دوسرے علاقے میں قربانی کروانے کے سبب چھ عظیم محرومیاں – شیخ محمد بن صالح العثیمین

Six great deprivations due to sacrificing outside of one’s residence area – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قربانی کے جانور کو ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ان افضل ترین اعمال میں سے ہے جن سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے لیے قربانی کرنے اور اس کے لیے نماز ادا کرنے کو ساتھ جمع فرمایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ 

(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو)

(الکوثر: 2)

اور اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ 

( کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے)

(الانعام: 162)

پس قربانی کے جانور کو ذبح کرنا بنفسہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے جس سے مقصد ہر چیز سے پہلے اللہ تعالی کی عبادت ہونا چاہیے، اسی وجہ سے اس کی بہت سی حرمات ہیں۔

اے مسلمانو! بعض بھائی جو خیر سے محبت تو کرتے ہیں مگر قربانی سے مقصود فقراء کو گوشت سے فائدہ پہنچانا سمجھتے ہیں، اسی وجہ سے وہ ایسے پمفلٹ وغیرہ تقسیم کرتے ہیں جس میں لوگوں سے پیسہ لے کر ان کی قربانی افغانستان  وغیرہ جیسے غریب ملکوں میں کروانے کی ترغیب ہوتی ہے۔

میرا یہی خیال ہے کہ ان کا ارادہ خیر کا ہی ہوتا ہے، لیکن خیر کو چاہتے ہوئے انہوں نے یہ اجتہاد کیا اور اس اجتہاد میں وہ غلطی کرگئے۔ اس شخص پر جو خیر کا ارادہ رکھتا ہو جو چیز واجب ہے وہ یہ کہ وہ اپنے اس ارادے کو شرعی قواعد پر مبنی کرے تاکہ نہ خود گمراہ ہو اور نہ دوسروں کو گمراہ کرے۔ دین اسلام جذبات پر مبنی نہیں، اور نہ ہی خواہش نفس کی پیروی پر:

﴿وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاءَهُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ﴾ 

(اگر حق ان کی خواہش نفس کی پیروی کرنے لگ جائے تو زمین، آسمان اور جو کچھ ان کے مابین ہے سب میں فساد برپا ہوجائے)

(المؤمنون: 71)

دین اسلام ایسے قوا‏عد پر مبنی ہے جو اتنہائی ٹھوس، عظیم اور پائیدار ہیں، جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں وارد ہوئے ہیں۔ پس اس اپیل بلکہ اس اشتہار بازی  کے سبب قربانی کے عظیم تر مقاصد فوت ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت کروں گا اس اشتہار بازی کو ہرگز قبول نہ کریں، اور نہ ہی کوئی پیسہ کسی کو دیں کہ وہ آپ کے طرف سے افغانستان  وغیرہ میں قربانی کرے، بلکہ آپ بذات خود اپنے شہر میں ہی قربانی کیجیے۔

اگر آپ ان غریب ممالک کو کچھ فنڈز دینا چاہتے ہیں تو اس کا دروازہ تو بہت وسیع ہے۔ خیرات کرنے کا دروازہ تو کھلا ہے آپ جس پر چاہیں خیرات کیجیے۔

البتہ جو دینی شعائر ہیں ان کی تعظیم واحترام واجب ہے۔

اے مسلمانو! قربانیوں کو دوسرے علاقوں میں ادا کروانے کے سبب بہت سی مصلحتیں فوت ہوجاتے ہیں (جن میں سے چھ عظیم مصلحتیں مندرجہ ذیل ہیں) :

1- اس کی وجہ سے شعائر اللہ میں سے ایک شعیرہ کا اظہارکرنا فوت ہوتا ہےجو کہ قربانی ہے، کیونکہ اس  وجہ سے یہ شعیرہ بعض گھروں میں معطل ہوجائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ اس میں اور بھی وسعت ہوتی جائےاور بہت سے گھر اس شعیرے کو معطل کردیں۔ یہ بات معلوم ہے کہ قربانی شعائر اللہ میں سے ہے اور یہ محض گوشت سے فائدہ اٹھانے کا نام نہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ 

(اللہ تعالی کو تمہاری (قربانی) کا نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے)

(الحج: 37)

اورنبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی اور گوشت میں فرق فرمایا، پس آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسْكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ‘‘([1])

(جو ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھے اور پھر قربانی کرے تو تحقیق اس نے قربانی کو پالیا، لیکن جس نے عید نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ محض  بکری (یا قربانی کے جانور) کا گوشت ہے

 تو ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں نے عید نماز پر نکلنے سے پہلے ہی قربانی کردی، تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ‘‘([2])

(یہ تو محض بکری کا گوشت ہی ہے )یعنی قربانی نہیں ہوئی۔

اور یہ بات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ‘‘([3])

(جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اس کی قربانی مکمل ہوئی، اور اس نے مسلمانوں کی سنت پالی)۔

پس آپ اس بات پر غور کریں کہ کس طرح نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ‘‘

(اس نے مسلمانوں کی سنت پالی)۔

تاکہ آپ پر یہ واضح ہوجائے کہ مسلمانوں کی قربانی کا یہی طریقہ ہے۔

اور قربانی شعائر اللہ میں سے ایک شعیرہ ہے، اور مندرجہ بالا آیت اور احادیث واضح دلیل ہے اس بات پر کہ قربانی سے مقصود محض اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانا نہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو نماز سے پہلے ذبح کرنے والے اور نماز کے بعد ذبح کرنے والے میں کوئی فرق نہ ہوتا۔

اور یہ بات بھی اس کی دلیل ہے کہ قربانی چوپایوں میں سے مخصوص نوع کے جانوروں ہی کے ساتھ خاص ہے اور وہ اونٹ، گائے اور بکری (بھیڑ، دنبہ) ہیں۔ اور یہ بعض شروط کے ساتھ مقید ہے جیسے جانور کا مخصوص عمر کو پہنچنا اور مختلف عیوب سے سلامت ہونا، اور اسے قربانی کے ایام میں ہی ہونا چاہیے۔  پس اگر اس سے مقصود محض گوشت سے فائدہ اٹھانا ہوتا تو تمام حلال جانوروں کی قربانی کفایت کرتی جیسے مرغی یا ہرن ، اور اسی طرح چھوٹی عمر کے چوپایوں کی بھی کفایت کرتی اور جانور کے کسی عضوء کی بھی کافی ہوتی۔

چنانچہ اے مسلمانو! قربانی کی اسلام میں بڑی شان ہے، اسی وجہ سے اس کے لیے حرمات مقرر کی گئی ہیں۔ لہذا جو کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں، ناخنوں اور جلد میں سے کچھ بھی نہ کاٹے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس سے منع فرمایا ہے، اگر محض گوشت کا صدقہ ہی کرنا مقصود ہوتا تو اس کی یہ کچھ حرمات نہ ہوتیں، کیونکہ اگر کوئی انسان بھلے ملین درہم (لاکھوں کروڑوں روپے) یا ملین بکریاں، اونٹ اور گائے صدقہ کرنا چاہتا ہے تب بھی اس پر حرام نہیں کہ وہ اپنے بالوں، ناخنوں یا جلد کی تراش خراش کرے۔

قربانی ایک عبادت ہے جو بذاتہ مقصود ہے۔ میں یہاں ایک حکم بیان کرنے کے لیے ذرا ٹھہروں گا اور وہ یہ کہ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں، ناخنوں یا جلد میں سے کچھ نہ کاٹے، البتہ اس کے گھر والے انہیں شرعی حدود میں رہتے ہوئے تراش خراش سکتے ہیں، انہیں اس سے منع نہیں کیا گيا، کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے صرف اسے منع فرمایا ہے جو قربانی کاارادہ رکھتا ہو، اور اس لیے بھی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خود اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی فرمایا کرتے تھے، مگر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے یہ بات منقول نہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے گھر والوں کو ان چیزوں کی تراش خراش سے منع فرمایا ہو۔

2- قربانی کو اپنے علاقے سے باہر کروانے سے جو دوسری مصلحت فوت ہوتی ہے وہ قربانی کرنے والے کا اپنی قربانی کے ساتھ ہونا ہے۔ کیونکہ سنت تو یہی ہے کہ قربانی کرنے والا اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے اور سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے قربانی کرے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ جو ذبح کرنے میں مہارت نہ رکھتا ہو تو وہ کم ازکم ذبح کے وقت وہاں (ضرور) حاضر ہو۔

3-  قربانی کو اپنے علاقے سے باہر کروانے سے جو تیسری مصلحت فوت ہوتی ہے وہ قربانی کرنے والے کا اپنے دل میں اللہ تعالی کی عبادت کرنے کے شعور کا فقدان ہے، کیونکہ ذبح کرنا بذات خود ایک عظیم عبادت ہے جسے اللہ تعالی نے نماز کے ساتھ بیان فرمایا:

﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ 

(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو)

(الکوثر: 2)

اور اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ 

(کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے)

(الانعام: 162)

پس کہاں ہے وہ تعبد (عبادت کا شعور) اس شخص کا جس نے اپنی قربانی اپنے شہر سے باہر کروائی، نہ اسے دیکھا، اور نہ ہی بنفس نفیس اس کے ساتھ رہا؟ اگر قربانی مشرق یا مغرب میں ذبح کی جائے تو پھر کہاں ہے وہ تعبد جو دل کو حاصل ہوتا ہے ؟

4- قربانی کو اپنے علاقے سے باہر کروانے سے جو چوتھی مصلحت فوت ہوتی ہے وہ قربانی کرنے والے کا ذبیحہ پر اللہ تعالی کا نام ذکر کرنا ہے، جبکہ اللہ تعالی نے قربانی پر اپنا نام ذکر کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاىِٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ﴾ 

(قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے  شعائراللہ مقرر کردیے ہیں، ان میں تمہیں نفع ہے، پس ان پر اللہ تعالی کا نام لو اس حال میں کہ گھٹنا بندھے (نحر کے لیے) کھڑے ہوں)

(الحج: 36)

اور فرمایا:

﴿وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۭ  فَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗٓ اَسْلِمُوْا﴾ 

(اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ تعالی کا نام لیں جو اللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہیں۔ تو سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے لہذا تم اسی کے تابع فرمان ہوجاؤ)

(الحج: 34)

اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی کو ذبح کرنا اور اس پر اللہ تعالی کا نام لینا ایسی عبادت ہے جو بذات خود مقصود ہے، اور یہ اللہ تعالی کی توحید اور مکمل طور پر اس کے لیے سرتسلیم خم کرنے میں سے ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہی مقصود فقیر کا اس سے فائدہ اٹھانے سے بھی کئی گنا زیادہ عظیم ہو۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ جو اسے اپنے شہر سے باہر کروائے گا اسے یہ عظیم ترین شعور حاصل نہ ہوپائے گا جو اللہ تعالی کی توحید اور اس کے لیے سرتسلیم خم کرنے کی تکمیل میں سے ہے۔

5- قربانی کو اپنے علاقے سے باہر کروانے سے جو پانچویں مصلحت فوت ہوتی ہے وہ اس ذبیحہ میں سےکھانا ہے۔ کیونکہ قربانی کرنے والے کو یہ حکم یا تو واجب یا پھر مستحب کے طور پرہے کہ اس میں سے  کھائے کیونکہ اس (کے وجوب یا استحباب کے) بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے، بلکہ اللہ تعالی نے تو اس میں سے کھانے کو فقیر کے کھلانے پر مقدم رکھا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ 

(پس تم خود بھی کھاؤ اور بدحال فقیروں کو بھی کھلاؤ)

(الحج: 28)

اور فرمایا:

﴿فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ﴾ 

(پھر جب ان (قربانی کے جانوروں) کے پہلو زمین پر لگ جائیں تو اسے خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ)

(الحج: 36)

اور یہ بات معلوم ہے کہ اسے اپنے شہر سے باہر کروانے کی صورت میں اس میں سے کھایا نہیں جاسکتا۔ پس اپنے شہر سے باہر قربانی کروانے والا اپنے اس فعل کے سبب اللہ تعالی کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اور ان علماء کرام  کے نزدیک جو اس کے وجوب کے قائل ہیں وہ گنہگار بھی ہے۔

6- اور اگر قربانی وصیت کی گئی ہو، تو اس کی نقل مکانی سے چھٹی مصلحت فوت ہوتی ہے اور وہ ہے وصیت کرنے والے کا مقصود۔ کیونکہ وصیت کرنے والا جس وقت وہ وصیت کررہا تھا اس کے وہم وگمان میں یہی تھا کہ اس قربانی سے اس کی اولاد اور رشتہ دار استفادہ حاصل کریں گے، اور وہ خود ہی اسے انجام دیں گے۔ ان کے تو یہ وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی قربانی کو کسی دوسرے قریب یا دور کے شہر میں منتقل کردیا جائے گا۔ پس وصیت کی قربانی کو کہیں اور کرنے سے وصیت کرنے والے کے مقصود کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔

قربانی کو کسی دوسرے شہر میں کروانے سے ان مصلحتوں کے فوت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑی خرابی بھی پیدا ہوتی ہےاگر زیادہ غوروفکر کیا جائے تو یہ خرابی واقعی بہت بڑی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ لوگ مالی عبادات کو محض اقتصادی نظریہ سے دیکھتے ہیں، یا پھر عبادت کے بہت ناقص اعتبار سے دیکھتے ہیں یہ سمجھتے ہوئے کہ اس سے محض یہ فائدہ ہے کہ کسی غیر سے احسان کیا جائے۔

جبکہ ان مالی عبادات سےسب سے بڑا فائدہ  اللہ تعالی کی عبادت، اس کی رضا کا حصول اور اس کا تقرب حاصل کرنا ہے وہ اس طرح کہ انسان یہ شعور رکھے کہ وہ اپنے اس فعل سے اللہ تعالی کی عبادت اور اس کا تقرب حاصل کررہا ہے ناکہ محض وہ اپنے غریب مسلمان بھائی پر احسان کرکے نفع پہنچا رہا ہے۔ کیونکہ مالی عبادت جو متعدی (جس کا فائدہ دوسرے انسانوں تک پہنچتا ہو) ہوتی ہیں اس کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو اللہ تعالی کی عبادت ہے، اور دوسرا پہلو غیر پر احسان کرنا ہے، اور جو اول پہلو ہے وہ دوسرے پہلو کے مقابلے میں ملحوظ رکھے جانے کے اعتبار سے زیادہ بڑا اور زیادہ حقدار ہے ۔

چنانچہ قربانی کو افغانستان یا کسی اور محتا ج ملک میں کروانے سے چھ بڑی مصلحتیں فوت ہوتی ہیں:

1-  اس سے شعائر اللہ میں سے ایک شعیرہ کا اظہار فوت ہوتا ہے۔

2-  اس سے قربانی کرنے والے کا خود اپنی قربانی کو ذبح کرنا یا اس کے ذبح کے وقت حاضر ہونا فوت ہوتا ہے۔

3-  اس سے قربانی کرنے والے میں  خود قربانی کرنے سے جو اللہ تعالی کی عبادت کا شعور پیدا ہونا چاہیے وہ فوت ہوتا ہے۔

4-  اس سے قربانی کرنے والے کا اپنی قربانی پر اللہ تعالی کا نام ذکر کرنا فوت ہوتا ہے۔

5- اس سے اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھانا جسے اللہ تعالی نے غریبوں کو کھلانے پر فوقیت دی فوت ہوتا ہے، اور بعض علماء کرام تو اس کے وجوب کے بھی قائل ہیں۔

6-  اگر قربانی کسی کی وصیت تھی تو اس سے وصیت کرنے والے کا ظاہر مقصود فوت ہوتا ہے۔

اور ان مصالح کے فوت ہونے کے علاوہ اس سے بہت بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ لوگ متعدی مالی عبادات کو محض اقتصادی نکتہِ نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ بے شک  اس کے عبادت کے پہلو میں خلل کا باعث ہوتا ہے۔

پس اے اللہ کے بندوں! میں آپ کو  اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، اور ہم کسی عمل میں پیش قدمی نہ کریں الا یہ کہ اسے کتاب وسنت کے ترازو  پر  پرکھیں تاکہ ہم اس میں اللہ تعالی کی طرف سے مکمل بصیرت، دلیل وبرہان پر قائم ہوں۔

اور میں آخر میں یہ کہوں گا جیسے میں نے ابتداء میں کہا: اپنے پیسے افغانستان وغیرہ میں قربانی کے لیے مت دیجیے، بلکہ اپنے ہی علاقے میں ذبح کیجیے، اپنے اہل وعیال کے سامنے، خود اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے ذبح کیجیے۔ جہاں تک معاملہ رہا افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک جو آپ کی امداد کے محتاج ہیں تو میں آپ کو اپنی مقدور بھر ان کی معاونت کی ترغیب دیتا ہوں۔

لہذا معاونت کرنا الگ چیز ہے اور عبادت علیحدہ چیز ہے، اور قربانی کرنا ایک عبادت ہے انسان کے لیے اس بارے میں کمی کوتاہی کاشکار ہونا جائز نہیں۔

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مجھے اور آپ کو ان میں سے کردے جو اس کی عبادت مکمل بصیرت کے ساتھ کرتے ہیں اور اس کی جانب مکمل بصیرت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: خطبہ جمعہ بعنوان “صفة الحج والعمرة، وفوائد الأضحية” سے ماخوذ


[1] صحیح بخاری 983۔

[2] ایضاً، حالانکہ اس صحابی کی بھی بہت اچھی نیت تھی فرمایا:

’’يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ نَسَكْتُ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الصَّلَاةِ وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ فَتَعَجَّلْتُ وَأَكَلْتُ وَأَطْعَمْتُ أَهْلِي وَجِيرَانِي‘‘

(اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!  اللہ کی قسم! میں نے تو نماز پر نکلنے سے پہلے ہی قربانی کردی!، میرا خیال تھا کہ آج تو کھانے پینے کا دن ہے لہذا  میں نے جلدی کی خود بھی کھایا اور اپنے اہل وعیال وپڑوسی کو بھی کھلایا)۔ (مترجم

[3] صحیح بخاری 5545۔