امت کو دعوتِ توحید واصلاح کے بجائے سیاسی عمل میں لگائے رکھنا – شیخ محمد ناصرالدین الالبانی

امت کو دعوتِ توحید واصلاح کے بجائے سیاسی عمل میں لگائے رکھنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

لہذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلاشبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سےاٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیراللہ کے لیے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لیے لازم  ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کردوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے، حالانکہ یاد رکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب  ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں،  پس اس بات نے انہیں ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے دور کردیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کافہم حاصل اگر کر بھی لیا ہے تب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں، اور انہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کےعقیدے، عبادت، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرنا، اس سے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے نہیں یقین کے کہیں ایسے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔

تبدیلی کی بنیاد منہج تصفیہ وتربیہ

اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دو اساسی نکتوں پر جو تبدیلی وانقلاب کا قاعدہ ہیں پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ (دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ (اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا) ہیں۔ان دونوں امور کو یکجا کرنا ضروری ہے تصفیہ اور تربیہ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہےجو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اس میں بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کرکے سنت صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہیے۔

ایسے بڑے جید علماء کرام ہوسکتا ہے موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے واجب کو ادا کرپائیں۔  تصفیہ کرنا (پاک کرنا) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اس میں در آئی ہے خواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں۔ محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے جڑی ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح وسلیم تربیت کرکے سرفراز ہوسکیں۔ اسی لیے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے۔

چنانچہ ان دو اہم باتوں ونکات کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے شرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو برئ الذمہ کرتا ہے۔

نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح، ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسا ہوجانا تو محال ہے؛ اس لیے بھی کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:

﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ﴾ 

(اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنادیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے)

(ھود: 118)

البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالی کا یہ فرمان لاگو نہیں ہوگا اگر یہ اسلام کا صحیح فہم حاصل کریں اور اس صحیح اسلام پر خود اپنی،  اپنے اہل وعیال اورگردونواح کے لوگوں کی تربیت کریں۔

سیاسی عمل میں کون حصہ لے؟ اور کب؟

آجکل سیاسی عمل یا سرگرمی میں حصہ لینا ایک مشغلہ بن گیا ہے! حالانکہ ہم اس کے منکر نہیں مگر ہم بیک وقت ایک شرعی ومنطقی تسلسل یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہم تصحیح وتربیت کے اعتبار سے عقیدے سے شروع کریں، پھر عبادت پھر سلوک پھر اس کے بعد ایک دن آئے گا جب ہم سیاسی مرحلے میں داخل ہوں گے مگر اس کے شرعی مفہوم کے مطابق۔ کیونکہ سیاست کا معنی ہے: امت کے معاملات کاانتظام کرنا انہیں چلانا، پس امت کے معاملات کون چلاتا ہے؟ نہ زید، نہ بکر، نہ عمرو، اورنہ ہی وہ جو کسی پارٹی کی بنیاد رکھے یا کسی تحریک کی سربراہی کرتا ہویا کسی جماعت کو چلاتا ہو!! یہ معاملہ تو خاص ولی امر (حکمران) سےتعلق رکھتا ہے، جس کی مسلمانوں نے بیعت کی ہے۔ یہی ہے وہ جس پر واجب ہےکہ وہ موجودہ سیاسی حالات اور ان سے نمٹنے کی معرفت حاصل کرے، لیکن اگر مسلمان متحد نہ ہوں جیسا کہ ہماری موجودہ حالت ہے تو ہر حاکم اپنی سلطنت کی حدود میں ذمہ دار ہے۔

لیکن اگر ہم اپنے آپ کو ان امور میں مشغول رکھیں جن کے بارے میں بالفرض ہم مان بھی لیں کہ ہمیں اس کی کماحقہ معرفت حاصل ہوگئی ہے تب بھی ہمیں یہ معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی، کیونکہ ہمارے لیے اسے نافذ کرنے کا امکان ہی نہیں، کیونکہ ہم امت کے امور چلانے کے بارے میں فیصلوں کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ تو محض یہ معرفت بیکار ہے جس کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں وہ جنگیں جو مسلمانوں کے خلاف بہت سے اسلامی ممالک میں بپا ہیں، کیا اس بات کا کوئی فائدہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے جذبات ابھاریں اور انہیں اس جانب برانگیختہ کریں جبکہ ہم اس جہاد کا کوئی اختیار ہی نہیں رکھتے جس کا انتظام ایک ایسے مسئول امام کے ذمہ ہے جس کی بیعت ہوچکی ہو؟! اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ واجب نہیں! لیکن ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ: یہ کام اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہے۔

اسی لیے ہم پر واجب ہے کہ ہم آپ کو اور دوسروں کو جنہیں ہم اپنی دعوت پہنچا رہے ہیں اس بات میں مشغول رکھیں کہ وہ صحیح اسلام کا فہم حاصل کرکے اس پر صحیح تربیت حاصل کریں۔ لیکن اگر ہم محض انہیں جذباتی اور ولولہ انگیز باتوں میں مشغول رکھیں گے تو یہ انہیں اس بات سے پھیر دیں گی کہ وہ اس دعوت کے فہم میں مضبوطی حاصل کرپائیں جو ہر مکلف مسلمان پر واجب ہے۔ جیسے عقائد، عبادت اورسلوک کی تصحیح یہ ان فرائض عینیہ میں سے ہیں جس میں تقصیر کا عذر قابل قبول نہیں، جبکہ جو دوسرے امور ہیں ان میں سے تو بعض فرض کفایہ ہیں جیسا کہ آجکل جو کہا جاتا ہے ’’فقہ الواقع‘‘ (حالات حاضرہ کا علم) اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا جو کہ ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اہل حل وعقد ہیں، جن کے لیے یہ ممکن بھی ہے کہ اس معرفت سے وہ عملی استفادہ حاصل کرپائیں۔  جہاں تک معاملہ ہے ان لوگوں کا جن کے ہاتھ میں نہ حل ہے نہ ہی عقد اور وہ لوگوں کو ان باتوں میں مشغول کررہے ہیں جو اہم تو ہیں مگر اہم ترین نہیں، تو یہ بات انہیں صحیح معرفت سے دور لے جاتی ہے! یہ بات تو ہم آج بہت سے اسلامی گروپوں اور جماعتوں کے مناہج میں باقاعدہ ہاتھوں سے چھو کر محسوس کرسکتے ہیں،  کہ ہم جانتے ہیں کہ بعض ایسے داعیان جو  نوجوانوں کو جو ان کے گرد اس لیے جمع ہوتے ہیں کہ وہ انہیں صحیح عقیدہ، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں اور سمجھائیں تو وہ انہیں اس سے پھیر دیتے ہیں۔  پھر اس کے بعد یہ داعیان  سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اوران  پارلیمنٹوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتی ہے! پس وہ انہیں اس اہم ترین چیز سے پھیر دیتے ہیں اس چیز کی طرف جوان موجودہ حالات میں اہم نہیں ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیسے ایک مسلمان ان پر الم حالات میں اپنا کردار ادا کرکے برئ الذمہ ہوسکتاہے؛ تو ہم کہتے ہیں: ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، ان میں سے ایک عالم کی جو ذمہ داری ہے وہ غیر عالم کی نہیں، جیسا کہ میں اس قسم کی مناسبت میں بیان کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اپنی نعمت اپنی کتاب کے ذریعہ مکمل فرمادی ہےاور اسے مسلمانوں کے لیے ایک دستور بنادیا ہے۔ اسی دستور میں سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے کہ:

﴿… فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ 

(اہل ذکر (علماء کرام) سے سوال کرو اگر تمہیں علم نہ ہو)

(الانبیاء: 7)

اللہ تعالی نے اسلامی معاشرے کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا ایک عالم اور دوسرے غیر عالم، اور ان میں سے ہر ایک پر وہ واجب قراردیا جو دوسرے پر واجب نہیں، پس جو علماء نہیں ان پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے دریافت کریں، اور علماء کرام پر یہ واجب ہے کہ وہ جس چیز کی بابت دریافت کیا جارہا ہے اس کا جواب دیں، اسی طریقہ پر شخصیات مختلف ہونے پر واجبات بھی مختلف ہوتےہیں۔ چنانچہ آج کے اس دور میں ایک عالم پر واجب ہے کہ وہ بقدر استطاعت حق بات کی جانب دعوت دے ، اور جو عالم نہیں ہے اسے چاہیے کہ جو بات اس سے یا اس کے زیر کفالت لوگوں جیسے بیوی بچے وغیرہ سےتعلق رکھتی ہے اس کا سوال علماء کرام سے کرے۔ اگر مسلمانوں کے یہ دونوں فریق اپنی استطاعت بھر ذمہ داری نبھاتے رہیں تو یقیناً نجات پاجائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ 

(اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا)

(البقرۃ: 286)

ہم صد افسوس مسلمانوں کے ایک ایسے پر الم دور سے گزر رہے ہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، یہ کہ کفار چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحیح ومعروف حدیث میں اس کی خبر دی کہ:

’’تداعى عليكم الأمم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها، قالوا : أمن قلة نحن يومئذ يا رسول الله ؟ قال :  لا ، أنتم يومئذ كثير ، ولكنكم غثاء كغثاء السيل ، ولينزعن الله الرهبة من صدور عدوكم لكم ، وليقذفن في قلوبكم الوهن، قالوا: وما الوهن يارسول الله ؟ قال : حب الدنيا وكراهية الموت‘‘[1]

(تم پر چاروں طرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسا کہ کھانے والے ایک دوسرے کو پلیٹ کی طرف دعوت دیتے ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم  نے عرض کی:یا رسول اللہ!  کیا اس زمانے میں ہماری قلتِ تعداد کی بنا پر وہ ایسا کریں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اس زمانے میں بہت کثیر تعداد میں ہوگے، لیکن تمہاری حیثیت سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے خس وخاشاک کی سی ہوگی، اللہ تعالی ضرور تمہارا رعب وہیبت کافروں کے دلوں سے نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘  ڈال دے گا، انہوں نے دریافت کیا: یارسول اللہ! یہ ’’وہن‘‘  کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت)۔

پس علماء کرام پر جو واجب ہے وہ تصفیہ وتربیہ کا جہاد کریں، وہ اس طرح کے مسلمانوں کو صحیح توحید، صحیح عقائد، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں۔ ہر کوئی اپنی طاقت بھر اپنے اس ملک میں جس میں وہ رہتا ہے ۔ کیونکہ اپنی اس موجودہ حالت میں کہ وہ متفرق ہیں، نہ ہمیں کوئی ایک ملک جمع کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک صف، اس حالت میں ہم یہودیوں کے خلاف جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان دشمنوں کے خلاف جو چاروں طرف سے ہم پر یلغار کررہے ہیں اس قسم کے جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے، لیکن ان پر واجب ہے کہ ہر اس قسم کا شرعی وسیلہ اختیار کریں جو ان کے بس میں ہو، کیونکہ ہمارے پاس مادی قوت تو نہیں ہے، اور اگر ہو بھی، تو ہم عملی اعتبار سے متحرک نہیں ہوسکتے، کیونکہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں ایسی حکومتیں، قیادتیں اور حکام ہیں جن کی سیاسیات شرعی سیاست پر مبنی نہیں، لیکن باذن اللہ ہم ان دو عظیم امور پر کام کرنے کی استطاعت ضرور رکھتے ہیں جو میں نے ابھی بیان کیے۔ پس جب مسلمان داعیان اس اہم ترین واجب کو لے کر کھڑے ہوں گے ایسے ملک میں جہاں کی سیاست شرعی سیاست کے موافق اور اس پر مبنی نہیں، اور اس اساس پر وہ سب جمع ہوجائیں گے، تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس دن ان پر اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آئے گا۔

﴿ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ، بِنَصْرِ اللّٰهِ﴾ 

(اس دن مومنین خوشیاں منائیں گے اللہ تعالی کی نصرت پر)

(الروم: 4-5)

ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حکم الہی اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حسب استطاعت نافذ کرے

چنانچہ ہر مسلمان پر واجب ہےکہ وہ بقدر استطاعت کام کرے، اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ صحیح توحید اور صحیح عبادت کے قیام سے لازم نہیں کہ کسی ایسے ملک میں جہاں اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے وہاں اسلامی ریاست قائم ہوجائے، کیونکہ وہ پہلی بات جس میں اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق حکم ہونا چاہیے وہ اقامتِ توحید ہے، اور اس کے علاوہ بھی بے شک  کچھ ایسے خاص امور ہیں جو بعض زمانوں کی پیداوار ہیں جن سے الگ تھلگ رہنا اختلاط سے بہتر ہے، یعنی ایک مسلمان معاشرے سے الگ ہوکر اپنے رب کی عبادت میں لگا رہے، اور خود کو لوگوں کے شر سے بچائے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے، اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اگرچہ جو اصل اصول ہے وہ تو یہی ہےجیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما  کی حدیث میں بیان ہوا:

’’الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لا يُخَالِطُ النَّاسَ، وَلا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ‘‘([2])

(وہ مومن جو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو نہ لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے)۔

پس ایک اسلامی ریاست بلاشبہ ایک وسیلہ ہے اللہ تعالی کا حکم زمین پر قائم کرنے کا مگر یہ بذات خود کوئی غرض وغایت نہیں۔

بہت عجیب بات ہے کہ بعض داعیان اس بات کا اہتمام تو کرتے ہیں جو حقیقتاً ان کے بس میں نہیں، اور اس بات  کو چھوڑ دیتے ہیں جو ان پر واجب ہے اور آسان بھی! اور وہ اپنے نفس کا مجاہدہ کرنا ہے جیسا کہ ایک مسلمان داعی کا قول ہے جس قول کی وصیت میں اس داعی کے پیروکاروں کو کرتا ہوں:

’’أقيموا دولة الإسلام في نفوسكم تقم لكم في أرضكم‘‘

(اپنے دلوں پر اسلامی حکومت قائم کرلو وہ تمہارے لیے تمہاری زمینوں پر بھی قائم کردی جائے گی)۔

اس کے باوجود ہم بہت سے ان کے پیروکاروں کو پاتے ہیں کہ وہ اس بات کی مخالفت کرتے ہیں، اپنی دعوت کا ایک غالب حصہ اللہ تعالی کو اس کی حاکمیت میں اکیلے ماننے پر زور دینے میں صرف کرتے ہیں، جسے وہ اس مشہورومعروف عبارت سے تعبیر کرتے ہیں کہ: ’’الحاكمية لله‘‘ (حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالی ہی کے لیے ہے)۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حاکمیتِ اعلی صرف اللہ تعالی کے لیے ہی ہے کہ اس میں اور نہ کسی اور چیز میں اس کا کوئی شریک ہے۔ لیکن، ان میں سے کوئی مذاہب ِاربعہ میں سے کسی مذہب کا مقلد ہوتا ہے اور جب اس کے پاس کوئی بالکل صریح وصحیح سنت آتی ہےتو کہتا ہے یہ میرے مذہب کے خلاف ہے! تو کہاں گیا اللہ تعالی کا حکم اتباع سنت کے بارے میں؟!۔

اور ان میں سے آپ کسی کو پائیں گے کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت صوفیوں کی طریقت پر کررہا ہوگا! تو کہاں گیا اللہ تعالی کا حکم توحید کے بارے میں؟! تو وہ دوسروں سے وہ مطالبہ کرتے ہیں جو اپنے آپ سے نہیں کرتے، یہ تو بہت آسان کام ہے کہ اپنے عقیدے، عبادت، سلوک اور اپنے گھر، بچوں کی تربیت، خریدوفروخت میں اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکم کرو جبکہ اس کے برعکس یہ بہت مشکل اور کٹھن ہے کہ تم کسی حاکم کو جبراً کہویا ایسے حاکم کو معزول کرو کہ جو اپنے بہت سے احکامات میں اللہ تعالی کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ آسان کو چھوڑ کر مشکل راہ کو اپنایا جارہا ہے؟!۔

یہ دو میں سے ایک بات کی طرف اشارہ کناں ہے یا تو یہ بری تربیت و بری توجیہ ورہنمائی کا نتیجہ ہے، یا پھر ان کا وہ برا عقیدہ ہے جس نے انہیں اس بات سے روک کر اور پھیر کر جس کو اپنانا ان کی استطاعت میں ہے اس بات کی طرف مائل کردیا ہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے۔

آج کے اس دور میں میں تمام تر مشغولیت کا محور تصفیہ وتربیہ کے عمل کو بنادینے اور صحیح عقیدے وعبادت کی جانب دعوت دینے کے سوا اور کوئی نظریہ نہیں رکھتا۔ ہر کوئی یہ کام اپنی استطاعت بھر انجام دے، اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔

اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر۔


[1] حديث صحيح : رواه أبو داود (4297) ، وأحمد (5/287) ، من حديث ثوبان رضي الله عنه، وصححه بطريقيه الألباني في الصحيحة (958) .ابو داود کے الفاظ ہیں: ’’يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا، فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘ (مترجم)۔

[2] حديث صحيح : رواه الترمذي (2507) ، وابن ماجه (4032) ، والبخاري في الأدب المفرد (388) ، وأحمد (5/365) ، من حديث شيخ من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وصححه الألباني في الصحيحة (939) .

مصدر: التوحید اولا یا دعاۃ الاسلام

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*