اللہ تعالی کے لیے جمع کے صیغے کا استعمال؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Use of Plural Pronouns for Allah?

بعض لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کے لیے جمع کا صیغہ استعمال نہیں ہوسکتا  کیونکہ اس سے تعدد لازم آتا ہے یعنی ایک سے زیادہ ذات۔ حالانکہ عربی لغت میں جمع کا صیغہ صرف تعدد کے لیے نہیں بلکہ عظمت والی ذات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جس کی کئی مثالیں عرب جاہلیت کے اشعار میں بھی ملتی ہے اور خود قرآن کریم میں بھی جو اس عربی فصیح و واضح زبان میں نازل ہوا جو  لوگ استعمال کرتے تھے، جیسے اللہ تعالی اپنے متعلق فرماتا ہے:

﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر: 9)

(بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں)

یا فرمایا:

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ﴾ (ق: 16)

(اور بلا شبہ یقیناً ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے)

اور اس کے علاوہ بھی کئی ساری آیات  ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اپنے کلام میں اس شبہہ کا جواب دیتے ہیں:

ان (نصاریٰ) کے شبہات میں سے (ان کے مطابق ان کی  کتاب میں) یوں فرمانا بھی تھا کہ:

’’ منا“[1]

(ہم میں سے)۔

کیونکہ اس کی تعبیر جمع کے صیغے سے کی گئی ہے۔ اسی طرح سے اگر ان کی مراد اس قول سے کہ:

’’نخلق بشرا على صورتنا وشبهنا“

(ہم بناتے ہیں ایک بشر ہماری اپنی صورت اور شبہات پر)۔

تو یہاں یہ جمع کے صیغے کو تثلیث کے لیے دلیل بناتے ہیں۔

یہ ان باتوں میں سے تھا جن کے ذریعے نجران کے نصاریٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حجت پکڑنا چاہی تھی کہ اللہ کا فرمان ہے:

﴿اِنَّا﴾ اور ﴿نَحْنُ﴾

یعنی ’’ہم “ جمع کا صیغہ۔

انہوں نے کہا کہ:

یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ تین تھے۔ حالانکہ یہ ان متشابہہ میں سے ہے کہ جن کی وہ پیروی کرتے ہیں فتنہ مچانے اور باطل تاویل کی غرض سے، جبکہ ان واضح و محکم  آیات کو چھوڑ دیتے ہيں کہ جن میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال نہیں ہوتا۔ کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے تمام کتب الہیہ میں  واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ وہ اکیلا معبود حقیقی ہے، اور یہ کہ بے شک اس کا کوئی شریک نہيں، نہ ہی کوئی اس کی مثل ہے۔

اور اللہ کا یہ فرمانا:

﴿اِنَّا﴾ اور ﴿نَحْنُ﴾

ایسے  الفاظ تمام زبانوں میں نہ صرف ایسی ذات کے لیے آتے ہيں  کہ جس کے شریک اور مثل ہوں، بلکہ  ساتھ ہی ایسی ذات کے لیے بھی آتے ہیں جو ایسی واحد و اکیلی ہو کہ اس عظیم ذات کی اطاعت  کی جاتی ہو اور اس کے تابع دار موجود ہوں جو اس کے حکم کی بجاآوری کرتے ہوں، اگرچہ وہ اس کے شریک یا نظیر نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالی اپنے سوا ہر چیز کا خالق ہے، لہذا ناممکن ہے کہ اس کا کوئی شریک و مثل ہو۔ البتہ فرشتے اور ساری کائنات اس کا لشکر ہیں۔

﴿وَمَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ﴾ (المدثر: 31)

(اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا)

اور فرمایا:

﴿وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا﴾  (الفتح: 7)

(اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں اور اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے)

اگر بادشاہوں میں سے کوئی ایک کہے:  إنا اور  نحن (ہم) تو  اس سے اس کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ ہم تین بادشاہ ہیں۔ پس جو مالک الملک رب العالمین ہے ہر چیز کا رب اور بادشاہ ہے وہ تو سب سے بڑھ کر حق دار ہے کہ وہ کہے: ﴿اِنَّا﴾ اور ﴿نَحْنُ﴾ باوجودیکہ اس کا کوئی شریک و مثیل نہیں بلکہ اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں[2]۔

چنانچہ اس سے نصاریٰ  کے شبہے کا بھی رد ہوتا ہے جو تثلیث کے قائل ہیں اور کہتے ہيں قرآن میں اللہ تعالی نے اپنے لیے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے اور عربی میں کم از کم جمع تین افراد کی ہوتی ہے، حالانکہ یہ استدلال باطل ہے کیونکہ عربی زبان میں جمع کا صیغہ تعداد کے لیے استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ تعظیم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

لہذا یہ ادب میں سے ہے کہ اپنے سے بڑے کو مخاطب کرتے ہوئے آپ جناب وغیرہ بولا جاتا ہے جیسے عربی میں كيف حالك (تمہارا کیا حال ہے) کی  جگہ حالكم (آپ کا کیا حال ہے) اور أنت (تم) کی جگہ أنتم (آپ)  وغیرہ استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن اللہ تعالی کو پکارتے وقت اور دعاء کے وقت کیا ہم اسی طرح سے کرسکتے ہيں جیسے:

”اغفروا لي يا رب“،”ارحموني يا رحمن“،”ارزقوني يا رب“؟

علامہ محمد تقی الدین الہلالی مراکشی رحمہ اللہ اپنی کتاب ” سبيل الرشاد في هدي خير العباد“ ج 1 ص 261 ط دار ایلاف الدولیۃ میں  نجران کے نصاریٰ کا جو وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے آیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے شبہات کا رد فرمایا تھا، اور یہ کہ ان کا عقیدہ عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام خود اللہ ہیں یا تین میں سے ایک خدا ہیں کو باطل قرار دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے مباہلے کا مطالبہ بھی فرمایا تھا۔۔۔ اور آخر تک جو قصہ ہے۔ اس کے بعد آپ : فرماتے  ہیں:

پانچواں فائدہ:

نجران کے وفد نے اپنے تثلیث (تین خداؤں) کے عقیدے کے بارے میں یہ حجت پکڑی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

” فعلنا“(ہم نے کیا)” أمرنا “(ہم نے حکم دیا) ”خلقنا “(ہم نے پیدا کیا)” قضينا“(ہم نے فیصلہ کیا) ۔

یعنی جمع کے صیغے استعمال فرماتا ہے۔ حالانکہ یہ ان کی عربی لغت سے جہالت کی دلیل ہے یا وہ تجاہل عارفانہ برتتے ہیں(یعنی جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں) ۔ کیونکہ ” فعلنا“ اور ” نفعل“ میں ضمیر محض اس پر منحصر نہیں کہ ایک مخاطب ہو اور اس کے ساتھ اور بھی ہوں، بلکہ ایک عظمت والی ذات بھی اپنے لیے اسے استعمال کرتی ہے۔

اللہ تعالی عظیم ہے اور اپنی عظمت بیان کرتا ہے اور اس کی مخلوق میں سے جو صالحین ہیں وہ بھی اس کی تعظیم بیان کرتے ہیں۔

ہاں یہ ہے کہ وہ اسے جمع کے صیغے سے مخاطب نہیں کرتے توحید کے پہلو کی وجہ سے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے۔


[1] ها آدم قد صار كواحد منا۔

[2] الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح – ج 3 ص 447-448۔

جمع و ترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*