَا تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘[1]

(رقت سفر باندھ کر ثواب کی نیت سے سفر سوائے تین مساجد کے جائز نہیں (نا کسی قبر کے لیے اور نہ ہی کسی اور چیز کے لیے) 1- میری یہ مسجد (مسجدنبوی)، 2- مسجدالحرام، 3- مسجد اقصیٰ)۔

کیونکہ ان مساجد کو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام  نے توحید الہی اور دین کواللہ تعالی کے لیے خالص کردینے کی خاطر تعمیر فرمایا تھا۔

اور یہ حرکتیں تو مدینہ نبویہ میں بھی شروع کردی گئی تھیں، جیسا کہ ہم ان کی حقیقت کو جانتے ہیں اس سے آپ اہل بدعت کے مکر و فریب کا اندازہ کریں، لکھتے ہیں: ’’اللہ، محمد‘‘ جامعہ اسلامیہ میں ایک شخص جس کا نام سراج الرحمن زاملنی تھا جو کہ ابو الحسن ندوی کے تلامیذ میں سے تھا۔ پتہ نہیں میں نے اسے یہ بات اس حوالے سے کی کہ کینیا میں میں نے ایسا دیکھا تھا یا پھر یہی والی بات کہ اب تو مدینہ نبویہ میں بھی ایسی حرکتیں شروع ہوگئی ہیں، بہرحال اس نے مجھے بتایا کہ ابو الحسن ندوی[2]

کہتے ہیں یہ کلمہ کہ ’’اللہ، محمد‘‘ کفر ہے یعنی اس کا مطلب ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے برابری والے ہیں، یعنی کہ اللہ محمد ایک سے ہیں۔

حالانکہ درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزلت تو یہ ہے کہ لا إله إلاّ الله محمد رسول الله (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں) ,أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا رسول الله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں), أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا عبده ورسوله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘[3]

(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم  کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں تو صرف ایک بندہ ہی ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔

میں نے جب کبھی بھی یہ شرکیہ مظاہر دیکھے تو ان سے لڑا، اگر کسی مسجد میں دیکھا تو امامِ مسجد کو نصیحت کی۔ مسجد قبلتین مسجد عمودی میں میں نے امام سے بات کی لیکن اس نے کچھ نہ کیا! میں نے عمودی جو کہ صاحبِ مسجد ہیں سے بات کی تو انہوں نے فوراً اس پر عمل کیا (جزاہ اللہ خیراً) اور ان تمام چیزوں کو مٹا دیا۔

اور میرے پڑوس کی مسجد مدینہ نبویہ میں جو تھی اس میں بھی ’’اللہ، محمد‘‘ لکھا ہوا تھا میں نے امام کو نصیحت کی تو کہنے لگا ہاں ہم کردیں گے، جلد کردیں گے، پس وہ ٹالتا رہا اور اسے ہٹایا نہیں ! لیکن وہاں ایک ہونہار نوجوان تھا اس نے کہا اس امام سے بہتر ہے میں ہی اس کا کام تمام کردوں پس وہ گیا اور اسے مٹا ڈالا اور معاملہ ختم کردیا الحمدللہ۔

شاہد یہ ہے کہ کسی دن میں بطحان سے آرہا تھا مدینہ پہنچنے پر میں نے اپنے آگے ایک گاڑی (یا ٹرالر) دیکھی جس پر سرخ لکھائی میں ’’یااللہ، یا محمد‘‘  لکھا ہوا تھا ، پس میں نے اپنی گاڑی اس کے پیچھے لگا دی تو اس نے گاڑی اور تیز کردی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میں نے یہ دیکھ لیا ہے۔ اس نے رفتار بڑھائی تو میں نے بھی بڑھا دی یہاں تک کہ میں نے اسے ’’قربان‘‘  مکان پر جاپکڑا۔ اس نے گاڑی روکی اور اترتے ہی خود سے کہنے لگا: کیا میں اسے مٹا دوں؟ حالانکہ میں نے اس سے ابھی کوئی بات ہی نہیں کی تھی! وہ خود ہی سمجھ گیا اور اس بات کا اسے احساس ہوگیا۔ میں نے کہا:  ہاں اسے مٹا دو۔ لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس بلاد ِتوحید کے خلاف باقاعدہ جنگ جاری ہے ان قبرپرست بدعتیوں کی جانب سے!!

مجھے یاد ہے کہ سعودی عہد میں جو پہلی مسجد تعمیر ہوئی اس پر قبہ بنایا گیا، جس پر طلاب العلم نے نکیر کی اور وہ شیخ ابن حمید کےساتھ آئے اور بات ہوئی۔۔۔۔نہیں معلوم کہ یہ معاملہ پھر کیسے ختم ہوگیا۔ بہرحال، یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں مساجد پر قبے نہیں بنائے جاتے۔حتی کہ جب ملک سعود رحمہ اللہ نے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں توسیع فرمائی تھی تب بھی ان میں کوئی قبہ نہیں تھا، بلکہ موجودہ توسیع میں بھی یہ قبے نہیں ہیں (بارک اللہ فیکم)۔ یہ سب سنت پر قائم ہیں کیونکہ یہ قبے بنانا نصاری کی تقلید ہے کہ جو اپنے گرجاگھروں پر قبے بناتے ہیں۔ اور شاید کے اپنے صالحین کی قبروں پر بھی یہ قبے بناتے ہیں، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

’’لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘[4]

(یہودو نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کرام کی قبروں کو مساجد بنا لیا)۔

 پس آپ آج باکثرت مساجد دیکھتے ہیں کہ جن پر ملین روپے خرچ کیے جاتے ہیں پر ان پر یہی قبے تعمیر ہوتے ہیں، اور طرح طرح کے زخارف (سجاوٹیں) کی جاتی ہیں (فاللہ المستعان)! اللہ کی قسم! ممکن ہے یہ عمل کاش کے ان کے لیے کم از کم برابر ہوجائے نہ ان کے حق میں ہو نہ خلاف کیونکہ حالت تو یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر پر ملین روپے خرچ کرتے ہیں پھر آخر میں وہ اس شکل کی بن جاتی ہے!! جو بالکل گرجاگھر معلوم ہوتی ہے۔ یہی مصائب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ قیامت کی علامات میں سے ہے کہ مساجد کی اس طرح سے سجاوٹ کی جائے گی[5] جبکہ یہ تو سجاوٹ سے بھی بدتر چیز ہے۔  الحمدللہ یہ ملک ظاہراًوباطناً سنت پر قائم ہے مساجد اور اس کے علاوہ بھی دیگر معاملات میں۔ لیکن اہل بدعت نے اپنے ناپاک عزائم کو کبھی یہاں اور کبھی وہاں سرائیت کرنا شروع کردیا ہے یہاں تک کہ شر اچھی طرح سے پھیل جائے (اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے)۔

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس دین حق کے ذریعہ سے عزت بخشے کہ جو محمد ﷺ لے کر آئے تھے اور اس کے ذریعہ سے ہمیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف اور گمراہی سے نکال کر طریقۂ نبوی ﷺ کی طرف لے جائے۔


[1] صحیح مسلم 1339۔

[2] حالانکہ یہ ابو الحسن ندوی صاحب خود بھی صحیح عقیدے ومنہج کے حامل نہ تھے: شیخ محدث حماد الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ابو الحسن ندوی ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے امیر ہیں اور وہ نقشبندی متعصب حنفی ہیں، فصیح اللسان ہیں، میں نے اپنے ہندوستان کے سفر میں ان سے ملاقات کی تھی۔

لوگوں کا ان کی طرف مائل ہونے کا سبب فصاحت زبان اور عمدہ کتابیں ہیں، اور وہ بڑے سیاستدان بھی ہیں)۔ (المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري رحمه الله  ص 601) خود ابو الحسن کے استاد علامہ محمد تقی الدین ہلالی رحمہ اللہ نے ان کے تصوف و ماتریدیت کا رد فرمایا اور شیخ صلاح الدین مقبول حنیف نے ایک مفصل کتاب بھی لکھی ’’الأستاذ أبو الحسن الندوي والوجه الآخر من كتاباته‘‘ اس کے علاوہ علامہ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کے بھی ردود ہیں۔ (مترجم)

[3]البخاري أحاديث الأنبياء (3261).

[4]البخاري الصلاة (425) ، مسلم المساجد ومواضع الصلاة (531) ، النسائي المساجد (703) ، أحمد (6/274) ، الدارمي الصلاة (1403).

[5] ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:  مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتْ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى‘‘ )صحیح سنن ابی داود 448)

ابن عباس  رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مساجدکو بہت زیادہ پختہ تعمیر کروں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں: تم انہیں ضرور مزین کرو گے جیسے کہ یہود و نصاری نے (اپنےعبادت خانے)  مزین کیے)۔

’’عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ‘‘ (صحیح سنن ابی داود 449)

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لوگ مساجد میں باہم فخر نہیں کرنے لگیں گے۔ (مترجم)

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: شیخ ربیع المدخلی کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ فتوی