آخری عشرے میں تراویح اور قیام اللیل علیٰحدہ کرنا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

جو کچھ میرے سامنے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہی ہے کہ جو امام کے ساتھ آخر تک قیام کرلیتا ہے تو وہ رات کے آخری میں نہ پڑھے.

کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمائش  کی تھی  کہ باقی رات بھی انہیں قیام کروائيں، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من قام مع الإمام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة[1]

جو امام کے ساتھ آخر تک قیام کرتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔

اس میں اشارہ ہے (اور علم تو اللہ کے پاس ہے) کہ انسان اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالے اور اپنی امام کے ساتھ پڑھی گئی نماز کو کافی سمجھے، اگر وہ امام کے ساتھ اپنی پڑھی گئی نماز پر کفایت کرتا ہے تو وہ کافی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہيں فرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تو  در کھلا ہےقیام جاری رکھو ، ایسا نہیں فرمایا بلکہ مذکورہ بالا حدیث ہی بیان فرمائی۔

لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ پہلے کے آئمہ مکمل طور پر نماز پڑھتے تھے یعنی لوگوں کو بھرپور موقع دیتے دعاء، رحمت طلب کرنے اور جس طرح قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے اس طرح پڑھنے کا، برخلاف آجکل کے بہت سے آئمہ کے۔ آج تو بہت سے آئمہ (اللہ انہیں اور ہمیں ہدایت دے) بہت زیادہ تیزی سے نماز پڑھتے ہیں کہ انسان کو اطمینان ہی نصیب نہیں ہوتا ، نہ ہی وہ صحیح سے دعاء کرپاتا ہے۔ کیونکہ ان (آئمہ) کی چاہت ہوتی ہے الا ماشاء اللہ کہ لوگوں سے ان کی مساجد بھر جائيں ، اور لوگ تو جلدبازی پسند کرتے ہیں، غالباً لوگ جلدی کرنا پسند کرتے ہيں، اسی لیے بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔۔۔ان کی نماز جیسا کہ کھیل تماشہ بن کر رہ جاتی ہے، جس میں کوئی فائدہ نہيں۔ اور واقعی یہ بات صحیح ہے کیونکہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس  شخص کو جو اطمینان سے نماز نہیں پڑھ رہا تھا فرمایا:

ارجع فصل فإنك لم تصل[2]

واپس جاؤ نماز پڑھو، کیونکہ بلاشبہ تم نے تو نماز پڑھی ہی نہیں۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تلك صلاة المنافق، تلك صلاة المنافق، تلك صلاة المنافق، يرقب الشمس حتى إذا كانت بين قرني الشيطان -أي: عند الغروب هذا في صلاة العصر- قام فنقر أربعاً لا يذكر الله فيها إلا قليلا[3]

یہ منافق کی نماز ہوتی ہے، یہ منافق کی نماز ہوتی ہے، یہ منافق کی نماز ہوتی ہے کہ وہ سورج کا منتظر رہتا ہے یہاں تک کہ  جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے( یعنی غروب کے وقت  نماز عصر کی بات ہورہی ہے)، تو وہ کھڑا ہوتا ہے اور چار ٹھونگیں  لگاتا ہے، اور اس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر بہت کم۔[4]

سوال:یا شیخ رمضان کے آخری عشرے میں جو آجکل  قیام اللیل  والی نماز کو اول اور آخری وقت میں  تقسیم کیا جاتا ہے اور یہ باقاعدہ دائمی نظام بن گیا ہے۔وہ کہتے ہيں کہ ہم لوگوں پر اسے ہلکا کرکے سنت کو قائم کررہے ہیں؟

شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ:

وہ اول وقت میں پڑھتے ہیں جبکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول  ہے کہ جو آخر وقت میں پڑھتے ہیں وہ افضل ہے۔ یعنی انہوں نے جب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو عشاء نماز کے بعد قیام کروائيں تو آپ نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب  وہ بعد میں دیکھنے کے لیےباہر نکلے  فرمایا:

نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ

یہ کتنی اچھی بدعت [5](واپس شروع کیا گیا مسنون طریقہ) ہے۔

ساتھ ہی فرمایا:

وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ[6]

 جس آخری وقت یہ سوتے ہيں اس وقت اٹھ کر پڑھنا (عشاء کے فوراً بعد پڑھنے سے) افضل ہے۔

سائل: یعنی جس طرح آخری عشرے سے پہلے پڑھ رہے تھے تراویح اسی طرح پڑھتے رہیں؟

شیخ: جی ہاں۔[7]

ترجمہ وترتیب

طارق بن علی بروہی


[1] صحیح ترمذی 806

[2] صحیح بخاری 793، صحیح مسلم 868

[3] صحیح مسلم 1412، سنن ابی داود 413

[4] (اللقاءات الرمضانية  ص42)

[5] اس بات کی وضاحت ہم اپنے کئی مقالات میں علماء کے کلام سے کرچکے ہیں کہ یہاں بدعت سے مراد لغوی بدعت ہے ناکہ شرعی۔ (مترجم)

[6] صحیح بخاری 2010

[7] سلسلۃ الھدی والنور 719

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*