جاہلانہ تہوار ہالووین (عید الرعب، Halloween) میں شرکت، تعاون یا تحائف ومٹھائیاں وصول کرنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تعار‌ف:

 ہالووین امریکہ میں منایا جانے والا ایک تہوار ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹوں، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو پِیٹھے pumpkins  نظر آتے ہیں جن پر ہیبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کر دیتے ہيں۔

تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس قدیم تہوار کو ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو ’تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔ یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد ازاں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے انداز میں مناتے رہے۔ (ویکی پیڈیا سے مختصر ماخوذ)

ہالووین منانے اور شرکت کا حکم

کسی مسلمان کو خوفزدہ کرنا، ڈرانا اور ہراساں کرنا دین میں سخت منع ہے چاہے مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

”مَنْ أَشَارَ إِلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَلْعَنُهُ حَتَّى يَدَعَهُ، وَإِنْ كَانَ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ“[1]

 (جس  نے اپنے بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کیا، تو بلاشبہ فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس سے باز نہ آجائے، اگرچہ وہ اس کا ماں باپ کی طرف سے (سگا) بھائی ہی کیوں نہ ہو)۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اس میں ایک مسلمان کی حرمت کی بہت تاکید ہے، اور اسے خوفزدہ کرنے اور ڈرانے سے یا ایسی چیز میں مبتلا کرنے سے جو اس کی اذیت کا باعث ہو شدت کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ: ”اگرچہ اس کا سگا بھائی ہو“ یہ دراصل اس عام ممانعت کو ہر ایک لیے عام ظاہر کرنے کی خاطر مبالغہ ہے یعنی چاہے جسے اس بارے میں تہمت لگنے کا امکان ہو یا نہ ہو، چاہے یہ ہنسی مذاق و کھیل میں ہو یا نہیں۔ کیونکہ بلاشبہ مسلمان کو خوفزدہ کرنا ہر حال میں حرام ہے۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ ہوسکتا ہے ہتھیار غیرارادی طور پر چل جائے جیسا کہ دوسری روایت میں صراحۃً  یہ بات آئی ہے۔ اور فرشتوں کا لعنت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ یقیناً حرام ہے۔

امام الترمذی  رحمہ اللہ  اپنی سنن میں باب قائم کرتے ہیں:

” باب مَا جَاءَ لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا“

(باب اس بارے میں کہ کسی مسلمان کے لیے حلال نہيں کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے)۔

 اس کے تحت حدیث لائے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

” لَا يَأْخُذْ أَحَدُكُمْ عَصَا أَخِيهِ لَاعِبًا أَوْ جَادًّا، فَمَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيهِ فَلْيَرُدَّهَا إِلَيْهِ “([2])

(تم میں سے کوئی شخص ہنسی کھیل میں ہو یا سنجیدگی میں اپنے بھائی کی لاٹھی نہ اٹھا لے، اور جو اپنے بھائی کی لاٹھی اٹھا لے، تو چاہیے کہ وہ اسے واپس کر دے)۔

عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ہمیں اصحاب محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حدیث بیان کی کہ:

”أَنَّهُمْ كَانُوا يَسِيرُونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَانْطَلَقَ بَعْضُهُمْ إِلَى حَبْلٍ مَعَهُ، فَأَخَذَهُ فَفَزِعَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا“([3])

(وہ لوگ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ جا رہے تھے، ان میں سے ایک شخص سو گیا، کچھ لوگ اس رسی کے پاس گئے جو اس کے پاس تھی، اور اسے لے لیا تو وہ (اسے نا پاکر) ڈر گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے)۔

ساتھ ہی اس میں کافروں سے ان کے تہواروں میں مشابہت بھی ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان گرامی ہے:

’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([4])

(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے)۔

مصدر: مختلف مصادر۔


[1] صحیح مسلم بَاب النَّهْيِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالسِّلَاحِ إِلَى مُسْلِمٍ۔

[2] اسے امام الترمذی نے اپنی سنن 2160 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔

[3] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 5004 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[4] صحیح سنن ابی داود 4031، صحیح الجامع 2831۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*