
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شعبان کے روزے
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا:
یا رسول اللہ! میں نے کسی بھی مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس قدر روزے رکھتے نہيں دیکھا جس قدر آپ شعبان میں رکھتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ‘‘ [1]
(یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں، جو کہ رجب اور رمضان کے درمیان میں آتا ہے، یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، پس میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزے کی حالت میں ہوں)۔
شعبان کے روزوں کی مثال
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل علم فرماتے ہیں کہ شعبان کے روزوں کی مثال ایسی ہے جیسے فرض نماز کے ساتھ سنتیں، او ریہ ایسے ہيں جیسے رمضان کا مقدمہ ہوں یعنی گویا کہ ماہ رمضان سے پہلے کی سنتیں ہيں، اسی لیے شعبان میں روزے رکھنا مسنون ہے، اور رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا بھی مسنون ہے تو گویا کہ یہ شعبان والے پہلے کی سنت ہيں اور شوال والے بعد کی۔
اور شعبان کے روزوں میں اور بھی فوائد ہيں جیسے اپنے نفس کو روزوں کے لیے تیار کرنا اور عادی بنانا تاکہ وہ رمضان کے روزوں کے لیے بالکل چاک وچوبند ہو، اور انہيں ادا کرنا اس کے لیے آسان ہوجائے[2]۔
شعبان کے روزے اور شبِ برأت کی حقیقت
سوال: احسن اللہ الیکم، سائل رجب اور پندرہ (15) شعبان کے روزے اسی طرح اس رات کے قیام کا حکم دریافت کرتا ہے؟
جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:
ان تمام کاموں کی کوئی اصل نہیں۔ جہاں تک رجب کے روزوں کا تعلق ہے تو وہ دیگر ایام کی طرح ہیں نہ تو اس کے دن روزوں کے لیے اور نہ اس کی راتیں قیام کے لیے مخصوص ہیں۔ جبکہ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باکثرت روزے رکھا کرتے تھے لیکن اس مہینے کی پندرہ (15) تاریخ کو مخصوص نہیں فرمایا کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
’’كان أكثر ما يصوم يعني في النفل شعبان‘‘[3]
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ (نفلی) روزے شعبان میں رکھا کرتے تھے)۔
اس کے علاوہ جو عوام میں مشہور ہے کہ نصف شعبان کی رات (15ویں رات) کی کوئی خاص تہجد کی نماز ہے اور اس کے دن کا کوئی خاص روزہ ہے اور یہ کہ اس رات سارے سال کے اعمال لکھے جاتے ہیں وغیرہ تو ان کی کوئی اصل وحقیقت نہیں کہ جس پر اعتماد کیا جاسکے[4]۔
[1] سنن النسائی الصغریٰ 2357 شیخ البانی نے صحیح النسائی 2356 میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
[2] فتاوى أركان الإسلام ص 491۔
[3] صحیح بخاری 1969 کے الفاظ ہیں:
’’وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ‘‘
(میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی ماہ میں شعبان سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا)۔ (مترجم)۔
[4] فتاوی نور علی الدرب – فتاوی الزکاۃ والصیام۔
ترجمہ، ترتیب و فوائد: طارق بن علی بروہی