
Tawheed as understood by the philosophers – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعض لوگ (متکلمین/ فلاسفہ/ منطق پرست) کہتے ہیں توحید کی ایک ہی قسم ہے اور وہ توحید ربوبیت ہے۔ یعنی یہ ماننا کہ اللہ تعالی ہی خالق ہے، رازق ہے، محیی وممیت (مارنے اور جِلانے) والا ہے اور اسی طرح اللہ تعالی کے باقی دیگر افعال وصفات (کو ماننا)۔ اسی بنا پر تمام علماء کلام ومفکرین جنہوں نے اپنے عقیدے کی بنیاد علم الکلام پر رکھی ہے ان کے یہ عقائد موجود ہیں۔ اگر آپ ان کی کتابیں پڑھیں گے تو اس میں توحید ربوبیت کے اثبات کے سوا کچھ نہیں پائیں گے، جو اس کا اقرار کرلے وہ ان کے نزدیک موحد ہے اور توحید الوہیت وتوحید اسماء وصفات نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں۔ اسی لیے وہ قبرپرستی اور مردوں کو پکارنے کو شرک شمار نہیں کرتے۔ وہ اور ان جیسے لوگ صرف یہی کہہ دیتے ہیں کہ: یہ غیراللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے اور ایک غلطی ہے مگر یہ نہیں کہتے کہ یہ شرک ہے۔
اور ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو مردوں کو پکارتے ہیں اور دفن شدہ ہستیوں سے فریاد کرتے ہیں مشرکین نہیں کیونکہ وہ یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ یہ مردے یا یہ معبودات پیدا کرتے، رزق دیتے یا اللہ تعالی کے ساتھ تدبیر کائنات کرتے ہیں۔ پس جب تک وہ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ مشرک نہیں ہوسکتے اور ان کے اس عمل کو وہ شرک شمار نہیں کرتے۔ وہ تو محض ان اشیاء کو اللہ اور اپنے درمیان واسطہ، وسیلہ اور سفارشی بناتے ہیں۔
ان کا یہ قول تو ایسا ہی ہے جیسے سابقہ مشرکین کہا کرتے تھے:
﴿وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاءَ ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى﴾ (الزمر: 3)
(اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنارکھے ہیں ( کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت نہيں کرتے مگر صرف اس لیے کہ یہ اللہ کی نزدیکی کے مرتبے تک ہماری رسائی کرا دیں)
اور ان کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ﴾ (یونس: 18)
(اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں)
علماء کلام کہتے ہیں: قبروں کی عبادت اور فوت شدگان سے امیدیں باندھنا اور ان سے فریاد کرنا شرک نہیں، یہ تو محض وسیلہ ہے، سفارش طلب کرنا ہے اور اللہ تعالی کی جناب میں واسطے پیش کرنا ہے۔ یہ شرک ہو ہی نہیں سکتا الا یہ کہ وہ ان اشیاء سے متعلق یہ عقیدہ رکھیں کہ یہ پیدا کرتی ہیں، رزق دیتی ہیں اور اللہ تعالی کے ساتھ تدبیر کائنات کرتی ہیں! (یا بعض صوفی کہتے ہيں کہ جب تک منہ سے خود نہ بولیں کہ ہم ان کی عبادت کرتے ہیں، اور یہ اللہ کی عطاء سے نہیں خود نفع نقصان کے مالک ہیں!)
اس بات کی صراحت وہ اپنی کتابوں اور کلام سے کرتے ہیں۔ اور اہل کلام میں سے جو اس کا انکار کرتا بھی ہے تو وہ بھی محض اسے ایک غلطی تصور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جاہل لوگ ہیں اس جہالت میں اپنے ارادے وقصد سے نہیں بلکہ اپنی جہالت کے سبب مبتلا ہوئے ہیں۔
لیکن اکثر تو اس کا (اتنا) انکار بھی نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ: یہ اللہ تعالی کے پاس واسطے اور شفاعت کرنے والے سفارشی ہیں اور یہ شرک نہیں ہے۔ (بلکہ موجودہ دور کے ماڈرن داعیان جیسے یاسر قاضی تک یہ دعوی کرتے ہیں!)
اور میں کسی قوم کے ذمہ وہ بات نہیں لگا رہا جو انہوں نے نا کہی ہو بلکہ یہ تو ان کی ان کتابوں میں موجود ہے جس سے وہ اہل توحید کا رد اور اہل شرک کا دفاع کرتے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے اسماء وصفات کا تو اس کا اثبات ان کے نزدیک تشبیہ کا متقاضی ہے چنانچہ انہوں نے اللہ تعالی سے اس کی نفی کردی اور یہ جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ ہیں۔ ان سب نے اپنے زعم میں اللہ تعالی کو مخلوقات کی تشبیہ سے پاک قرار دینے کے لیے توحید اسماء وصفات کی نفی کی ہے جس کے نتیجے میں توحید ان کے نزدیک محض ربوبیت میں منحصر ہے، اور ان کے پاس توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات کے نام کی کوئی چیز نہیں۔
اور وہ ان کا رد کرتے ہیں جو توحید کو تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہی میں سے ایک موجودہ مصنف لکھتا ہے:
’’توحید کی تین اقسام کرنا (نصاریٰ کے عقیدے) تثلیث میں سے ہے!‘‘
ان کی بےحیائی اس حد تک پہنچ گئی کہ اسے نصاریٰ کے دین کے ساتھ تشبیہ دینے لگے۔ العیاذ باللہ!
ترجمہ: طارق بن علی بروہی
مصدر: دروس من القرآن الکریم۔