دین کے چار بنیادی قواعد – شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

میں اللہ کریم سے جو عرش عظیم کا رب ہے دعاء کرتا ہوں کہ وہ دنیا وآخرت میں آپ کا ولی ہو، اور آپ کو بابرکت بنائے جہاں کہیں بھی آپ ہوں، اور آپ کو ان لوگوں میں سے کردے کہ جنہیں جب کوئی نعمت ملتی ہے تو شکر ادا کرتے ہیں، اور اگر کسی آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں تو صبر کرتے ہیں، اور جب گناہ کر بیٹھتے ہیں تو استغفار کرتے ہیں، کیونکہ یہ تینوں صفات سعادت مندی کا عنوان ہیں۔

اللہ تعالی آپ کو اپنی اطاعت کی جانب رشد و ہدایت سے نوازے، یہ جان لیں کہ حنیفیت ملت ابراہیمی کا نام ہے (اور وہ یہ ہے) کہ آپ اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کریں دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے، اور اسی بات کا اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو حکم دیا ہے اور اسی کی خاطر انہیں پیدا فرمایا ہے۔  جیسا کہ اللہ تعالی کاارشاد گرامی ہے:

﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ﴾ 

(اور میں نے نہيں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اپنی عبادت کے لیے)

(الذاریات: 56)

جب آپ نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالی نے آپ کو محض اپنی عبادت کی خاطر ہی پیدا فرمایا ہے، تو یہ بھی جان لیں کہ عبادت حقیقی معنوں میں عبادت کہلا ہی نہیں سکتی جب تک اس میں توحید نہ ہو، بالکل اسی طرح جیسے نماز صحیح طور پر نماز کہلا ہی نہیں سکتی جب تک کہ طہارت حاصل نہ کی جائے۔ پس جب عبادت میں شرک داخل ہوجائے تو وہ فاسد ہوجاتی ہے، جیسا کہ طہارت کے بعد حدث[1] لاحق ہوجائے تو طہارت زائل ہوجاتی ہے۔جب آپ نے یہ اچھی طرح سے جان لیا کہ جب عبادت میں شرک کی آمیزش ہوجائے تو وہ اسے فاسد کردیتا ہے، عمل کو رائيگاں کردیتا ہے اور اس کا مرتکب ہمیشہ کے لیے واصل جہنم ہوجاتا ہے، تو پھر آپ کو یہ بھی بخوبی علم ہوچکا ہوگا کہ سب سے اہم چیز جو آپ پر واجب ہے وہ کیاہے: وہ اس (شرک) کی معرفت ہے، تاکہ اللہ تعالی آپ کو اس شرک باللہ کے جال سے نجات عطاء فرمائےجس کے بارے میں اللہ رحیم وکریم کا ارشاد ہے کہ:

﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ﴾ 

(بے شک اللہ تعالی ہرگز بھی اس بات کو نہیں معاف فرماتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے،البتہ اس کے سوا جو گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے)

(النساء: 48)

(اور اس شرک سے نجات) ان چار قواعد کا علم حاصل کرکے ہوسکتی ہےجو اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کریم میں بیان فرمائے۔

پہلا قاعدہ

(مشرکین اللہ تعالی کے رب اور خالق ہونے کا اقرار کرتے تھے)

(پہلا قاعدہ یہ ہے کہ) آپ جانیں کہ وہ کفار جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قتال فرمایا اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالی ہی خالق، رازق اور مدبر ہے، لیکن محض اس اقرار نے انہیں اسلام میں داخل نہ کیا، جس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:

﴿قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ  ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ  ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ﴾ 

(تم  کہو (اے مشرکو) تمہیں کون آسمان وزمین سے رزق مہیا کرتا ہے، یا جو تمہاری قوت سماعت وبصارت کا مالک ہے، اور جو مردے سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ سے مردے کو نکالتا ہے، اور جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے، تو وہ عنقریب کہیں گے کہ (یہ سب کام تو) اللہ کرتا ہے، تو  کہہ دو کہ تم پھر (اس سے) ڈرتے کیوں نہیں (اور اس کے ساتھ شرک کرتے ہو))

(یونس: 31)

دوسرا قاعدہ

(مشرکین اولیاء وصالحین کو محض بطور وسیلہ پکارتے تھے)

(دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ) وہ (مشرکین عرب) کہا کرتے تھے کہ: ہم انہیں (انبیاء و اولیاء کو) محض اسی لیے پکارتے ہیں اور ان کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تاکہ یہ ہمیں (اللہ تعالی کے) قریب کردیں اور (اس کے پاس) ہماری شفاعت کریں۔

قربت کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ:

﴿اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۭ وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِيْ مَا هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ڛ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ﴾ 

(اور وہ جنہوں نے اس کے سوا اور اولیاء بنارکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر صرف اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کرکے اس کا مقرب بنادیں۔ یقیناً اللہ ان کے درمیان اس کے بارے میں فیصلہ کردے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ بے شک اللہ  تعالی اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا ہو، بہت ناشکرا ہو)

(الزمر: 3)

اور شفاعت کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

﴿وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ﴾ 

(اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں)

(یونس: 18)

شفاعت کی دو اقسام ہیں: شفاعت منفیہ (یعنی جس شفاعت کی نفی کی گئی ہے) اور شفاعت مثبتہ (یعنی جس شفاعت کو ثابت کیا گیا ہے)۔

شفاعت منفیہ:

(شفاعت منفیہ ) وہ ہے جو غیراللہ سے طلب کی جاتی ہے اس چیز کے بارے میں جس پر اللہ تعالی کے سوا کوئی قادر نہیں، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ 

(اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے (اللہ تعالی کی راہ میں)خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ کوئی تجارت ہوگی، نہ دوستی اور نہ ہی کوئی شفاعت، اور کافر لوگ ہی ظالم ہیں)

(البقرۃ: 254)

شفاعت مثبتہ:

(شفاعت مثبتہ) وہ ہے جو اللہ تعالی سے طلب کی جاتی ہے، اور شافع (شفاعت کرنے والے) کی اللہ تعالی شفاعت (کی اجازت) سے عزت افزائی فرماتا ہے، اور مشفوع لہ (جس کی شفاعت کی جاتی ہے) وہ ہوتا ہے جس کے قول وعمل سے اللہ تعالی راضی ہو، اور یہ (شفاعت اللہ تعالی کی) اجازت و اذن کے بعد ہی ممکن ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ﴾ 

(کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرسکے)

(البقرۃ: 255)

تیسرا قاعدہ

(مشرکین عرب صرف بتوں کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے)

(تیسرا قاعدہ یہ ہے کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے لوگوں میں مبعوث ہوئے جو اپنی عبادات میں مختلف تھے، یعنی ان میں سے کوئی فرشتوں کی عبادت کرتا تھا تو کوئی انبیاء وصالحین کی، اسی طرح کوئی درختوں وپتھروں کی عبادت کرتا تھا، تو کوئی چاند و سورج کی، (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب سے بلاتفریق قتال فرمایا، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

﴿وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ﴾ 

(اور ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا  اللہ تعالی کے لیے ہوجائے)

(الانفال: 39)

چاند وسورج کی عبادت کی دلیل:

اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ:

﴿ وَمِنْ اٰيٰتِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۭ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ﴾ 

(اور اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں رات اور دن اور سورج اور چاند، پس تم نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ ہی چاند کو بلکہ اللہ تعالی ہی کو سجدہ کرنا جس نے انہیں پیدا فرمایا ہے، اگر تم واقعی اس کی عبادت کرنے والے ہو)

(حم السجدۃ: 37)

فرشتوں کی عبادت کی دلیل:

اللہ تعالی کا یہ فرمان:

﴿وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا﴾ 

(اور وہ (نبی) تمہیں ہرگز بھی اس بات کا حکم نہیں دے گا کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو اپنا رب بنالو)

(آل عمران: 80)

انبیاء کرام کی عبادت کی دلیل:

اللہ تعالی کا یہ فرمان:

﴿ وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ ۤ بِحَقٍّ، اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ  ۭ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ﴾ 

(اور یاد کرو جب اللہ تعالی فرمائے گا کہ اے عیسی ابن مریم! کیا تم  نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ تعالی کے سوا معبود بنالینا، وہ عرض کریں گے کہ اللہ تعالی تو پاک ہے، میرے لیے کیسے لائق ہوسکتا ہے کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں، اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو تو یقیناً اسے جانتا ہو گا، (کیونکہ) تو جانتا ہے جو کچھ میرے نفس میں (پوشیدہ ) ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے، بے شک تو ہی تمام غیبوں کا بہت جاننے والا ہے)

(المائدۃ: 116)

صالحین کی عبادت کی دلیل:

اللہ تعالی کا یہ فرمان:

﴿اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ  ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا﴾ 

(جنہیں یہ (مشرکین) پکارتے ہیں (یعنی اولیاء وغیرہ) وہ تو خود اس کے پاس وسیلے (قرب کے ذریعے) کے خواہش مند ہیں کہ کون ان میں سے (اللہ تعالی کے) زیادہ قریب ہوتا ہے، اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، بے شک تیرے رب کا عذاب  ہے ہی ایسی چیز کہ جس سے ڈرا جائے)

(بنی اسرائیل: 57)

درختوں اور پتھروں کی عبادت کی دلیل:

اللہ تعالی کا فرمان:

﴿اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى، وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى﴾ 

(کیا تم نے کبھی لات وعزیٰ (کی حقیقت) کے بارے میں غور بھی کیا ہے، اور تیسری مناۃ کے بارے میں بھی)

(النجم: 19-20)

اور صحابئ رسول ابوواقدلیثی رضی اللہ عنہ کی حدیث  ہے کہ جس میں فرماتے ہیں:

’’خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلَى حُنَيْنٍ وَنَحْنُ حُدَثَاءُ عَهْدٍ بِكُفْرٍ، ولِلْمُشْرِكِينَ سِدْرَةٌ يَعْكُفُونَ عِنْدَهَا، ويَنُوطُونَ بِهَا أَسْلِحَتَهُمْ يُقَالُ لَهَا: ذَاتُ أَنْوَاطٍ، قَالَ: فَمَرَرْنَا بِالسِّدْرَةِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لَهُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ‘‘[2]

(ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ حنین کی جانب روانہ ہوئے، اور ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ مشرکین کا ایک بیری کا درخت ہوا کرتا تھا جس کے پاس وہ مجاور بنے بیٹھے رہتے تھے، اور (بطور تبرک) اس پر اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے، جسےذات انواط کہا جاتا تھا۔ پس ہمارا بھی اس بیری کے درخت کے پاس سے گزر ہواتو ہم نے گزارش کی کہ:  اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایسا ہی ذات انواط بنادیں جیسا ان کا ذات انواط ہے)۔

چوتھا قاعدہ

(موجودہ دور کے مشرکین کی گزشتہ دور کے مشرکین سے بھی بدتر حالت ہے)

چوتھا قاعدہ یہ ہے کہ ہمارےزمانے کے مشرکین پچھلے زمانوں کے مشرکین سے بھی شرک میں گئے گزرے ہیں

کیونکہ گزشتہ زمانوں کے مشرکین صرف خوشحالی میں ہی شرک کیا کرتے تھے، لیکن شدید پریشانی میں تو مخلص ہوجاتے (یعنی خالص اللہ تعالی ہی کو پکارتے تھے)، لیکن ہمارے دورکے مشرکوں کا شرک ہر حال میں جاری وساری رہتا ہے خواہ خوشحالی میں ہوں یا بدحالی میں۔

اس کی دلیل (کہ مشرکین عرب سخت مشکل حالات میں صرف اکیلے اللہ تعالی ہی کوپکارا کرتے تھے) اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

﴿فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ، فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَ﴾ 

(اور جب وہ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو دین کو اللہ تعالی کے خالص کرتے ہوئے صرف اسی کو پکارتے ہیں، پر جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے، تو وہ یکایک پھر سےشرک کرنے لگ جاتے ہیں)

(العنکبوت: 65)

اس کے ساتھ ہی یہ چار اہم قواعد اختتام کو پہنچے۔

اوردرودوسلام ہو ہمارے نبی محمد اور آپ کی آل واصحاب پر۔


[1] حدث یعنی نواقض وضوء جیسے ہوا خارج ہونا وغیرہ۔  (مترجم)

[2] مختلف الفاظ کے ساتھ یہ حدیث سنن الترمذی 2180 وغیرہ میں موجود ہے، شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

مصدر: القواعد الأربع

مترجم

طارق بن علی بروہی

قواعد اربع شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی شرح کے ساتھ آرڈر کروانے کے لیے رابطہ کریں

https://wa.me/923318989349/

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*