صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہترین لوگ ہيں – شیخ عبدالمحسن العباد

The companions رضی اللہ عنہم are the best of the people – Shaykh Abdul Muhsin Al-Abbaad

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سورۃ التوبۃ

اللہ تعالی کا فرمان:

﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ 

(جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے احسن طور پر ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اور وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہ ہی بڑی کامیابی ہے)

(التوبۃ: 100)

اس آیت میں اللہ تعالی کی طرف سے سابقین اولین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی جارہی ہے ۔ اور یہ کہ بے شک اس نے ان کے لیے نعمتوں بھری جنت تیار کررکھی ہے، اور یہ کہ بلاشبہ یہ ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہيں وہ تمام امتوں سے بہترین یعنی امت محمدیہ میں سے بھی سب سے بہترین لوگ ہيں ۔ یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ‌فضیلت اور عظمت بہت سی آیات اور متواتر احادیث میں بیان ہوئی ہيں (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالی نے سابقین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی ، اور جو کچھ اس نے ان کے لیے نعمتوں بھر ی جنت  اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تیار کررکھی ہیں ان کی بھی خبر دی۔ امام الشعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سابقین اولین مہاجرین وانصار سے مراد وہ ہیں جنہوں نے حدیبیہ والے سال بیعت رضوان کو پایا تھا، ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ، سعید بن المسیب، محمد بن سیرین، الحسن اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے‘‘۔

مزید فرمایا:

’’یقیناً  اللہ عظیم نے یہ خبر دی کہ بے شک وہ سابقین اولین مہاجرین وانصار اور جنہوں نے احسن طور پر ان کی پیروی کی ان سے راضی ہوا۔ پس ان لوگوں کے لیے ویل (بربادی) ہے جو ان سے بغض رکھے یا سب وشتم کرے، یا ان میں سے بعض سے بغض رکھے اور سب وشتم کرے،خصوصاً ان میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے بعد تمام صحابہ کے سید وسردار ہيں ، اور ان میں سے سب سے بہتر اور افضل ہيں یعنی صدیق اکبر وخلیفۂ اعظم ابو بکر ابن ابی قُحَافَہ رضی اللہ عنہ، کیونکہ روافض میں سے ایک گھٹیا گروہ افضل ترین صحابہ سے بغض و دشمنی رکھتا ہے اور انہيں سب وشتم کرتا ہے، ہم اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی عقل ہی الٹی ہے، اور ان کے دل ہی اوندھے ہيں، پھر ایسوں کا قرآن کریم کے ساتھ کیا ایمان رہا جو ان ہی کو سب وشتم کریں جن سے اللہ تعالی راضی ہوچکا؟ جبکہ جو اہل سنت ہیں وہ ان سے راضی ہوتے ہیں جن سے  اللہ تعالی راضی ہوا، اور انہیں سب وشتم کرتے ہيں جن پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے سب وشتم فرمایا، اور ان سے دوستی و محبت کرتے ہيں جن سے اللہ تعالی محبت و دوستی فرماتا ہے، اور ان سے دشمنی وعداوت رکھتے ہيں جن سے اللہ تعالی دشمنی و عداوت فرماتا ہے۔ یہ اتباع و پیروی کرنے والے ہیں نہ کہ بدعات ایجاد کرنے والے، اقتداء کرتے ہيں مخالفت نہیں کرتے۔ اسی لیے یہ کامیاب ہونے والے حزب اللہ ہیں اور اس کے مومنین بندے ہیں‘‘۔

ہمارے شیخ شیخ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ ’’اضواء البیان‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بلاشبہ جو سابقین اولین مہاجرین وانصار کی احسن طور پر پیروی کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ داخل ہيں اللہ تعالی کی رضا، ہمیشہ جنت میں رہنے کے وعدے اور عظیم کامیابی میں۔ اور دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ بے شک جنہوں نے سابقین کی احسن طور پر اتباع کی وہ ان کے ساتھ اس خیر میں شریک ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان:

﴿وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ﴾ 

(اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے)

(الجمعۃ: 3)

اور فرمایا:

﴿وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا﴾ 

(اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے)

(الحشر: 10)

اور فرمایا:

﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ 

(اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی سے ہیں)

(الانفال: 75)

یہ بات مخفی نہيں کہ اللہ تعالی نے بلاشبہ صراحت کے ساتھ اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ وہ یقیناً سابقین اولین مہاجرین وانصار سے راضی ہوگیا، اور ان سے بھی جنہوں نے اچھے طور پر ان کی پیروی کی۔ یہ قرآنی صریح دلیل ہے کہ بے شک جو ان کو سب وشتم کرتا ہے اور ان سے بغض رکھتا ہے وہ گمراہ ہے اور اللہ تعالی کی مخالفت کرنے والا ہے، کیونکہ وہ ان سے بغض رکھتا ہے جن سے اللہ راضی ہوا، لہذا اس میں کوئی شک نہيں کہ جو ان سے بغض رکھے جن سے اللہ راضی ہوا تو وہ اللہ تعالی کی واضح مخالفت وعناد کرنے والا اورسرکش ہے‘‘۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: من كنوز القرآن الكريم ص 236-237۔