15 شعبان کی رات قبرستان کی خصوصی زیارت کرنا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قبروں کی زیارت کے مخصوص بدعتی ایام  کا ذکر کرتے ہوئے ’’مجلة البحوث الإسلامية‘‘ میں ذکر کیا گیا:

بعض اہل علم نے شعبان کی 15 رات میں ہونے والی بدعات ومحدثات کا ذکر فرمایا ہے جو قبرستان میں کی جاتی ہیں، اور جو کچھ ان کی وجہ سے عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں۔(دیکھیں : المدخل 1/310-313)

(مجلة البحوث الإسلامية- العدد الخامس والثمانون – الإصدار: من رجب إلى شوال لسنة 1429هـ > البحوث > أحكام زيارة القبور > المبحث الثامن بيان المواسم والأعياد المحدثة في زيارة القبور)

اس کے علاوہ جو عائشہ رضی اللہ عنہا  والی حدیث سنن ترمذی 739وغیرہ کی بیان کی جاتی ہے، کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نصف شعبان کی رات کو اٹھ کر گئے اور بقیع قبرستان پہنچ کر آسمان کی جانب چہرہ اٹھا کر نصف شعبان کی رات کی فضیلت ذکر فرمائی، اس حدیث کے بارے میں خود امام ترمذی  رحمہ اللہ  فرماتے ہيں کہ امام بخاری  رحمہ اللہ  نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، اور خود امام ترمذی  رحمہ اللہ  کے نزدیک بھی یہ حدیث ضعیف ہے، اور شیخ البانی  رحمہ اللہ  نے بھی اسے ضعیف الترمذی میں ضعیف قرار دیا ہے۔

البتہ اس حدیث کی اصل صحیح مسلم 976 میں موجود ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  رات کو اٹھ کر گئے اور بقیع قبرستان والوں کے لیے دعاء کی، جبکہ اس میں نصف شعبان کا ذکر نہيں۔

ہمارے ہاں جو باقاعدہ شب برأت کا نام دے کر قبرستان میں چراغاں کیا جاتا ہے، اور مردوں کی عید کہا جاتا ہے، لوگ جمع ہوتے ہيں یہ سب بدعات میں سے ہے۔

اس کے علاوہ بھی نصف شعبان کی رات غیر مسلموں کی نقالی میں بدعات و خرافات کے ساتھ ساتھ بہت سی خلاف شریعت چیزیں کی جاتی ہیں جیسے پٹاخے پھاڑنا، آتش بازی، خصوصی کپڑے پہننا اور کھانے پکانا، مسور کی دال کا حلوہ وغیرہ، اور گھروں اور قبرستان میں چراغاں کرنا غرض ایک جشن کا سا سماں بنا دینا۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے:

’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘[1]

(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔

اور فرمایا:

’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘[2]

(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے)۔

اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو بدعات سے بچا کر سنتوں پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔


[1] البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).

[2] صحیح سنن ابی داود 4031، صحیح الجامع 2831۔

ترجمہ و ترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*