خواتین کا دعوتی سرگرمیوں میں غلو کرنا – شیخ محمد ناصر الدین الالبانی

Women’s Extremism in Dawah activities – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آخر میں یہ سوال ہوا کہ کیا کسی عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ مخصوص و معین اسلامی دعوتی سرگرمیوں میں ملوث ومتحرک ہو؟

 جواب: میں ایک ناصح اور خیرخواہ کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ : بے شک عالم اسلامی کے مصائب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورتیں یہاں تک کہ مسلمان عورتیں، بلکہ پردہ دار خواتین بھی، اور اس سے بڑھ کر بعض سلفی بہنیں بھی اپنے گھر سے نکل پڑتی ہیں اس چیز کی طرف جو ان کے وظائف میں سے نہیں۔ کیونکہ عورتوں کے لیے اسلامی (دعوتی) سرگرمی کا کوئی وجود نہیں؟ اس کی سرگرمیاں اس کے گھر میں، گھر کی دہلیز کے اندراندر ہیں۔ عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مردوں کی مشابہت اختیار کرے، اور اسی طرح مسلمان عورت کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مسلمان مرد کی مشابہت اختیار کرے۔

 مسلمان عورتیں اگر اسلام کی کماحقہ خدمت کرنا چاہتی ہیں تو وہ اپنے گھر میں کریں۔ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ نکلے، اور ساتھ ساتھ یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر پر یہ شرط عائد کرے کہ وہ (بیوی) شادی کے بعد بھی لازماً اسلامی دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہے گی۔ اس کی سابقہ دعوتی سرگرمیاں اگر بالفرض مطلقاً جائز بھی ہوتیں تو پھر بھی وہ کنواری باکرہ لڑکیوں کی حالت سے مناسبت رکھتی ہیں کہ جن پر کوئی مسئولیت و ذمہ داریاں نہیں ہوتیں۔ اب جبکہ وہ گھر والی ہوگئی ہے جس پر اپنے شوہر کی جانب سے واجبات ہیں اور جو اللہ تعالی اسے اولاد عطاء فرمائے گا ان کی طرف سے بھی، لہذا یہ بالکل ایک بدیہی امر ہے کہ اب اس کی زندگی میں (ذمہ داریوں کا) اضافہ ہوگیا ہے۔ اور یہ سب بھی اس وقت جب ہم یہ مفروضہ بنائیں کہ سابقہ شرط جائز تھی حالانکہ درحقیقت ہم اس کے مطلق جواز کے قائل ہی نہیں۔

 صحابی عورتیں رضی اللہ عنہن جو علمی اورثقافتی وغیرہ اعتبار سے ایک نمونہ تھیں۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کسی عورت نے اسلامی (دعوتی) سرگرمی وغیرہ کی قیادت مردوں کے مابین شروع کردی ہو۔ لیکن جب آپ یہ سنتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا گھر سے باہر نکلی تھیں (اس کی کیا توجیہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ) عائشہ رضی اللہ عنہا  ایسے مسئلے اور فتنہ میں باہر نکلی تھیں جو وقوع پزیر ہوا کہ اس نکلنے کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث ہوگا، مگر درحقیقت ایسا نہ تھا۔ اور بلاشبہ علماء اسلام نے یہی حکم بیان فرمایا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا اس نکلنے کے بارے میں غلطی پر تھیں۔ اور ان کا واقعۂ جمل وغیرہ میں خطبہ غلطی تھی، لیکن یہ خطاء ان  کی دیگر حسنات کی وجہ سے مغفور (معاف) تھیں۔ البتہ کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ آپ رضی اللہ عنہا کی اس غلطی میں پیروی کرے جبکہ آپ رضی اللہ عنہا  نے خود اس سے توبہ کرلی تھی، اور مزید یہ کہ ہم ان کی باقی حیات میں (دوبارہ) ایسا نکلنا اور ایسا کوئی خروج بالکل نہیں جانتے۔ چنانچہ وہ خاص ماحول تھا جس میں ان کی جانب سے خاص اجتہاد تھا لیکن اس کے باوجود یہ اجتہادی غلطی ہی تھی۔

البتہ آپ دیکھتے ہیں عورت کو کہ کسی (دعوتی طور پر) سرگرم مرد کی مانند آنا جانا لگایا ہوا ہے اور بسااوقات تو بعض ان میں سے اکیلے سفر  تک کرجاتی ہیں جو کہ اسلام میں حرام سفر ہے (جیساکہ حدیث میں ہے  کہ) :

’’لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ أَنْ أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا إِلَّا وَمَعَهَا زَوْجُهَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ  لَهَا‘‘([1])

(عورت کے لئے سفر جائز نہیں الا یہ کہ اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی محرم ہو)۔

تو آپ ان عورتوں کو پائیں گے کہ اسلام کی جانب دعوت کے نام پر گھر سے باہر اکیلے سفر کررہی ہیں۔ لیکن فی الواقع اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مرد اس چیز کو ادا نہیں کررہے جو ان پر واجب ہے، تو اسی لیے یہ خلاء دیکھ کر بعض عورتوں پر یہ خیال گزرا کہ ہم پر یہ ضروری ہے کہ اس خلاء کو پر کریں۔

پس ہم مردوں کو چاہیے کہ فریضۂ دعوت کو فہماً، عملاً، تطبیقاً اوردعوتاً ادا کریں اور عورتوں کو ان کے گھروں میں ٹکنے کا پابند بنائیں، اور وہ اس واجب کو ادا کریں جو ان کے رشتہ داروں، اولاد، بھائیوں اور بہنوں وغیرہ کی تربیت کے تعلق سے ان پر ہے۔

البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان عورتیں میں سے کچھ پڑوسنیں ایسی جگہ پر جو عورتوں کے لیے خاص ہو جمع ہوں اور ایسی مناسب و دھیمی آواز سے جو اس مکان کے مناسب حال ہو جہاں وہ بیٹھیں ہوئی ہیں (تعلیم وغیرہ دیں)۔

جبکہ جو کچھ ہم آجکل مشاہدہ کررہے ہیں تو میرا اعتقاد ہے کہ اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں، اگرچہ بعض اسلامی جماعتیں خواتین کی ایسی تحریکوں  کو اسلام کے نام پر منظم کریں۔ میرا یہ اعتقاد ہے کہ یہ دین میں نئے کاموں (بدعات) میں سے ہے۔

اور آپ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان یاد ہوگا بلکہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ آپ اسے حفظ کرلیں:

’’وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ‘‘([2])

(اور دین میں میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچو، کیونکہ بے شک دین میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی  آگ میں ہے)۔

اور ہم اتنی ہی بات پر کفایت کرتے  ہیں۔

سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك۔


[1] یہ حدیث مختلف الفاظوں کے ساتھ صحیح بخاری 1087، صحیح مسلم 1339اور دیگر کتب احادیث میں مروی ہے، جن میں سے بعض میں تین دن، بعض میں دو اور بعض میں مطلقا ًسفر کا ذکر ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)

[2] صحیح ترمذی 2676 ، صحیح ابی داود 4607 وغیرہ۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: کیسٹ ’’الزواج في الإسلام‘‘۔