جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا نصاریٰ کی کرسمس کی مشابہت اور بدعت ہے – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Celebrating Eid Milad-ul-Nabi (peace be upon him) is similar to the Christian Christmas and is an innovation – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan

سچ فرمایا تھا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے:

’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ‘‘[1]

(تم ضرور گذشتہ قوموں کے طریقوں کی اتباع کرو گے)۔

جشن میلاد النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  منانا سراسر نصاریٰ  (عیسائیوں) کی تقلید ہے اس لیے کہ نصاریٰ مسیح  علیہ الصلاۃ والسلام   کی ولادت کا دن مناتے ہیں۔ اسلام میں یہ چیز نہیں ہے لیکن اکثر جاہل مسلمان اور گمراہ کن علماء ہر سال ماہ ربیع الاول کو میلاد النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے نام سے جشن و جلوس کرنے لگے ہیں۔ بعض لوگ تو اس طرح کے جلسے مسجد ہی میں منعقد کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنے گھروں میں یا اس کام کے لیے مخصوص کی گئی جگہوں میں بڑے اہتمام سے منعقد کرتے ہیں ۔جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کا ہجوم ہوتاہے اور یہ سب کچھ نصاریٰ کی تقلید و نقل میں کرتے ہیں۔ نصاریٰ جس طرح عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام   کی میلاد(کرسمس)  مناتے ہیں ٹھیک اسی طرح مسلمان بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد مناتے ہیں اور میلاد کی ہر چیز میں ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ جبکہ اس طرح کے جشن و جلوس  میں بدعت و خرافات اور نصاریٰ کی تقلید ہونے کے علاوہ بھی ہزاروں طرح کے شرکیہ اعمال کئے جاتے ہیں اور منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ایسے نعتیہ کلام پیش کئے جاتے ہیں جن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں غلو ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے بجائے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہی سے دعائیں مانگی جاتی ہے، اور استغاثہ  کیا جاتا  ہے ،جبکہ خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مدح وتعریف میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے:

’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘[2]

(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاریٰ  نے ابن مریم کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو)۔

 اور کبھی تو ایسی محافل میں مردوزن کا اختلاط ، فسادِ اخلاق اور منشیات بھی عام ہوتی ہیں۔

لفظ’’الإطراءُ‘‘ جو حدیث میں آیا ہے اس کے معنی ہے: ’’الغُلُوّ في المدح‘‘ (مدح و تعریف میں غلو کرنا)، میلا دالنبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے جشن و جلوس میں عموماً لوگ یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذاتِ خود اس محفل میں تشریف لاتے ہیں،  اس کے علاوہ اس کی دوسری برائیاں یہ ہیں کہ ان میں لوگ اجتماعی طور پر نعت خوانی و اناشید (نظم خوانی اور قوالی)  کرتے ہیں۔ طبلے وغیرہ بجائے جاتے ہیں اور صوفیوں بدعتیوں کے اذکار  و  اور اد پڑھے جاتے ہیں۔ اس میں مرد و زن کا اختلاط بھی ہوتا ہے،جس سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے ،لوگوں کا فواحش میں پڑنے کا پورا خطرہ رہتا ہے، اگر یہ محفلیں ان تمام برائیوں سے پاک بھی ہوں تو بھی لوگوں  کا اس بات کے لیے جمع ہونا اجتماعی طور پر کھانا پینا ،خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ایک بدعت ہے اور دین میں ایک نئی چیز ایجاد کرنا ہے، جبکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘[3]

(دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔

 اور آہستہ آہستہ اس طرح کے جلسوں میں منکرات اور برائیوں کا در آنا یقینی بات ہے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔

ہم یہ بتاچکے ہیں کہ میلا دالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  منانا ایک بدعت ہے، اس لیے کہ کتاب و سنت ، سلف صالحین اور خیر القرون میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ یہ چوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہےاور شیعہ فاطمیوں نے اسے ایجاد کیا ہے امام ابو حفص تاج الدین الفاکہانی   رحمہ اللہ  کا کہنا ہے:

’’مبارکیوں کی ایک جماعت مجھ سے بار بار پوچھ رہی ہے کہ ماہ ربیع الاول میں جو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   مناتے ہیں کیا دین میں اس کی اصل ہے۔ چونکہ صاف طور پر مجھ سے یہ سوال کیا گیا ہے اس لیے صفائی کے ساتھ میرا جواب ہے کہ کتاب و سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی ان علمائے کرام سے یہ منقول ہے جو متقدمین کے آثار کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں اور ہمارے لیے اسوہ ونمونہ ہیں، بلکہ میرے نزدیک یہ ایک بدعت ہے جسے کچھ بے کار اور کاہل قسم کے لوگوں نے ایجاد کر رکھا ہے اور کچھ کھانے پینے والے نفس پرستوں نے کھانے پینے کا ذریعہ بنا رکھا ہے‘‘[4]۔

اس سلسلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

’’آج کل جس طرح لوگ میلاد النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہیں یا تو نصاریٰ کی دیکھا دیکھی مناتے ہیں، اس لیے کہ نصاریٰ عیسیٰ  علیہ الصلاۃ والسلام کا یوم ولادت مناتے ہیں یا پھر رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محبت و تعظیم میں مناتے ہیں۔ جب کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تاریخ پیدائش میں مؤرخوں اور سیرت نگاروں کے مابین اختلاف ہے، اس طرح کی میلاد ہمارے سلف صالحین نے کبھی نہیں منائی، اگر یہ خیر و بھلائی کی چیز ہوتی تو ہمارے اسلاف کرام ضرور ایسا کرتے۔ اس لیے کہ وہ ہم سے زیادہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تعظیم کرنے والے اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے والے تھے، وہ تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی پیروی اور ایک ایک سنت کو زندہ کرنے کے لیے مر مٹتے تھے، وہ ہم سے زیادہ نیکی کے حریص تھے، یہ اس لیے کہ آپ سے محبت و تعظیم کا ذریعہ وہ آپ کی پیروی و اتباع، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سنتوں کے احیاء، دینِ اسلام کے فروغ اور دل و زبان اور ہاتھ سے جہاد کو ہی سمجھتے تھے، یہی طریقہ سابقین اولین، مہاجرین و انصار اور ان کے سچے متبعین کا تھا‘‘[5]اختصار سے نقل کیا گیا۔

اس بدعت کی رد میں متعدد کتب و رسائل لکھے گئے ہیں پہلے بھی اور موجودہ دور میں بھی۔ اصل میں میلاد النبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک بدعت ہونے کے علاوہ دوسرے اولیاء وصالحین کی یوم ولادت(برتھ ڈے/عرس) منانے کے راستہ کو کھول دیتی ہے، جس سے شرو فساد کے بہت سےمختلف دروازے کھل جاتے ہیں۔


[1]البخاري أحاديث الأنبياء (3269) ، مسلم العلم (2669) ، أحمد (3/89).

[2]البخاري أحاديث الأنبياء (3261)۔

[3]مسلم الجمعة (867) ، النسائي صلاة العيدين (1578) ، ابن ماجه المقدمة (45) ، أحمد (3/371) ، الدارمي المقدمة (206)۔

[4]رسالة المورد في عمل المولد.

[5]اقتضاء الصراط المستقيم (2/615) بتحقيق الدكتور ناصر العقل.

مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ