یہ نعرہ کہ: تمام اسلامی جماعتوں کو اختلافات بھلا کر کافروں کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے؟ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: آپ کا ایسے شخص کے بارے میں کیا کہنا ہے جو یہ کہتا ہے کہ :بلاشبہ جتنی  بھی اسلامی جماعتیں ہیں سب کی سب خیر پر ہیں، جیسے سارے جھرنے ایک ہی دریا میں گرتے ہیں، اور یہ سب مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں؟

جواب: یہ قول سیاسی مغالطوں میں سے ہے۔ ا س قول کا قائل خود اپنے آپ کو بھی مغالطے میں رکھتا ہے ساتھ میں امت کو بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امت کو ایک امت ہونا چاہیے اور بس ایک جماعت ہونا چاہیے ناکہ مختلف جماعتیں، اور یہ کہ سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں  جیسا کہ اللہ تعالی کا حکم ہے:

﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾  

(اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو)

(آل عمران: 103)

پس مسلمان تفرقے کا شکار ہیں اپنے عقائد میں اور اپنے مناہج میں حتی کہ جو جماعتیں اپنے آپ کو اسلامی کہلاتی ہیں، اللہ کی قسم! وہ بھی اپنے عقائد ومناہج میں تفرقے کا شکار ہیں۔ پس ان کے یہاں خوارج کے بھی عقائد ہيں تو مرجئہ، صوفیہ اور دوسرے گمراہ کن عقائد پائے جاتے ہیں۔

لہذا یہ عقیدے کے اختلافات ایک ہی دھارے میں بہتے دریا میں نہيں گرتے! بلکہ شیطان کے نالے میں جاگرتے ہیں، اور جن راہوں پر یہ چل رہے ہیں ان میں سے ہر راہ پر شیطان بیٹھا ہے۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کی خبر دی ہے([1])۔

پس انہیں چاہیے کہ سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں، اور ایک امت بن جائيں، ان کی غایت وہدف ایک ہو اور وہ ہے توحید، دین کو اللہ تعالی کے لیے خالص کرنا، اپنی، اپنے خاندان اور معاشرے کی ترتیب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کرنا۔ تب جاکر وہ ایک امت بن پائیں گے۔ اور ان کی کوششیں رنگ لائيں گی پھر وہ سب جھرنے ایک ہی دریا میں گریں گے۔ لیکن اس موجودہ شکل میں یہ سب ہوجائے تو پھر یہ بس ایک مغالطہ ہی ہے۔ ایسا مغالطہ جو حقیقت حال کے برخلاف ہے۔ اور اس حدیث کے بھی برخلاف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’سَتَفْتَرِقُ هَذِهِ الأُمَّةُ إِلَيْ ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً، قَالُوا: مَنْ هِيَ؟ قَالَ: مَنْ كَانَ عَلَيْ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘([2])

(یہ امت بھی عنقریب تہتر  فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی : وہ (نجات پانے والی جماعت) کونسی ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اس چیز پر ہوگی جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم)۔

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے واقع ہونے کی خبر دی تھی اور جو واقعی سچ ثابت ہوئی، اور یہ ایسی حقیقت ہے جس میں کوئی شک ہی نہيں۔ چنانچہ یہ قول کہ یہ سب جماعتیں ایک ہی دریا میں گرتی ہیں بدترین مغالطات میں سے ہے۔ یہ تو گویا کہ امت جس ذلت وپستی میں مبتلا ہے اسے اسی میں رکھے رہنے پر مصر ہونا ہوا۔ یہ قول تو بدترین اقوال میں سے ہے، اور بدترین مغالطات میں سے ہے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ (اس قول کا قائل) نہيں چاہتا کہ امت  اللہ کے کلمے پر جمع ہوجائے، بلکہ اس کی تو صرف اور صرف یہی چاہت ہے کہ امت متفرق رہے۔ اور یہ تفرقہ چلتا رہے۔ اور اس کے لیے اس گھٹیا اسلوب پر مبنی حیلہ استعمال کررہا ہے کہ بے شک یہ سب دھارے ایک ہی دریا میں گرتے ہیں۔ لیکن یہ بات حقیقت حال کے بالکل برخلاف ہے([3])۔ چنانچہ اخوان المسلمین کا اپنا ہی مشرب ہے، اور تبلیغیوں کا اپنا مشرب ہے، اسی طرح سے صوفیوں اور روافض بلکہ ہر فرقے کا اپنا خاص مشرب ہے۔ ہر جماعت فقط اپنے ہی مصالح کے لیے کام کرتی ہے۔ ان کی چاہت ہوتی ہے کہ ان کے مخالفین ہلاک ہوں۔ یہ بات تو بالکل موجود ہے۔

بہرحال یہ لوگ حقیقت حال کو جھٹلانے والے ہیں، اور اللہ تعالی کی شریعت کے بھی مخالف ہیں، اللہ تعالی کا تو واضح فرمان ہے:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ﴾  

(بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا اور کئی گروہ بن گئے، آپ کا ان سے کوئی سروکار نہیں)

(الانعام: 159)

پس اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان تفرقہ بازوں سے بری قرار دیا۔ اور یہ لوگ اللہ کی قسم متفرق ہیں یہ تو بالکل واضح سی بات ہے۔ یہ ان کی تالیفات موجود ہيں، یہ ان کے مدارس موجود ہيں،  یہ ان کی کتابیں ہیں، اور یہ ان کے حقیقی اور موجود عقائد ہیں، یہ ان کی اجتماعی صورتحال ہے، اور یہ ان کی سیاسی صورتحال ہے، یہ سب کی سب اس مضحکہ خیز مقولے کی تکذیب کرتے ہیں۔

(الأجابات الجلية عن القضايا المنهجية)

سوال: سائل کہتا ہے: سوال تو طویل ہے لیکن اس کا اختصار یہ ہے کہ: بلاشبہ بعض لوگ اور کچھ داعیان یہ کہتے ہیں کہ: جتنی بھی اسلامی جماعتیں ہیں بلاشبہ یہ سب ایک ہی خندق میں ہيں، یا بے شک ان تمام جماعتوں پر واجب ہے کہ یہ سب خارجی دشمن جیسے یہود ونصاریٰ اور مشرکین وغیرہ کے خلاف ایک خندق میں جمع ہوجائيں، اور ایک دوسرے کے خلاف مشغول نہ رہیں، پس فضیلۃ الشیخ اس قول کی کیا صحت ہے ؟

جواب: جو کچھ یہ جماعتیں کہہ رہی ہیں بے شک یہی بات واجب ہے، اور یہ کہ تمام مسلمان ایک ہی کلمے پر مجتمع ہوں، اور ایک ہی خندق میں ہوں۔ نہ صرف دفاعی جنگ میں بلکہ اللہ کے دشمنوں پر حملہ کرنے میں پہل کرنے والی جنگ میں بھی۔ اور فتح وفتوحات میں بھی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ اور فقط یہی اکیلا واجب نہیں بلکہ ایک ایسی چیز بھی ہے جو اس سے بھی بڑھ کر واجب ہے، اور لازمی ہے کہ وہ اس سے پہلے ہو، کہ اگر واقعی یہ لوگ اپنے اس قول میں سچے ہیں، تو انہيں چاہیے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹ آئیں، اور اس چیز کو مضبوطی سے تھام لیں جو کچھ ان دونوں میں ہے خواہ عقائد ہوں، یا عبادات، معاملات وسیاسیات وغیرہ۔

یہ ایک ایسا مطلوب ہے جس کے سوا کوئی چارہ نہيں۔ اگر ہم سب کو ایک ہی گھڑی میں اکھٹا وجمع کرتے بھی ہیں جبکہ ساتھ میں ہم گمراہی اور اہوا پرستی میں بھی مبتلا رہتے ہیں، پھر تو یہ بات محال ہے۔ محال ہے کہ ہم جمع ومتحد ہوجائيں جبکہ سب کے مشارب متعدد ہوں، رجحانات متضاد ہوں اور بغض ونفرت مستحکم ہو۔ چنانچہ اس بغض ونفرت کو پاک نہیں کرسکتا اور نہ اس  اہوا پرستی سے چھٹکارا مل سکتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالی کے لیے اخلاص اپنایا جائے، ایمان میں صداقت ہو، اور اس کے لیے سچی تابعداری ہو اوراس کے اوامر و رہنمائیوں کی مکمل پاس داری ہو۔

اگر ہم اپنے آپ کو اللہ کے اوامر کی تنفیذ، اس کی جانب سے دی جانے والی رہنمائیوں کی تنفیذ، اور جو کچھ اس نے عقائد ومناہج کے میدان میں مقرر فرمایا ہے اس کی تنفیذ کا پابند بنادیں گے تو یہ نہ صرف ہماری پختگی وسنجیدگی کی علامت ہوگا بلکہ ہماری دشمنوں پر نصرت کی ضمانت ہوگا۔

جس دن ہم نے اللہ کی کتاب کی جانب رجوع کیا اس میں جو کچھ ہے رہنمائیاں، عقائد وتعلیمات اسے ہی سرمایۂ فخر سمجھا اور ہماقسم کی اہواء، بدعات وخرافات کو اٹھا پھینکا تو اس دن سے ہم ایک منہج پر گامزن ہوں گے۔ ایک شخص کے دل کی طرح ہمارا دل ہوگا۔ اس وقت ہم شدید قوت والے بن جائیں گے جیسا کہ ہمارے اسلاف نے کیا۔ اور اسی وقت درحقیقت ہم اس غایت وہدف کو عملی طور پر شروع کرنے والے بنیں گے۔ آج دسیوں معاہدات ہم کرتے رہتے ہیں اور اس قسم کے کلام کی خام خیالی میں رہتے ہیں، آخر ہم نے پایا کیا ہے؟

نہیں ملی ہمیں مگر ہزیمتیں وشکست، نہیں ہيں مگر جھگڑے اور فکری کشمکشیں، بلکہ یہاں وہاں باقاعدہ آپس میں ہی جنگیں اور معرکے برپا ہیں، العیاذ باللہ۔

زندہ مثالیں موجود ہیں افغانستان میں طویل عرصے کٹھن جہاد کرتے رہے اور ساری امت ان کی پشت پر کھڑی رہی ان کی مال، اخلاق وجذبات اور اپنے جگرگوشوں کے ساتھ مدد کرتی رہی۔ لیکن چونکہ وہ سلفی منہج پر تھے نہیں، اور عقائد فاسد تھے تو نتیجہ وہ ہوا جو آپ جانتے ہیں۔ ان کی آپسی خانہ جنگی کی آگ اس سے بھی بڑھ کر شدید تھی جو ان کے اور کمیونسٹوں کے مابین ہوئی تھی۔

کیوں؟ کیونکہ بلاشبہ یہ جہاد شروع سے ہی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قائم نہیں تھا اور نہ ہی اعلیٰ ومقدس اہداف کےتحت تھا۔ سارا کچھ اہواء پرستی واغراض پر مبنی تھا۔

اس کے دلائل میں سے یہ ہے کہ انہوں نے بلاشبہ سلفیوں کو ذبح کیا۔ حالانکہ انہوں نے کنڑ شہر میں شریعت الہی کی تطبیق کی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے کمیونسٹوں (کے قتل) سے پہلے ان سلفیوں سے  شروع کیا۔ لہذا جب امت میں فاسد عقائد موجود ہوں اور ہٹ دہرمی پر مبنی اہواء وخواہش پرستی ہو جس کی اندھا دھند پیروی کی جاتی ہو تو جتنا بھی ڈھول پیٹ لیں اور حلق پھاڑ لیں آپ کسی چیز کو کبھی ٹس سے مس نہیں کرسکتے۔  اور اللہ تعالی سے ان کی دوری ہی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور یہ دشمنان الہی کے ہاتھوں نشان عبرت ہی بنتے رہیں گے کہ وہ اپنے کوڑوں کو ان کی کمر سے سیکتے رہیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ في سبيل الله، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ عَنكُم حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ‘‘([4])

(اگر تم اپنی تجارت میں بیع عینہ میں لگ جاؤ گے اور بیلوں کی دموں کو تھام لو گے اور محض کھیتی باڑی پر راضی ہوکر بیٹھ جاؤ گے، اور اللہ تعالی کی راہ میں جہاد ترک کردو گے، تو پھر اللہ تعالی تم پر ایسی ذلت مسلط کرے گا جو تم پر سے نہیں ٹالے گا یہاں تک کے تم اپنے دین کی طرف رجوع کرو)۔

اور یہ دین کیا ہے؟ یہ کون سا دین ہے (جس کی جانب رجوع کرنا ہے)؟ فلاں فلاں کا دین یا اللہ تعالی کا دین جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا؟

یہ دین تو وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ﴾  

(آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا)

(المائدۃ: 3)

اللہ کی قسم! اللہ تعالی کبھی بھی کسی اور دین سے راضی نہیں ہوگا سوائے اس دین کے جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی فرمایا اس کے عقائد وشریعت کے ساتھ۔ لہذا اگر ہم خود سے عقائد اختراع کرنا شروع کردیں گے اور یونان وصوفیہ وغیرہ سے عقائد اخذ کرنا شروع کردیں اور کہیں کہ یہ دین ہے، تو پھر اللہ تعالی نے یقیناً اس دین کو قبول نہیں فرمایا اور نہ کبھی فرمائے گا۔ اور یہ ہمارے عبرت ناک انجام، عذاب اور ذلت میں ہی اضافے کا سبب بنے گا۔

اگر مسلمان صرف ان تلخ و ناخوشگوار تجربوں کو ہی دیکھ لیں تو ان کے لیے کافی ہے، لیکن ان میں کے اکثر ہوش کے ناخن نہيں لیتے ،اور نہ ان سے سبق حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی عبرت پکڑ کر بیدار ہوتے ہیں۔ آج ان کے پاس مال کی کمی نہيں، نہ ہی رجال کی، یہ امیر ترین قوموں میں سے ہیں، اور لوگوں کی تعداد کے اعتبار سے بھی بہت زیادہ ہيں اس کے باوجود ان کی حالت اس خس و خاشاک کی سی ہے جو سیلابی ریلے میں بہہ جاتی ہے، جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا یہ وصف بیان فرمایا ہے۔ یہ بیان کردہ حالت ان سے دور ہو نہیں سکتی کبھی بھی جب تک یہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی جانب فہم سلف صالحین کے مطابق سچا وصادق رجوع نہيں کرتے۔ اس وقت اللہ تعالی کی نصرت آئے گی اور عزت ملے گی، اور ہر وہ چیز جو ہماری مطمح نظر ہیں عزت، کرامت اور دشمنان الہی پر نصرت سب حاصل ہوں گی۔

کن کے ساتھ ہم دشمن سے لڑیں گے؟

روافض کے ساتھ؟!

آپ کھڑے ہوں گے قبرپرستوں کے ساتھ آخر کس چیز کی خاطر؟! قبروں مزاروں کو پکا کرنے کی خاطر؟! ہم حکومت اور جہاد قائم کریں تاکہ مزارات پختہ کیے جائیں؟!!

جیسا کہ ہم نے دیکھا مثال کے طور پر افغانستان میں وہ ان سے جہاد کرتے تھے حالانکہ وہ قبروں مزاروں کو خود تعمیر کرتے تھے، تو پھر حال کیا ہو؟!

کیونکہ یہ لوگ نہ صحیح عقیدہ جانتے تھے نہ ہی صحیح منہج، نہ وہ اسلام کی عزت، اسلام کی تطبیق اور جو کچھ ان سے اللہ تعالی چاہتا تھا اس کو پہنچ سکے۔ کیونکہ بلاشبہ بہت سے مسلمانوں نے حقیقی معنوں میں اللہ تعالی کے سامنے سرتسلیم خم کیا ہی نہيں، نہ ہی عقائد وعبادات میں اس کی اس کتاب سے بطور حاکم و فیصل کن ہونے کے راضی ہوئے ہيں ۔

اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: ’’لا حكم إلا لله‘‘ (نہیں ہے حکم مگر صرف اللہ کے لیے)، حالانکہ یہ لوگ سب سے اول اور پیش پیش ہیں اللہ تعالی کی حاکمیت کو ٹھکرا دینے میں اپنے عقائد، عبادات اور مناہج میں!

اے اللہ کے بندو! حاکمیت الہی شروع ہوتی ہی عقائد سے:

﴿اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلهِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ﴾  

(حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اس نے حکم دیا ہے کہ نہیں کرو عبادت مگر صرف اسی کی)

(یوسف: 40)

﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ﴾  

(اور تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ نہیں کرو عبادت مگر صرف اسی کی)

(الاسراء: 23)

کہاں ہیں یہ اوامر؟

کیا یہ لوگ اللہ تعالی  کے بارے میں اعتقاد رکھتے بھی ہیں، اس کے اسماء و صفات پر جیسا کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آئے ہیں؟

کیا یہ لوگ اور ان کے علاوہ جو ہیں شرک، بدعات وخرافات کے خلاف جنگ کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا حق ادا ہو:

﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ﴾  

(اور تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ نہیں کرو عبادت مگر صرف اسی کی)

(الاسراء: 23)

کیا اس مسئلے اور قضیے میں اللہ تعالی کو حاکم بنایا انہوں نے؟

﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ﴾  

(پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک آپس میں جو جھگڑا واختلاف ہو اس میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں)

(النساء: 65)

میرے بھائی، یہ لوگ جو آج حاکمیت حاکمیت چیختے پھرتے ہیں کہ مسلمانوں کا کلمہ جمع ہو تاکہ حکومت تک رسائی حاصل ہوسکے۔ ان کا قصد صرف کرسیوں کے لیے چھلانگ لگانا ہے۔ اس عجلت اور اس تیزی سے بنا کسی اساس کے، اور بنا صحیح بنیاد کے، اور بنا صحیح تربیت کے، پھر ان کی اس سے یہی چاہت ہے کہ ایک چھلانک بھریں اور بس کرسیوں تک پہنچ جائیں۔

سوڈان کی طرف دیکھیں، افغانستان کی طرف دیکھیں کیا ہے وہاں سوائے جہالت وگمراہی کے، قبروں مزاروں کی تعمیر اور یہود ونصاریٰ و کمیونسٹوں و سیکولروں کے ساتھ اتحاد کے، یہ سب صرف اسی فاسد ونجس غایت وہدف کو حاصل کرنے کی خاطر کیا جاتا ہے ، کرسی اور تخت حکومت تک رسائی۔ کیونکہ بلاشبہ اس کے ساتھ یہ مسلمانوں کی عقلوں کی تضحیک کرتے ہيں کہ اس کے ذریعے بس ایک چھلانگ میں وہ اونچائی پر پہنچ جائيں اور لوگوں کی گردنوں میں ان کی حکومت کا طوق ہو، ان کی جان و مستقبل کے فیصلے اپنی اہواء وخواہشات اور مغربی قوانین کے تحت کرتے پھریں۔

اے میری قوم! اس جلدبازی کو چھوڑ دو، اس عجلت پسندی کو ترک کردو اور اللہ تعالی کی جانب رجوع کرو، اور امت کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تربیت دو۔ حکمرانوں کو نصیحت کرو اسلامی مناہج کے مطابق۔ حکام کو جب نصیحت کرو تو سب سے پہلے ان کو بھی عقائد کی اصلاح کی دعوت دو، اس سے پہلے کہ تم ان سے حاکمیت کو لے کر ان کے تخت ِحکومت کے بارے میں تنازع کرو، حکام کے عقائد کی تصحیح کرو تمام چیزوں سے پہلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دنیا کے بادشاہوں کو خطوط لکھتے تھے کیا انہیں اپنے تخت سے معزول ہونے کی دعوت دیتے تھے تاکہ خود ان کی جگہ آجائیں، یا پھر انہیں لا الہ الا اللہ کی شہادت اور ایمان و توحید کی طرف دعوت دیتے تھے؟

میرے بھائی! واجب ہےکہ ہم امت کے عقائد کی تصحیح کریں خواہ حکام ہوں یا محکومین، اور ہم ان سے اسلامی مناہج کا مطالبہ کریں، اور ہم مدارس کی تعمیر اس طور پر کریں کہ وہ لوگوں کی ان صحیح مناہج اور ان صحیح عقائد پر تربیت کریں جو ہمارے رب کو راضی کرتے ہیں، تو پھر اللہ تبارک وتعالی ہمارے مطالبات بھی پورے فرما دے گا اور ہمارے دشمنوں پر ہماری نصرت فرمائے گا۔ لیکن اس کے بغیر ہم کبھی بھی کچھ بھی نہيں پاسکتے۔

یہ کلام خطاء اور غلطی پر مبنی ہے۔ اور بار بار اس پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے لیکن ان کی اہواء وخواہشات ہٹ دھرمی پرمبنی ہیں العیاذ باللہ:

﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ﴾  

(بےشک تم ہدایت نہیں دے سکتے جسے تم چاہو، اور لیکن اللہ تعالی ہدایت دیتا ہیں جسے چاہے)

(القصص: 56)

اللہ تعالی سے ہم اپنے اور ان کے لیے صراط مستقیم کی جانب ہدایت کا سوال کرتے ہیں۔

سوال: آپ کی کیا رائے ہے دعوتی مذاہب کے مابین تقارب پیدا کرنے کے تعلق سے؟

جواب: یہ باطل فکر ہے۔ کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی کا نہیں ہے مگر ایک ہی منہج، اور نہیں ہے مگر صرف ایک ہی صراط (راستہ) :

﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ  ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ  ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾  

(اور یہ کہ بےشک یہی میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستے سے جدا کر دیں گے۔ یہ ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے تمہیں دیا ہے، تاکہ تم بچ جاؤ)

(الانعام: 153)

الحمدللہ علماء کرام کے فتاوی موجود ہیں([5]) جن میں وہ اس حزب سازی اور تفرقے کو حرام قرار دیتے ہيں۔ کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے اس چیز کی مذمت فرمائی اور اس سے ڈرایا ہے، اس کے تعلق سے سوائے اس کے کچھ نہیں فرمایا کہ:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ  ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ﴾  

(بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا اور کئی گروہ بن گئے، تمہارا ان سے کوئی سروکار نہیں،  ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے، پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے)

(الانعام: 159)

پس تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایک جماعت ہوں، اور ایک راستے پر ہوں۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اسلام اسے سرے سے مسترد کرتا ہے۔ اور یہ تو خود بعینہ تفرقہ بازی ہے، اور اس باطل میں سے اور بدعات وگمراہی میں سے ہے جس سے اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بری قرار دیا ہے۔

كشف الستار عما تحمله بعض الدعوات من أخطار

مصدر: مختلف مصادر۔


[1] وہ حدیث یہ ہے: ’’خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  يَوْمًا خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ سُبُلٌ (قال يزيد: متفرقة)  عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ، ثُمَّ قَرَأَ:﴿وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ﴾ (الانعام:153)‘‘ (احمد: 1/435،436، نسائی: 184، الدارمی: 1/67-68، قال الالبانی صحیح، دیکھئے شرح عقیدہ طحاویہ: 810)۔

[2] صحیح ترمذی 2641 الفاظ کے اختلاف کے ساتھ۔

[3] شیخ احمد النجمی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ:

سائل پوچھتا ہے: ہم میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں: دعوت کے میدان میں اس وقت تک ان تمام جماعتوں کے ساتھ تعاون درست ہے جو اس میدان میں ہیں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کہتے رہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

جواب: یہ یا تو جاہل فریب خوردہ ہے دوسروں نے اسے دھوکہ دیا، یا اس کے دل میں خباثت ہے ہم اللہ سے اس کی ہلاکت مانگتے ہیں کہ مسلمانوں کو اللہ اس کے شر سے راحت بخشے، جو ایسی بات کہتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ گمراہی پھیلائے، اس کے لیے جائز نہیں کہ ایسی بات پھیلائے۔ (تقریر بعنوان ’’کتاب وسنت کو تھامنا ہی راہ نجات ہے‘‘ سوال 8) (مترجم)

[4] اسے امام احمد نے اپنی مسند میں2/28  روایت کرتے ہوئے فرمایا: حدثنا الأسود بن عامر أنا أبو بكر – يعني: إبن عياش- عن الأعمش عن عطاء بن أبي رباح عن إبن عمر بنحوه. اور اس کے رجال شیخین کے رجال ہیں سوائے ابو بکر بن عیاش کے کہ جب وہ بڑی عمر کے ہوگئے تھے تو سوء حفظ میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اور اس میں الاعمش کا عنعنہ بھی ہے جو کہ مدلس ہیں الا یہ کہ قلت تدلیس کی وجہ سے آئمہ ان کے لیے اس کا احتمال کرتے ہیں۔ اور اسے امام احمد نے اپنی مسند 2/42 میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا الا یہ کہ اس کی اسناد میں شہر بن حوشب ہیں جو کہ صدوق ہیں لیکن کثیر الاوہام والارسال ہیں۔ اسی طرح سے امام احمد نے ہی اپنی مسند 2/84 میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں بھی شہر بن حوشب ہیں جن کے بارے میں آپ جان چکے ہیں۔  اور اس حدیث کو امام ابو داود نے اپنی سنن کی کتاب البیوع 3/740 حدیث 3462 میں اپنی اسناد سے اسحاق ابی عبدالرحمن الخراسانی عن عطاء الخراسانی عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہما تک روایت کیا ہے، اور اسحاق وعطاء دونوں ہی کی تضعیف کی گئی ہے۔  شیخ البانی فرماتے ہیں: وتابعه فضالة بن حصن عن أيوب عن نافع به، رواه إبن شاهين في جزء من الأفراد 1/1 وقال: تفرد به فضالة. دیکھیں: السلسۃ الصحیحۃ رقم 11۔ گویا کہ ابن شاہین یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بے شک فضالہ کا عن ایوب سے تفرد ہے، اور فضالہ مضطرب الحدیث ہے۔ پس یہ حدیث اپنی مجموعی طرق کی بنا پر اگر صحیح تک نہیں بھی پہنچتی تو حسن کے درجے تک پہنچ ہی جاتی ہے ۔ واللہ اعلم۔

[5] اس تعلق سے دیکھیں : ’’فتاوى المهمة في تبصير الأمة‘‘ 114-129 اور 137-192، جمع وتعلیق وتخریج جمال الدین بن فریحان الحارثی حفظہ اللہ۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*