شب قدر کی فضیلت، علامات اور اس میں دعاء

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شب قدر سب سےافضل ترین رات ہے جس میں اللہ تعالی نے قرآن کریم کا نزول فرمایا۔ اور خبر دی کہ یہ ہزار ماہ سے بہترہے۔ اور یہ مبارک رات ہے جس میں تمام حکیمانہ امور کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔اللہ تعالی کا سورۂ دخان کی ابتداء میں فرمان ہے:

﴿حٰـمۗ، وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ، اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ،  فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ،  اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ۭ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ، رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ﴾ 

(حم، قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی، یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈرانے والے ہیں، اسی رات میں ہر ایک حکیمانہ کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے،  ہمارے پاس سے حکم ہو کر ،ہم ہی ہیں رسول بنا کر بھیجنے والے، آپ کے رب کی مہربانی سے، بے شک وہی تو سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے)

(الدخان: 1-6)

اور فرمایا:

﴿اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ، لَيْلَةُ الْقَدْرِ ڏ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ، تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ، سَلٰمٌ، هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾ 

(یقیناً ہم نے اس(قرآن) کو شب قدر میں نازل فرمایا،  اور آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے؟  شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس میں ہر کام کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام  ) اترتے ہیں، یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے)

(سورۃ القدر)

اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ:

’’مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘[1]

(جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید میں قیام کیا تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں)۔

اور رات کا قیام یا جاگنا نماز، ذکر، دعاء اور قرأت قرآن وغیرہ جیسے اعمال خیر پر مشتمل ہو۔ یہ عظیم سورۃ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس میں کیا گیا نیک عمل اس کے علاوہ کیے گئے ہزار ماہ کے نیک عمل سے بہتر ہے۔ یہ واقعی عظیم ترین فضیلت ہے اور اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر خصوصی رحمت ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کی تعظیم کریں اور اسے عبادتوں کے ساتھ جاگ کر گزاریں۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس بات کی خبر دی کہ یہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے اور اس میں بھی طاق راتوں کے بارے میں  دیگر راتوں کی نسبت زیادہ امید ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’اِلْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَالْتَمِسُوهَا فِي كُلِّ وِتْرٍ‘‘[2]

(اسے رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو،اور اسے ہر طاق رات میں تلاش کرو)۔

اور احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ ہمیشہ ایک متعین رات نہیں ہوتی بلکہ آخری عشرے کی مختلف طاق راتوں میں ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے ۔

یعنی کبھی اکیسویں ہوتی ہے، تو کبھی تیسویں، کبھی پچیسویں تو کبھی ستائیسویں، اور کبھی انتیسویں جبکہ ستائیسویں کے بارے میں سب سے زیادہ امید کی جاتی ہے۔اور کبھی تو یہ طاق کے علاوہ جفت راتوں میں بھی ہوسکتی ہے۔ جو کوئی پورے عشرے کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ بلاشبہ اس رات کو پاہی لیتا ہے اور اس وعدۂ الہی کو پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو اس نے اس رات قیام کرنے والوں سے فرمایا ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان دس راتوں میں پہلے بیس دنوں کے نسبت زیادہ محنت فرمایا کرتے تھے۔ عائشہ  رضی اللہ عنہا  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بار ےمیں فرماتی ہیں:

’’يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ‘‘[3]

(اس آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے جتنی اس کے علاوہ میں نہیں کرتے تھے)۔

اور فرمایا:

’’إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، شَدَّ مِئْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ‘‘[4]

(جب آخری عشرہ رمضان کا داخل ہوتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  عبادت کے لیےتہہ بند کس لیتے، اور اس کی راتوں کو خود بھی جاگتےاور گھر والوں کو بھی جگاتے)۔

آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  غالباً اس میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، فرمان الہی ہے:

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ 

(یقیناً تمہارے لیے  رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ہے)

(الاحزاب: 31)

اور عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے دریافت فرمایا کہ اگر مجھے یہ رات مل جاتی ہے تو میں اس میں کیا کہوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا یہ کہو:

’’اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي‘‘([5])

(اے اللہ تو درگزر فرمانے والا ہے، درگزر کو پسند فرماتا ہے، مجھ سے بھی درگزر فرما)۔

اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اور ان کے بعد کے سلف اس عشرے کی بہت تعظیم فرمایا کرتے تھےاور اس میں مختلف انواع کے اعمال خیر میں محنت فرمایا کرتے تھے۔ پس ہر جگہ بسنے والے مسلمانوں کے لیے مشروع ہے کہ وہ  اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اور اس امت کے بہترین سلف  رحمہم اللہ  کی پیروی کریں اور ان راتوں میں نماز، قرأت قرآن، مختلف انواع کے اذکار وعبادات کے ذریعے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید میں شب بیداری کریں تاکہ اللہ تعالی کےفضل وجود وکرم سے اپنے گناہوں کی بخشش، ان کے بوجھ سے نجات اور جہنم سے گلوخلاصی کے ساتھ فلاح پاجائیں۔ کتاب وسنت اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ عظیم وعدہ اسے حاصل ہوتا ہے جو کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے ۔جیسا کہ فرمان الہی ہے:

﴿اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا﴾ 

(اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے صغیرہ گناہ دور کر دیں گے اور تمہیں عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے)

(النساء: 31)

اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَرَمَضَانَ إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ‘‘([6])

(پنج وقتہ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ، ایک رمضان سے دوسرا رمضان ان کے مابین ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہیں جب کبیرہ گناہوں سے بچا جائے)۔

اور جس بات پر تنبیہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ بعض مسلمان رمضان میں خوب محنت کرتے ہیں اور اپنے گزشتہ گناہوں کو اللہ تعالی سے معاف کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جونہی رمضان گزر جاتا ہے وہ اپنے برے اعمال کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ پس ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اس سے ڈرے اور اللہ تعالی کی اطاعت کرنے اور اس کی نافرمانی سے بچنے کا سچا عزم کرے جیسا کہ فرمان الہی ہے:

﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ 

(اور اپنے رب کی عبادت مرتے دم تک کرتے رہو)

(الحجر: 99)

اور فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾ 

(اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اوردیکھنا مرتے دم تک مسلمان (فرمانبردار) ہی رہنا)

(آل عمران: 102)

اور فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ، نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ، نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ﴾ 

(بلاشبہ جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی خوف اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو، تمہاری دنیاوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے، جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے  (جنت میں موجود) ہے، غفور و رحیم کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے)

(فصلت: 30-32)

اور  اس آیت کا معنی ہے کہ جو اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہی ہمارا رب ہے اور اس پر ایمان لاتے ہیں، اس کی اخلاص کے ساتھ عبادت کرتے ہیں پھر اس پر استقامت اختیار کرتے ہیں تو انہیں فرشتے موت کے وقت بشارت دیتے ہیں کہ ان پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ اور ان کے اللہ تعالی پر ایمان ،اس کی اطاعت کرنے ،گناہوں کے چھوڑنے اور اس کی اخلاصِ عبادت پر استقامت کے سبب ان کے لیے جنت ہے۔ اور اس معنی کی بہت سی آیات ہیں جو سب کی سب حق بات پر ثابت قدمی واستقامت اختیار کرنے اور گناہوں پر اصرار کرنے سے ڈرانے پر دلالت کرتی ہیں۔

اس میں سے یہ فرمان الہی بھی ہے کہ:

﴿وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ، الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ، وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ، اُولٰۗىِٕكَ جَزَاۗؤُھُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَجَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا  ۭ وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ﴾ 

(اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لیے  تیار کی گئی ہے، جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والےہیں، اوراللہ تعالی احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اور وہ کہ جب ان سے کوئی فحش کام ہو جائے یا اپنے نفس پر (گناہ کرکے) ظلم کر بیٹھیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آجاتا ہےاور اپنے گناہوں کے لیے  استغفار کرتے ہیں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اللہ  تعالیٰ کے سوا اور گناہوں کو بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور وہ لوگ اپنے کیے پر جانتے بوجھتے اڑے نہیں رہتے، انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ،ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا کیا ہی خوب ثواب ہے)

(آل عمران: 133-136)

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اورتمام مسلمانوں کو ان راتوں اور اس کےعلاوہ بھی اس کام کی توفیق دے جسے وہ پسند فرماتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے اور ہم سب کو اپنے نفسوں کی برائی اور اپنے شامت اعمال سے بچائے۔ بے شک وہ جواد وکریم ہے۔

(مجموع فتاوی ومقالات منتوعة ج 15 از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )

سوال: بعض مسلمان صرف ستائیسویں شب کو ہی شب قدر سمجھتے ہیں، پس کیا اس تحدید کرنے کی کوئی اصل ہے؟ اور کیا اس پر کوئی دلیل ہے؟

جواب: جی اس تحدید کی اصل موجود ہے۔ وہ یہ کہ ستائیسویں شب کے بارے میں سب سے زیادہ امید کی جاتی ہے کہ وہ شب قدر ہوجیسا کہ اس بارے میں صحیح مسلم میں ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ  کی حدیث آئی ہے۔ لیکن اس بارے میں اہل علم کے چالیس سے اوپر اقوال میں سے راجح قول یہی ہے کہ شب قدر آخری عشرے میں ہوتی ہے خصوصاً آخری سات راتوں میں۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ ستائیسویں ہو اور ہوسکتا ہے کہ وہ پچیسویں، یا تیسویں یا انتیسویں ہو۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اٹھائیسویں، چھبیسویں یا چوبیسویں ہو۔

اسی لیے ایک انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام راتوں میں ہی محنت کرے تاکہ کہیں وہ اس کی فضیلت واجر سے محروم نہ ہوجائے۔

(48 سؤالاً فی الصیام از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ  )

سوال: ایک مسلمان کیسے جان سکتا ہے کہ اسے شب قدر مل گئی؟

جواب: یہ تو ایک وجدانی بات ہے جسے ہر وہ انسان خود ہی محسوس کرسکتا ہے جسے اللہ تعالی شب قدر سے نواز دے۔ کیونکہ اس رات بندہ عبادت الہی ، اس کے ذکر اور نماز کی طرف مکمل طور پر متوجہ ہوتا ہےتو اللہ تعالی اپنے بعض بندوں کو اس کا عجیب سا شعور دے دیتا ہے جو عام حالت میں نیک صالح لوگوں تک کو محسوس نہيں ہوتا!! اور نہ ہی ایسا تمام اوقات میں کبھی ہوتا ہے!

پس یہ وہ شعور ہے کہ جس پر اعتماد کیا جاسکتاہے کہ اس شخص نے شب قدر کو پالیا۔

عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے بھی شب قدر کو پالینے کے امکان کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے سوال کیا کہ اگر مجھے یہ مل جائے تو میں کیا کہوں۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ کہو:

’’اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي‘‘([7])

(اے اللہ تو درگزر فرمانے والا ہے، درگزر کو پسند فرماتا ہے، مجھ سے بھی درگزر فرما)۔

اس حدیث سے دو فوائد حاصل ہوتےہیں:

پہلا فائدہ: ایک مسلمان کو ذاتی وشخصی طور پر شب قدر پالینے کا شعور ہوسکتا ہے۔

دوسرا فائدہ: اگر اسے اس کا شعور ہوجائے تو وہ بہترین دعاء جو اسے کرنی چاہیے وہ یہی ہے: ’’اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي‘‘۔

اور اس مناسبت سے ہماری اس کتاب ’’الترغیب‘‘ کے بعض دروس میں آیاہے کہ وہ بہترین چیز جو انسان رب تبارک وتعالی سے مانگتا ہے وہ دنیا وآخرت میں عفو وعافیہ (درگزر وعافیت) ہے۔ جی ہاں شب قدر کی بعض مادی علامات ونشانیاں بھی ہیں لیکن ممکن نہیں کہ اسے ہر دیکھنے والا شب قدر بھی دیکھ لے!! کیونکہ ان میں سے بعض علامات تو خارجی موسم سے متعلق ہیں جیسے یہ رات نہ تو زیادہ ٹھنڈی ہوگی نہ گرم بلکہ معتدل ہوگی۔  یہ بات سنت سے ثابت ہے:

’’لَيْلَةِ الْقَدْرِ: لَيْلَةٌ ۔۔۔لَا حَارَّةٌ، وَلا بَارِدَةٌ۔۔۔‘‘([8])

(شب قدر ۔۔۔نہ گرم ہوگی نہ ٹھنڈی ۔۔۔)۔

لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ کسی  انسان کو اس قسم کے موسم میں ہوتے ہوئے بھی اپنےشہر کے طبیعی موسم کا شعور نہ ہوپائے۔

اسی طرح سے ایک اور علامت ہے لیکن وہ شب قدر کے ختم ہوجانے کے بعد ہے کہ اس کے بعد کی صبح کا سورج بلاشعاع چاند کی طرح نکلےگا۔ جیسا کہ سنت میں ہے کہ:

’’صُبِيْحَةَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ تَطْلُعُ الشَّمْسُ لَا شُعَاعَ لَهَا كَأَنَّهَا طَسْتٌ حَتَّى تَرْتَفِعَ‘‘([9])

(شب قدر کی صبح سورج بلاشعاع کے طلوع ہوگا گویا کہ وہ ایک ٹکیہ نماہو یہاں تک کہ بلند ہوجائے)۔

سورج شب قدر کے بعد والی صبح اس طرح سے طلوع ہوگا۔ اور اسے بہت سے نیک لوگوں نے جو اس کا اہتمام کرتے ہيں کئی ایک شب قدروں میں خود ملاحظہ بھی کیا ہے۔

الغرض ایک عبادت گزار شخص کو ان ظاہری علامت پر ہی تکیہ نہیں کرناچاہیے کیونکہ یہ تو عام ظواہر ہیں یعنی یہ تو موسم کا حال ہے جس سے لازم نہیں آتا کہ جو بھی اس موسم میں موجود ہو اسے شب قدر بھی مل جائے۔ بلکہ اس مبارک رات کے لحظات میں انسان کو وہ نفس کی پاکیزگی حاصل  ہونی چاہیے کہ اللہ تعالی اپنی رحمت وفضل سے اسے سابقہ نشانیوں یا اس کے علاوہ بھی شب قدر کا الہام کرے اور اس کی مدد فرمائے۔

لہذا یہ مادی علامات اس بات پر دلالت نہيں کرتیں کہ جو بھی انہیں دیکھے یا محسوس کرے تو اس نے شب قدر بھی پالی ہے۔ یہ تو واضح بات ہے ۔لیکن جس زاویے پر ہمیں زیادہ توجہ دینی چاہیے، بات کرنی چاہیے اور اس کا اہتمامِ خاص کرنا چاہیے وہ انسان کی روحانی صفائی، شب قدر کا شعور، اللہ تعالی کی طرف مشروع دعاء کے ساتھ متوجہ ہونا ہے۔  اس طور پر امید ہے کہ اللہ تعالی ہم پر فضل فرماکر ہمیں وہ رات عطاء فرمادے۔

(محاضرات متفرقة 260 از شیخ محمد ناصر الدین البانی  رحمہ اللہ )

ایک تنبیہ:

سنن ترمذی کی روایت 3513 میں شب قدر کی دعاء:

’’اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي‘‘

میں ’’كَرِيمٌ‘‘ کا اضافہ ہے جس کی سابقہ مصادر میں اور نہ ان کے علاوہ جن میں یہ دعاء منقول ہے کوئی اصل نہیں ۔ پس ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ بعض ناسخین وطابعین کی طرف سے مدرجہ (درج کردہ) ہے۔۔۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 3337)۔


[1] صحیح بخاری 1901، صحیح مسلم 761۔

[2] صحیح بخاری2027، صحیح مسلم 1167۔

[3] صحیح مسلم 1177۔

[4] صحیح بخاری 2024، صحیح مسلم 1176۔

[5] صحیح ترمذی 3513 ’’كَرِيمٌ‘‘ کے اضافے کے بغیر، صحیح ابن ماجہ 3850۔

[6] صحیح مسلم 236۔

[7] حدیث گزر چکی ہے۔

[8] مسند ابو داود الطیالسی 2802، صحیح الجامع 5475۔

[9] مسند احمد 20691، صحیح الجامع 3754۔

مصدر: لیلۃ القدر فضلھا، علاماتھا، والدعاء فیھا (پمفلٹ)۔

ترجمہ: طارق علی بروہی