بدعتیوں کا بائیکاٹ کب اور کیسے کیا جائے؟ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

When and How to Boycott the Innovators? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

سوال:کیا میرے کسی شخص سے اختلاف کا یہ معنی ہے کہ میں اسے سلام بھی نہ کروں، اور منہ بسور کر تیوری چڑھا کر اس کا سامنا کروں، اس کی کسی بھی چیز میں معاونت نہ کروں جو وہ طلب کرے، حالانکہ وہ میرا دینی بھائی ہے، جب میں اس سے پوچھوں ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو وہ کہے: کیونکہ تم بدعتی ہو جو کہ امت کے لیے یہود ونصاریٰ  سے بڑھ کر خطرناک ہوتا ہے، یا شیخ آپ ہمیں اس بارے میں رہنمائی فرمائيں، بارک اللہ فیک؟

جواب: بہرحال، جو سلف صالحین تھے وہ اہل بدعت سے ہجر (بائیکاٹ) کیا کرتے تھے۔ لیکن اس بات کا تعین عالم کرے گا کہ کب بائیکاٹ کرنا مناسب ہے اور کب نہيں۔ اگر عدم ہجر کرنے میں کوئی مصلحت ہو جیسے ممکن ہے کہ آپ اسے دعوت دیں، اس کے ساتھ افہام وتفہیم کا معاملہ کریں اور اس کے سامنے وضاحت کریں ، تو پھر ہجر نہ کریں اور اس کے سامنے وضاحت کیجے۔

خود میرا گھر اہل بدعت تک کے لیے کھلا ہوتا ہے، اور میرے خیال سے وہ لوگ جو سلفیوں کو طعنہ دیتے ہيں کہ تم بس سب کا بائیکاٹ کرتے ہو، حقیقت میں اللہ کی قسم! خود وہ لوگ ہم سے زیادہ بائیکاٹ کرتے ہيں۔ یعنی وہ لوگ جو سلفیوں پر یہ بات چسپاں کرتے ہيں کہ وہ بائیکاٹ ہی بائیکاٹ کرتے ہيں درحقیقت وہ لوگ خود لوگوں کا بائیکاٹ کرتے اور شکل بنا کر ملتے ہیں اور آخر تک جو حرکتیں وہ کرتے ہيں۔۔۔اللہ کی قسم! یہ صفات تو خود ان میں ہيں۔ اور ہمارا گھر تو واللہ! لوگوں کے لیے کھلا رہتا ہے جو چاہتا ہے آتا ہے، ہم کسی کو نہیں روکتے خواہ تبلیغی ہو، اخوانی ہو، قطبی ہو اور آخر تک جو ہيں۔۔۔کسی کو بھی نہيں۔ انہيں ہم اللہ تعالی کی طرف دعوت دیتے ہيں ہمارے نزدیک اس میں کوئی مانع نہيں بشرطیکہ آپ کا اس سے ملنا نفع بخش ہو، اور برئ الذمہ کرنے والا ہو، لیکن بس اس لیے ملا جائے کہ اس کی بدعات کے تعلق سے خوشامدی اور چاپلوسی پر مبنی تعلق ہوتو اس کا نصیحت وخیرخواہی چاہنے سے کوئی واسطہ نہیں۔ لہذا  آپ دو امور کے درمیان ہیں:

پہلا امر: یا تو آپ کے پاس قدرت ہو، شجاعت ہو، اس طرح کہ بلاشبہ اگر آپ اس کے ساتھ بیٹھیں گے تو اس کے پاس جو غلطیاں ہیں اسے واضح کریں گے، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے ہاتھوں اسے ہدایت دے۔

دوسرا امر: آپ کے پاس نہ قدرت ہے نہ شجاعت۔ تو پھر اس صورت میں مصلحت کی طرف رجوع کریں گے۔ اگر مصلحت اس سے بائیکاٹ کرنے میں ہے تو پھر بائیکاٹ کیجیے، کیونکہ بائیکاٹ کرنے میں بھی بہت سی مصلحتیں ہوتی ہيں، اور لوگ یہ جان  پائيں گے کہ یہ بدعتی ہے تو اس سے دور رہیں گے، لیکن اس کے برعکس اگر وہ دیکھیں گے کہ آپ طالبعلم یا عالم ہيں اور اس کے ساتھ میل ملاپ رکھتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہيں اور  اس کے ساتھ چلتے پھرتے ہيں تو وہ اس کے بارے میں اچھا گمان کربیٹھیں گے اور اس کے دام فریب میں آجائيں گے، اس صورت میں خود آپ اس شر کی طرف گویا کہ دعوت دینے والے بن گئے!

اور اگر مصلحت کا یہ تقاضہ ہو کہ اس کا سختی سے رد کیا جائے، تو اس سختی سے رد کرنے سے یہ مصلحت حاصل ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس کی بدعت سے اور اس کو اپنی بدعت کی حمایت سے روکا جاتا ہے۔ تو آپ کو چاہیے کہ اس واجب کی ادائیگی کریں۔

اور اگر اس میں کوئی مصلحت نہ ہو اور اس کے نتیجے میں مرتب ہونے والا مفسدہ بہت بڑا ہو، اور آپ ضعیف و کمزور ہوں، اور لوگوں کے بدعت میں مزید پختہ ہوجانے کا خدشہ ہو یا اس طرح کی دیگر باتیں تو پھر اس صورت مصلحت کی خاطر بائیکاٹ نہ کریں، جیسا کہ یہ بات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ نے مقرر فرمائی ہے۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: کیسٹ بعنوان: وجوب الاعتصام بالكتاب والسنة۔