حکمرانوں کے لیے دعا کرنے سے لوگوں کو روکنا
علامہ ابنِ باز رحمہ اللہ سے سول کیا گیا کہ جو آدمی ولی الامر (حکمران) کے لیے دعا کرنے سے انکار کرے، یا لوگوں کو روکے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
آپ رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا :
یہ اس شخص کی جہالت اور بصیرت کی کمی کی دلیل ہے؛ کیونکہ حکمران کے لیے دعا کرنا بہت بڑی قربتوں میں سے ہے، بہترین طاعتوں میں سے ہے، اور اللہ و اس کے بندوں کے لیے نصیحت کرنے میں شامل ہے۔ نبی ﷺ کے سامنے جب ذکر کیا گیا کہ قبیلہ دَوس نے نافرمانی کی ہے اور وہ کافر ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: “اے اللہ! دَوس کو ہدایت دے اور انہیں لے آ” (صحیح البخاری 2937)
تو اللہ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی اور وہ مسلمان ہو کر آئے۔
مؤمن تو لوگوں کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے، اور حکمران تو ان میں سب سے زیادہ اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس کے لیے دعا کی جائے؛ کیونکہ اس کی اصلاح میں پوری امت کی اصلاح ہے۔ لہٰذا اس کے لیے دعا کرنا انتہائی اہم اور انتہائی خیر خواہی ہے: یہ کہ اللہ اسے حق کی توفیق دے، اس پر حق کی مدد فرمائے، اس کے لیے اچھا مشیر اور اچھی صحبت میسر کرے، اور اسے اس کے نفس کے شر اور برے ساتھیوں کے شر سے محفوظ رکھے۔
پس حکمران کے دل اور عمل کی اصلاح، اور اس کے اطراف کے لوگوں کی اصلاح کے لیے دعا کرنا سب سے اہم کاموں میں سے ہے، اور بہترین عبادتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: “اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میری ایک دعا ضرور قبول ہوگی تو میں وہ دعا حکمران کے لیے کروں گا”۔ اور یہی قول فضیل بن عیاض رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے۔
مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز (8/ 209)
مترجم محمد قاسم