آئمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں اپنی رائے کو سنت کے مقابلے میں چھوڑ دینے کی تاکید، اور اندھی تقلید کی مذمت—حصہ دوم : امام مالک بن انس رحمہ اللہ  

  حصہ دوم

امام مالک بن انس رحمہ اللہ (متوفیٰ 179 ھ)

:پہلا قول 

امام مالک رحمہ اللہ کے بہت سے اقوال ایسے ہیں جو قرآن و سنت کی پیروی کی دعوت دیتے ہیں، اور ان آراء سے بچنے کی نصیحت کرتے ہیں جو سنت کے خلاف ہوں۔

:انہوں نے فرمایا

إِنَّما أَنا بَشَرٌ أُخطِئُ وأُصيبُ، فانظُروا في رَأيي؛ فكلُّ ما وافَقَ الكتابَ والسُّنَّةَ فخُذوه، وكلُّ ما لم يُوافِقْ فاترُكوه

میں ایک عام انسان ہوں، کبھی درست بات کہہ دیتا ہوں اور کبھی غلطی کر بیٹھتا ہوں۔ لہٰذا میرے اقوال کو دیکھو، جو قول کتاب و سنت کے موافق ہو اسے لے لو، اور جو ان کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔

( ابن عبدالبر، الجامع لبیان العلم و فضلہ، 2/32؛ ابن حزم، اصول الأحکام، 6/149؛ اور الفلانی، إلایقاظ، ص 72)

:دوسرا قول

:امام مالک رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا

ليس أحدٌ بعدَ النبيِّ صلى اللهُ عليه وسلم إلا ويُؤخَذُ من قولِه ويُترَك، إلا النبيَّ صلى اللهُ عليه وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں جس کی بات قبول یا رد نہ کی جا سکے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے (ان کی بات رد نہیں کی جا سکتی)۔

یہ قول امام مالک رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہونا بعد کے علماء کے درمیان مشہور ہے۔ ابن عبدالہادی نے اسے ارشاد السالک (1/227) میں امام مالک رحمہ اللہ کی طرف صحیح طور پر منسوب قرار دیا ہے۔اسی طرح ابن عبدالبر نے اسے الجامع لبیان العلم و فضلہ (2/91) میں اور ابن حزم نے اصول الاحکام (6/145، 179) میں روایت کیا ہے۔یہ قول حکم بن عتیبہ اور مجاہد رحمہما اللہ سے بھی مروی ہے۔تقی الدین السبکی نے اسے الفتاوی (1/148) میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کے فصیح و بلیغ ہونے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ پھر انہوں نے کہا: مجاہد رحمہ اللہ نے یہ قول ابن عباس رضی اللہ عنہ سے لیا، اور امام مالک رحمہ اللہ نے دونوں سے اخذ کیا، اور پھر یہ قول امام مالک رحمہ اللہ سے مشہور ہو گیا۔

:نوٹ

تقی الدین السبکی اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے پر نہ تھے۔ وہ عمومی طور پر اشعری مکتبِ فکر کے پیروکار تھے، جو ایک بعد کی پیدا شدہ بدعتی مسلک ہے۔ انہوں نے اہل السنۃ کے طریقے کے مخالف بعض بدعات اور غلط نظریات اختیار کیے، انہیں فروغ دیا، ان کا دفاع کیا اور ان کے حق میں دلائل بھی دیے۔ ان کے بعد آنے والے بہت سے لوگ ان کے شبہات سے متاثر ہوئے۔

 :ابن وہب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں

میں نے سنا کہ امام مالک رحمہ اللہ سے وضو میں پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا

 یہ لوگوں پر لازم نہیں ہے۔

ابن وہب رحمہ اللہ آگے  بیان کرتے ہیں

میں خاموش رہا یہاں تک کہ لوگ چلے گئے، پھر میں نے ان سے کہا: اس بارے میں ایک حدیث مروی ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ نے پوچھا : کون سی حدیث؟

میں نے عرض کیا ہمیں اللیث بن سعد، ابن لہیعہ، اور عمرو بن حارث نے یزید بن عمرو المعافری سے وہ ابو عبدالرحمن الحبلی سے، اور وہ المستورد بن شداد القرشی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ

رأيتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يدلكُ بخنصرِه ما بينَ أصابعِ رجليه ، فقال مالكٌ: إن هذا الحديثَ حسنٌ، وما سمعتُ به قطُّ إلا الساعةَ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھوٹی انگلی سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کیا۔تو  امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا  یہ حدیث حسن  ہے! میں نے یہ حدیث پہلے نہیں سنی ۔

پھر اس کے بعد ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں

 امام مالک رحمہ اللہ سے  دوبارہ  اس مسئلے کے بارے میں سوال  کیا جاتا تو وہ  پاؤں کی انگلیوں درمیان خلال کرنے کا حکم دیتے۔

( مقدمہ الجرح والتعدیل از ابن ابی حاتم، ص31–32 اور السنن الكبرى از امام بیہقی 1/81)


  :مصدر

https://abukhadeejah.com/imams-madhhabs-following-the-sunnah-dispraise-of-taqleed-malik-ibn-anas/