ایامِ حیض میں قرآن مجید پڑھنے کا حکم؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: حائضہ عورت کا مصحف کو بنا چھوئے قرآن مجید پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ  بن باز  رحمہ اللہ :

اس مسئلے میں علماء کرام کے مابین اختلاف ہے۔ جو بات اقرب واظہر ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ حیض کی مدت طویل ہوتی ہے اور یہ جنابت کی طرح نہیں۔ جنابت کی مدت تو تھوڑی سی ہوتی ہے۔ انسان غسل کرکے تلاوت کرسکتا ہے۔ لیکن حائضہ اور نفاس والی خواتین کی مدت طویل ہوتی ہے۔ لہذا راجح اور صواب قول یہی ہے کہ ان پر کوئی حرج نہيں کہ وہ تلاوت قرآن کریں لیکن اپنے حفظ سے۔ یہ زیادہ قریبِ صواب ہے۔ حائضہ کو جنبی پر قیاس کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ حیض کی مدت تو طویل ہوتی ہے، اور نفاس کی تو اس سے بھی طویل ہوتی ہے۔ جبکہ جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ:

’’لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ‘‘([1])

(حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ نہ پڑھے)۔

تو یہ حدیث اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔ جس کے ذریعے حجت قائم نہيں کی جاسکتی۔ پس راجح یہی ہے کہ اس پر کوئی حرج نہ نہیں۔ یعنی حائضہ پر کہ وہ اپنے حفظ سے قرآن پڑھے، مصحف میں سے نہیں، بلکہ جو دل میں یاد ہو۔ اور یہ نفاس والی عورتوں کے لیے تو من باب اولی جائز ہے۔ البتہ جو جنبی ہے وہ نہ کرے، جنبی قرآن نہ پڑھے نہ اپنے حفظ  سے نہ ہی مصحف سے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے صحیح حدیث میں ثابت ہے:

’’لا يمنعه شيء عن القرآن إلاَّ الجنابة‘‘([2])

(آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو کوئی چیز قرآن (میں )سے (کچھ پڑھنے سے ) نہیں روکتی تھی سوائے جنابت کے)۔

اور ایک دوسری حدیث میں دوسری روایت سے یہ ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بعض آیات پڑھا کرتےتھے پھر فرماتے:

’’هذا لمن ليس جنباً أمَّا الجنب فلا ولا آية‘‘([3])

(یہ اس کے لیے ہیں جو جنبی نہ ہو البتہ جو جنبی ہے وہ نہ پڑھے ایک آیت بھی)۔

سوال: کیا حیض ونفاس والی کے لیے مصحف قرآنی کو چھونا اور اس میں سے پڑھنا جائز ہے، اور کیا اس کے لیے مسجد میں داخل ہونا جائز ہے کہ وہ حیض کی حالت میں بھی علوم شرعیہ حاصل کرے؟

جواب از شیخ ابن باز رحمہ اللہ :

اس کا مسجد میں بیٹھنا جائز نہیں۔ اور نہ ہی حیض کی حالت میں مصحف کو چھونا جائز ہے یہاں تک کہ وہ پاک نہ ہوجائے۔ لیکن اگر کوئی ضرورت پڑ جائے کہ مصحف کو چھونا پڑے تو کسی حائل جیسے دستانے (جزدان) وغیرہ کو استعمال کرے جیسے کسی آیت کا مراجعہ کرنا یا اس جیسی ضرورت ہو۔ تو کوئی حرج نہیں۔

لیکن بنا آڑ کے اسے نہ چھوا جائے۔ اس کے لیے جائز نہیں۔ کیونکہ اس کی حدث اکبر ([4])ہے جیسے جنابت ہوتی ہے۔ اور جنبی نہ قرآن پڑھتا ہے نہ مصحف کو چھو سکتا ہے۔ جبکہ حائضہ پڑھ سکتی ہے کیونکہ مدت کچھ طویل ہوتی ہے اور نفساء (نفاس والی) بھی صحیح قول کے مطابق پڑھ سکتی ہیں۔انہیں چاہیے کہ اپنے حفظ سے پڑھیں لیکن مصحف کو چھوئے نہ الا یہ کہ کوئی ضرورت پڑھ جائے کی آیت کا مراجعہ کرنا ہو تو کوئی حرج نہيں کہ کسی حائل کے ساتھ اسے چھو لے۔

سوال: حائضہ عورت کا مصحف کو چھونے کا کیا حکم ہے جبکہ وہ نیچے پڑا ہوا ہو اور اس کے پاس کوئی حائل بھی نہ ہو اسے چھونے کے لیے تو کیا وہ اسے ویسے ہی اٹھا کر اوپر رکھ دے؟

جواب از شیخ ابن باز  رحمہ اللہ :

ظاہر تو یہی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ یہ مصحف کی تعظیم میں سے ہے کہ جب اسے زمین پر رکھا دیکھیں اور خدشہ ہو کہ لوگوں کے پیروں میں نہ آجائے ۔ لیکن اگر اس کے لیے میسر ہو تو کسی حائل کے پیچھے سے اٹھا لے اپنے خمار (اوڑھنی، بڑا اسکارف یا دوپٹہ) کی آڑ سے یا اپنے کپڑے کے کنارے سے تو اس میں زیادہ احتیاط ہے۔ اپنا خمار یا کسی دوسرے کپڑے کے ٹکڑے کے ساتھ مصحف کو اٹھائے۔ یہ زیادہ افضل ہے یہاں تک کہ وہ اسے مناسب مقام پر رکھ دے۔

سوال: کیا ایام حیض میں قرآن کیسٹ وغیرہ سے سنا جاسکتا ہے ؟

جواب از شیخ ابن باز  رحمہ اللہ :

کوئی حرج نہيں کہ حیض ونفاس والی قرآن کی سماعت کرے۔ بلکہ جنبی تک سن سکتا ہے۔

(مختصر ماخوذ فتاوى نور على الدرب المجلد السادس والعشرون > كتاب علوم القرآن الكريم > حكم قراءة الحائض والنفساء للقرآن الكريم عن ظهر الغيب)([5])

اپنے ایک دوسرے فتوی میں یہ دلیل بیان فرماتے ہیں کہ:

۔۔۔کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے  عائشہ رضی اللہ عنہا کو حجۃ الوداع کے موقع پر جب انہیں حیض  آگیا تھا تو یہی حکم دیا کہ:

’’افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي‘‘([6])

(وہ سب کرو جو حاجی کرتے ہیں الا یہ کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا جب تک پاک نہ ہوجاؤ)۔

تو اس میں تلاوت قرآن سے منع نہیں فرمایا۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ محرم تلاوت قرآن بھی کرتا ہے۔ البتہ طواف سے منع فرمایا کیونکہ وہ تو نماز کی طرح ہے لیکن تلاوت قرآن پر تو خاموشی اختیار فرمائی اس سے معلوم ہوا کہ یہ غیرممنوع ہے۔  اگر ہوتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر خواتین کو حجۃ الوداع یا اس کے علاوہ بتادیتے۔ اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ کوئی بھی گھر حائضہ اور نفساء سے خالی نہيں ہوتا اگر ان کا قرآن پڑھنا منع ہوتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ضرور ایسے واضح طور پر ضرور بیان فرمادیتے کہ کسی پر مخفی نہ رہتا۔

(فتاوی نور علی الدرب شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے  حكم قراءة القرآن الكريم للحائض)

شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ  سے بھی یہی سوالات ہوئے تو آ پ نے بھی علماء کرام کا اختلاف بیان فرمایا اورمنع والی حدیث کا ضعیف ہونا اور پھر اسی کو راجح قرار دیا جسے شیخ ابن باز  رحمہ اللہ  نے راجح فرمایا ہے۔اور کہا کہ کوئی حرج نہیں کہ وہ حاجت وضرورت کے تحت قرآن پڑھ لے جیسے اسے خدشہ ہو کہ کہیں قرآن بھول نہ جائے، یا وہ اذکارواوراد صبح وشام پڑھتی ہو، یا اپنے بچوں کو پڑھاتی ہو، یا لڑکیوں کو پڑھاتی ہو، یا پھر اسے اہم امتحانات کے وقت حیض آجائیں تو ان جیسی حاجات میں بلاشبہ جائز ہے جبکہ اس کے علاوہ جو حالتیں ہیں اس میں اولیٰ تو یہی ہے کہ نہ پڑھا جائے۔

۔۔۔کسی نے سوال میں اس آیت کو دلیل بنایا:

﴿لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ﴾

(اسے کوئی چھو نہيں سکتا مگر وہی جو پاک بنائے گئے ہیں)۔

تو آپ  رحمہ اللہ  نے فرمایا: اس سے مراد لوح محفوظ ہے اس آیت کو پڑھیں اور سنیں ذرا:

﴿اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ ، فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ ، لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ﴾ 

(بلاشبہ یہ یقیناًقرآن کریم ہے، ایک ایسی کتاب میں جو محفوظ اور چھپی ہوئی ہے، اسے کوئی چھو نہيں سکتا مگر وہی جو پاک بنائے گئے ہیں)

(الواقعۃ: 77-79)

’’يمسه‘‘ میں ضمیر  ’’الكتاب المكنون‘‘ کی طرف لوٹتی ہےاور عربی لغت کا قاعدہ ہے کہ ضمیر اقرب مذکور کی طرف لوٹتی ہے۔ لہذا جسے نہيں چھوتے مگر پاک لوگ وہ یہ کتاب مکنون ہے اور فرمان الہی  ﴿الْمُطَهَّرُوْنَ﴾ میں بھی عربی قواعد کے مطابق مراد فرشتے ہيں جنہيں اللہ تعالی نے پاک بنایا تو وہ اس کے برگزیدہ بندے ہيں کہ اس کے قول کے آگے نہیں بڑھتے اور اس کے حکم پر عمل پیرا رہتے  ہیں۔ لہذا اس آیت میں کوئی دلیل نہیں کہ بناطہارت کے مصحف کو نہيں چھوا جاسکتا لیکن حدیث  عمرو بن حزم  رضی اللہ عنہ  عن النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں ہے کہ فرمایا:

’’لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ‘‘([7])

(قرآن کو نہ چھوئے مگر طاہر (پاک) )۔

اس حدیث سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو مصحف کو چھونے کے لیے طہارت کو شرط مانتے ہیں۔ جو کہ لوگوں میں مشہور اور معمول بہ ہے ۔۔۔

(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے  فتاوى نور على الدرب (نصية) : الطهارة)

سوال: کیا حائضہ عورت مسجد میں بیٹھ سکتی ہے؟

جواب از شیخ محمد ناصر الدین البانی  رحمہ اللہ :

بالکل وہ مسجد میں بیٹھ سکتی ہے کیونکہ حیض مجالس علم میں حاضر ہونے سے نہيں روکتا، اگرچہ وہ مسجد میں ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس سے منع کی کوئی دلیل نہيں۔ بلکہ اس کے برعکس اس کے جواز پر کچھ احادیث دلالت کرتی ہیں۔

جیسے ان  میں سے  عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی دو احادیث:

اول:  وہ حدیث کہ جب وہ نبی رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ حج کررہی تھیں اور انہیں حیض آگئے وہ رونے لگیں، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے استفسار پر  بتایا کہ مجھے حیض آگئے ہیں تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: یہ ایسی بات ہے جو اللہ تعالی نے  آدم علیہ السلام کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے، تم ہر وہ کام کرو جو حاجی کرتے ہیں الا یہ کہ طواف نہ کرنا اور نماز نہ پڑھنا۔

اس میں دلیل یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے انہیں افضل ترین مسجد یعنی مسجد الحرام میں جانے سے نہیں روکا، تو دوسری مساجد میں من باب اولیٰ منع نہیں ہوگا۔

دوسری حدیث: جو کہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے  عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روز مسجد ہی میں سے فرمایا مجھےجائے نماز تھما دو تو انہوں نے عذر بتایا کہ یا رسول اللہ! میں حائضہ ہوں، تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِنَّ حَيْضَتَكِ لَيْسَتْ فِي يَدِكِ‘‘([8])

(بے شک تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں)۔

چنانچہ یہاں پرثابت ہوا حیض کا خون تونجس و ناپاک ہے لیکن حائضہ خود نجس نہیں، اور ضروری نہيں کہ کسی شخص سے کوئی بھی نجاست نکلے تو لازماً وہ شخص بھی نجس ہو۔

سوال: کیا حائضہ عورت کے لیے قرآن کی تلاوت کرنا اور اسے چھونا جائز ہے؟

جواب از شیخ البانی  رحمہ اللہ :

ہمیں کتاب وسنت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جو حائضہ کو یا جنبی کو قرآن چھونے یا اس کی تلاوت سے روکتی ہو۔ بلکہ شاید ہمیں ایسے قاعدے اور اصول مل جاتے ہیں کہ جو اس کے برعکس ہیں۔ یعنی اس کے جواز کے۔ ایک تو وہ اصول ہے کہ جس کے تحت بہت سی فروعات نکلتی ہیں کہ: ’’الأصل في الأشياء الإباحة‘‘ (اشیاء کے بارے میں اصل اباحت ہے)۔ اب یہاں قرآن کو چھونا یا اس کی تلاوت ان دونوں اعمال کے بارے میں اصل یہی ہے کہ یہ مباح ہیں۔ جائز نہيں کہ ہم اس اصل سے نکلیں الا یہ کہ کتاب وسنت صحیحہ سے کوئی دلیل اس سے نکلنا لازم کرتی ہو۔ اور مطلقاً  کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں جو جنبی یا حائضہ کو قرآن مجید کو چھونے یا اس کی تلاوت سے روکتی ہو۔ بلکہ سنت میں ایسی باتیں مل جاتی ہیں جسے بطور شاہد اس بارے میں پیش کیا جاسکتا ہے جیسے:

امام مسلم  رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح میں  عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بیان فرمائی کہ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

’’كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ‘‘([9])

(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہر وقت و ہرحالت میں اللہ تعالی کا ذکر کیا کرتے تھے)۔

اب یہ کلیہ جو  عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا اس میں سب حالات شامل ہیں طہارت سے ہوں یا نہ ہوں، حدث اصغر لاحق ہو یا اکبر۔

اسی طرح سے اس کی مزید تاکید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بسا اوقات جنابت کی حالت میں جاگتے، پھر فجر ہوجاتی، آپ روزہ بھی رکھتے اور غسل کرکے نماز بھی پڑھتے۔اس سے استدلال اس طرح سے ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے سونے سے پہلے سورۂ ملک وغیرہ یا آیۃ الکرسی اور معروف اذکار پڑھنا ثابت ہیں تو جن راتوں میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جنابت کی حالت میں سوئے تھے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے یہ مشروع اعمال نہ کیے ہوں۔

(سلسلة الهدى والنور للإمام الألباني/ شريط رقم/ 224)

۔۔۔افضل جنبی کے لیے یہی ہےکہ وہ طہارت حاصل کرکے تلاوت قرآن کرے بلکہ حدث اصغر والے کے لیے  بھی،  البتہ جب اس کے لیے جنابت میں پڑھنا جائز ہے تو حائضہ اور نفساء کے لیے تو بالاولیٰ جائز ہوگا کیونکہ شرعی طور پر ان کا طہارت حاصل کرنا ممکن ہی نہیں۔

(متفرقات الألباني/ شريط رقم: (226)/ سلسلة أهل الحديث والأثر)

۔۔۔اسی طرح شیخ  رحمہ اللہ  نے حائضہ عورت کا مسجد میں جانا بیٹھنا علمی دروس سننے کو جائز فرمایا عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے:

تم وہ تمام کام کرو جو حاجی کرتے ہيں الا یہ کہ طواف نہ کرنا ، نماز نہ پڑھنا۔

اور اس حدیث سے کہ:

بے شک تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں۔

اسی طرح سے سورۃ الواقعہ کی آیت سے بھی فرشتے مراد لیے اور کتاب سے لوح محفوظ۔ اور یہ جملہ خبریہ ہے انشائیہ نہيں کہ شرعی حکم دیا ہو۔

(سلسلة الهدى والنور للإمام الألباني/ شريط رقم/ 1)

اس آیت  ﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾ کے بارے میں فرمایا  کہ اللہ تعالی نے ’’متطهرون‘‘ نہيں کہا  ’’مطَهَّر‘‘ اور ’’متطهِّر‘‘  میں فرق ہے۔  جس نے عربی لغت، صرف، نحو پڑھا ہو تو  ’’المطهَّر‘‘ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے جیسا کہ آیت ہے:

﴿لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ ۭ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ﴾

(یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی زیادہ حق دار ہے کہ آپ  اس میں کھڑے ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ بہت پاک رہیں)

(التوبۃ: 108)

یہ نہیں فرمایا اس میں ’’رجال مطهَّرون‘‘ ہیں۔ بلکہ ایسے ہیں جو ناپاک بھی ہوجاتے ہیں تو طہارت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن صرف فرشتے ہی ایسے ہیں  کہ ’’المطهرون‘‘ ہیں  کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان کا وصف بیان فرمایا کہ:

﴿لَا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ﴾  

(جو اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے جو بھی وہ انہیں حکم دے، اور وہی کرتے ہیں جس کا حکم دیے جاتے ہیں)

(التحریم: 6)

لہذا اس آیت کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں  لہذا لوگ اس آیت کی لغوی وشرعی تفسیر میں غلطی کرتے ہیں۔

امام مالک  رحمہ اللہ  اپنی کتاب مؤطا جو کہ صحیح ترین کتاب ہے میں فرماتے ہیں:

جواس آیت  ﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾ کی تفسیر کے تعلق سے سب سے بہترین بات میں نے سنی  تو وہ یہ ہے کہ یہ سورۃ عبس کی ان آیات کی طرح ہے:

﴿ كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ ، فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ ، فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ ، مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ ، بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ ، كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ﴾

(ہرگز نہیں !  یہ (قرآن) تو ایک نصیحت ہے، تو جو چاہے اسے قبول کر لے، ایسے صحیفوں میں ہے جن کی عزت کی جاتی ہے، جو بلند کیے ہوئے ، پاک کیے ہوئے ہیں، ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں، جو معزز ہیں، نیک ہیں)

(عبس: 11- 16)

چنانچہ یہ ہیں المطهرون اور یہ گواہی  امام مالک امام دار الہجرہ  رحمہ اللہ  بھی دیتے ہیں۔

(سلسلة الهدى والنور/ شريط رقم: 131)

اس آیت پر امام ابن القیم الجوزیہ  رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب ’’أقسام القرآن‘‘ میں بھی کلام فرمایا ہے۔۔۔

بلاشبہ اللہ کے کلام کو مکمل طہارت کی حالت میں پڑھنا افضل ہے اس پر اجماع امت ہے۔ جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اللہ تعالی کے نام ’’السلام ‘‘ کہنے کو بغیر طہارت کے ناپسندیدہ گردان رہے تھے جیسا کہ اس بارے میں معروف حدیث سنن اور مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ کسی نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دیوار کی طرف گئے جلدی وضوء کیا اور سلام کا جواب دیا اور فرمایا:

’’أَنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَذْكُرَ اللَّهَ إِلَّا عَلَى طَهَارَةٍ‘‘([10])

(بے شک میں نے پسند نہيں کیا کہ اللہ تعالی کا ذکر کروں مگر طہارت کی حالت میں)۔

لیکن ہر وقت مکمل طہارت جو کہ افضل ہے حاصل کرنا مردوں کے لیے تو ممکن ہے خواتین کے لیے کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ ۔۔

ترمذی میں جو  ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی حدیث ہے کہ : ’’لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ‘‘

یہ حدیث منکر ہے جیسا کہ امام اہل السنۃ احمد بن حنبل  رحمہ اللہ  نے فرمایا، صحیح نہیں ہے۔ اگر صحیح ہوتی تو بات ہی ختم ہوجاتی۔۔۔

یہ کہنا کہ نماز سے منع ہے تو اس کے جو اجزاء ہیں وہ بھی منع ہیں جیسے قرأت قرآن نماز کے اجزاء میں سے ہے۔۔۔تو یہ بات صحیح نہيں کیونکہ نماز میں سے تو اللہ اکبر یعنی تکبیر بھی ہے اور تسبیح وغیرہ بھی حالانکہ وہ پڑھ سکتے ہيں البتہ طہارت کی حالت افضل ضرور ہے۔ ۔۔

اسی طرح سے قرآن کو  بنا وضوء کے چھونے کے جو بعض صحابہ کے آثار ہیں وہ بھی افضل بیان کرنے کے لیے ہیں ، البتہ اسے واجب کہنا یا یہ کہ غیر طاہر عورت پر قرآن چھونا حرام ہے اس کی کبھی کوئی دلیل نہیں۔

(الفتوى التاسعة المستخرجة من الشريط الأول من سلسلة الهدى و النور )


[1] اخرجہ الامام الترمذی فی کتاب ابواب الصلاۃ، بَاب مَا جَاءَ فِي الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ أَنَّهُمَا لَا يَقْرَآنِ الْقُرْآنَ، برقم 131۔ضعیف ترمذی 131۔

[2] اخرجہ الامام احمد فی مسندہ، من حدیث علی  رضی اللہ عنہ  برقم 1011۔سنن ابن ماجہ وغیرہ کے الفاظ ہیں: ’’لَا يَحْجُزُهُ عَنِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ إِلَّا الْجَنَابَةُ‘‘ (ضعیف ابن ماجہ 115)۔

[3] اخرجہ الامام احمد فی مسندہ، من حدیث علی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  برقم 872۔  مسند احمد 874 کے الفاظ ہیں: ’’هَذَا لِمَنْ لَيْسَ بِجُنُبٍ، فَأَمَّا الْجُنُبُ فَلَا، وَلَا آيَةَ‘‘۔ شیخ ابن باز حاشية بلوغ المرام میں فرماتے ہیں: إسناده حسن، شیخ احمد شاکر فرماتے ہیں: إسناده صحيح، اور شیخ ا لبانی  إرواء الغليل میں فرماتے ہیں: لا نسلم بصحة إسناده وقوله ثم قرأ شيئا من القرآن …لو كان صريحا في الرفع فهو شاذ أو منكر۔

[4] حدیث اکبر جیسے جنابت وغیرہ اور حدث اصغر جیسے ہوا خارج ہونا وغیرہ۔

[5] اس مقالے میں کچھ فتاوی مکمل ترجمہ ہیں جبکہ بعض فتاوی مفہوما ًذکر کیے گئے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)

[6] صحیح بخاری 305، صحیح مسلم 1211۔

[7] سنن دارقطنی 2266، شیخ البانی  ارواء الغلیل میں فرماتے ہیں اس کے مختلف ضعیف طرق ہیں لیکن اتنا شدید  ضعف نہیں اور اس حدیث کی صحت پر دل مطمئن ہے خصوصاً جبکہ امام اہل السنۃ احمد بن حنبل  رحمہ اللہ  نے اس سےحجت پکڑی اور ان کے ساتھی امام اسحاق بن راہویہ  رحمہ اللہ  نے بھی اسے صحیح کہا اور امام اسحاق المروزی رحمہ اللہ  ’’مسائل الإمام أحمد‘‘  ص 5  پر لکھتے ہیں میں نے امام احمد سے پوچھا: کیا کوئی شخص بغیر وضوء کے قرآن پڑھ لے؟ کہا: ہاں لیکن مصحف میں سے نہ پڑھے جب تک وضوء نہ کرلے۔ اسحاق کہتے ہيں، جیساکہ فرمایا: کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے یہ فرمان صحیح طور پر ثابت ہے کہ: ’’لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ ‘‘ اسی طرح سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اور تابعین عظام  رحمہم اللہ  کا فعل بھی۔

[8] صحیح مسلم 300۔

[9] صحیح مسلم 374۔

[10] صحیح ابی داود 17۔

ترجمہ وخلاصہ: طارق بن علی بروہی