کوئی طالبعلم کب کسی خاص شیخ کا شاگرد کہلایا جاسکتا ہے؟ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

When can a Student of Knowledge be said to be amongst the Students of a Particular Shaykh? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: بعض داعیان ہوتے ہیں جو فلاں شیخ یا فلاں شیخ کی طرف منسوب ہوتے ہيں حالانکہ یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ وہ اس شیخ کے پاس کبھی بیٹھے ہوں الا بعض گنتی کی مجلسوں کے، کہ جنہیں ہاتھوں کی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ پس ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ کوئی حد بتا دیں اس کی اور اس پر روشنی ڈالیں کہ کب کوئی طالبعلم یا شخص کسی شیخ کے شاگروں میں سےشمار ہوتا ہے؟

جواب: اگر آپ سلف کے تراجم (سوانح حیات) کی طرف رجوع کریں گے یعنی اس امام کے جس کا ترجمہ (سوانح) ہے شیوخ کون تھے  اور تلامیذ (شاگرد) کون تھے تو آپ پائیں گے کہ وہ ان کے شیوخ میں ان تک کو گنتے ہیں جن سے انہوں نے محض اکا دکا احادیث ہی روایت کی ہوں۔

لیکن اصطلاحات مختلف ہوسکتی ہیں اللہ اعلم۔ اگر کوئی کہے کہ: ’’أنا من تلاميذ فلان‘‘ (میں فلاں کے تلامیذ میں سے ہوں) اور ’’درست على فلان‘‘ (میں نے فلاں پر (یعنی ان کے سامنے، ان سے) پڑھا ہے) لوگوں کو یہ وہم دے کہ اس نے ان سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور سنن ابی داود، سنن ترمذی اور عقیدہ طحاویہ ۔۔۔الخ تک کتب پڑھی ہیں، اگر لوگوں کو یہ وہم ہونے کا اندیشہ ہو اور لوگ اس کی اس بات سے یہ سمجھیں تو اسے اس سے پرہیز کرنا چاہیے اور واضح طور پر بیان کرنا چاہیے کہ کس قدر اس نے ان سے علم حاصل کیا ہے، لوگوں کو دھوکے میں نہ رکھے۔

کیونکہ بہت سے لوگ کہتے ہیں: ’’أنا درست على الشيخ ابن عثيمين‘‘ (میں نے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے پاس پڑھا ہے) یا ’’درست على الشيخ ابن باز‘‘  (شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے پاس پڑھا ہے) یا ’’درست على الشيخ الألباني‘‘ (شیخ البانی رحمہ اللہ کے پاس پڑھاہے) ’’قال شيخنا‘‘ (ہمارے شیخ نے فرمایا)۔۔۔لوگوں کو یہ وہم دیتے ہیں کہ وہ ان کے ان تلامیذ میں سے ہیں کہ جنہوں نے ان سے مستقل لزوم کیا اور علوم اخذ کیے!

اگر لوگوں کو یہ وہم ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے چاہیے کہ اس کی  وضاحت کرے اور کہے: ۔۔۔ ’’درست عليه في جلسة واحدة في الكتاب الفلاني‘‘ (میں نے ان سے ایک مجلس میں فلاں کتاب سے پڑھا ہے) یا ’’قرأت عليه شيئًا من صحيح مسلم‘‘ (میں نے صحیح مسلم میں سے تھوڑا بہت ان سے پڑھا ہے)، ’’قرأت عليه شيئًا من صحيح البخاري‘‘ (میں نے صحیح بخاری میں سے تھوڑا بہت ان سے پڑھا ہے)، ’’قرأت عليه شيئًا من الأحاديث الصحيحة أو الضعيفة‘‘ (میں نے احادیث صحیحہ یا ضعیفہ میں سے تھوڑا بہت ان سے پڑھا ہے)، ’’جلست معه في لقاء‘‘ (ان کے ساتھ ایک ملاقات میں بیٹھا)۔۔۔الخ، لوگوں پر واضح کرے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس کے لیے جائز ہے کہ کہے : میں ان کے تلامیذ میں سے ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ لوگوں کو یہ وہم نہ ہو کہ اس نے باقاعدہ ان سے لزوم اختیار کیا ہے یا اس نے ان سے یہ یہ اور وہ علم اخذ کیا ہے۔

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: “مرحبًا يا طالب العلم” (ص336) ط1, أضواء السلف – الميراث النبوي.

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*