بلاؤں کو ٹالنے کے لیے جان کے صدقہ کے طور پر قربانی کرنا؟

Slaughtering with the Intention of Protecting Oneself from Afflictions

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: ایک سوڈانی بھائی کی طرف سے سوال ہے جس میں کہتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک عادت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ  کوئی شخص جب اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے تو ایک قربانی ذبح کرتا ہے، یا جب وہ نصف مکمل ہوجائے یا پھر اسے مؤخر کرکے عمارت تعمیر ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اور جب لوگ اس گھر میں رہائش کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس میں قربانی کرکے دعوت کرتے ہیں جس میں عزیز واقارب وپڑوسیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، آپ فضیلۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟اور کیا کوئی مستحب عمل نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے مشروع ہے؟ ہمیں استفادہ پہنچائیں جزاکم اللہ خیر الجزاء۔

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

اس عمل کے تعلق سے تفصیل ہے۔ اگر اس قربانی سے مقصود جن سے بچاؤ ہو یا کوئی اور مقصد گھر کے مالک کو مقصود ہو کہ اس ذبح کے ذریعے یہ یہ حاصل ہوگا جیسے گھر کی سلامتی یا یہاں رہنے والوں کی سلامتی تو یہ جائز نہیں۔ اور یہ بدعات میں سے ہے۔ اگر یہ جن کے لیے ہو تو شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے۔

لیکن اگر یہ شکر کے باب میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو نعمت فرمائی ہے کہ اسے اپنی چھت مل گئی یا گھر کی تکمیل کے وقت وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے  اور کھانے کی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ اور یہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اللہ کے نعمتوں پر شکر کرنے کے طور پر کہ اس نے ان پر اپنا احسان فرمایا کہ انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا اور اس میں رہنا نصیب ہوا بجائے اس کے کہ وہ کہیں کرایوں پر رہتے۔

اور اسی طرح سے بعض لوگ کرتے ہیں جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو دعوت دیتے ہيں اللہ تعالی کی شکرگزاری میں کہ اس نے سلامتی سے سفر کروایا اور واپسی ہوئی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب سفر سے واپس آتے تو ایک اونٹ نحر (ذبح) کرکے لوگوں کی دعوت فرماتے۔

(فتاوی نور علی الدرب 1853، مجموع فتاوى الشيخ ابن باز  5 / 388 )

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد السابع، باب الهَدي والأُضحية والعقيقة‘‘  میں فرماتے ہیں:

مسئلہ: جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں قربانی ذبح کرتے ہیں اور پڑوسیوں و عزیز واقارب کی دعوت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی فاسد عقیدہ نہ جڑا ہوا ہو جیسا کہ بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ ایک بکری لا کر اسے گھر کی دہلیز پر ذبح کرتے ہیں تاکہ اس کا خون وہاں بہے۔ اور کہتے ہیں: یہ جنات کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے، پس یہ فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی اصل نہیں، لیکن جو محض خوشی ومسرت میں ایسا کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔

سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے اہل وعیال اسے کہیں: ایک جانور ذبح کرو (قربانی کرو) اور اسے مساکین میں تقسیم کردو بلاؤں کو دور کرنے کے لیے، کیا ایسی نیت کرنا جائز ہے؟

 شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ:

اس بارے میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ ذبیحہ صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، کسی متوقع چیز کو دور کرنے، یا کسی پیش آنے والی چیز کو رفع کرنے کے لیے نہیں، لیکن بس صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، اور فقراء کو کھلانے کی نیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں  اور یہ ان عمومی دلائل میں داخل ہے کہ حن میں کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور مساکین کو کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

البتہ اگر ذبح کرنا اس لیے ہو کہ گھر والے بیمار ہیں، تو اس لیے ذبح کرنا تاکہ مریض سے وہ تکلیف دور ہوجائے (جان کا صدقہ) تو یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، سد ذریعہ کے طور پر۔ کیونکہ بہت سے لوگ تب ہی ذبح کرتے ہیں جب کوئی ان پر مرض آپڑے کیونکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی جن کی وجہ سے ہے، یا کسی موذی چیز کی وجہ سے، پس جب وہ ذبیحہ کو ذبح کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں تو اس کا شر دور ہوجاتا ہے یا پھر اس موذی چیز کی وجہ سے جو تکلیف ہے وہ رفع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا اعتقاد حرام ہے جائز نہیں۔ لہذا جو ذبیحہ کسی مرض کو رفع کرنے یا بطور مریض کے جان کے صدقے کے دیا جاتا ہے اس حال میں علماء کرام فرماتےہیں: یہ حرام ہے جائز نہیں، سد ذریعہ کے طور پر۔

اور شیخ علامہ سعد بن حمد بن عتیق رحمہ اللہ کا اس موضوع پر کہ ’’مریض کے لیے ذبح کرنا ‘‘خاص رسالہ بھی ہے([1])۔

اسی طرح سے اگر ذبح کرنا کسی متوقع تکلیف کو روکنے کے لیے ہے جیسے کسی شہر میں کوئی مخصوص بیماری پھیل گئی ہو تو اس بیماری سے دفاع کے لیے ذبح کیا جائے۔ یا پھر اس جہت سے کہ گھر کے ارد گرد کوئی موذی چیز ہو تو اس موذی چیز کے نقصان سے بچنے کے لیے ذبح کرے خواہ مثال کے طور پر چور ڈاکو ہوں، جو گھر پر مسلط ہوگئے ہوں، یا ان کی جانب سے پہنچنے والی تکلیف ہو جو گھر پر آتے ہیں، اوروہ اس تکلیف سے دفاع کی غرض سے ذبح کرکے صدقہ کرے، تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔ اور سد ذریعہ کے لیے اس سے منع کیاگیا ہے۔ کیونکہ لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو جنات کی تکالیف کے سدباب کے لیے ذبح کرتے ہیں جو کہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے (یعنی جن یا ان کے سردار کو راضی کرنے کے لیے ان کے نام کی قربانی)۔

اگر یہ کہا جائے: پھر اس حدیث کا کیا معنی جو ابوداود وغیرہ میں ایسی اسناد سے مروی ہے جسے بعض علماء نے حسن قرار دیا تو بعض نے ضعیف۔ وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ‘‘

(اپنے مریضوں کا علاج صدقے سے کرو)۔

کیا اس میں خون بہانا بھی شامل ہے؟ کیونکہ یہ وسیلہ ہے باطل اعتقادات کی طرف۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ شریعت ان تمام ذرائع کے سدباب کے لیے آئی ہے جو شرک کی طرف لے جاتے ہوں۔ اسی طرح سے ان ذرائع کو کھولنے کے لیے آئی ہے جو خیر کی طرف لے جاتے ہوں۔ جو ذریعہ بھی شرک اور باطل اعتقاد  کی طرف لے جانے کا ذریعہ ہو تو وہ ممنوع ہوگا۔  

(كتاب التمهيد لشرح كتاب التوحيد)

سوال: احسن اللہ الیکم، یہ سائل انٹرنیٹ کے ذریعے سوال کرتا ہے، نئے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ذبح کرنے کا کیا حکم ہے یا گھر کی تعمیر کے دوران ایسا کرنا کیسا ہے؟

جواب از شیخ عبید الجابری حفظہ اللہ:

یہ دو حالتوں سے خالی نہیں:

1-اگر وہ نظربد یا حسد کو دور کرنا چاہتا ہو یا جن سے بچنا چاہتا ہو اس غرض سے اس نے کیا تو یہ شرک اکبر ہے، جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے۔

2- لیکن اگر وہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس سے پہلے کرایے کے گھر میں رہتا تھا  پس  اللہ تعالی نے اس پر یہ احسان کیا کہ اس نے گھر خرید لیا یا بنایا۔ لہذا اس نے چاہا کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے  پس اس نے ایک یا زائد ذبح کیے اور لوگوں کو دعوت دی ، اور اس پر اپنے اہل و عیال اور جن سے تعلق ہو انہیں دعوت دی، تاکہ وہ بھی اس کے لیے دعاء کریں، تو اس میں کوئی حرج نہيں ان شاء اللہ تعالی۔

(یوٹیوب سے کلپ:  حكم الذبح عند بناء منزل جديد أو عند شراء سيارة جديدة وماشابه وتلطيخها بالدماء)

سوال:  ہمارے ہاں لوگوں میں ایک عادت پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی گھر بنانا چاہتا ہے تو اس کے سنگ بنیاد کے موقع ایک بکری ذبح کرتے ہيں، اور جب پہلی چھت ڈلتی ہے اس وقت بھی ایک بکری ذبح کرتے ہیں جسے وہ فداء  کا نام دیتے ہیں، پس کیا ایسا کرنا سنت میں وارد ہوا ہے، یا پھر یہ بدعات میں سے ہے؟

جواب از شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ:

یہ سب کچھ بدعات میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل نازل نہيں فرمائی۔ اس کے علاوہ اگر یہ ذبح کرنا جن کی وجہ سے ہو یا  جن تک پہنچایا جاتا ہو تو  اس عقیدے کے ساتھ کہ اس سے ان کی جانب سے ملنے والے نقصان سے بچا جاسکتا ہے یا  وہ گھر والوں کے لیے کوئی خیر بھلائی لاسکتے ہیں تو  یہ شرک اکبر میں سے، العیاذ باللہ!

غیراللہ کے لیے ذبح کرنا اس  شرک اکبر میں سے ہے جو انسان کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے۔

البتہ اگر ان کی نیت ہو کہ یہ خالص اللہ کے لیے ہے اور اس سے مقصود اللہ کی اطاعت ہو کہ اس کے گوشت کو بطور صدقہ تقسیم کردیا جائے گا، تو بھی یہ بدعات میں سے ہوگا کیونکہ اس کی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی ہےکہ اس حالت یا اس مناسبت سے ذبح کیا جائے۔

لہذا یہ بس عاداتِ جاہلیت میں سے ہے۔ جو ان دو حالتوں سے خالی نہیں:  یا تو بدعت ہوگی یا اللہ کے ساتھ شرک ہوگی۔

چنانچہ اسے چھوڑنا اور دوسروں کو بھی اس سے ڈرانا واجب ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی پر توکل کریں، وہی اپنے بندوں کی حفاظت فرماتا ہے، ان کے لیے خیر لاتا  اور برائی کو دور کرتا ہے، ناکہ یہ ذبیحے، یا جو  وہ ذبح کرتے ہوئے جن و شیاطین کا تقرب حاصل کرتے ہیں، یہ سب  جاہلی عادات اور  شرکیہ امور ہیں۔ مسلمانو ں کو چاہیے ان سے بچ کر رہیں۔

[فتاوی نور علی الدرب  – البدع و احکامھا، رقم الحلقۃ 205]


[1] رسالے کا نام ’’حجة التحريض في تحريم الذبح للمريض‘‘ ہے۔

ترجمہ، جمع وترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*