قربانی کرنے والے پر ذوالحج کے دس دنوں میں کیا کیا پابندیاں عائد ہوتی ہیں؟ – شیخ محمد بن صالح العثیمین

What are the restrictions in the 10 days of DhilHajjah upon the one who wants to sacrifice? – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: اس حدیث کی صحت کیا ہے کہ جو کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ بھی کاٹنا نہیں چاہیے یہاں تک کہ وہ قربانی کردے۔ اور یہ پہلی ذوالحج سے دس ذوالحج تک کی پابندی ہے۔ کیا یہ نہی تحریم کے درجے تک پہنچتی ہے یا فقط استحباب کے لیے ہے؟

جواب: یہ حدیث صحیح ہے اسے صحیح مسلم نے روایت کیا ہے اور اس کا حکم تحریم کا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’إذا دخل العشر وأراد أحدكم أن يضحي فلا يأخذن من شعره ولا من ظفره شيئا‘‘([1])

 (جب ذوالحج کا عشرہ شروع ہوجائے اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ ہرگز بھی اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ نہ کاٹے)۔

اور ایک روایت میں ہے:

’’وَلَا مِنْ بَشَرِهِ‘‘([2])

(اور نہ اپنی جلد میں سے)۔

اور ’’البشرۃ‘‘ جلد کو کہتے ہیں یعنی اس میں سے کچھ نہ نوچے یا تراش خراش نہ کرے جیسا کہ بعض لوگ ایڑیوں کو صاف کرنے کے لیے جلد کھرچتے ہیں۔

پس ان تین چیزوں کی تراش خراش سے منع فرمایا ہے: بال، ناخن اور جلد۔

اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی (منع کرنا) وارد ہو تو اس کے بارے میں اصل قاعدہ یہی ہے کہ یہ حرمت کے لیے ہے الا یہ کہ کوئی ایسی دلیل وارد ہو جو اس کی حرمت کو کراہت وغیرہ  کی طرف پھیر دے۔

اسی لیے جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ ان دس دنوں میں اپنے بالوں، ناخنوں اور جلد میں سے کچھ نہ کاٹے یہاں تک کہ وہ قربانی کرلے۔

اور یہ اللہ تعالی کی اپنے بندے پر ایک نعمت ہے کہ  شہروں، دیہاتوں اور بستیوں میں بسنے والے جن افراد سے حج اور یہ عبادت فوت ہوگئی ہے ان کے لیے یہ بات مشروع فرمائی تاکہ وہ بھی حجاج کرام کی بعض ان عبادتوں میں کہ جن میں کچھ چیزوں کو ترک کرنا ہوتا ہے شرکت کرلیں ۔

سائل: یعنی اس کی مشروعیت کی یہ حکمت ہے؟

جواب: جی، اور میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ کسی بھی انسان کے لیے بغیر شرعی دلیل کے کسی بھی چیز کو کرنے یا ترک کرنے کے ذریعہ قرب الہی حاصل کرنا جائز نہیں ۔ اگر کوئی شخص دس ایام میں اپنے ناخنوں، بالوں یا جلد کی تراش خراش کو ترک کرکے قرب الہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر بغیر شرعی دلیل کے تو وہ بدعتی اور گنہگار ہوگا۔ لیکن اگر وہ کسی شرعی دلیل کے تحت ایسا کرتا ہے تو اجر وثواب پائے گا۔ کیونکہ اس نے اس ترک کرنے کے ذریعہ اللہ تعالی کی عبادت بجا لائی۔

اسی لیےقربانی کا ارادہ رکھنے والے انسان کا اپنے بال، ناخن اور جلد کی تراش خراش کو ترک کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کہلائے گا جس پر وہ اجروثواب کا مستحق ہوگا۔ اور یہ بلاشک اللہ تعالی کی نعمت ہے۔

 (من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم: 93)

سوال: کیا اس حکم میں وہ بھی شامل ہے جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہو؟

جواب: یہ حکم صرف اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو قربانی کررہا ہے۔ جبکہ جہاں تک بات ہے جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ ان چیزوں کی تراش خراش کرلے۔ یہ اس لیے کیونکہ حدیث میں جو الفاظ ہیں اس میں ہے کہ: ’’وأراد أحدكم أن يضحي‘‘ (تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو) یعنی فقط قربانی کرنے والا۔ پس ہم بھی اسی پر اقتصار کریں گے جو بات نص ِحدیث میں آئی ہے۔

پھر یہ بات بھی معلوم ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل بیت کی جانب سے بھی قربانی فرمایا کرتے تھے مگر یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اپنے بالوں، ناخنوں یا جلد کاٹنے سے منع فرمایا ہو۔ چنانچہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم صرف اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو قربانی کررہا ہو۔

مزید یہ بھی ان الفاط کا تقاضہ ہے کہ جو کوئی قربانی کا خود ارادہ رکھتا ہوں یعنی اپنے لیے ناکہ اپنے آباء واجداد یا کسی قریبی کی وصیت کو نافذ کرنے والا ہو، کیونکہ دوسری صورت میں وہ درحقیقت خود قربانی کرنے والا نہیں ہے، لیکن کسی دوسرے کا وکیل ہے۔ لہذا قربانی کے احکام اس پر لاگو نہیں ہوں گے۔ اسی لیے اسے اس قربانی کا قربانی کرنے والے جیسا ثواب نہیں ملے گا بلکہ اسے ایک محسن احسان کرنے والے کا سا ثواب ہوگا کہ جو اپنے فوت شدگان کے ساتھ ان کی وصیت کی تنفیذ کرکے احسان کررہا ہے۔

(من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم: 93)

سوال: اگر ایک عورت قربانی کا ارادہ رکھتی ہو تو کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنا وکیل بنالے یعنی وہ اس کی طرف سے ذبح کرلے، اور وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کی تراش خراش کرلے؟

جواب: نہیں، یہ جائز نہیں، یعنی اگر انسان کسی دوسرے کو ذبح کرنے کے لیے اپنا وکیل بناتا ہے تو اس کا اصل حکم اسی قربانی کرنے والے کا ہوگا۔ مثلاً اگر عورت اپنے شوہر سے کہتی ہے یہ لو سو ریال  یا اس سے کم وبیش اور میری طرف سے قربانی کرلو اس صورت میں اس عورت پر اپنے بالوں، ناخنوں یا جلد میں تراش خراش حرام ہے۔

سوال: لیکن اگر شوہر قربانی کا جانور خریدنے والا ہو تو؟

الشیخ: چاہے وہ عورت خریدے، یعنی اس کا شوہر اس عورت کے لیے خریدے؟

سائل: جی وہ اس کے لیے خریدے تو؟

جواب: پھر بھی جائز نہیں (یعنی بالوں وغیرہ کا کاٹنا)۔

(من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 92)

سوال: کیا قربانی کا ارادہ رکھنے والی عورت کے لیے کنگی کرنا بھی منع ہے؟

جواب: اگر ان ایام میں عورت قربانی کا ارادہ رکھتی ہو اور اسے کنگھی کرنے کی ضرورت ہو تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے سر کے بالوں میں کنگھی کرلے۔ لیکن کسی قدر نرمی واحتیاط سے کرے اگرچہ بلاقصد کوئی بال ٹوٹ بھی جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، کیونکہ اس نے جان بوجھ کر سختی سے کنگھی کرکے بال گرانے کا ارادہ نہیں کیا تھا، بلکہ بس بالوں کو سنوارنا مقصود تھا اور ان کا گرنا غیرارادی طور پر تھا۔

(من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 283)


[1] صحیح مسلم 1978 کے الفاظ ہیں: ’’إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا‘‘ اور ’’مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ، فَإِذَا أُهِلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ‘‘۔

[2] صحیح النسائی 4376۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: فتاوى نور على الدرب اور سلسلة لقاء الباب المفتوح