کیا مسلم ملک کا دفاع جہاد شمار ہوگا؟ – شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

Would defending a Muslim country be considered jihad? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: محاذجنگ (بارڈر) پر پہرہ دینے والے آپ کے فرزندان ملت آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا انہیں بھی اللہ تعالی کے راستے میں پہرہ دینے والوں کی طرح اجروثواب ملے گا۔۔۔اور آپ جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسے دشمن کا سامنا کررہے ہیں جسے کسی عہد کا پاس ہے اور نہ کسی حق کی حفاظت کا؟  وہ آپ سےیہ بھی  پوچھتے ہیں کہ کیا وطن، عزت اور ملکیتوں کا دفاع بھی جہاد میں داخل ہے؟ اور جیساکہ وہ امید کرتے ہيں کہ آپ ان کی خیرخواہی چاہتے ہوئے ان کی رہنمائی فرمائيں گے۔

جواب:

کتاب وصحیح سنت اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ محاذ ومورچوں پر چوکی وپہرا دینا بھی جہاد فی سبیل اللہ میں سے ہے، اس شخص کے لیے جو صحیح  نیت سے ایسا کرے، کیونکہ اللہ جل وعلا کا فرمان ہے:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۣ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (آل عمران: 200)

(اے ایمان والو! صبر وثابت قدمی اختیار کرو ، اور ایک دوسرے  کو تھام کر مقابلے میں جمے رہو، اور مورچوں پر چوکس وڈٹے رہو، اور اللہ  تعالی سے ڈرتے رہو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ)

 اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، وَإِنْ مَاتَ جَرَى عَلَيْهِ عَمَلُهُ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُهُ، وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ وَأَمِنَ الْفَتَّانَ‘‘([1])

((اللہ تعالی کے راستے میں) ایک دن ورات جم کر پہرے داری دینا ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے، اگر وہ اس حالت میں فوت ہوگیا تو اس کا وہ عمل جاری رہے گا جو وہ کیا کرتا تھا، اس کا اسے رزق بھی جاری کردیا جائے گا، اور وہ بہت بڑے فتنے باز (شیطان یا دجال یا عذاب کا فرشتہ)([2]) سے بھی محفوظ رہے گا)۔

صحیحین میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا، وَالرَّوْحَةُ يَرُوحُهَا الْعَبْدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ الْغَدْوَةُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا‘‘([3])

(اللہ کے راستے میں ایک دن کی جم کر پہرے داری (مورچہ بندی) اس دنیااور جو کچھ دنیا پرہے اس سے بہتر ہے۔ جنت میں تم میں سے کسی ایک کی ایک کوڑے (ہنٹر) کے برابر جگہ تمام دنیا اور دنیا پر جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے، اور ایک شام یا ایک صبح جسے بندہ اللہ تعالی کے راستے میں بسر کرتا ہے وہ بھی دنیا اورجو کچھ دنیا پر ہے اس سے بہتر ہے)۔

اورصحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ‘‘([4])

(جس کے پاؤں اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوگئے، تو اسے اللہ تعالی نے جہنم کی آگ پر حرام قرار دے دیا ہے)۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دین، جان، اہل، مال، ملک اور اس کے اہلیان کا دفاع شرعی جہاد میں سے ہے،  اور جو اس راہ میں قتل ہوجائے اور وہ مسلمان ہو تو وہ شہید شمار ہوگا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ‘‘([5])

(جو اپنے مال کے دفاع میں قتل کردیا گیا وہ شہید ہے، اور جو اپنے دین کی وجہ سے قتل کردیا گیا وہ شہید ہے، اور جو اپنی جان کے دفاع میں قتل کردیا گیا وہ شہید ہے اورجو اپنے اہل وعیال کا دفاع کرتے ہوئے قتل کردیا گیا تو وہ بھی شہید ہے)۔

اور اے دشمن کی سرحدکے پاس چوکی وپہرہ دینے والو! ہم آپ کو وصیت کرتےہيں کہ آپ اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کریں، اور اپنے تمام اعمال میں اللہ تعالی کے لئے اخلاص اپنائیں، اورپنج وقتہ نماز باجماعت کی پابندی کریں،  اور کثرت کے ساتھ اللہ عزوجل کا ذکر کریں، اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت پر استقامت اختیار کریں، ساتھ ہی  اتحاد واتفاقِ کلمہ کے اور اختلاف وتنا‌زع سے اجتناب کے حریص رہیں، اور اس سلسلے میں اطمینانِ نفس کے ساتھ خود بھی صبرکریں اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کریں، اور اللہ تعالی کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن قائم رکھیں اور اس کی تمام نافرمانیوں سے بچتے رہیں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس بارے میں سورۃ الانفال کی یہ آیات بڑی جامع ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ، وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ﴾ (الانفال: 45-46)

(اس مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ تعالی کا بہت ذکر کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ، کرو اور اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو، اور آپس میں تنازع نہ کرنا کہ (ایسا کرنے پر) تم بزدل ہوجاؤ گے ، اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر سے کام لیتے رہو یقیناًَ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)

اللہ تعالی آپ کے قدموں کو  راہ راست پر  اور اپنے دین پر ثابت قدم رکھے، اورآپ کے اور جو آپ کے ساتھ ہیں ان کے ذریعے حق کی نصرت فرمائے، اور آپ کے ذریعے  باطل اور اہل باطل کو ذلیل ورسوا کرے۔ إنه ولي ذلك والقادر عليه۔


[1] رواه مسلم في (الإمارة)، باب (فضل الرباط في سبيل الله) برقم 1913۔

[2] اس لفظ کو ’’الْفُتَّان‘‘ (پیش کے ساتھ ) بھی پڑھا گیا ہے، جس کا معنی ہے آزمانے والے یعنی قبر میں جو دو فرشتے آتے ہیں۔(توحید خالص ڈاٹ کام)

[3] رواه البخاري في (الجهاد والسير)، باب (فضل رباط يوم في سبيل الله) برقم 2892۔

[4] رواه البخاري في (الجمعة)، باب (المشي إلى الجمعة)، برقم 907۔

[5] رواه الترمذي في (الديات)، باب (ما جاء فيمن قتل دون ماله فهو شهيد) برقم 1421۔

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: نشر في كتاب (فتاوى إسلامية)، من جمع الشيخ محمد المسند ج2 ص 259۔