علم سیکھنے کے آداب

علم  حاصل  کرنے  کے  آداب  ۔ 

طالبِ علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ادب و آداب سے آراستہ ہو۔ ان میں سے سب سے پہلا ادب یہ ہے

پہلا ادب: نیت کا اخلاص

طالبِ علم کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے میں اپنی نیت اللہ تعالیٰ کے لیے خالص رکھے، یعنی اس کا مقصد علم حاصل کر کے اللہ کی رضا اور آخرت کی بھلائی حاصل کرنا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس پر ابھارا ہے، جیسا کہ فرمایا

{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ}

پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اپنے گناہ کی مغفرت مانگو۔

(سورۃ محمد: 19)

قرآنِ کریم میں علماء کی تعریف و توصیف بار بار آئی ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کی تعریف کرے یا اس کا حکم دے تو وہ چیز عبادت بن جاتی ہے۔

لہٰذا علم حاصل کرنا بھی عبادت ہے، اور اس عبادت میں اخلاص لازم ہے — یعنی انسان کی نیت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔

اگر کوئی شخص علمِ دین اس نیت سے حاصل کرے کہ وہ دنیاوی فائدہ یا عہدہ و مقام حاصل کرے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

 جس نے ایسا علم سیکھا جو صرف اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے، لیکن اس نے اسے دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کے لیے سیکھا، تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔

( ابوداؤد، ابن ماجہ)

یہ حدیث ایک سخت وعید ہے۔

البتہ اگر کوئی طالبِ علم یہ کہے کہ

میں ڈگری یا سند حاصل کرنا چاہتا ہوں تاکہ لوگ مجھ پر اعتماد کریں، اور میں اس کے ذریعے تعلیم دے سکوں یا کسی دینی ادارے میں خدمت انجام دے سکوں

تو ایسی نیت درست اور خالص ہے، کیونکہ مقصد دنیاوی لالچ نہیں بلکہ دین کی خدمت اور لوگوں کو نفع پہنچانا ہے۔

ہم نے اخلاص کو سب سے پہلے ادب کے طور پر ذکر کیا، کیونکہ اخلاص ہی تمام اعمال کی بنیاد ہے۔

لہٰذا طالبِ علم کو چاہیے کہ علم حاصل کرتے وقت نیت کرے کہ وہ اللہ کے حکم پر عمل کر رہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ}

پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اپنے گناہ کی مغفرت مانگو۔

(سورۃ محمد: 19)

پس جب تم علم حاصل کرتے ہو تو تم دراصل اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہو ؛  اور یہی اخلاص کا اعلیٰ درجہ ہے۔

کتاب  العلم  للشیخ  صالح  العثیمین  رحمہ  اللہ    ص  ۲۲

مترجم  محمد  قاسم