اسلامی جماعتیں: تعاون یا بائیکاٹ؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Islamic Jamaats: Cooperation or Boycott? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan

سوال: کیا (اسلامی) جماعتوں سے اختلاط رکھنا چاہیے یا ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے؟

جواب: اگر ان سے اختلاط رکھنے اور پاس جانے والا صاحبِ علم وبصیرت ہو اور اس کا مقصد انہیں سنت سے تمسک اور غلطی کو چھوڑ دینے کی دعوت دینا ہو، تو یہ اچھی بات ہے، اور یہ دعوت الی اللہ میں شمار ہوگا۔ البتہ اگر ان سے اختلاط کا مقصد دعوت وبیان کے بغیر محض ان کا قرب حاصل کرنا اور ان سے دوستی ہو  تو یہ ناجائز ہے۔

کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ مخالفین سے اختلاط کرے ماسوائے ایسی صورت میں جس میں کوئی شرعی فائدہ ہو جیسے انہیں صحیح اسلام کی جانب دعوت دینا یا ان کے سامنے حق بیان کرنا شاید کے وہ رجوع کریں۔ جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان بدعتیوں کے طرف گئے جو کہ مسجد میں تھے، ان کے سامنے کھڑے ہوکر ان کی بدعت کا رد فرمایا۔

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما خوارج کی طرف گئے، ان سے مناظرہ فرمایا اور ان کے شبہات کا ازالہ فرمایا، پھر ان میں سے رجوع کرلیا جسے رجوع کرنا تھا۔

پس اگر ان سے اختلاط اس صورت میں ہو تو یہ مطلوب ہے، لیکن اگر وہ اپنے باطل پر مصر رہتے ہیں تب ان سے علیحدگی، بائیکاٹ اور اللہ تعالی کے لیے جہاد واجب ہے۔[1]


[1]بدعتیوں کے پاس جاکر دعوت دینا اور ان پر اثر انداز ہونا افراد کے اعتبار سے تو صحیح ہے، لیکن بالجملہ پورے منہج کو تبدیل کردینا یا ان کے شعار (سلوگن ومنشور) پر اثر انداز ہونا ناممکن ہے؛ بلکہ جو ان سے اختلاط کرے گا وہ ان سے متاثر ہوجائے گا بجائے اس کے کہ وہ اِس سے متاثر ہوں۔

یہ فرقے عموماً اپنی دعوت اور اپنے قائدین کی تعلیمات سے کبھی باہر نہیں نکلتے جیسے اخوان المسلمین اور تبلیغی جماعت؛ کتنے ہی مخلصین نے انہیں نصیحت فرمائی!اور کتنا ہی ان کے بارے لکھا گیا! لیکن اب تک جیسا کہ کہا جاتا ہے: اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جو کچھ میں نے کہا اس کی دلیل کے طور پر یہ کلام حاضر ہے:

فرقہ اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا نے کتاب’’مجموع الرسائل‘‘  ص 24   میں عنوان ’’موقفنا من الدعوات‘‘ (مختلف دعوتوں سے متعلق ہمارا مؤقف) کے تحت لکھتے ہیں: ’’موقفنا من الدعوات المختلفة .. أن نزنها بميزان دعوتنا؛ فما وافقها فمرحبًا وما خالفها فنحن براء منه‘‘ (مختلف دعوتوں سے متعلق ہمارا یہ مؤقف ہے ۔۔۔کہ انہیں ہم اپنی دعوت کے میزان پر تولتے ہیں؛ جو اس کے موافق ہو تو خوش آمدید کہتے ہیں اور جو اس کے مخالف ہو تو ہم اس سے بری ہیں)!!۔

اور میں (الحارثی) یہ کہتا ہوں: یا اللہ!  تو گواہ رہنا میں دعوت اخوان المسلمین اور اس کے بانی سے بری ہوں جو کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف امت گامزن تھے سے مخالف ہے۔

اسی وجہ سے یہ لوگ کسی کی دعوت قبول نہیں کرتے؛ کیونکہ وہ خود دوسروں کی دعوت کو اپنی دعوت کے تابع کرنا اور اس کے آگے جھکانا چاہتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

اگر ان (بدعتیوں) سے اختلاط  انہیں دعوت دینے اور سلفی منہج کی وضاحت کے لیے ناگزیر ہوجائے ، تو یہ صرف علماء کرام اور طالبعلم جو صحیح عقیدے، سنت اور منہج سلف صالحین میں راسخ و پختہ ہیں کریں گے ورنہ نہیں۔ (الحارثی)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الاجوبۃ المفیدۃ عن الاسئلۃ المناھج الجدیدۃ سوال 8۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*