کیا ہم یوم عرفہ کا روزہ سعودی کے ساتھ رکھیں یا اپنے ملک کی 9 ذوالحج کے مطابق؟

Should we fast the day of ‘Arafah with Saudi or 9th Dhil-Hijjah in our country?

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہمارے ماضی قریب کے علماء کرام میں سے شیخ البانی  رحمہ اللہ ، فتوی کمیٹی سعودی عرب مع الشیخ ابن باز  رحمہ اللہ  اس بات کے قائل ہیں کہ عرفہ سعودی عرب میں جب حاجی وقوف عرفہ کرتے ہیں اس کے اعتبار سے ہوگا خواہ آپ کے ملک میں چاند کے حساب سے 8 ذوالحج ہی کیوں نہ ہو۔

جبکہ شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  کے دو اقوال میں سے غالباً آخری قول یہی ہے کہ ہر کوئی اپنے ملک کے اعتبار سے 9 ذوالحج کو روزہ رکھے۔ اللہ اعلم

شیخ محمد ناصر الدین البانی  رحمہ اللہ

بلکہ شیخ البانی  رحمہ اللہ  تمام مسلم ممالک کی ایک رؤیت ہلال کے قائل ہیں خواہ رمضان کی ہو یا ذوالحج وغیرہ کی، اس بارے میں آپ کے مختلف فتاوی دیکھے جاسکتے ہیں۔

جیسا کہ “تمام المنة” میں مسئلہ اختلاف المطالع کے تحت فرماتے ہیں:

مؤلف (سید سابق) نے اس عنوان کے تحت تین مذاہب ذکر فرمائے ہیں:

1- جمہور کا مذہب اور وہ ہے کہ اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان عام ہے:

“صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ”([1])

(اسے (چاند) دیکھ کر روزے شروع کرو اور اسے دیکھ کر عید مناؤ)۔

 جس کی تخریج آپ ارواء الغلیل 902 میں ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  وغیرہ کے طریق سے  دیکھ سکتے ہیں۔

2- ہر ملک کی اپنی رؤیت  ہوگی، دوسرے کی رؤیت ان پر لاگو نہیں ہوگی۔ اس بارے میں وہ ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کی صحیح مسلم ([2])والی حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں۔

3- جس ملک والے چاند دیکھیں ان پر اور جو بھی اس سے متصل اسی جہت و سمت میں ہیں ان پر بھی یہی رؤیت لازم ہوجائے گی۔

پھر مؤلف نے اس آخری مذہب کو اختیار کیا ہے یہ تعلیق کرتے ہوئے کہ:

یہی مشاہد ہے اور واقع و حقیقت حال کے موافق ہے۔

میں (البانی) یہ کہتا ہوں کہ:

یہ تو بہت عجیب وغریب سا کلام ہے۔ کیونکہ اگر یہ بات صحیح ثابت بھی ہوجائے کہ یہ مشاہد اور واقع کے موافق ہے، لیکن پھر بھی یہ کیسے ثابت ہوگا کہ یہ شریعت کے بھی موافق ہے؟!

کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جہات جیسے مطالع نسبی امور میں سے ہے جس کی کوئی مادی حدود نہیں کہ جو لوگوں پر واضح ہو اور وہ اس پر رک جائيں۔

دوسری بات واللہ! میں نہیں جانتا کہ مؤلف کو اس شاذ رائے کو اختیار کرنے پر کس چیز نے ابھارا۔ اور انہوں نے صحیح حدیث کے عموم کو لینے سے اعراض کیا، خصوصاً جبکہ یہ جمہور کا مذہب بھی جیسا کہ خود انہوں نے بھی ذکر کیا۔ اور اسے بہت سے محققین علماء نے اختیار کیا ہے جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے فتاوی جلد 25 میں، الشوکانی نے نیل الاوطار میں اور نواب صدیق حسن خان  رحمہم اللہ نے الروضۃ الندیۃ (1/224-225) وغیرہ میں۔

اور یہ حق ہے کہ جس کے سوا کوئی دوسری بات صحیح نہیں۔ اور ابن عباس  رضی اللہ عنہما  والی حدیث اس کے خلاف نہيں ان امور کی بنا پر جو امام شوکانی  رحمہ اللہ  نے ذکر فرمائے۔ جن میں سے قوی ترین شاید یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا:

بے شک ابن عباس  رضی اللہ عنہما  والی حدیث اس شخص کے متعلق ہے جو اپنے ملک کے حساب سے روزے رکھنا شروع کردے پھر رمضان کے درمیان اسے یہ بات پہنچے کہ کسی ملک والوں نے ان سے ایک دن پہلے روزے شروع کردیے تھے۔ تو اس حالت میں وہ اپنے روزے جاری رکھے اپنے ملک والوں کے ساتھ یہاں تک کہ تیس روزے پورے کرلے یا اس سے پہلے چاند نظر آجائے۔ لہذا اس طرح سے یہ اشکال زائل ہوجاتا ہے اور ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  والی حدیث اپنے عموم پر باقی رہتی ہے، جو ہر اس شخص کو شامل ہے جسے رؤیت ہلال کی خبر پہنچ گئی کسی بھی ملک یابراعظم سے اصلاً ہی بغیر  کسی مسافت کی تحدید کے، جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے اپنے فتاوی (25/157) میں فرمایا۔

اور یہ بات تو آج کے دور میں نہایت ہی آسان ہے جیسا کہ سب کو اس کا علم ہے۔ لیکن اس کے لیے اسلامی ممالک کو کچھ اہتمام کرنا ہوگا یہاں تک کہ اس بات کو واقعی حقیقت  کا روپ دے سکیں، ان شاء اللہ (یعنی سب مسلمان دنیا کے ایک ساتھ روزے رکھیں عید منائیں وغیرہ)

البتہ جب تک اسلامی ممالک اس پر جمع نہیں ہوتے تو میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ ہر ملک کی عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک کے ساتھ ہی روزے رکھیں، اور ان سے الگ ہوکر نہ رکھے کہ کچھ ان کے ساتھ رکھیں اور کچھ کسی اور کے، جہاں روزے ان سے پہلے یا بعد میں شروع ہوئے ہوں۔ کیونکہ اس میں ایک ہی ملک کی عوام میں اختلاف کا دائرہ وسیع ہوجائے گا۔جیسا کہ بعض عربی ممالک میں کچھ برسوں سے ہوتا آرہا ہے([3])۔ واللہ المستعان([4])۔اھ

سعودی فتوی کمیٹی وشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ

سعودی فتوی کمیٹی ہر ملک کی اپنی رؤیت کی قائل ہے، البتہ عرفہ کے بارے میں ان کا الگ فتوی ہے:

فتوی رقم 4052 پہلا سوال:

کیا ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم یوم عرفہ کے روزے کی وجہ سے یہاں دو دن روزہ رکھیں، کیونکہ ہم نے ریڈیو پر سنا کہ کل یوم عرفہ ہوگا (سعودی میں) جو کہ ہمارے یہاں 8 ذوالحج بنتا ہے؟

جواب: یوم عرفہ بس وہ دن ہے جس میں لوگ عرفہ میں کھڑے ہوتے ہیں، اور اس دن کا روزہ اس کے لیے مشروع ہے جو حج پر نہیں۔ پس اگر آپ روزہ رکھنا چاہیں تو آپ کو چاہیے کہ اس دن کا روزہ رکھیں۔ اور اگر آپ اس سے ایک دن پہلے بھی روزہ رکھ لیتے ہیں تو کوئی حرج نہيں۔ اور اگر آپ پورے نو دن ہی روزہ رکھیں یعنی ذوالحج کے شروع سے لے کر تو بھی اچھی بات ہے۔

کیونکہ یہ بہت شرف والے ایام ہیں جن میں روزہ رکھنا مستحب ہے۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ  فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘([5])

(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا  ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عضو                               الرئيس

عبد الله بن غديان          عبد العزيز بن عبد الله بن باز

(فتاوى اللجنة الدائمة >  عبادات  >  الصيام  >  أقسام الصيام  >  الصيام المستحب  >  صيام يوم عرفة لغير الحاج  > س1: هل نستطيع أن نصوم هنا يومين لأجل صوم يوم عرفة؛ لأننا هنا نسمع في الراديو أن يوم عرفة غدًا يوافق ذلك عندنا الثامن من شهر ذي الحجة؟)

شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ

سوال: حسین محمود اردنی جو کراچی ، پاکستان میں میڈیکل کے اسٹوڈنٹ ہیں سوال پوچھتے ہیں کہ مسلم ممالک کے مابین رمضان یا شوال میں روئیت ہلال کے اختلاف کا کیا حکم ہے۔ اور ایک مسلمان کیا کرے اگر اختلاف واقع ہوجائے جس کی وجہ سے کبھی دو دن تک کا فرق پڑ جاتا ہے۔ یعنی کبھی دو دن زیادہ یا دو دن کم۔ اب جو اپنے روزے مثلاً ایسے ملک میں شروع کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک سے دو دن پیچھے ہے پھر مہینے کے آخر میں وہ ایسے ملک کی طرف سفر کرجاتا ہے جو اس ملک سے دو دن آگے ہے جس کی وجہ سے اس ملک میں عید ان سے پہلے ہوگی تو یہ اس ملک میں پہنچنے والا کیا کرے گا؟ اسی طرح سے ذوالحج کے روئیت ہلال میں بھی فرق ہوتا ہے تو پھر یوم عرفہ کے تعلق سے ، اور جو اس سے پہلے(دن) ہے اور جو اس کے بعد (دن) ہے دونوں پر کیسے عمل ہوگا؟

جواب:  اس مسئلے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے:

ان میں سے بعض اس کے قائل ہیں کہ روئیت ہلال کی توحید ہو یعنی اگر کسی بھی ملک میں چاند نظر آجائے تو پوری دنیا کے مسلمانوں پر حکم ثابت ہوجاتا ہے چاہے مشرق میں ہوں یا مغرب میں۔ مثلاً اگر وہ سعودی عرب میں چاند دیکھ لیں تو تمام دنیا کے مسلمانوں پر اسی روئیت کا اعتبار کرتے ہوئے روزے شروع کرنا اور عید منانا واجب ہوجاتا ہے۔

جبکہ دوسرے اہل علم یہ کہتے ہیں کہ اس کا حکم عمل کے اختلاف کے ساتھ مختلف ہوتا ہے یعنی اگر ممالک مختلف ہوں اگر کسی ایک ہی حکومت کے تحت کسی جگہ چاند نظر آجائے اگرچہ وہ علاقے بہت دور دور ہوں تو اس ایک روئیت پر ہی عمل کرنا پورے ملک کے لیے ضروری ہے۔ البتہ دوسرے ممالک اس کے مطابق عمل نہيں کریں گے۔

بعض کی یہ رائے ہے کہ اس میں اختلاف مطالع ہلال کےاعتبار سے ہوگا یعنی اگر مطالع ہلال میں اختلاف ہو تو لازم نہيں کہ حکم میں اتفاق ہو۔ جبکہ اگر مطالع ایک سا ہو تو لازم ہے کہ حکم میں بھی اتفاق ہو۔ اگر کسی ملک میں چاند دکھے اور دوسرے ملک مطالع القمر میں اسی جیسا ہو تو ان پر بھی روزے لازم ہے اور اگر ان کا مطالع مختلف ہے تو لازم نہیں۔ دلیل اور تعلیل کے اعتبار سے یہی قول راجح ہے۔ دلیل یہ ہے کہ:

﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ 

(جو شخص اس مہینے کو پائے تو اسے چاہیے کے روزےرکھے)

(البقرۃ: 185)

 یعنی جو اس مہینے کو نہ پائے تو اس پر روزے لازم نہیں۔ اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا‘‘([6])

(جب تم اسے (چاند کو) دیکھو تو روزے رکھو، اور جب تم اسے دیکھو تو عید مناؤ)۔

پس اس شرطیہ جملے کا مفہوم ہے کہ اگر ہم اسے نہ دیکھیں تو ہم پر روزے لازم نہیں نہ ہی عید اور معنی و قیاس اس بات کا تقاضہ کرتا ہے جب ہم روزانہ کے سحری وافطاری کے اوقات میں اختلاف کو مانتے ہیں تو ماہانہ روزے شروع کرنے اور افطار (یعنی عید) کے اختلاف کو بھی مانیں۔ اسی طرح سے روزانہ اہل مشرق پر سورج اہل مغرب سے پہلے غروب ہوتا ہے اس کے باوجود اہل مشرق تو افطار کررہے ہوتے ہیں جبکہ اہل مغرب ابھی روزے سے ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے اہل مشرق اہل مغرب سے پہلے سحری کرکے کھانے پینے سے رک جاتے ہیں کہ ان کے ہاں طلوع فجر ہوجاتی ہے جبکہ اہل مغرب کھا پی رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں ابھی فجر طلوع نہیں ہوئی ہوتی۔ جب روزانہ کا سحری وافطاری کا یہ اختلاف اجماع کے ساتھ ثابت ہے تو بلاشبہ اسی کی طرح یہ روزے شروع کرنے و عید منانے کا ماہانہ اختلاف ہے کیونکہ ان میں کوئی فرق نہيں۔

لیکن ہم پھر بھی یہ کہتے ہيں کہ جو شخص جس علاقے میں ہے تو وہ وہاں کی حکومت کی اطاعت کرے اگر حکومت روزے کا حکم دے تو روزے شروع کرے اور اگر وہ عید کا حکم دے تو عید منائے۔ اگر وہ کسی ایسے ملک سفر کر گیا جس ملک سے پہلے اس کے اپنے ملک میں ر‌ؤیت ہلال ہوئی تھی یعنی ایسے ملک میں پہنچا جنہوں نے روزے اس کے اپنے ملک سے بعد میں رکھنا شروع کیے تھے مثلاً اس کے اپنے ملک والوں نے دو دن پہلے روزے رکھنا شروع کیے تھے تو وہ اس نئے ملک پہنچ کر انتظار کرے یہاں تک کہ اس ملک والوں کے ساتھ عید منائے۔ اور اگر معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو یعنی وہ ایسے ملک سے آیا ہو جنہوں نے روزے بعد میں رکھنا شروع کیے ہوں تو وہ اس ملک والوں کے ساتھ عید منائے گا اور اس ماہ کے جتنے روزے باقی رہ جائیں گے ان کی قضاء رکھے گا۔ کیونکہ کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ جماعت کی مخالفت کرے بلکہ ضروری ہے کہ ان کی موافقت کرے، پھر جو باقی رہ جائیں تو انہيں بعد میں ادا کرے۔ جیسا کہ کوئی امام کو نماز کے دوران پاتا ہے تو جو وہ اس کے ساتھ پاتا ہے اس کے ساتھ پڑھتا ہے اور جو فوت ہوچکی ہوتی ہے اسے بعد میں ادا کرتا ہے۔

الحاصل اس مسئلے کا یہ حکم ہے کہ اس بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ بہرحال اگر آپ کسی ملک میں ہیں تو ان ہی کے ساتھ روزے رکھیں اور ان ہی کے ساتھ عید منائیں۔

لیکن جہاں تک ذوالحج کے چاند کی روئیت کا تعلق ہے تو اس بارے میں بلاشبہ اس شہر یا ملک کا اعتبار کیا جائے گا جس میں مناسک حج ادا کیے جاتےہیں۔ اگر یہاں چاند ثابت ہوجائے تو اس پر عمل کیا جائے اور دیگر ممالک کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ حج ایک معین مکان کے ساتھ مخصوص ہے جس سے تجاوز نہیں کرتا۔ پس جب ذوالحج کے چاند کی روئیت اس مکان اور جو اس کی طرف منسوب ہو میں ثابت ہو تو حکم ثابت ہوجاتا ہے اگرچہ دیگر علاقوں میں مخالفت ہی کیوں نہ ہو۔

(شیخ  رحمہ اللہ  کا ایک فتوی اس کے برعکس بھی موجود ہے، البتہ مندرجہ بالا فتوی کی صحیح تاریخ کا تعین کافی تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں نہیں ہوسکا تاکہ شیخ کے آخری مؤقف کے بارے میں جانا جاسکے:

مندرجہ بالا فتاوى نور على الدرب  ، کیسٹ نمبر 115 میں موجود ہے، جبکہ اس سلسلے کی کل کیسٹیں 377 ہیں، تو غالباً یہ شیخ کی وفات کے کافی عرصہ قبل کی کیسٹ ہوگی، لیکن یہ کتابی شکل میں سن 1434ھ میں شائع ہوا ہے، اور اس میں یہ فتوی بدستور موجود ہے دیکھیں فتاوی نور علی الدرب ج 7 ص 201، فتوی رقم 3794، جبکہ دوسرے فتوی کی تاریخ  28 شعبان سن 1420ھ ہے اور شیخ  رحمہ اللہ  کی تاریخ وفات 15 شوال سن 1421ھ ہے یعنی تقریباً آپ  رحمہ اللہ  کی وفات سے قریب ایک سال ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ کا عرصہ ہے، یہ فتوی کتابی شکل میں مجموع فتاوى ورسائل الشيخ محمد بن صالح العثيمين – سن 1423ھ میں شائع ہوا دیکھیں اس کی ج 19   ص 39، یہ فتوی مندرجہ ذیل ہے)

شیخ  رحمہ اللہ  کو خط موصول ہوا:

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین (اللہ آپ کی حفاظت فرمائے)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد:

میں اللہ تعالی سے آپ کے لیے دائمی مدد اور توفیق کی دعاء کرتا ہوں۔

میں یہ بات آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ میں خادم حرمین شریفین  حفظہ اللہ کی طرف سے سفارتی ملازم ہوں۔۔۔ملک میں، اور ہمیں یہاں اس مسئلہ کا سامنا ہوتا ہے خصوصاً رمضان المبارک کے مہینے اور یوم عرفہ کے روزے کے تعلق سے، چنانچہ یہاں بھائی تین اقسام میں تقسیم ہوگئے ہیں:

1- ایک کہتے ہيں ہم سعودی عرب کے ساتھ روزے رکھیں گے اور ان ہی کے ساتھ عید منائیں گے۔

2- دوسرے کہتے ہيں ہم جس ملک میں رہتے ہيں اسی کے ساتھ روزے رکھیں گے اور عید منائیں گے۔

3- تیسرے کہتے ہيں ہم اسی ملک کے حساب سے (رمضان کے) روزے رکھیں گے جس میں ہم رہتے ہیں، البتہ صرف یوم عرفہ ہم سعودی عرب کے ساتھ منائیں گے۔

لہذا میں آپ فضیلۃ الشیخ سے شافی اور مفصل جواب کی امید رکھتا ہوں جو ماہ رمضان المبارک اور یوم عرفہ کے تعلق سے ہو۔

ساتھ ہی میں یہ بھی اشارہ کرتا چلوں کہ جس ملک  ۔ ۔۔میں ہم رہ رہے ہيں وہاں پچھلے پانچ برسوں سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کے روزے یا یوم عرفہ ایک دن پڑتے ہوں، کیونکہ یہاں ۔۔۔رمضان کا یا یوم عرفہ (ذوالحج) کا اعلان سعودی عرب کے ایک یا دو دن بعد ہی ہوتا ہے، اور کبھی تو تین دن بعد تک ہوتا ہے۔

اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

جواب :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

علماء  رحمہم اللہ  کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی بھی اسلامی ملک میں چاند نظر آجائے اور دوسرے ممالک میں نظر نہ آئے تو کیا تمام مسلمانوں کو اس پر عمل کرنا چاہیے، یا صرف ان پر لازم ہے جنہوں نے اسے دیکھا ہے اور جو مطالع میں ان کے موافق ہوں، یا جنہوں نے دیکھا ہو، یا جو ایک ولایت کے ماتحت ہوں، اس پر بھی متعدد اقوال ہیں اور اس میں ایک الگ اختلاف بھی ہے۔

راجح بات یہ ہے کہ اس تعلق سے اہل معرفت کی طرف رجوع کیا جائے گا اگر چاند کا مطالع دو ممالک میں ایک سا ہو تو وہ گویا کہ ایک ملک جیسے ہوں گے، اگر ان میں سے کسی ایک میں چاند نظر آگیا  تو اس کا حکم دوسرے کے لیے ثابت ہوجائے گا۔ البتہ اگر مطالع مختلف ہوں تو پھر ہر ملک کا اپنا ہی حکم ہوگا۔ یہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  نے اختیار فرمائی ہے اور یہ کتاب وسنت کے ظاہر اور قیاس کا تقاضہ ہے۔

کتاب اللہ سے یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ 

(جو شخص اس مہینے کو پائے تو اسے چاہیے کے روزےرکھے)

(البقرۃ: 185)

آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ: جو اس مہینے کو نہ پائے تو اس پر روزے لازم نہیں۔

جہاں تک سنت کی دلیل کا تعلق ہے تو  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا‘‘([7])

(جب تم اسے (چاند کو) دیکھو تو روزے رکھو، اور جب تم اسے دیکھو تو عید مناؤ)۔

حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ: اگر ہم اسے نہ دیکھیں تو روزہ لازم نہیں، نہ ہی عید۔

اور قیاس یہ ہے کہ جب کھانے پینے سے رک جانا (سحری کے بعد) اور افطاری ہر ملک کی اپنی اپنی ہوتی ہے اور جو مطالع اور غروب میں ان کے موافق ہوں ان کی بھی، اور اس بات پر تو سب کا اجماع ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ مشرقی ایشیا والے اس کے مغرب والوں سے پہلے (سحری کرکے) رک جاتے ہیں اور ان سے پہلے افطاری کرتے ہیں۔ کیونکہ اِن  پر فجر اُن سے پہلے طلوع ہوتی ہے، اسی طرح سے سورج اِن  سے پہلے اُن پر غروب ہوتا ہے۔ پس جب یہ بات روزانہ کی سحری افطاری میں جانی مانی جاتی ہے تو یہی بات ماہانہ سحری وافطاری میں بھی ماننی چاہیے کیونکہ ان میں کوئی فرق نہيں۔

لیکن اگر کچھ ممالک ایک ہی حکومت کے ماتحت ہوں اور ملک کا حاکم روزے کا حکم دے دے، یا عید کا تو پھر اس کے حکم کی بجاآوری لازم ہے۔ کیونکہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اور حکمران کا حکم اختلاف کو ختم کردیتا ہے۔

اسی بنا پر روزے اور عید اسی طرح رکھو اور مناؤ جیسے اس ملک والے کرتے ہیں جس میں آپ رہتے ہيں خواہ وہ آپ کے اصلی وطن (جہاں سے آپ آئے ہیں) کے موافق ہو یا اس کے خلاف، اور یہی حال یوم عرفہ کا ہے کہ اس میں بھی آپ اسی ملک کی پیروی کریں جس میں آپ موجود ہیں۔

کتبہ محمد الصالح العثیمین فی 28/8/1420ھ۔

بلکہ اسی مجموع الفتاوی کی جلد 20 میں ایک اور فتوی بھی شیخ  رحمہ اللہ  کے اسی رجحان کی طرف دلالت کرتا ہے:

سوال: فضیلۃ الشیخ  رحمہ اللہ  سے پوچھا گیا: اگر مطالع ہلال کے اعتبار سے مختلف علاقوں کے اختلاف کے سبب سے یوم عرفہ (9 ذوالحج) مختلف دنوں میں پڑتا ہو، تو کیا ہم اس ملک کی روئیت کے اعتبار سے روزہ رکھیں گے جس میں ہم رہتے ہیں یہ پھر حرمین کی روئیت کے اعتبار سے روزہ رکھیں گے؟

جواب: یہ اہل علم کے اس اختلاف پر مبنی ہے کہ کیا پوری دنیا میں ایک ہی  چاند کا اعتبار ہوتا ہے یا پھر وہ مطالع کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے؟ اور صواب بات یہ ہے کہ بلاشبہ وہ مختلف ہوتا ہے مطالع کے اعتبار سے۔ مثال کے طور پر جب چاند مکہ میں دیکھا گیاتو اس حساب سے آج کا دن 9 ذوالحج بنتا ہو جبکہ ایک دوسرے ملک نے مکہ سے بھی ایک دن پہلے ذوالحج کا چاند دیکھا تھا تو ان کے وہاں تو وہ دن 10 ذوالحج بنے گا لہذا ان کے لیے اس دن روزہ رکھنا جائز ہی نہ ہوگا کیونکہ وہ تو عید کا دن ہوگا!

اسی طرح سے اگر فرض کریں کسی ملک کی روئیت مکہ سے ایک دن پیچھے ہو تو مکہ میں 9 ذوالحج ان کے ہاں 8 ذوالحج ہوگی، تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ملک کی  9 ذوالحج جو کہ مکہ کی 10 ذوالحج کے موافق ہوگی اس میں روزہ رکھیں۔ یہی راجح قول ہے۔ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا‘‘([8])

(جب تم اسے (چاند کو) دیکھو تو روزے رکھو، اور جب تم اسے دیکھو تو عید مناؤ)۔

اب جن لوگوں کے علاقوں میں چاند دیکھا نہیں گیا تو گویا کہ انہوں نے اسے دیکھا ہی نہیں۔

یا پھر لوگوں کا اس بات پر تو اجماع ہے کہ طلوع فجر اور غروب آفتاب ہر علاقے کا اپنے حساب سے ہوتا ہے، تو پھر یہ ماہانہ حساب بھی اس روزانہ کے حساب ہی کی طرح ہے۔

(مجموع فتاوی ورسائل للشیخ ابن عثیمین ج 20 ص 47 س 405)

شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ

سوال: کیا یوم عرفہ کا روزہ  سعودی عرب کی روئیت  ہلال کے مطابق ہوگا یا ہر ملک کی اپنی روئیت ہوگی؟

جواب: یہ سعودی عرب کے تابع ہوگا کیونکہ یہی حج کے اعمال کی دیکھ بھال کرتا ہے  اور حجاج کرام کی مدد و معاونت کرتا ہے، یہ انہی کے اختصاص میں سے ہے۔

(درس شھر اللہ المحرم، 6 محرم الحرام 1441ھ)


[1] صحیح بخاری 1909، صحیح مسلم1082۔

[2] اس حدیث میں یہی ہے کہ کریب  رحمہ اللہ  نے شام سے آکر خبر دی کہ ہم نے تو جمعہ کی رات کو چاند دیکھا رمضان شروع ہونے کا اور معاویہ  رضی اللہ عنہ اور سب نے روزے شروع کردیے، جبکہ کریب جب واپس مدینہ پہنچے تو ابن عباس  رضی اللہ عنہما  نے بیان فرمایا کہ ہم نے تو یہاں ہفتے کی رات کو چاند دیکھا تھا، لہذا جب کریب نے عرض کی کہ: آپ معاویہ  رضی اللہ عنہ  والوں کی رؤیت پر اکتفاء نہیں کرتے، تو فرمایا نہیں ہم تو اپنے حساب سے روزے پورے کریں گے، اسی طرح ہمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حکم دیا ہے۔ (مفہوم حدیث صحیح مسلم 2528) امام نووی نے بھی اس پر یہ باب باندھا ہے: بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ (اس بات کا بیان کے ہر ملک کی اپنی رؤیت ہوتی ہے اور بلاشبہ جب کسی ملک میں چاند نظر آجائے تو اس کا حکم اس ملک پر لاگو نہیں ہوتا جو اس سے دور ہے)۔ (مترجم)

[3] بلکہ پاکستان میں بھی، لیکن شیخ  رحمہ اللہ  عرفہ اور رمضان میں اس بارے میں فرق فرماتے ہیں، اس طور پر کہ رمضان کے روزے تو سب ہی رکھتے ہيں ملک میں لہذا اختلاف سے فتنہ ہوگا، لیکن عرفہ کا تو بہت کم لوگ ہی رکھتے ہیں لہذا اس کا رکھ لینے میں فتنے کا خاص اندیشہ نہيں۔ اللہ اعلم (مترجم)

[4] ان دلائل کے علاوہ اور بھی کافی دلائل دوسرے قول کو کمزور ثابت کرنے کے لیے شیخ  رحمہ اللہ  بیان فرماتے ہیں مثال کے طور پر کہ اللہ تعالی عرفہ کے دن عرفہ میں جمع لوگوں پر فخر فرماتا ہے اور آخر تک جو حدیث ہے، تو ظاہر ہے یہ اسی دن کے ساتھ خاص ہے۔  اور مخالفین بھی اس قسم کے کافی دلائل اور استدلال لےکر آتے ہیں۔ جن کی تفصیل میں ہم اس مقالے میں نہیں جانا چاہتے۔ اللہ اعلم (مترجم)

[5] أخرجه الإمام البخاري -رحمه الله تعالى- في كتاب الجمعة من حديث ابن عباس رضي الله تعالى عنهما رقم (916)،وأخرجه الإمام الترمذي -رحمه الله تعالى- في سننه في كتاب الصوم رقم (68، وأبو داود في سننه في كتاب الصيام رقم (2082)، وابن ماجة في سننه رقم (1717)، وأخرجه الإمام أحمد في مسنده رقم (1867)، والدارمي في سننه رقم (170 من حديث ابن عباس رضي الله عنهما۔

[6] صحیح بخاری 1900، صحیح مسلم 1080۔

[7] صحیح بخاری 1900، صحیح مسلم 1080۔

[8] صحیح بخاری 1900، صحیح مسلم 1080۔