باب چہارم
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے فرمایا
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
وَمَن یَبۡتَغِ غَیۡرَ ٱلۡإِسۡلَـٰمِ دِینࣰا فَلَن یُقۡبَلَ مِنۡهُ وَهُوَ فِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَـٰسِرِینَ
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
(سورۃ آلِ عمران: 85)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
قیامت کے دن لوگوں کے اعمال پیش کیے جائیں گے۔سب سے پہلے نماز آئے گی اور کہے گی: اے رب! میں نماز ہوں۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو خیر پر ہے۔پھر زکوٰۃ آئے گی اور کہے گی: اے رب! میں زکوٰۃ ہوں۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو خیر پر ہے۔پھر روزہ آئے گا اور کہے گا: اے رب! میں روزہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو خیر پر ہے۔ پھر باقی تمام نیک اعمال بھی اسی طرح آئیں گے اور عرض کریں گے: اے رب! ہم نیک اعمال ہیں۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا:تم خیر پر ہو۔ پھر اسلام آئے گا اور عرض کرے گا: اے رب! تُو ہی السلام ہے۔(السلام اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے، جس کا مطلب ہے: عیب و نقص سے پاک، کامل اور بے عیب ذات) اور میں اسلام ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو خیر پر ہے، اور آج اسی (اسلام) کی بنیاد پر میں سزا بھی دوں گا اور جزا بھی عطا کروں گا۔
(یہ حدیث ضعیف ہے۔ اسے امام احمد نے المسند میں (2/362)، ابو یعلیٰ نے المسند میں (حدیث: 6224)، طبرانی نے الاوسط میں (8/296، حدیث: 7607) اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: تحقیق ارناؤوط بر المسند، 14/355۔)
:اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا
وَمَن یَبۡتَغِ غَیۡرَ ٱلۡإِسۡلَـٰمِ دِینࣰا فَلَن یُقۡبَلَ مِنۡهُ وَهُوَ فِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَـٰسِرِینَ
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
(سورۃ آلِ عمران: 85)
:عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے۔
(صحیح مسلم: حدیث 7349، روایت امام احمد: المسند 6/146 — حدیث صحیح ہے۔)
شرح: شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ
اس باب کا مفہوم یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اسلام کے دین اور اس کی تعلیمات کی پیروی کرے۔لوگوں کے لیے نجات اور کامیابی صرف اسلام کے ساتھ ہی ممکن ہے جیسا کہ روایت میں آیا ہے
آج اسی (اسلام) کے ذریعے میں سزا دوں گا اور اسی کے ذریعے جزا عطا کروں گا۔
اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اس جملے کا مفہوم قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی روشنی میں بالکل درست ہے۔جو شخص اسلام پر ایمان لائے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جائے، اس کے لیے جنت یقینی ہے اگر وہ گناہوں اور نافرمانیوں سے بچا رہا ہو تو وہ ابتداء میں ہی جنت میں داخل ہو جائے گا؛ اور اگر اس سے گناہ سرزد ہوئے ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق اسے پہلے سزا دی جائے گی ،پھر بالآخر وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا ، بشرطیکہ اللہ نے اسے ابتدا ہی میں معاف نہ فرما دیا ہو، تاکہ وہ عذاب سے بچ جائے۔بہرصورت، نجات صرف اور صرف اسلام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
:اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا
وَمَن یَبۡتَغِ غَیۡرَ ٱلۡإِسۡلَـٰمِ دِینࣰا فَلَن یُقۡبَلَ مِنۡهُ وَهُوَ فِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَـٰسِرِینَ
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
(سورۃ آلِ عمران: 85)
چنانچہ جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر مر جائے ، یعنی کفر پر تو خواہ اس کے پاس نیکیوں اور اطاعتوں کے ڈھیر ہوں، یہ تمام باطل اور مردود قرار دی جائیں گی،کیونکہ اس نے اسلام کو ردّ کر دیا تھا۔
وَقَدِمۡنَاۤ إِلَىٰ مَا عَمِلُوا۟ مِنۡ عَمَلࣲ فَجَعَلۡنَـٰهُ هَبَاۤءࣰ مَّنثُورًا
اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگنده ذروں کی طرح کردیا۔
(سورۃ الفرقان: 23)
لہٰذا لازم ہے کہ انسان توحید پر قائم ہو،یعنی اس گواہی کے ذریعے کہ
اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
اسلام میں داخلہ دل کے یقین، زبان کی شہادت، اور پھر اعمال کے ذریعے ہوتا ہے۔جو شخص اللہ کی اطاعت پر ثابت قدم رہے اور نیک اعمال بجا لائے، وہ ابتداء ہی میں جنت میں داخل ہوگا، بغیر کسی عذاب کے۔اور جو شخص فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے، یا گناہوں میں مبتلا ہو جائے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے،تو وہ اللہ کی مشیئت کے تحت ہے اگر اللہ چاہے تو اسے معاف فرما دے گا،اور اگر چاہے تو اس کے گناہوں کے مطابق سزا دے گا،جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا
إِنَّ ٱللَّهَ لَا یَغۡفِرُ أَن یُشۡرَكَ بِهِۦ وَیَغۡفِرُ مَا دُونَ ذٰلِكَ لِمَن یَشَاۤءُۚ وَمَن یُشۡرِكۡ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱفۡتَرَىٰۤ إِثۡمًا عَظِیمًا
یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه اور بہتان باندھا۔
(سورۃ النساء، آیت 48)
پس جسے اللہ تعالیٰ اسلام کی ہدایت عطا فرمائے اور اسے شرک و بت پرستی سے محفوظ رکھے، وہی شخص نجات کی راہ (طریق النجاة) پر ہے۔
اضافی فوائد از ابو خدیجہ عبد الواحد حفظہ اللہ
یہ دین قیامت کے دن تک باقی رہے گا،اور یہ ہی وہ واحد دین ہے جو ربّ العالمین کے نزدیک مقبول ہے۔یہ دین ہر زمانے، مقام اور قوم کے لیے موزوں اور مناسب ہے۔لوگ اگر اس کی کمال، برتری اور موزونیت سے جاہل ہیں،تو اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔اور اگر اس کی حکمتوں اور خوبیوں کے کچھ پہلو بعض لوگوں پر پوشیدہ ہیں،تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سب سے پوشیدہ ہیں۔
ابن الماجشون کہتے ہیں کہ انہوں نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ (متوفی 170 ہجری) کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اسلام میں کوئی نئی بدعت داخل کرے اور اسے اچھا سمجھے،تو اس نے یہ دعویٰ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا
لہٰذا جو چیز اُس دن دین نہیں تھی،وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی۔
( الاعتصام للشاطبی، 1/62)
اسی بنا پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ عظیم آیت نازل فرمائی
ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَیۡكُمۡ نِعۡمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِینࣰا
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
(المائدہ: 3)
پس جو کچھ بھی لوگ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد دین میں ایجاد کریں اور اسے دین میں شامل کریں، وہ بدعت اور گمراہی ہے۔ اسی وجہ سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
اتَّبِعوا ولا تبتدِعوا، فقد كُفِيتُم، وكلُّ بدعةٍ ضلالةٌ
اتباع کرو اور بدعت مت نکالو، کیونکہ تمہیں (ہدایت میں) کافی کر دیا گیا ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
یہ روایت الدارمی(حدیث نمبر 205)، ابن وضاح (حدیث نمبر 17)،اور ابن نصر نے اپنی کتاب السُّنَّة (حدیث 28) میں نقل کی ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ (متوفی 1250ھ / 1834ء) فرماتے ہیں:
“جب یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کرنے سے پہلے ہی دین کو کامل فرما دیا تھا،تو پھر یہ لوگ جو اللہ کے دین کے کامل ہونے کے بعد نئی آراء اور نظریات گھڑنے لگے یہ سب کیا ہیں؟! اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ آراء دین کا حصہ ہیں،تو گویا ان کے نزدیک دین اُس وقت تک کامل نہیں تھا جب تک ان کی آراء شامل نہ ہوئیں اور یہ عقیدہ رکھنا قرآنِ کریم کی تکذیب کے مترادف ہے۔اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی یہ آراء دین کا حصہ نہیں،تو پھر ایسی باتوں میں پڑنے کا کیا فائدہ ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں؟
لہٰذا اس عظیم آیت کو وہ پہلی بات بناؤ جو تم اہلِ رائے کے سامنے پیش کرو،چاہے وہ کچھ بھی سمجھتے ہوں اور اسی آیت کے ذریعے ان کے دلائل کو باطل کر دو۔
(القول المفید، صفحہ 38)
اسلام کو کیسے سمجھا جائے، اور علم کیسے حاصل کیا جائے؟
اسلام کو صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحتوں اور تشریحات کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے،جنہوں نے اپنے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کو تعلیم دی،پھر صحابہ نے یہ فہم تابعین کو پہنچایا،اور تابعین نے اسے اتباع تابعین تک منتقل کیا ، یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ یہی وہ ابتدائی نسلیں ہیں جو اہلِ حدیث کہلاتی ہیں،یعنی اہل السنہ والجماعہ،اور یہی ہمارے سلف صالحین ہیں۔
:اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا
وَمَن یُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ ٱلۡهُدَىٰ وَیَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیلِ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصۡلِهِۦ جَهَنَّمَۖ وَسَاۤءَتۡ مَصِیرًا
جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخلافت کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔
(النساء: 115)
:اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ إِلَّا رِجَالࣰا نُّوحِیۤ إِلَیۡهِمۡ فَسۡـَٔلُوۤا۟ أَهۡلَ ٱلذِّكۡرِ إِن كُنتُمۡ لَا تَعۡلَمُون ، بِٱلۡبَیِّنَـٰتِ وَٱلزُّبُرِ وَأَنزَلۡنَاۤ إِلَیۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ یَتَفَكَّرُونَ۔
آپ سے پہلے بھی ہم مَردوں کو ہی بھیجتے رہے، جن کی جانب وحی اتارا کرتے تھے پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو۔ اور کتابوں کے ساتھ، یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں ۔
(النحل: 43-44)
یہ بہت ضروری ہے کہ ہم علم حاصل کرنے کی کوشش کریں اور علم کی مجالس میں شریک ہوں تاکہ یہ علم ہمارے گھروں اور معاشروں میں باقی رہے ۔سلف کے زمانے میں اہلِ سنت کے علما بہت زیادہ تھے، اور ان کی مجالس میں شریک ہونے والے طالبِ علم اور عام لوگ کثرت سے ہوتے تھے، کیونکہ وہ علم کی قدر و منزلت کو جانتے تھے۔
آج معاملہ اس کے برعکس ہے: گمراہ بدعتی، صوفیوں اور گانے بجانے والوں کی مجالس میں بھیڑ لگی ہوتی ہے، جبکہ اہلِ سنت و حدیث، سلف کے علما کی مجالس میں آنے والے بہت کم ہیں۔ اللہ ہی مدد فرمانے والا ہے۔
الحافظ، امام، ابو بکر الخطیب البغدادی رحمہ اللہ (متوفی 463 ہجری) نے اپنی سند کے ساتھ ابوالفضل الزہری سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا:میں جعفر بن محمد الفریابی (متوفی 301 ہجری) کی مجلسِ درس میں حاضر ہوا، اور وہاں دس ہزار آدمی موجود تھے۔
(دیکھیں: المنتقى من الكتاب الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، حدیث نمبر 48)
الخطیب نے تاریخ بغداد (جلد 12، صفحہ 97) میں ایک اضافہ بھی روایت کیا ہے کہ ابوالفضل نے آخر میں کہا: ان سب میں سے میرے سوا کوئی باقی نہیں رہا۔پھر وہ رو پڑے۔
اور یہ جعفر بن محمد الفریابی ان ائمہ حدیث کے دور کے ایک جلیل القدر عالم تھے۔ان کا تعلق فریاب (علاقۂ بلخ، موجودہ افغانستان اور ترکمانستان کی سرحد کے قریب) سے تھا۔انہوں نے بڑے بڑے محدثین سے علم حاصل کیا، جن میں قتیبہ بن سعید، اسحاق بن راہویہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن المدینی اور دیگر اکابر علما شامل ہیں۔
انہوں نے علمِ حدیث کے حصول اور تعلیم کے لیے مختلف علاقوں کا سفر کیا ،جیسے ما وراء النہر (یعنی آکسس دریا کے پار کا علاقہ، جو موجودہ مشرقی ازبکستان، مغربی تاجکستان، جنوبی قازقستان اور ترکمانستان کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے، جہاں ابتدائی اسلام کے بڑے علمی مراکز جیسے بخارا اور سمرقند واقع تھے)، اسی طرح خراسان، عراق، حجاز، شام، مصر اور جزیرۂ عرب کے علاقوں میں بھی گئے۔ ان کے شاگردوں میں ابوبکر الاسماعیلی، ابوالقاسم الطبرانی، ابوبکر الآجری، اور اسی روایت کے راوی ابوالفضل عبیداللہ الزہری شامل ہیں ،جنہوں نے اتنی طویل عمر پائی کہ جعفر الفریابی کی اس مجلس میں بیٹھنے والوں میں سے ان کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔اللہ ان سب پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔
الخطیب البغدادی نے بھی (نمبر 46) روایت کیا کہ ابو علی صالح بن محمد البغدادی نے کہا
محمد بن اسماعیل [البخاری] بغداد آئے، اور میں ان کی حدیث کی روایتیں لکھتا تھا ، ان کی مجلس میں آنے والوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ تھی۔
پس ہمیں چاہیے کہ ہم اہلِ سنت کی مجالسِ علم میں اپنی حاضری زیادہ کریں، اور اہلِ بدعت اور گناہگاروں کی مجلسوں سے اجتناب کریں۔ جیسا کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ، وَمَنْ أَحَبَّ قَوْمًا حُشِرَ مَعَهُمْ
جو کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کرے، وہ انہی میں سے ہے اور جو کسی قوم سے محبت رکھے،وہ قیامت کے دن) انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔)
روایت الدیلمی نے اپنی کتاب “مسند الفردوس” (جلد 3، صفحہ 519، حدیث نمبر 5621 ، نیز جلد 2، صفحہ 378، حدیث نمبر 2588) میں ذکر کی ہے،اور ابن المبارک نے اسے اپنی کتاب “الزهد والرقائق” میں حضرت ابو ذرؓ کے قول کےطور پر روایت کیا ہے۔
Source: abukhadeejah.com