کسی انسان کو داتا گنج بخش کہنا؟

Calling a Man “Data Ganj Baksh” (Bestower of  Treasures”?

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

داتا کا مطلب ہے دینے اور عطاء کرنے والا، اور گنج بخش سے مراد خزانے بخشنے اور عطاء کرنے والا۔ اور یہ صفات اللہ سبحانہ وتعالی کی ربوبیت کا خاصہ ہے، جبکہ بہت سے شرک میں مبتلا جاہل لوگ یہ صفات لاہور کے علی بن عثمان ہجویری کو دیتے ہیں، جن کا مزار بھی داتا دربار کے نام سے قائم ہے اور پورے لاہور کو ہی ایسے لوگ داتا کی نگری کہتے ہيں۔ ان کا سالانہ عرس بھی وہاں منعقد کیا جاتا ہے جہاں ہر قسم کے شرکیات وبدعات وخرافات اور فسق  وفجور کا دوردوراں ہوتا ہے۔  مزارات کی تعمیر اور عرس میلے لگانا ویسے ہی شریعت میں منع ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔

ایک مومن اچھی طرح سے جانتا ہے اور ایمان رکھتا ہے کہ اس کائنات کے تمام خزانے صرف اللہ تعالی کے ہیں، البتہ منافقین کو اس کی سمجھ نہیں:

﴿وَلِلّٰهِ خَزَاىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ﴾  (المنافقون: 7)

(حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے صرف اللہ ہی کے ہیں، لیکن منافقین نہیں سمجھتے)

اگر کوئی کہے کہ خزانے تو اللہ تعالی ہی کے ہیں لیکن اس نے بعض انسانوں کو عطاء کیے ہیں وہ ہمیں دیتے ہیں، تو اس کے بھی جواب میں فرمان باری تعالی ہے:

﴿وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاىِٕنُهٗ  ۡ وَمَا نُنَزِّلُهٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ﴾  (الحجر: 21)

(اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ،اور ہم  اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے)

اوپر اللہ تعالی نے اپنے پاس تمام خزانے ہونے اور اسے خود ہی عطاء کرنے کا اثبات فرمایا، دیگر آیات میں اسے دوسروں  کے پاس ہونے کی نفی بھی فرمائی:

﴿اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاىِٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيْزِ الْوَهَّابِ﴾  (ص: 9)

(کیا انہی کے پاس تمہارے رب کی رحمت کے خزانے ہیں؟!  جو سب پر غالب ہے، بہت عطاء کرنے والا ہے)

اور فرمایا:

﴿اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ﴾  (الطور: 37)

( یا ان کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں، یا وہی حکم چلانے والےنگران ہیں ؟!)

اگر کوئی کہے کہ یہ تو مشرکین کو کہا جارہا ہے، لیکن انبیاء و اولیاء کو تو خزانے عطاء کردیے گئے ہیں اور وہی عطاء کرتے ہیں، تو اس کا بھی جواب اللہ تعالی نے خود نبیوں کی زبانی قرآن مجید میں دلوایا ہے کہ پہلے رسول نوح علیہ السلام نے یہ فرمایا اور آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہی فرمایا:

﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ  ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ  ۭقُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ  ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ﴾  (الانعام: 50)

(کہہ دو میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ یقیناً میں فرشتہ ہوں ، میں پیروی نہیں کرتا مگر اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ کہو کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں ؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے)

اور فرمایا:

﴿وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ وَّلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ اللّٰهُ خَيْرًا  ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ښ اِنِّىْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ﴾  (ھود: 31)

(اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ یقیناً  میں فرشتہ ہوں، اور نہ میں ان لوگوں کے بارے میں جنہیں تمہاری آنکھیں حقیر سمجھتی ہیں، یہ کہتا ہوں کہ اللہ انہیں ہرگز کوئی بھلائی نہیں دے گا، اللہ تعالی اسے زیادہ جاننے والا ہے جو ان کے دلوں میں ہے، (اور اگر میں ایسا کہوں تو) یقیناً میں تو اس وقت ظالموں سے ہوں گا)

بلکہ اللہ تعالی ہی رب  العالمین ہے جو بے حساب دن رات اپنے خزانے لٹاتا خرچ کرتا ہے مگر اس میں کوئی کمی نہيں آتی۔ انسانوں کا عام حال  تو اللہ تعالی نے یہ ذکر فرمایا کہ اگر ان کے پاس رب کے خزانے بھی ہوں تو بخل کرنے لگیں:

﴿قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ  ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا﴾  (الاسراء: 100)

(کہہ دو اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک بھی ہوتے تب بھی اس وقت تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے، اور انسان واقعی بہت بخیل و تنگ دل ہے)

البتہ جو حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی اور امت کی بعض خصوصیات ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

فَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي [1]

(میں سو رہا تھا کہ  میں زمین کے خزانوں کی چابیاں  دیا گیا، اور وہ میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں)۔

 اس سے مراد  جیسا کہ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے بھی ذکر فرمایا کہ یہ ہے:

زمین کے خزانوں کی چابیوں سے مراد  جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی امت کی فتوحات ہوں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ: زمین میں چھپے خزانے ۔اھ

اسی لیے تو حدیث کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں جو کہ سنت کا صحیح فہم سلف ہے:

 وَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا 

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس دنیا سے ) چلے گئے، اور تم ان خزانوں کو نکال رہے ہو سمیٹ رہے ہو)۔

لہذا اس کا یہی مفہوم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی ربوبیت کی صفات دیتے ہوئے داتا گنج بخش نہیں سمجھنا شروع کردیا تھا۔  ناہی وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اب  سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء کردیا ہے اللہ کو چھوڑ کر انہی سے مانگا جائے اور دعاء و پکار جو کے عبادت ہے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ادا کیا جائے۔

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی عقیدے کی تعلیم دی جیسا کہ اوپر قرآن کریم کی آیات گزریں کہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ فرمائيں میں ان چیزوں کا مالک و مختار نہيں، اسی طرح حدیث قدسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:

 أَنْفِقْ، ‏‏‏‏‏‏أُنْفِقْ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ، ‏‏‏‏‏‏يَخْفِضُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَرْفَعُ [2]

 ((بندو!)  تم خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا۔ اور فرمایا: اللہ کا ہاتھ (ایک روایت میں ہے داہنا ہاتھ) بھرا ہوا ہے۔ دن رات  مسلسل خرچ کرتے رہنے سے بھی اس میں کمی  نہیں آتی ۔اور فرمایا:  تم نے کبھی دیکھا نہیں کہ جب سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن بے شک اس نے اس میں کچھ کمی نہیں کی جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس کا عرش پانی پر تھا، اور اس کے ہاتھ میں میزان ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب حکم ہوا کہ اپنی قریبی رشتہ داروں کو اللہ کا ڈر سناؤ تو  تمام رشتہ داروں کو کہا ساتھ ہی اپنی لخت جگر بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہ ہی فرمایا کہ  نیک  اعمال کرکے اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ:

 وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا[3]

اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہے مجھ سے مانگ لو، لیکن اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔

اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو ہر قسم کے شرکیات وبدعات سے محفوظ رکھے۔


[1] صحیح بخاری 2977، صحیح مسلم 524۔

[2] صحیح بخاری 4684۔

[3] صحیح بخاری 2753، صحیح مسلم 501

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی

آڈیو

یوٹیوب

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*