سلفیت اور سلفیت کے نام سے بنائے گئے حزب وجماعت میں فرق

The difference between Salafiyyah and the group formed in the name of Salafism

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث جس میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت خلفائے راشدین کو مضبوطی سے پکڑنے کا ذکر ہے، اس کی شر ح کے تحت فوائد حدیث ذکر کرتے ہوئے فائدہ نمبر 16 میں فرماتےہیں:

جب احزاب وجماعتوں کی کثرت ہو امت میں تو کسی بھی حزب کی طرف منسوب نہ ہونا

مختلف گروہ قدیم زمانے سے ظاہر ہوتے رہے ہیں جیسے خوارج، معتزلہ، جہمیہ اور شیعہ بلکہ رافضہ۔ پھر آجکل بھی ظاہر ہوئے ہيں جیسے اخوانی، سلفی اور تبلیغی اور اس جیسے گروہ۔ تو ان تمام فرقوں کو ایک طرف رکھ دیں اور جس چیز کی طرف نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو رہنمائی فرمائی ہے اس پر چلتے جائیں کہ:

’’فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ‘‘([1])

(پس تمہیں چاہیے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی  سنت کو لازم پکڑو)۔

بلاشبہ جو بات تمام مسلمانوں پر واجب ہے وہ یہ ہے کہ ان کا مذہب مذہبِ سلف ہو ناکہ ایک خاص حزب جس نے اپنا نام سلفی رکھ لیا ہے۔لازم ہے کہ امت سیدھے منہج پر ہو اس کا مذہب مذہب ِسلف صالحین ہو۔  ان احزاب کے لیے تحزب اختیار نہ کرے جو سلفی کہلاتے ہيں۔ اس فرق پر ذرا توجہ دیں کیونکہ ایک تو سلف کا طریقہ اور راستہ ہے اور دوسری طرف ایک حزب ہے جو سلفی کہلاتا ہے، جبکہ اصل مطلوب کیا ہے؟  سلف کی اتباع کرنا۔

کیوں؟ کیونکہ جو سلفی بھائی ہیں وہ تمام فرقوں سے صواب کے قریب تر ہیں لیکن ان کی مشکل بھی وہی ہے جو دوسروں کی ہے ، وہ یہ کہ ان میں سے بعض فرقے ایک دوسرے کو گمراہ اور بدعتی اور فاسق قرار دیتے ہیں۔ اور ہم اس بات کے انکاری نہيں کہ اگر واقعی یہ مستحق ہیں (تو انہیں بدعتی کہا جائے) مگر ہم اس بدعت کا اس طرح سے معالجہ کرنے کے خلاف ہیں۔

واجب تو یہ ہے کہ ان فرقوں کے سربراہ جمع ہوں اور کہیں کہ ہمارے درمیان یہ کتاب اللہ اور اور یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں چلیں ہم ان کے ذریعے فیصلہ کرواتے ہیں ناکہ اپنی اہواء وآراء کے ذریعے، نہ ہی فلاں اور فلاں شخصیت کے ذریعے، کیونکہ ہر کسی سے خواہ وہ علم وعبادت کے کتنے ہی بلند درجے پر فائز ہو غلطی اور صواب دونوں کا امکان ہے، لیکن عصمت تو صرف دین اسلام کو حاصل ہے۔

چنانچہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرمائی کہ جس پر چل کر انسان سلامتی میں رہتا ہے۔ کسی بھی فرقے کی طرف منسوب نہ ہو سوائے سلف صالحین کے راستے وطریقے، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرف۔

(شرح الأربعين النووية ص 340- 341،  کیسٹ  رقم 14)

ایک اور مقام پر شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ شیخ بکر ابوزید رحمہ اللہ کی کتاب ’’حلیۃ طالب العلم‘‘ کے عنوان ’’کن سلفیاً علی الجادۃ‘‘ (صحیح طور طریقے پر سلفی بنو) کے تحت فرماتے ہیں کے تمام دین کے شعبوں میں سلف صالحین کی سچی پیروی کرے اور علم الکلام وغیرہ سے بچے پھر فرماتے ہیں:

طلبہ کو منہج سلف کی پیروی پر ابھارنے سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ انہيں منہج سلف کی معرفت حاصل کرنے پر ابھارے، اس بارے میں لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرنے پر جیساکہ ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ وغیرہ ہے، تاکہ ہم ان کے راستے کو جانیں اور اس منہج مستقیم کو اختیار کریں۔ لیکن بس یہ کہنا کہ ’’سلف کی پیروی کرو‘‘ جبکہ ہمیں معلوم ہی نہ ہو وہ کیا کہتے ہیں، تو یہ بلاشبہ ایک نقص ہے۔

یہی بات شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے اپنی تقریر ’’سلفیت کی حقیقت اور اس کی صفات و امتیازات‘‘ میں فرمائی جو کہ ہماری ویب سائٹ پر مکمل ترجمہ شدہ موجود ہے:

اللہ عزوجل فرماتا ہے:

﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾  

(جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے احسن طور پر ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اور وہ  ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے)۔

(التوبۃ: 100)

اللہ تعالی نے ضمانت دی ہے ان کے لیے جو مہاجرین وانصار کی اتباع کرتے ہیں اس شرط کے ساتھ ﴿بِاِحْسَانٍ﴾  (احسن طور پر) یعنی مکمل طور پر بحسن خوبی، ناکہ بغیر اس کا حق ادا کیے ہوئےمحض دعویٰ اور انتساب ہو  یا جہالت کی وجہ سے یا خواہش نفس کی پیروی میں۔ ہر کوئی جو سلف کی طرف منسوب ہوتا ہے ضروری نہیں کہ وہ حق بجانب ہو یہاں تک کہ  واقعی اس کی اتباع و پیروی بطور احسن ہو، یہ شرط ہے جو اللہ تعالی نے لگائی ہے۔

اور احسان کا مطلب ہے مکمل طور پر بحسن خوبی۔ اور یہ بات اتباع کرنے والوں سے یہ طلب کرتی ہے کہ وہ منہج سلف کو پڑھیں، اسے جانیں اور اس سے تمسک اختیار کریں۔ لیکن یہ کہ بس ان کی طرف انتساب ہو اور نہ ان کے منہج کو جانتے ہوں نہ مذہب  کو تو اس کا کوئی فائدہ نہيں، بے کار ہے۔ ان کا  سلف سے واسطہ نہیں اور نہ ہی وہ سلفی ہیں۔ کیونکہ وہ سلف کی اتباع بطور احسن کرتے ہی نہيں جیسا کہ اللہ تعالی نے شرط لگائی ہے۔تو سب سے پہلے منہج سلف کو سیکھیں اس کی تعلیم حاصل کریں، پھر بطور احسن اس کی پیروی کرتے رہیں اور لوگوں کی طرف سے جس چیز کا بھی سامنا ہو اس پر صبر کرے۔بلکہ یہ بھی کافی نہیں لازم ہے کہ منہج سلف کو نشر بھی کریں، ضروری ہے کہ اللہ کی طرف اور منہج سلف کی طرف دعوت بھی دیں اور لوگوں کے سامنے وضاحت کریں ان کے مابین اسے نشر کریں، تو ایسا شخص حقیقتاً سلفی ہے۔ جبکہ جو صرف سلفیت کا دعویٰ کرتا پھرے حالانکہ اسے منہج سلف کی معرفت تک نہيں ، یا پھر معرفت تو ہے لیکن اس کی اتباع ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی اتباع کرتا ہے جس پر لوگ چل رہے ہیں، یا پھر اس کی اتباع کرتا ہے جو اس کی خواہش نفس کے موافق ہو تو ایسا شخص سلفی نہيں اگرچہ وہ اپنے آپ کو سلفی کہتا رہے، یا پھر وہ فتنوں پر صبر نہ کرے اور اپنے دین کے تعلق سے خوشامد و مداہنت پر اتر آئے اور منہج سلف کی کچھ چیزوں سے تنازل و دست برداری اختیار کرے تو یہ منہج سلف پر نہیں۔ کیونکہ اصل اعتبار دعوؤں کا نہيں کیا جاتا بلکہ اصل اعتبار حقیقت کا کیا جاتا ہے۔

چنانچہ یہ امر ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہم منہج سلف کی معرفت حاصل کرنے کا اہتمام کریں اور منہج سلف کی عقیدے، اخلاق، عمل اور تمام شعبوں میں تعلیم حاصل کریں۔

مزید فرمایا:

یہ ہے منہج سلف جو کہ ماخوذ ہے کتاب وسنت سے۔ یہ نہ کہیں کہ میں کہاں سے منہج سلف حاصل کروں؟میرے بھائی یہ کتاب وسنت آپ کو منہج سلف سے متعارف کروائیں گے۔ اور یہ بھی کہ کتاب وسنت سے حاصل نہ کرنا مگر راسخین فی العلم علماء کرام کے واسطے سے  یہ بات بھی بہت ضروری ہے۔

جو کوئی چاہتا ہے کہ منہج سلف پر چلے تو اس پر ان شرعی ضوابط کی پابندی کرنا لازم ہے۔ ورنہ تو آج بہت سے لوگ یہی دعوی کرتے ہیں کہ ہم منہج سلف پر ہیں حالانکہ درحقیقت وہ گمراہی اور بڑی بڑی غلطیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور اسے منہج سلف کی طرف منسوب کررہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کفار ومنافقین اور جن کے دلوں میں مرض ہے وہ سلفیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں ہر جرم، ہر تخریب کاری اور مصیبت کا الزام سلفیوں کے سر دھر دیتے ہیں کہ یہ ہیں سلفی لوگ۔ حالانکہ سلفیت تو ان تمام باتوں سے بالکل بری ہے اور سلف بھی اس سے بری ہیں، اور نہ ہی یہ منہج سلف ہے بلکہ یہ تو صرف اور صرف منہج ضلالت وگمراہی ہے اگرچہ اسے یہ منہج سلف کا نام دیتے پھریں۔ لہذا واجب ہے کہ ہم محض نام رکھ لینے اور حقیقت میں فرق کریں۔ کیونکہ ان میں بلاشبہ وہ بھی ہیں جو بلاحقیقت بس نام کی حد تک سلفی کہلاتے ہیں تو ایسا شخص سلفی نہیں اور سلف اس سے بری ہیں۔

منہج سلف علم نافع، عمل صالح اور اللہ کے دین کے لیے اخوت اپنانے اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون کرنے کا نام ہے۔ یہ ہے وہ منہج سلف صالحین کہ جو اس سے تمسک اختیار کرتا ہے تو وہ شر و فتنوں سے نجات پاکر اللہ کی رضا کی جانب گامزن رہتا ہے۔۔۔ہر کوئی جنت کا طلب گار ہے ان باغات کا جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں، ہر کوئی آتش جہنم سے بچنا چاہتا ہے اور عذاب نہيں چاہتا۔ لیکن اصل بات تو ان اسباب کی ہے کہ جو اسے جنت کی طرف لے جائيں اور آگ سے بچالیں۔ اور اس میں سوائے منہج سلف صالحین کی پیروی کے کوئی دوسرے اسباب نہيں۔  امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’اس امت کے آخر کی اصلاح نہیں ہوسکتی مگر اسی سے جس سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی‘‘۔

جس چیز نے اس کے اول کی اصلاح کی تھی وہ کتاب وسنت تھے، لہذا اس کے آخر کی اصلاح بھی نہيں ہوسکتی مگر اسی کتاب وسنت کے ذریعے۔ یہ کتاب وسنت الحمدللہ ہمارے پاس موجود ہیں اللہ تعالی کی حفاظت سے محفوط ہیں:

(بے شک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں)

(الحجر: 9)

محفوظ ہیں اللہ تعالی کی اجازت سےجو بھی سچائی کے ساتھ انہیں چاہے گا اور صحیح طور پر تعلیم حاصل کرے گا تو وہ انہيں پالے گا۔ البتہ جو بغیر حقیقت کے بس دعویٰ کرتا ہو یا بس اس کی تقلید کرتا ہو جو سلفی کہلاتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ منہج سلف پر نہیں تو یہ اسے کچھ فائدہ نہيں پہنچا سکتا بلکہ نقصان کا سبب بنے گا۔ کیونکہ مشکل یہ ہے کہ یہ شخص اس چیز کو سلف اور سلفیوں کی طرف منسوب کرتا ہے جو کہ جھوٹ وافتراء ہے سلف پر اور جھوٹ وافتراء ہے سلفیت پر۔ یہ تو لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے چاہے اس کی یہ نیت ہو یا نہ ہو، وہ یا تو ہواءپرست ہے یا جاہل ہے۔ چنانچہ ضروری ہے جو دعویٰ کرتا ہے یا منسوب ہوتا ہے سلف کی طرف تو اسے چاہیے کہ وہ اس نام وانتساب کا حق بھی ادا کرے اس طرح کہ واقعتاً وہ اپنے اعتقاد، اپنے اقوال، عمل اور معاملات وسلوک میں منہج سلف کی پیروی کرتا ہو۔ تاکہ وہ حقیقی طور پر سلفی ہو اور ایک صالح نمونہ ہو جو مذہب سلف صالحین کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔

جو یہ منہج چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس کی معرفت اچھی طرح سے حاصل کرے، اس کی تعلیم حاصل کرے، پہلے خود اس پر عمل کرے پھر لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دے، اور ان کے سامنے اسے واضح کرے۔ یہ ہے راہ نجات اور یہ ہے اس فرقۂ ناجیہ اہل سنت والجماعت کا طریقہ جو اس چیز پر قائم ہيں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم قائم تھے۔ اور وہ اس پر صبر کرے، ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے، فتنوں کی اور گمراہ دعوتوں کی رو میں نہ بہہ جائے، ان تندوتیز ہواؤں میں اس کے قدم نہ ڈگمگائیں بلکہ وہ جس سچے منہج پر ہے اسی پر ثابت قدم رہے یہاں تک کہ اپنے رب سبحانہ وتعالی سے جاملے۔

اسی طرح مفتی عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

سوال: کہا جاتا ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت ایسی ہی تھی جیسے اخوان المسلمین وغیرہ جیسی اسلامی جماعتوں کی دعوت ہے۔ آپ اس تہمت پر کیا تعلیق فرمائیں گے؟

جواب: امام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت سلفی واصلاحی تھی جو لوگوں کو توحید کی طرف ترغیب دینے ، شرک کو چھوڑ دینے اور منہج سلف صالحین پر چلنے پر مشتمل تھی۔اور شیخ کی تمام کتب ومؤلفات اور آئمہ دعوت کی کتب اس بات پر شاہد ہیں۔  ان کی دعوت کے سیاسی قسم کے اہداف نہیں تھے، نہ ہی کوئی حزبی رنگ تھا، نہ ہی ان کے متبعین نے معروف احزاب وجماعتوں کے جیسا مسلک ومنہج اپنا رکھا تھا جیسا کہ اخوان المسلمین  وغیرہ جیسی جماعتیں ہیں کہ جو اپنی جماعت سازی کے لیے بیعت لیتی ہیں، اور اپنی جماعت کے خاص فکری منہج کا التزام کرتی ہيں، اپنی رکنیت وممبرشپ کا نظام بناتی ہیں کہ جس میں مخصوص طریقے سے ترقی ہوتی ہو، یا پھر اس جماعت وتنظیم کے قائد کے اوامر ونواہی کا پابند رہا جاتا ہے، یا پھر کوئی خفیہ اعمال ہوتے ہیں، اور سیاسی اہداف اور حزبی مصالح کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے، اور اس جماعت اور ان کے قائدین کے لیے الولاء والبراء برتی جاتی ہو، اور اس بات کی حرص کی جاتی ہے کہ ہر کس وناکس کو جماعت میں شامل کرکرکے اپنی تعداد بڑھائی جائے ، نہ اس کا عقیدہ دیکھا جائے ، نہ اس کے عمل کا صحیح ہونا اور نہ عمدہ اخلاق، بس شرعی ہوں خواہ  غیر شرعی وسائل کو بروئے کار لاکر لوگوں کو اپنی جماعت میں  ایک بھیڑ چال جمع کرنا اور اس کی تائید کرنا۔۔۔اور اس کے علاوہ جو امور وسلوک ان جماعتوں اور احزاب کے بارے میں معروف ہیں جو ان کے حالات دیکھنے والے بابصیرت شخص پر مخفی نہیں۔

جبکہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت میں اس قسم کی فضولیات، بدعات ومحدثات نہیں تھیں جو کہ شریعت کے کسی بھی طور پر منافی ہوں۔ چنانچہ یہ دیگر خود ساختہ جماعتوں کی طرح ایک جماعت نہیں تھی نہ ہی دیگر احزاب کی طرح کوئی حزب، بلکہ یہ تو صحیح اسلام ، صحیح عقیدے اور اس شرعی منہج کی طرف رجوع کرنے کی دعوت تھی کہ جس پر ہمارے سلف صالحین، آئمہ معتبرین اور سلف کے منہج پر چلنے والے تمام  متأخرین علماء کرام گامزن رہے ہیں۔

(شیخ کا انٹرویو نیوز پیپر مکہ 4 فروری، 2014 ص26)


[1] حدیث حسن عن العرباض بن ساریۃ رضی اللہ عنہ: اخرجہ احمد فی المسند (4/126،127)، والدارمی فی المقدمۃ، باب اتباع السنۃ، والترمذی فی کتاب العلم، باب ماجاءفی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع، حدیث رقم (2676)، وابوداود فی کتاب السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، حدیث رقم (4607)، وابن ماجہ فی المقدمۃ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین، حدیث رقم (45،46)، والحدیث قال الترمذی عقبہ: ھذا حدیث حسن صحیح وقد روی ثور بن یزید عن خالد بن معدان عن عبدالرحمن بن عمرو السلمی عن العرباض بن ساریۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نحو ھذا حدثنا بذلک الحسن بن علی الخلال وغیر واحد قالوا حدثنا ابو عاصم عن ثور بن یزید عن خالد بن معدان عن عبدالرحمن بن عمرو السلمی عن العرباض بن ساریۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نحوہ والعرباض بن ساریۃ یکنی ابانجیح وقد روی ھذا الحدیث عن حجر بن حجر عن عرباض بن ساریۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نحوہ، وصححہ الالبانی فی ارواء الغلیل (8/107) حدیث رقم (2455)۔

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی