
Permanent Committee for Scholarly Research and Verdicts, KSA Statement on Gaza, Palestine’s Affairs (2012)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب ہمارے مسلمان بھائیوں کے ساتھ فلسطین میں خصوصاً غزہ کی پٹی پرجو کچھ ہوا اور ہورہا ہےبہت افسوس، غم اور تکلیف کا اظہار کرتی ہے۔ جو ظلم وبربریت اور معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، عزتوں کو تارتار کیا جارہا ہے اور عمارتوں و بلڈنگوں(انفرااسٹرکچر) کو مسمار کرکے پرامن لوگوں کو حراساں کیا جارہا ہے، بلاشبہ یہ فلسطینی لوگوں کے حق میں جرم اور ظلم ہے۔
اور یہ پرالم حادثہ مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اپنےفلسطینی بھائیوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں، ان کے ساتھ تعاون، نصرت اور مدد کرکے، اور ہر ممکن اسباب اور وسائل کو بروئے کار لاکر اسلامی اخوت اور رابطۂ ایمانی کے پیش نظر ان سے ظلم کو رفع کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات: 10)
(بے شک مومنین تو آپس میں بھائی بھائی ہیں)
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾ (التوبۃ: 71)
(مومن مرد اور عورتیں تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ‘‘[1]
(ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں، اور یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ڈال دیا)۔
اور یہ بھی فرمایا:
’’مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى‘‘[2]
(مومنوں کے آپس میں محبت، ہمدردی اور غم خواری کی مثال تو ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر اس کے ایک عضوء میں بھی تکلیف ہو تو سارا جسم ہی بخار اور شب بیداری میں گزارتا ہے)۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يُسْلِمُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ ‘‘[3]
(ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے، اور نہ ہی اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے، نہ تو اسے دشمن کے حوالے کرتا ہے، اور نہ ہی اسے حقیر جانتا ہے)۔
نصرت ومدد کرنا بہت سے امور پر مبنی ہے جو حسب استطاعت اور حالات کی مراعات کرتے ہوئے کی جاسکتی ہے خواہ وہ مادی ہو یا معنوی اور چاہے وہ مسلمان عوام کی طرف سے ہو مال، غذا، دواء، کپڑے وغیرہ کی صورت میں یا پھر اسلامی وعربی ریاستوں کی سطح پر کہ اس امداد کو ان تک پہنچنے میں سہولت بہم پہنچائی جائے، اور ان کے سلسلے میں سچا اور کھرا مؤقف اپنا کر، اور علاقائی یا بین الاقوامی اقوام متحدہ وغیرہ کی اجلاس (میٹنگز) میں ان کے مسئلے (مسئلۂ فلسطین) کی حمایت کرکے، اور یہ سب نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون میں شمار ہوگا جس کا اللہ تعالی نے حکم ارشاد فرمایا ہے:
﴿ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبَرِّ وَالتَّقْوَى﴾ (المائدہ: 2)
(اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو)
اس (مددونصرت) میں سے یہ بھی ہے کہ ان کے لیے نصیحت وخیر خواہی چاہی جائے اور انہیں اس بات کی جانب رہنمائی کی جائے جس میں ان کی خیر وفلاح ہے، اور اس میں سے سب سے بڑی چیز ان کے لیےخلوص دل سے تمام اوقات میں دعاء کرنا کہ اللہ تعالی ان کی اس آزمائش کو ان پر سے رفع کردے، اور ان کی اس تکلیف کو دور کردے، اور ان کے حالات کی اصلاح فرمائے، اور ان کے اعمال واقوال کو سیدھا فرمادے۔
اس کے علاوہ ہم اپنے مسلمان فلسطینی بھائیوں کو وصیت کرتے ہیں :
1- اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کریں اور اس کی جانب رجوع کریں۔
2- حق بات پر متحد ہوں ۔
3- تنازعات اور فرقہ پرستی کو چھوڑ دیں۔
(ان مندرجہ بالا وصیتوں پر عمل کرنے سے) وہ دشمن کو ایسا کوئی موقع نہیں دیں گے جس سے وہ پہلے ہی فائدہ اٹھا کر ان پر ظلم اور ان کی توہین کرچکا ہے اور مزید کرسکتا ہے۔
ساتھ ہی ہم اپنے بھائیوں کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ایسے اسباب اپنائیں جو ان کی سرزمین سے اس ظلم وستم کو رفع کرنے کا پیش خیمہ ہوں جیسے:
1- اللہ تعالی کے لیے اعمال میں اخلاص ۔
2- اس کی رضا چاہنا۔
3- نماز اور صبر کے ذریعے مدد چاہنا ۔
4- اہل علم، عقل اور حکمت سے اپنے تمام کاموں میں مشاورت کرنا، کیونکہ یہی توفیق اور سیدھی سمت میں قدم اٹھانے کی دلیل ہے۔
اسی طرح ہم دنیا بھر کے عقل مندوں اور عمومی طور پر اقوام متحدہ کو اس سانحہ کو عین عقل وانصاف سے دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو ان کے حقوق دیں، اور ان سے ظلم وستم کو رفع کردیں تاکہ وہ اچھی وباعزت زندگی گزار سکیں، اور اس کے ساتھ ہی ہم ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں چاہے وہ ممالک ہوں یا افراد جنہوں نے ان کی مدد ونصرت میں کسی بھی طرح کا حصہ ڈالا۔
ہم اللہ تعالی سے اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کے ذریعہ دعاء کرتے ہیں کہ وہ اس امت سے رنج والم کو دور فرمادے، ان کے دین کو عزت بخشے، اپنے کلمے کو بلند فرمادے، اپنے اولیاء کی نصرت فرمائے، اپنے دشمنوں کو ذلیل وخوار کرے، ان کے مکروفریب کو انہی کی جانب پھیر دے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچا لے، بے شک وہ اس بات کا والی اور اس پر قادر ہے۔
اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل واصحاب پر اور جنہوں نے تاقیام قیامت ان کی بطور احسن پیروی کی۔
[1] صحیح بخاری 2446، صحیح مسلم 2586۔
[2] صحیح مسلم 2587۔
[3] صحیح مسلم 2565، 2583۔
ترجمہ: طارق بن علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ 2012ع۔