نماز باجماعت میں صفوں کو آپس میں مل کر سیدھا کرنا اور خلاء کو پُر کرنا – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

Straightening the Rows and Filling the Gaps in Congregational Prayer – Shaykh Rabee bin Hadi al-Madkhali

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام احمد اپنی مسند 2/97 حدیث رقم 5724 میں فرماتے ہیں: ہمیں ہارون بن معروف نے انہیں عبداللہ بن وہب نے معاویہ بن صالح سے روایت بیان کی کہ وہ ابی الزاہریہ سے وہ کثیر بن مرہ سے وہ عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، فَإِنَّمَا تَصُفُّونَ بِصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ، وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ، وَسُدُّوا الْخَلَلَ، وَلِينُوا فِي أَيْدِي إِخْوَانِكُمْ، وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ، وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا، وَصَلَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا، قَطَعَهُ اللَّهُ تبَارك وَتَعالَى‘‘

(صفوں کو قائم کرو تمہاری صف بندی فرشتوں کی مانند ہو۔ کاندھوں کو برابر رکھو، اور خلاء کو پر کرو، اپنے ہاتھوں کو برابر والے ساتھیوں کے لیے نرم رکھو، شیطانوں کے لیے خالی جگہیں صف کے بیچ میں نہ چھوڑو۔ جو صف کو جوڑے کا اللہ تعالی اسے جوڑے گا اور جو صف کو قطع کرے گا اللہ تعالی بھی اسے قطع کردے گا)۔

اور آپ  رحمہ اللہ  اپنی مسند 5/262 میں فرماتے ہیں: ہمیں ہاشم نے انہیں فرج نے انہیں لقمان نے ابوامامہ  رضی اللہ عنہ  سے حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْأَوَّلِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَعَلَى الثَّانِي، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْأَوَّلِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَعَلَى الثَّانِي، قَالَ:  وَعَلَى الثَّانِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، وَحَاذُوا بَيْنَ مَنَاكِبِكُمْ، وَلِينُوا فِي أَيْدِي إِخْوَانِكُمْ، وَسُدُّوا الْخَلَلَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ بَيْنَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْحَذَفِ يَعْنِي: أَوْلَادَ الضَّأْنِ الصِّغَارَ‘‘

(بے شک اللہ تعالی اور اس کے فرشتے پہلی صف والوں پر صلاۃ (درود)بھیجتے ہیں۔پوچھا: یا رسول اللہ اور دوسری صف پر؟ فرمایا: بے شک اللہ تعالی اور اس کے فرشتے پہلی صف والوں پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔ پھر پوچھا: یا رسول اللہ اور دوسری صف پر؟ فرمایا: اور دوسری پر بھی۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: اپنے صفیں سیدھی کرو، اپنے کاندھے برابر رکھو، اپنے بھائیوں کے لیے اپنے ہاتھوں کو نرم رکھو، اور خلاء کو پر کرو، کیونکہ شیطان بکری کے چھوٹے بچے کے روپ میں تمہارے درمیان داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے)۔ یہ حدیث اپنے شواہد کے اعتبار سے حسن ہے۔

اور امام ابو داود اپنی سنن 1/178 حدیث 666 میں فرماتے ہیں: عیسیٰ  بن ابراہیم الغافقی نے ہمیں حدیث بیان کی انہیں ابن وہب نے انہیں قتیبہ بن سعید نے انہیں لیث نے اور ابن وہب کی حدیث عن معاویہ بن صالح عن ابی الزاہریہ عن کثیر بن مرہ عن عبداللہ بن عمر سے زیادہ تمام ہے۔ کہا قتیبہ نے عن ابی الزاہریہ عن ابی شجرہ انہوں نے ابن عمر  رضی اللہ عنہما  کا ذکر نہيں فرمایا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’أَقِيمُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ وَلِينُوا بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ، لَمْ يَقُلْ عِيسَى: بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ، وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ، وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو شَجَرَةَ كَثِيرُ بْنُ مُرَّةَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَمَعْنَى وَلِينُوا بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ: إِذَا جَاءَ رَجُلٌ إِلَى الصَّفِّ فَذَهَبَ يَدْخُلُ فِيهِ فَيَنْبَغِي أَنْ يُلِينَ لَهُ كُلُّ رَجُلٍ مَنْكِبَيْهِ حَتَّى يَدْخُلَ فِي الصَّفِّ‘‘

(صفوں کو قائم کرو، کاندھوں کو برابر کرو، خلل کو پر کرو، اپنے ہاتھوں کو اپنے بھائیوں کے لیے نرم رکھو، شیطان کے لیے صف میں شگاف نہ چھوڑو۔ جو کوئی صف کو ملائے تو اللہ تعالی اسے ملائے کا جو کوئی صف کو قطع کرے گا تو اللہ بھی اسے قطع کردے گا۔ ابو داود نے کہا کہ ابو شجرہ کثیر بن مرہ۔ اور ابو داود نے کہا : اپنے بھائیوں کے لیے اپنے ہاتھوں کو نرم رکھنے کا مطلب ہے کہ جب کوئی شخص آئے اور وہ ان کی صف میں داخل ہوناچاہے تو چاہیے کہ ہر شخص اپنے کاندھوں کو نرم رکھے (اکڑائے نہیں) تاکہ وہ صف میں آسانی سے داخل ہوسکے)۔ اپنے شواہد کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے۔

 انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ‘‘([1])

(اپنی صفوں کو سیدھا کرو کیونکہ صفوں کا سیدھا رکھنا نماز کے اتمام میں سے ہے)۔

انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نماز کی تکبیر کہنے سے پہلے ہماری جانب متوجہ ہوئے  اور فرمایا:

’’تَرَاصُّوا وَاعْتَدِلُوا‘‘([2])

(خوب جڑ کر اور اعتدال کے ساتھ کھڑے ہو)۔

 نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ فرمایا:

’’كَانَ رَسُولُ اللَّهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  يُسَوِّي صُفُوفَنَا، حَتَّى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهَا الْقِدَاحَ، حَتَّى رَأَى أَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ يَوْمًا، فَقَامَ حَتَّى كَادَ يُكَبِّرُ، فَرَأَى رَجُلًا بَادِيًا صَدْرُهُ مِنَ الصَّفِّ، فَقَالَ عِبَادَ اللَّهِ، لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ‘‘([3])

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہماری صف سیدھی فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ اسے بالکل تیر کی طرح سیدھا فرمادیتے اور جان لیتے کہ ہم لوگ اچھی طرح سے سمجھ گئے ہيں۔ پھر ایک دن آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نماز کے لیے نکلے اور قریب تھا کہ تکبیر کہتے تو ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر کی طرف ابھرا ہوا تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: اے اللہ کے بندو! یا تو تم ضرور بالضرور صف کو سیدھا کرو گے یا پھر اللہ تعالی تمہارے چہروں میں اختلاف ڈال دے گا)۔

[صحیح بخاری حدیث 725 سے پہلے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا قول بھی ہے کہ:

رَأَيْتُ الرَّجُلَ مِنَّا يُلْزِقُ كَعْبَهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ

میں نے دیکھا ہم سے ہر آدمی  اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملا دیتا تھا۔]

البتہ بخاری میں آخر والے الفاظ ہیں کہ:

’’لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ‘‘([4])

(یا تو تم ضرور بالضرور صف کو سیدھا کرو گے یاپھر اللہ تعالی تمہارے چہروں میں اختلاف ڈال دے گا)۔

اور احمد وابو داود کی روایت میں ہے کہ فرمایا:

’’فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يُلْزِقُ كَعْبَهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ، وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَتِهِ، وَمَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِهِ‘‘([5])

(پس میں نے دیکھا کہ ہر شخص دوسرے کے ٹخنے سے ٹخنہ، گھٹنے سے گھٹنہ اور کاندھے سے کاندھا ملا دیتا تھا)۔

 جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ہمارے طرف رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نکل کر آئے اور فرمایا:

’’أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ‘‘([6])

(کیا تم اس طرح سے صف بندی نہیں کرتے جیسے فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بندی کرتے ہیں؟ ہم نے کہا: یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فرشتے کیسے اپنے رب کے سامنے صف بندی کرتےہیں؟ فرمایا: پہلے پہلی صف مکمل کرتے ہیں اور صف میں آپس میں خوب جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں)۔

 ابی مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے فرمایا:

’’كَانَ رَسُولُ اللَّهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  يَمْسَحُ مَنَاكِبَنَا فِي الصَّلَاةِ، وَيَقُولُ:اسْتَوُوا، وَلَا تَخْتَلِفُوا، فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ، لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الأَحْلَامِ وَالنُّهَى، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ أَشَدُّ اخْتِلَافًا‘‘([7])

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نماز کے وقت ہمارے کاندھوں پر ہاتھ لگاتے تھے۔ اور فرماتے تھے: صف میں اختلاف نہ کرو، ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا۔ مجھ سے قریب تر عقل وسمجھ والے لوگوں کو  کھڑا ہونا چاہیے پھر جو ان سے قریب تر ہوں، پھر جو ان سے قریب تر ہوں۔ ابو مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: اور آج تم لوگ شدید ترین اختلاف میں مبتلا ہو)۔

اور ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الأَحْلَامِ وَالنُّهَى، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثَلَاثًا، وَإِيَّاكُمْ وَهَيْشَاتِ الأَسْوَاقِ‘‘([8])

(مجھ سے قریب تر عقل وسمجھ والے لوگوں کو  کھڑا ہونا چاہیے، پھر جو ان کے قریب تر ہوں تین بار فرمایا۔ اور تم بازار کی بازاری برائیوں سے بچو)۔

[اس کے علاوہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان ہی کے دور میں یہ حال ہوچکا تھا جیسا کہ اب ہم صف میں پیر ملانے والوں سے نمازیوں کو دور ہوتا دیکھتے ہیں، فرمایا:

”وَلَوْ ذَهَبْتَ تَفْعَلُ ذَلِكَ الْيَوْمَ لَتَرَى [لَنَفَرَ]أَحَدَهُمْ كَأَنَّهُ بَغْلٌ شَمُوسٌ“

(اور اگر آج تم ایسا کرنے کی کوشش کرو گے تو ان میں سے کسی کو دیکھو گے کہ وہ بدکے ہوئے  خچر کی طرح (پیر اور کاندھا ملانے سے) بھاگ رہا ہوگا)۔

مسند ابی یعلیٰ 3734 ط دارالتأصیل، مصنف ابن ابی شیبہ 3562  ت سعد الشثری، سیر اعلام االنبلاء ج 11 ص 491-492 ترجمہ ابو خیثمہ کے تحت، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ج 1 قسم 1 رقم 31 پر شیخ البانی فرماتے ہیں کہ اس کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور البخاری نے اس پر باب قائم کیا ہے کہ: إِلْزَاقِ الْمَنْكِبِ بِالْمَنْكِبِ وَالْقَدَمِ بِالْقَدَمِ فِي الصَّفِّ (صف میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونا)]۔

مصدر: مكانة الصلاة في الإسلام وآثارها الطيبة

مترجم: طارق بن علی بروہی


[1] أخرجه أحمد (3/177)، والبخاري(732) ومسلم (433) وغيرهم.

[2] مسند احمد 11846، صحیح بخاری 719 کے الفاظ ہیں: ’’أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ وَتَرَاصُّوا‘‘ (مترجم)

[3] رواه الجماعة إلا البخاري،صحیح مسلم 439۔

[4] صحیح بخاری 717۔

[5] المنتقى للمجد ابن تيمية، حديث(1479) والحديث أخرجه أحمد(4/276) ومسلم حديث(436) والترمذي(2027) وأبو داود(663) والنسائي(810).

[6] رواه أحمد في مسنده (5/106) ومسلم(430) وأبو داود (661) والنسائي (816).

[7] صحیح مسلم 434۔

[8] صحیح مسلم 435، ترمذی 228۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*