وحدت روئیت ہلال کی دعوت میں شدت کرنے والے وحدت عقیدہ اور تحکیم شریعت کی طرف دعوت کیوں نہیں دیتے؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فضیلۃ الشیخ حفظہ اللہ ’’تسهيل الإلمام بفقه الأحاديث من بلوغ المرام‘‘ میں رمضان کے چاند کے ثبوت کے متعلق احادیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

۔۔۔اور جو آجکل بعض جاہل لوگ، مدعئ علم اور دین بیزار کرنے والے لوگ چاند کی روئیت کے تعلق سے فلکی حساب پر مکمل اعتماد کرنے کی دعوت دے رہے ہیں تو یہ اللہ کے دین میں ایک نئی چیز کا ایجاد کرنا ہے جسے اللہ تعالی نے مشروع قرار نہیں دیا۔ اللہ تعالی نے ہمارے لیے روزوں کو شروع کرنے کے لیے دو امور مشروع کیے ہیں یا تو آنکھو ں سے چاند کو دیکھ لینا یا پھر ماہ شعبان کو مکمل کرنا یہاں تیسری کسی چیز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فلکی حساب، علم نجوم، اور چاند کی منازل کی معرفت کا علم عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی موجود تھا بلکہ جو آجکل ہے اس سے بھی قوی تر تھا۔ اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فلکی حساب پر اعتماد نہیں فرمایا کیونکہ اس میں خطاء کا اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے۔ فلکی حساب ایک بشری کاوش ہے جس میں غلطی کا اندیشہ بہرحال رہتا ہے۔اور ماہر فلکیات حساب لگانے والا غلطی کرجاتا ہے کیونکہ وہ ایک بشر ہی ہے۔

مزید یہ کہ یہ فلکی حساب ایک مخفی امر ہے جسے بہت سے لوگ نہيں جانتے جبکہ اللہ کا دین تو بہت آسان ہے الحمدللہ۔ لہذا شارع نے روزوں کو ایک واضح اور آسان بات کے ساتھ معلق کیا جسے ہر عامی ، جاہل اور پڑھا لکھا ہر ایک بنا کسی مشقت کے بآسانی جان سکتا ہے۔ یا تو چاند کو دیکھ لیا جائے یاپھر شعبان کے تیس دن مکمل کرلیے جائیں یہ ہر انسان جانتا ہے۔ برخلاف فلکی حساب کے کہ جسے ہر کوئی نہیں جانتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس میں غلطی، خطاء اور جلدبازی کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ وہ لوگ جو ہر سال روئیت ہلال کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات ڈالتے ہيں اور کہتےہيں کہ یہ ماہرین فلکیات کے خلاف ہے کیونکہ انہوں نے کہا آج رات چاند کا دکھنا ممکن ہی نہيں وغیرہ۔ یہ سب جہل اور اللہ تعالی کے ذمے بلاعلم بات کرنے کی قبیل میں سے ہے۔ واجب ہے کہ ان لوگوں کو لگام دی جائے اور انہیں اس تلاعب وتماشے سے روکا جائے۔

اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور ایسے لوگوں کو جو لوگوں کے امور عبادت کے تعلق سے یہ تماشہ کرتے ہیں اور شک میں ڈالتے ہیں بالکل بھی موقع نہیں دیناچاہیے۔ امور عبادت الحمدللہ واضح نشانیوں کے ساتھ معلق ہيں۔ نمازوں کے اوقات واضح ہيں۔ صبح کی نماز طلوع فجر پر پڑھی جاتی ہے جو واضح نشانی ہے، نماز ظہر زوال شمس کے بعد جب سایہ مشرق کی جانب سے ظاہر ہوتا ہے اس وقت پڑھی جاتی ہے یہ نشانی بھی واضح ہے جسے ہر انسان جانتا ہے،نماز عصر کا وقت اس وقت داخل ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجاتا ہے، نماز مغرب غروب شمس کے بعد پڑھی جاتی ہے، اور نماز عشاء شفق احمر (مغرب کے بعدکی سرخی) کے غائب ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ یہ سب بہت واضح امور ونشانیاں ہیں۔ اسی طرح سے روزوں کا معاملہ ہے۔ روزے روئیت ہلال پر شروع کیے جاتے ہیں اور چاند تو ایک واضح چیز ہے۔ یا پھر اگر چاند نہ دکھے توشعبان کے تیس روز مکمل کیے جاتے ہیں ۔  یہ اللہ تعالی کی جانب سے ایک آسانی ہے۔

﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ 

(اور اس (اللہ تعالی ) نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی)

(الحج: 78)

یہ لوگ کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد کرتے ہيں تاکہ امت کو روئیت ہلال پر اکھٹا کردیا جائے اور کہتے ہیں یہی بات مسلمانوں کے اختلاف اور تفرقے کا سبب ہے۔ سبحان اللہ! مسلمان عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آج تک روزے رکھتے چلے آئے ہیں ان میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوا یہاں تک کہ جب یہ مغربی لوگ آوارد ہوئے۔

پھر دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو مسلمانوں کو متحد کرسکتی ہے، کیا یہ روئیت ہلال ہے؟! جو بات مسلمانوں کو متحد کرسکتی ہے وہ کتاب اللہ کے حکم پر عمل ہے۔  پس ان میں سے اکثر کے یہاں کہاں ہے کتاب اللہ کا حکم اور اس پر عمل؟ نہیں ہے ان کے پاس کتاب اللہ کا حکم۔ یہ لوگ کتاب اللہ کی تحکیم کی طرف کیوں نہیں بلاتے تاکہ مسلمانوں میں حقیقی اتحاد قائم ہو۔ انہيں سوائے چاند کے اور کچھ نہیں ملا کہ جس پر تمام تر توجہ مرکوز رکھیں۔ یہ جہالت ہے اور دین میں وہ سختی اپنانا ہے جس کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہيں فرمائی۔ مسلمان سوائے تصحیح عقیدہ کے متحد نہیں ہوسکتے۔ یہ لوگ تصحیح عقیدہ کی جانب کیوں دعوت نہيں دیتےتاکہ حقیقی وحدۃ المسلمین قائم ہوجائے؟  مسلمان سوائے صحیح عقیدے کے جمع نہیں ہوسکتے، عقیدۂ توحید کے سواان کا جمع ہونا محال ہے۔ لیکن حالت اگر یہی ہو کہ ہرکسی کا اپنا طریقہ، اپنا مسلک اور اپنا عقیدہ ہے تو ممکن ہی نہيں کہ مسلمان متحد ہوسکیں۔ لازماً ان کے درمیان عداوت، قطع تعلقی اور جنگ وجدل واقع ہوگا۔ پس یہ لوگ کیوں تصحیح عقیدہ کی طرف نہیں بلاتے تاکہ مسلمانوں میں حقیقی اتحاد پیدا ہو؟ کیوں یہ لوگ کتاب اللہ کی تحکیم اور طاغوتی قوانین کو پھینک دینے کی طرف نہيں بلاتے؟ جبکہ جو روزوں کا معاملہ ہے اگرچہ سب لوگ مل کر ہی روزے کیوں نہ رکھ لیں اس سے اتحاد نہيں ہوسکتا۔

پھر یہ بھی دیکھیں کہ کیوں تمام علاقوں اور ممالک والے مختلف اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں، کیوں یہ سب پوری دنیا میں ایک ہی منٹ اور ایک ہی وقت میں نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ ہمارے یہاں جب رات ہوتی ہے تو دوسروں کے وہاں دن ہوتا ہے ممکن ہی نہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں نماز پڑھ سکیں۔ کیونکہ مطالع مختلف ہوتے ہيں اور زمین مختلف ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ہمارے اور دوسروں کے مابین اوقات میں تفاوت واختلاف ہوتا ہے۔ ممکن نہيں کہ ہم ایک ہی وقت میں نماز پڑھ سکیں۔ یہ لوگ پھر یہ کیوں نہیں کہتےکہ ہم سب پر واجب ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں نماز پڑھیں۔ ظہر کی نماز ہو یا عصر کی تاکہ سب مسلمان متحدہوجائیں۔  کیا اس طریقے سے نماز صحیح ہوگی؟ یہ عصر پڑھ رہے ہوں گے تو ان کے وہاں رات ہوگی یا فجر کا وقت ہوگا یا پھر یہ عشاء پڑھ رہے ہوں گے اور ان کے وہاں دن ہوگا، یہ جائز نہیں۔ اگر نماز میں ایسا ہے تو پھر روزوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ایک ضروری بات ہے یعنی نمازوں، عیدین اور روزوں میں یہ اختلاف ِاوقات ایک ضروری امر ہے۔ اللہ تعالی نے کائنات ایسے ہی بنائی ہے۔ ان کے پاس رات ہوگی تو دوسروں کے پاس دن، ان کے پاس عصر کا وقت ہوگا تو دوسروں کے پاس ظہر کا۔ الحمدللہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے دین میں کوئی تنگی نہيں رکھی۔ ہرکوئی اپنے جائے وقوع اور اوقات کے مطابق چلے،اللہ تعالی نے اس تنگی ومشقت کا مسلمانوں کو حکم نہيں دیا۔  چناچہ وہ لوگ جو کوشش کررہے ہيں کہ روئیت ہلال، روزے اور عید تمام مسلمانوں کی ایک ساتھ ہو، اور یہ کہنا کہ اس میں بغیر فلکی حساب کے نظم وضبط نہیں آسکتا۔ یہ سب کچھ بیوقوفی اور جہالت در جہالت ہے۔ اور لوگوں کو ایسی بات کا مکلف کرنا ہے جس کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہيں فرمائی۔

پھر شیخ حفظہ اللہ نے اس کے بعد ایک اہم مسئلے پر تنبیہ فرمائی وہ یہ کہ کیا کسی ایک ملک میں چاند دکھنے پر تمام مسلمان اس روئیت کا اعتبار کرکے روزہ رکھنا شروع کردیں گے؟

آپ نے جواب ارشاد فرمایا:اگر ان ممالک میں مطالع مختلف نہیں تو ان سب پر روزہ رکھنا واجب ہوگا لیکن اگر ایک ملک یاخطے سے دوسرے ملک یا خطے کے مطالع مختلف ہوں ان کے مابین طویل مسافت کے باعث تو دوسرے خطے کے لوگوں پر روزہ رکھنا واجب نہيں جب تک کہ وہ خود چاند نہ دیکھ لیں۔ ہر قوم کی اپنی روئیت ہوگی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ‘‘([1])

(اسے (چاند کو) دیکھ کر روزے شروع کرو، اور اسے دیکھ کر ہی عید مناؤ)۔

لہذا جب مطالع مختلف ہوں تو ہر قوم کی اپنی روئیت کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ مطالع ایک خطے سے دوسرے خطے اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم کےمختلف ہوتے ہیں۔ ایک خطے کے لوگوں پر دوسرے دور دراز کے خطے کی لوگوں کی روئیت کی بنا پر روزے رکھنا واجب نہیں کیونکہ ان کے مابین عظیم مسافت کے باعث ان کے مطالع بدل جاتے ہيں۔

یہ اہل علم کا ایک قول ہے اور یہی محققین کے نزدیک راجح ہے ۔ کیونکہ مطالع کے علم کے ماہرین کا بھی اس بات پر اتفاق ہےکہ مختلف خطوں میں مطالع مختلف ہوتے ہيں۔

دوسرا قول یہ ہے کہ تمام اقطار واکناف کے مسلمانوں پر ایک ہی روئیت ہلال پر روزہ رکھناواجب ہے۔

اس مسئلے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ پس یہ مسئلہ محل نظر وترجیح ہے۔اس میں اس ملک کے اہل علم کی جانب رجوع کیا جائے گا۔ اگر وہ ایک ہی مطالع کو سب پر لاگو مانتے ہیں تو وہ اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کریں لیکن اگر وہ اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے کے قائل ہيں تو یہی صحیح اور راجح ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما مدینہ نبویہ میں رہتے ہوئے اہل شام کی روئیت پر عمل نہيں کرتے تھے۔ اہل شام نے جمعے کے روز چاند دیکھا اور روزہ رکھا جبکہ اہل مدینہ نے ہفتے کے روز چاند دیکھا اور ہفتے کے دن سے ہی روزوں کاآغاز کیا۔ لہذا ان کے مابین ایک دن کا تفاوت ہوگیامگر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:

’’لكنا لا نفطر حتى نرى الهلال، ولم يعمل برؤية أهل الشام‘‘([2])

(لیکن ہم تو اس وقت تک عید نہیں منائیں گے جب تک چاند نہ دیکھ لیں، اور ہم اہل شام کی روئیت پر عمل نہیں کریں گے)۔

یہ دلیل ہے کہ اختلاف مطالع کے قول کو لیا جائے کیونکہ یہی راجح قول ہے۔

اور یہ بات اس کے متعارض نہيں جو ہم نے شروع میں بیان کی کہ علم فلکیات کا اعتبار نہ کیا جائے۔ بلکہ یہاں تو معاملہ روئیت ہلال (یعنی آنکھوں سے چاند دیکھنے) پر عمل کا ہے۔ہم جس چیز کا رد کرتے ہيں وہ فلکی حساب پر عمل کرنا ہے یہاں تک کہ ان کے بعض غالی لوگ (العیاذ باللہ) یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ: اگر روئیت اور فلکی حساب میں تعارض ہوجائے تو روئیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ یعنی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹھکرا دیا جائے گا۔ ہمارا کلام ان پر تھا جو کہتے ہیں واجب ہے کہ حساب فلکی کے مطابق روئیت کا اعتبار کیا جائے اور اس پر تمام دنیا کے مسلمان ایک ساتھ روزے رکھیں۔ لیکن جو یہ کہتا ہے کہ صحیح اسلامی روئیت جو آنکھوں سے چاند دیکھنے کی ہوتی ہے اس کے اعتبار سے ایک علاقے کی روئیت کا  اعتبار کرکے تمام مسلمانوں پر روزہ رکھنا واجب ہے تو یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے علماء کرام کے دو اقوال ہیں جو میں نے بیان کیے۔ چناچہ اس مسئلے کو دوسرے کے ساتھ خلط ملط نہ کیا جائے۔ اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالی ہی ہے۔


[1] صحیح بخاری 1909، صحیح مسلم 1081۔

[2] صحیح مسلم 1089 کے الفاظ ہیں: ’’عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟، فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ:  أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟، فَقُلْتُ:  نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَالَ: لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ، فَقَالَ: لَا هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وَشَكَّ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى فِي نَكْتَفِي أَوْ تَكْتَفِي‘‘ (مترجم)

مصدر: تسهيل الإلمام بفقه الأحاديث من بلوغ المرام

مترجم

طارق بن علی بروہی

Audio

YouTube