
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جو اپنی جلالت وبقاء ، عظمت وکبریائی اور لازوال عزت وشان میں متفرد ہے، واحد اور احد، رب وصمد ہے۔ ایسا مالک ہے کہ جو کسی کا محتاج نہيں۔ تمام اوہام سے بالاتر۔ ایسا عظیم وجلیل کہ جس کا ادراک عقول وافہام نہیں کرسکتے۔ اپنی ذات کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوقات سےغنی ۔ پس جو کوئی بھی اس کے سوا ہے وہ ہمیشہ اس کی جناب میں فقیر ہے۔ جسے چاہتا ہے اسے توفیق دیتا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائے اور اس پر استقامت اختیار کرے۔ پھر وہ اپنے مولیٰ کے ساتھ مناجات کی لذت پاتا ہےتو لذتِ نیند کو چھوڑ دیتا ہے۔ اوروہ ان کا ساتھی بن جاتا ہے کہ جن کے پہلو رات میں اپنے بستر سے جدا رہتے ہیں تاکہ کوئی مقام حاصل کرلیں۔ اگر آپ ان کو دیکھیں گے تو پورا قافلہ رات کی تاریکی میں سوتا ہوگا اور یہ جاگتے ہوں گے کوئی اپنی غلطیوں وکوتاہیوں کی معافی مانگتا ہوگا، کوئی اپنی تکلیف کی شکایت کرتا ہوگا، اور کسی کو اس کے ذکر نے دعاء طلب کرنے سے مشغول کردیا ہوگا۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے انہیں جگایا جب کہ لوگ سورہے ہوتے ہیں۔ اور بابرکت ہے وہ ذات جو بخشتی اور درگزر کرتی ہے، اور پردہ پوشی کرتی ہے اور کافی ہوجاتی ہے، اور ان سب پر اپنے انعامات نچھاور کرتی ہے۔ میں اس کی پے پایاں نعمتوں پر اس کی حمد بیان کرتا ہوں، اور اس کاشکر ادا کرتا ہوں، اور اس سے نعمت اسلام کی حفاظت کی دعاء کرتاہوں۔ اور میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ جس نے اس پر ایمان لاکر عزت حاصل کی اسے عزت حاصل ہوگی اور اس پر کوئی ظلم نہ ہوگا، اور جس نے اس کی اطاعت سے تکبر کیا اور گناہوں میں ملوث ہوا تو ذلیل ہوگیا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں کہ جنہوں نے حلال اور حرام واضح فرمائے۔ آپ پر درود وسلام ہو اور آپ کے دوست وساتھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر جو غار میں بہترین رفیق تھے، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پر جنہیں صواب بات کی توفیق دی گئی، اور ثمان غنی رضی اللہ عنہ پر جنہوں نے آزمائشوں پر صبر کیا اور دشمنوں کے ہاتھوں عظیم شہادت کا جام نوش فرمایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر اور تمام صحابہ اور جنہوں نے تاقیام قیامت ان کی اتباع کی ان تمام پر سلامتی ہو۔
میرے بھائیو! آپ پر رمضان کا آخری عشرہ سایہ فگن ہوگیا ہےاس میں بہت خیر اور اجر کثیر پنہاں ہے۔ اور اس کے فضائل مشہور اور خصائص بھی مذکور ہیں۔
چنانچہ اس کے خصائص میں سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں دیگر عشروں کے مقابلے میں زیادہ محنت فرماتے۔ صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
’’يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ‘‘([1])
(اس آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے جتنی اس کے علاوہ میں نہیں کرتے تھے)۔
جبکہ صحیحین میں آپ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ:
’’إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، شَدَّ مِئْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ‘‘([2])
(جب آخری عشرہ رمضان کا داخل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبادت کے لیےتہہ بند کس لیتے اور اس کی راتوں کو خود بھی جاگتےاور گھر والوں کو بھی جگاتے)۔
اور آپ رضی اللہ عنہا ہی سے مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
’’يَخْلِطُ العِشْرين بصلاةٍ ونومٍ فإذا كان العشرُ شمَّر وشدَّ المِئزرَ‘‘([3])
(رمضان کے ابتدائی بیس ایام میں نماز اور نیند کو مخلوط رکھتے تھے، لیکن جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو چوکس ہوجاتے اور تہہ بند کس لیتے)۔
پس ان احادیث میں اس عشرے کی فضیلت کی دلیل اس طور پر ثابت ہوتی ہے کہ:
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں اتنی محنت کرتے تھے جتنی کسی اور ایام میں نہيں کرتے۔ اور یہ محنت ہر عبادت کو شامل ہے چاہے نماز ہو، یا تلاوت قرآن، ذکر وصدقہ وغیرہ۔
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا تہہ بند کس لیتے یعنی اپنی عورتوں سے الگ رہتےتاکہ نماز اور ذکر کے لیے اپنے آپ کو فارغ رکھیں۔
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پوری رات اپنے رب کی عبادت، قرأت، اور ذکر میں شب بیداری فرماتے۔
ان راتوں کے شرف وفضیلت کے پیش نظر اور شب قدر کو حاصل کرنے کے لیےاپنے دل، زبان اور جوارح سے ذکر فرماتے ۔ وہ شب قدر کہ جو اس میں ایمان اور ثواب کی امید میں قیام کرتا ہے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔اس حدیث کا ظاہر یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری رات اپنے رب کی عبادت، ذکر، قرأت، نماز، ان عبادتوں کی تیاری اور سحری وغیرہ میں شب بیداری فرماتے۔ اس طرح سے اس حدیث اور صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں موافقت ہوجاتی ہے کہ جس میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں:
’’ما أعْلَمُهُ صلى الله عليه وسلّم قَامَ ليلةً حتى الصباحِ‘‘([4])
(میں نہیں جانتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی پوری رات صبح تک قیام کیا ہو)۔
کیونکہ مکمل شب بیداری اس آخرے عشرے میں ثابت ہے مگر اس میں قیام اور دیگر انواع کی عبادات ساتھ ہوا کرتی تھیں جس چیز کی آپ رضی اللہ عنہا نے نفی فرمائی ہے وہ پوری رات کو فقط قیام میں گزارنا ہے۔ واللہ اعلم۔
اور ان احادیث سے جو بات اس عشرے کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں اپنے گھر والوں کو جگاتے تاکہ وہ نماز پڑھیں، ذکر کریں اور ان مبارک راتوں کو غنیمت جانیں کہ یہ راتیں اس لائق ہے کہ جسے اللہ تعالی اس کی توفیق عنایت فرمائے تو وہ اپنی عمر اور فرصت کے ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے ان میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرے۔ کسی عقل مند مومن کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ خود اور اپنے گھر والوں سےیہ قیمتی فرصت کے اوقات فوت کروادے۔ یہ محض کچھ گنتی کی راتین ہیں جن میں مولیٰ کریم اسے یہ تحفہ عنایت فرمادے جو اس کی دنیا وآخرت کی ابدی سعادت کا باعث بن جائے۔ اور یہ بہت بڑی اور عظیم محرومی اور کھلا خسارہ ہے کہ ہم بہت سے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ان قیمتی اوقات کو ایسی باتوں میں گزارتے ہیں جو انہیں فائدہ نہيں پہنچاتی۔ وہ رات کا اکثر حصہ بے کار کھیل تماشوں میں گزار دیتے ہیں۔ اور جب قیام کا وقت آتا ہے تو اس سے سو جاتے ہیں اور اپنے نفس کو خیرکثیر سے محروم رکھتے ہیں حالانکہ یہ نہیں جانتے شاید اس سال کے بعد دوبارہ کبھی انہیں اس کا موقع ہی نہ ملے۔ اور یہ شیطان کا ان کے ساتھ کھیلنا ہے، اس کا مکر ہے، اور انہیں اللہ تعالی کی راہ سے روک کر گمراہ کرنا ہے۔فرمان الہی ہے:
﴿اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ﴾
(میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں لیکن ہاں جو گمراہ لوگ تیری پیروی کرتے ہیں انہی پر تیرا زور چلتا ہے)
(الحجر: 42)
اور عاقل انسان اللہ تعالی کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست نہیں بناتاجبکہ اسے اس کی عداوت کا علم بھی ہے۔ چنانچہ یہ تو عقل اور ایمان دونوں کے خلاف ہے۔فرمان الہی ہے:
﴿اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا﴾
(کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے، ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے)
(الکہف: 50)
اور فرمایا:
﴿اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا ۭ اِنَّمَا يَدْعُوْ احِزْبَهٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ﴾
(بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی جانو، وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں)([5])
(فاطر: 6)
اس عشرے کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اور اعتکاف کا معنی ہے اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے مسجدمیں ٹکے رہنا۔ اور یہ ثابت شدہ سنت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ﴾
(اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو)
(البقرۃ: 187)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اعتکاف فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ y نے آپ کے ساتھ بھی اور آپ کے بعد بھی اعتکاف فرمایا۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانے عشرے میں پھر فرمایا:
’’إِنِّي اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ أَلْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ، ثُمَّ أُتِيتُ فَقِيلَ لِي: إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَعْتَكِفَ فَلْيَعْتَكِفْ‘‘([6])
(میں نے پہلے عشرے میں شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کیا، پھر درمیانے عشرے میں اعتکاف کیا، پھر مجھے یہ رات د ےدی گئی اور مجھ سے کہا گیا کہ یہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ پس تم میں سے جو اعتکاف کرنا چاہے تو وہ (اس آخری عشرے میں ) اعتکاف کرے)۔
صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ‘‘([7])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں وفات دی)۔
اور آپ رضی اللہ عنہا سے ہی صحیح بخاری میں روایت ہے کہ:
’’كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَعْتَكِفُ فِي كُلِّ رَمَضَانَ عَشْرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا‘‘([8])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر رمضان دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح قبض کی گئی، اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا)۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَلَمْ يَعْتَكِفْ عَامًا، فَلَمَّا كَانَ فِي الْعَامِ الْمُقْبِلِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ‘‘([9])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سال اعتکاف نہیں فرماسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آئندہ سال بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا)۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں:
’’كان النبيُّ صلى الله عليه وسلّم إذا أرادَ أن يعتكفَ صلَّى الفجرَ ثم دخل مَعْتَكَفَهُ فاستأذنَته عائشةُ، فإذِنَ لها، فضربتْ لها خِبَاءً، وسألت حفصة عائشةَ أنْ تستأذن لها، ففعلتْ، فضربتْ خِبَاءً، فلما رأتْ ذلك زينبُ أمَرَتْ بخباءٍ فضُرِبَ لها، فلما رأى النبيُّ صلى الله عليه وسلّم الأخْبِيَة قال: ما هَذا؟ قالوا: بناءُ عائشةَ وحفصةَ وزينبَ. قال النبيُّ صلى الله عليه وسلّم: آلبِرَّ أردْنَ بِهذا؟ انْزعُوها فلا أراها. فنزعَتْ وترَك الاعتكاف في رمضانَ حتى اعتكف في العشر الأول من شوَالٍ‘‘([10])
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہوتے۔ آپ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اعتکاف کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ کو اجازت دے دی اور آپ رضی اللہ عنہا کا خیمہ بھی لگا لیا گیا۔ پھر حفصہ نے عائشہ رضی اللہ عنہما سے کہا اس کے لیے بھی اجازت طلب کرے پس انہوں نے کی اور ان کا بھی خیمہ لگادیا گیا، جب زینب رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے خیمے کا حکم دیا اور ان کے لیے بھی لگادیا گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنے خیمے لگے دیکھے تو پوچھا: یہ کیا ہے؟! بتایا گیا: یہ عائشہ، حفصہ اور زینب رضی اللہ عنہن کے خیمے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا اس سے یہ کوئی نیکی کا ارادہ رکھتی ہیں؟! انہیں اتار دو مجھے دکھائی نہیں دینے چاہیے۔ پس سب کا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی خیمہ اتار دیا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد میں شوال کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا)۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نہيں جانتا کہ کسی عالم نے اعتکاف کے مسنون ہونے میں اختلاف کیا ہو۔ اور اعتکاف سے مقصود یہ ہے کہ انسان لوگوں سےکٹ کر اپنے آپ کو اطاعت الہی کے لیے اور اللہ تعالی کے فضل وثواب اور شب قدر کو چاہتے ہوئےمسجدوں میں سےکسی مسجد میں ٹک کر پابند کرلے۔ اسی لیے اعتکاف کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ذکر، قرأت، نماز اور عبادت میں مشغول رکھے اور لایعنی دنیاوی باتوں سے اجتناب کرے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ مصلحت کے پیش نظر تھوڑی بہت مباح باتیں اپنی اہلیہ وغیرہ سے کرلے۔ کیونکہ اس بارے میں صفیہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے فرمایا:
’’كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا، فَحَدَّثْتُهُ ثُمَّ قُمْتُ لِأَنْقَلِبَ، فَقَامَ مَعِيَ‘‘([11])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف میں ہوتے تو میں ایک رات ان کی زیارت کو گئی کچھ باتیں کیں پھر واپس لوٹنے کے لیے کھڑی ہوئی (یعنی گھر جانے لگی) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے چھوڑنے کے لیے میرے ساتھ کھڑے ہوگئے)۔
اعتکاف کرنے والے کے لیے جماع اور اس سے متعلقہ باتیں حرام ہیں جیسے شہوت کے ساتھ بوس وکناروغیرہ، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ﴾
(اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو)
(البقرۃ: 187)
البتہ جہاں تک مسجد سے نکلنے کا تعلق ہے تو اگر بدن کا کچھ حصہ باہر نکلا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے فرمایا:
’’كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يُخْرِجُ رَأْسَهُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ، فَأَغْسِلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ‘‘([12])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر مبارک مسجد سے باہر نکالتے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کی حالت میں ہوتے تو میں اسے دھوتی جبکہ میں حیض کی حالت میں ہوتی)۔
اور دوسری روایت میں ہے:
’’أَنَّهَا كَانَتْ تُرَجِّلُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَهِيَ حَائِضٌ، وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فِي الْمَسْجِدِ، وَهِيَ فِي حُجْرَتِهَا يُنَاوِلُهَا رَأْسَهُ‘‘([13])
(آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر میں کنگی کرتیں جبکہ آپ رضی اللہ عنہا حیض کی حالت میں ہوتیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کی حالت میں ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرے کے اندر ہی اپنا سرمبارک داخل فرماتے اور آپ رضی اللہ عنہا کنگی فرماتیں)۔
اور اگر پورا جسم باہر نکل جائے تو اس کی تین اقسام ہیں:
اول: ایسے کام کے لیے نکلنا جو طبعاً یا شرعاً ضروری ہوجائے جیسے قضائے حاجت، واجب غسل جنابت یا اس کے علاوہ غسل، یا کھانے پینے کے لیے تو یہ جائز ہےبشرطیکہ ان کا مسجد میں کرنا ممکن نہ ہو، کیونکہ اگر انہیں مسجد میں کرنا ممکن ہو تو باہر جانا جائز نہیں۔ یعنی ممکن ہے مسجد میں ہی حمام ہو جہاں وہ قضائے حاجت بھی کرسکتا ہو اور غسل بھی، یا پھر کوئی ہو جو اس کے لیے کھانا پینا لے کر آئے تو اس صورت میں وہ نہیں نکلے گا کیونکہ اسے حاجت نہيں۔
دوم: کسی نیکی واطاعت کے کام کے لیے نکلنا جو اس پر واجب نہیں جیسے مریض کی عیادت، جنازے میں شرکت وغیرہ تو وہ ایسا نہ کرے الا یہ کہ اس نے اپنے اعتکاف کی ابتداء میں یہ شرط لگا رکھی ہو مثلاً اس کے گھر پر کوئی مریض ہو جس کی عیادت اسے پسند ہو یا اس کی موت کا خدشہ ہو تو وہ اپنے اعتکاف کی ابتداء میں یہ شرط لگا لے کہ میں اس کام کے لیے نکلو گا تو پھر کوئی حرج نہیں۔
سوم: ایسے کام کے لیے نکلنا جو اعتکاف کے منافی ہو جیسے خرید وفروخت یا اپنی اہلیہ سے جماع ومباشرت وغیرہ۔تو ایسا نہ کرے نا شرط کے ساتھ اور نہ بلاشرط۔ کیونکہ یہ اعتکاف کو توڑ دینے والی باتیں ہیں اور اس کے مقصود کے منافی ہیں۔
اور اس عشرے کے خصائص میں سے ہے کہ اس میں شب قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ پس اللہ تعالی آپ پر رحم کرے اس عشرے کی فضیلت کو پہچانو اور اسے ضائع نہ کرو۔ یہ وقت بہت قیمتی ہے اور اس کی خیر وبرکت بالکل ظاہر وواضح ہے۔
اے اللہ ہمیں اس بات کی توفیق دے جس میں ہمارے دین اور دنیا کی فلاح ہو۔ اور ہمارے تمام معاملات میں انجام بخیر فرما اور ہمیں بہترین ٹھکانہ نصیب فرما۔ اور ہمیں اور ہمارے والدین اور تمام مسلمانوں کو اپنے رحمت سے بخش دے یا ارحم الراحمین۔
وصَلَّى الله وسلّم على نبيِّنا محمدٍّ وآلِهِ وصحبِه أجمعين.
[1] صحیح مسلم 1177۔
[2] صحیح بخاری 2024، صحیح مسلم 1176۔
[3] مسند احمد 24574۔
[4] صحیح مسلم 748 کے الفاظ ہیں: ’’وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَامَ لَيْلَةً حَتَّى الصَّبَاحِ‘‘ (مترجم)
[5] شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:اس عشرے کے خصائص میں سے ہے کہ اس میں قیام اللیل میں خصوصی محنت کی جائے طویل قیام، رکوع وسجود اور قرأت کی جائے اور ساتھ ہی اپنے اہل واولاد کو بھی جگایا جائے تاکہ وہ مسلمانوں کے اس شعیرے اور اجر میں شریک ہوں اور ان کی تربیت عبادت الہی اور ان دینی مناسبات کی تعظیم میں ہو۔ بہت سے لوگ اپنی اولاد سے بالکل غافل رہتے ہیں اور انہیں یونہی سٹرکوں پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ کھیل تماشوں اور فضولیات میں رات کو گزار دیں اور ان راتوں کا کوئی احترام نہ کریں اور نہ ہی ان کے دلوں میں اس کی کوئی قدرومنزلت ہو۔ اور یہ بری ترتیب کا نمونہ ہے، اور واضح محرومی وکھلا خسارہ ہے کہ یہ راتیں آئیں اور یونہی چلی جائیں جبکہ لوگ اس سے غفلت میں منہ پھیرے ہوں۔ نہ اس کا اہتمام کریں نہ اس سے مستفید ہوں۔ ساری رات یا اس کا غالب حصہ ایسی باتوں میں گزار دیں جن میں کوئی فائدہ نہيں یا محدود سا فائدہ ہے جسے اس کے علاوہ اوقات میں بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ راتیں جن کاموں کے لیے مخصوص ہیں انہیں معطل کردیتے ہیں۔ اور جب وقت قیام آتا ہے تو اس سے سوئے پڑے ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خیر کثیر سے محروم کرتے ہيں۔ ہوسکتا ہے انہیں اگلے سال یہ نصیب ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ اپنے ذمے، اپنے اہل اور اولاد کے ذمے یہ عظیم بوجھ لادھ رہے ہیں اور ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ان میں سے کوئی کہہ سکتا ہے رات کو قیام کرنا نفلی عمل ہے میرے لیے فرائض کی محافظت کرنا ہی کافی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی قسم کے لوگوں کے متعلق فرمایا تھا کہ:
’’ذَكَرَ عِنْدَهَا قَوْمٌ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ إِذَا أَدُّوا الْفَرَائِضَ لا يُبَالُونَ أَنْ يَتَزَيَّدُوا، فَقَالَتْ: لِعَمْرِي لا يَسْأَلُهُمُ اللَّهُ إِلا عَمَّا افْتُرِضَ عَلَيْهِمْ وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ يُخْطِئُونَ بِالنِّهَارِ، وَإِنَّمَا أَنْتُمْ مِنْ نَبِيِّكُمْ، وَنَبِيُّكُمْ مِنْكُمْ فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ‘‘ (مسند الشامیین للطبرانی 1916)
(مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بعض لوگ کہتےہيں ہم نے فرائض ادا کردیے اب ہمیں کوئی پرواہ نہیں کہ ہم اس پر دیگر اعمال کا اضافہ کریں۔ میری عمر کی قسم! اگرچہ اللہ تعالی ان سے صرف ان ہی چیزوں کا سوال کرے گا جو ان پر فرض کی ہیں، لیکن ان لوگوں کی حالت تو یہ ہے کہ دن رات گناہ کرتے رہتے ہیں۔ تم اپنے نبی میں سے ہی تو ہو اور تمہارے نبی تمہی میں سے تو ہیں۔ میں نے تو کبھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیام اللیل ترک کرتے نہیں دیکھا)۔
(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے – الحث على زيادة الاجتهاد في الأعمال الصالحة في العشر الأخيرة من رمضان) (مترجم)
[6] صحیح مسلم 1168۔
[7] صحیح بخاری 2026، صحیح مسلم 1175۔
[8] صحیح بخاری 2044۔
[9] صحیح ترمذی 803 عن انس بن مالک، صحیح ابی داود 2463 وصحیح ابن ماجہ 1445 عن ابی بن کعب۔
[10] صحیح بخاری 2045، صحیح مسلم 1176۔بخاری کے الفاظ ہیں: ’’أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذَكَرَ: أَنْ يَعْتَكِفَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، فَاسْتَأْذَنَتْهُ عَائِشَةُ فَأَذِنَ لَهَا، وَسَأَلَتْ حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَسْتَأْذِنَ لَهَا، فَفَعَلَتْ، فَلَمَّا رَأَتْ ذَلِكَ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ أَمَرَتْ بِبِنَاءٍ فَبُنِيَ لَهَا، قَالَتْ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِذَا صَلَّى انْصَرَفَ إِلَى بِنَائِهِ فَبَصُرَ بِالْأَبْنِيَةِ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: بِنَاءُ عَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، وَزَيْنَبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : آلْبِرَّ أَرَدْنَ بِهَذَا، مَا أَنَا بِمُعْتَكِفٍ فَرَجَعَ، فَلَمَّا أَفْطَرَ، اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ‘‘۔ (مترجم)
[11] صحیح بخاری 3281، صحیح مسلم 2177۔
[12] صحیح بخاری 2031۔
[13] صحیح بخاری 2046۔
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجالس شهر رمضان (المجلس الحادي والعشرون – في فضْل العشر الأخيرة من رمَضانُ)۔