شیعہ فرقے کا مختصر تعارف – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Brief Introduction of Shia Sect – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan

الشیعۃ: وہ ہیں جو اہل بیت کے لیے تشیع اختیار کرتے ہیں۔

اور التشیع کا اصل معنی ہے : اتباع ومناصرت (پیروی کرنا نصرت وحمایت کرنا)۔

﴿وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ﴾ (الصآفات: 83)

(اور ان کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھے)

یعنی ان کے متبعین اور ان کے طریقے کے حمایتیوں میں سے ابراہیم علیہ السلام بھی تھے ۔ کیونکہ جب اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا تو پھر اس کے بعد فرمایا کہ:

﴿وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ﴾ (الصآفات: 83)

(اور ان کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھے)

پس التشیع کا اصل معنی اتباع ومناصرت ہے۔ پھر بعد میں اس کا اطلاق اس (رافضی)[1] فرقے پر ہونے لگا جو اپنے گمان میں اہل بیت کی اتباع کرتے ہیں۔ اہل بیت سے مراد ان کے ہاں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور آپ کی اولاد ہیں۔

اور یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کی وصیت علی رضی اللہ عنہ کے لیے کی گئی تھی۔ اور ابوبکر، عمر و عثمان اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے علی رضی اللہ عنہ پر ظلم کیا اور ان کا حق خلافت غصب کیا۔ وہ اس طرح سے کہتے ہیں۔

حالانکہ وہ اپنے اس قول میں جھوٹے ہیں۔ کیونکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اجماع فرمایا تھا جن میں سے خود علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی تھے کہ جنہوں نے خود ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کی۔

اس کا معنی تو یہ ہے کہ یہ شیعہ خود علی رضی اللہ عنہ کو نعوذباللہ خائن قرار دینا چاہتے ہیں!

اس کے علاوہ وہ سوائے چند ایک کے تمام صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں۔ اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما پر تو خصوصاً لعن طعن کرتے ہیں اور انہیں ’’صنمی قریش‘‘ (قریش کے دو بت) تک کا لقب دیتے ہیں۔

ان کے مذہب میں سے یہ بھی ہے کہ وہ آئمہ اہل بیت کے تعلق سے غلو کرتے ہیں اور انہیں شریعت سازی اور احکام کو منسوخ کرنے تک کا حق تفویض کرتے ہیں۔

اور قرآن کریم کے متعلق گمان کرتے ہیں کہ اس میں تحریف ونقص ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے آئمہ کو اللہ کے سوا اپنا رب تک بنالیا ہے اور ان کے قبروں پر مزار وقبے تعمیر کیے اور ان ہی کا طواف شروع کردیا اور انہی کے نام کی نذرونیاز شروع کردی۔

اور یہ شیعہ بھی کئی ایک فرقوں میں مزید بٹتے گئے۔ بعض ان میں سے بعض سے گمراہی میں ہلکے ہیں۔ اور بعض بعض سے گمراہی میں بڑھ کر ہیں۔ ان میں سے زیدیہ ہیں اور رافضہ اثنی عشریہ بھی ہیں، اسی طرح سے الاسماعیلیہ، الفاطمیہ اور انہی میں سے القرامطہ اور بہت سے فرقے ہیں۔

یہی ہوتا ہے کہ جو بھی حق کو چھوڑتا ہے وہ مزید تفرقہ درتفرقہ کا شکار ہوتا رہتا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ۚ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ﴾ (البقرۃ: 137)

(اگر یہ لوگ بھی (اے صحابہ) تم جیسا ایمان لے کر آئیں تو یہ ہدایت پاجائیں، اور اگر یہ منہ پھیریں تو یہ اختلاف در اختلاف میں پڑے رہیں گے، پس تمہیں تو ان کے مقابلے میں اللہ ہی کافی ہے، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے)

جو حق کوچھوڑتے ہیں تو وہ باطل، کجروی اورتفرقہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ کسی نتیجے پرنہیں پہنچ پاتے  بلکہ خسارہ ہی پاتے ہیں، العیاذ باللہ۔

اسی لیے شیعہ بہت سی ٹولیوں اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔

اسی طرح سے قدریہ بھی۔۔

ان میں سے کچھ بہت غالی ہیں اور کچھ ان سے کم ہیں۔


[1] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: رافضہ نام کی حقیقت یہ ہے کہ زید بن علی رحمہ اللہ کے دور خروج میں شیعہ زیدیہ اور رافضہ میں تقسیم ہوگئے۔ وہ اس طرح کے جب شیعہ نے زید سے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان کے بارے میں رحم دلانہ بات کی، جس پر ایک گروہ نے ’’رفض‘‘ (انکار) کیا تو زید نے کہا ’’رفضتموني‘‘ (تم نے مجھے رفض یعنی انکار کیا) لہذا ان کے ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں اچھے خیالات کا انکار کرنے والے رافضی کہلائے اور جنہوں نے انکار نہیں کیا وہ زیدی کہلائے۔ (ص 35 جـ (1). منهاج السنة النبوية لابن تيمية) (مترجم)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: لمحة عن الفرق الضالة

YouTube