
Ruling regarding participating and cooperating in Christmas?
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ کے فتاوی جلد 3 ص 105 میں ہے:
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافروں کی عیدوں میں شرکت کرے۔ خواہ وہ شرکت خود اس میں حاضر ہوکر ہویا انہیں اسے منانے کی اجازت دینے کی صورت میں ہو یا پھر ان کی عید کی مناسبت سے اشیاء ومواد کی خریدوفروخت کی صورت میں ہو۔
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے وزیرِ تجارت کو خط بھی لکھا کہ:
محمد بن ابراہیم کی طرف سے جناب وزیر تجارت (اللہ آپ کو سلامت رکھے) کی طرف۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد:
ہمیں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ بعض تاجرحضرات نے گزشتہ برس سال نو کے آغاز کے قریب مسیحیوں کی عید (کرسمس) کی مناسبت سے خاص گفٹ وتحائف درآمد کئے تھے۔ اور انہی تحائف میں کرسمس ٹری بھی تھا، جبکہ وطنی لوگ انہیں خرید کر ہمارے ملک میں بسنے والے مسیحی لوگوں کو ان کی عید کی مناسبت سے پیش کرتے ہیں۔
یہ بہت منکر بات ہے۔ ان کے لئے ایسا کرنا نہایت ہی غیر مناسب ہے۔ ہمیں شک نہیں کہ یقیناً اس کا ناجائز ہونا اور اہل علم نے مشرکین واہل کتاب کے کافروں کی عیدوں میں شرکت کی ممانعت پر جواتفاق فرمایا ہےآپ پر عیاں ہوگا۔ ۔۔ پس ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ ایسے تحائف اور جو اس ہی کی قبیل کے ہوں کی ہمارے ملک میں درآمد ملاحظہ فرمائیں گےجو کہ ان کی عیدوں کے خصائص میں سے ہے۔
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:
سوال: بعض مسلمان نصاری کی عید میں شرکت کرتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا توجیہ فرمائیں گے؟
جواب: کسی مسلمان مردوعورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نصاری یا یہود یا ان کے علاوہ بھی کسی کافر کی عیدوں میں شرکت کرے۔ بلکہ اس کا ترک کرنا (بائیکاٹ کرنا) واجب ہے۔ کیونکہ:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([1])
(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ان کی مشابہت اور ان کے اخلاق وعادات کو اپنانے سے منع فرمایا ہے۔ پس ایک مومن اور مومنہ کو چاہیے کہ وہ اس سے خبردار رہے۔ اور ان کے لئے کسی بھی صورت میں ان کی خلاف شریعت عیدوں میں معاونت جائز نہیں، نہ ان میں شرکت کی صورت میں، نہ ان لوگوں سے تعاون کی صورت میں، اور نہ ہی مدد ومساعدت کے طور پر، نہ چائے، نہ قہوہ اور نہ ہی اس کے علاوہ برتنوں وغیرہ کے ذریعے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ: 2)
(اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)
اورکافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرنا گناہ اور زیادتی میں تعاون ہی کی ایک قسم ہے۔
(مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 6/405)
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتاوی، سعودی عرب سے سوال پوچھا گیا:
سوال: کیا غیر مسلموں کی عیدوں میں شرکت کی جاسکتی ہے، جیسے جشن میلاد سیدنا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام (کرسمس)؟
جواب: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرے اور اس مناسبت سے کسی بھی طرح کی خوشی ومسرت کا اظہار کرے، اور اپنے دینی یا دنیاوی کاموں کی چھٹی کرلے۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالی کے دشمنوں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور باطل میں ان کے ساتھ تعاون پایا جاتا ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([2])
(جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
اور اللہ تعالی کا بھی فرمان ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ: 2)
(اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)
اور ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ “ کی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقيم‘‘ کی طرف رجوع کرنے کی نصیحت کرتے ہیں، جو کہ اس باب میں بہت مفید ہے۔
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم۔
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء . فتوى رقم (2540).
Be the first to comment