عقیدے سے متعلق نووارد و مبہم عبارات استعمال کرنا اور حدادیوں کا فتنہ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

Using newly invented and vague expressions regarding Aqeedah and the Fitnah of Haddadees – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Makhalee

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال:سائل کہتا ہے: میں نے آپ کے جوابات میں سے ایک پڑھا جس میں آپ فرماتے ہیں: ابن مانع اپنے پاس سلفیت ہونےکے باوجود اشعریت میں مبتلا ہوئے۔ پس کیا یہ وہی شیخ ابن مانع ہيں جنہوں نے عقیدہ طحاویہ کی شرح کی ہے اور ان سے شیخ البانی نے باتيں منقول کی ہيں رحمہم اللہ؟

جواب: ابن مانع  رحمہ اللہ سلفی ہيں اس میں کوئی شک نہيں۔ لیکن میں ابھی یہ کہتا ہوں کہ: ان کے بارے میں بعض علماء نے کچھ ملاحظات پیش کی ہيں میرے خیال سے ابن سمحان  رحمہ اللہ نے ، ان کی السفارینیہ کی تعلیق میں بعض اشیاء ذکر کی ہیں۔  اور وہ مجتہد تھے اللہ تعالی انہیں ثواب دے گا، اور ایک مجتہد کبھی غلطی میں واقع ہوجاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

بہت سے علماء سلف لاشعوری طور پر بدعت میں واقع ہوئے۔

پس اشعریت پھیل گئی اور اہل سنت کے عقائد میں سرایت کر گئی، یہاں تک کہ السفارینی  رحمہ اللہ خود بھی بعض چیزوں میں مبتلا ہوئے، اور ان سے متعلق ملاحظات پیش کیے گئے۔ لہذا کوئی بھی ان غلطیاں سے محفوظ نہيں لیکن ابن مانع رحمہ اللہ سلفیت میں امام تھے۔

البتہ حدادیوں کے نزدیک ہر وہ جو بدعت میں واقع ہو بدعتی بن جاتاہے۔

آج حدادی ایک بڑا فتنہ ہے، جن کا کوئی سروکار نہیں سوائے اس کے کہ فتنوں کو ہوا دی جائے اور سلفیوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالی جائے۔ چنانچہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنے آپ کو اس بگڑے ہوئے مذہب سے بچا کر سکھ کا سانس لو، کہ جو محض فتنہ و فساد ہی برپا کرتا ہے۔ ایک حدادی یہ گمان کرتا ہےکہ میں ہدایت پر ہوں،  حالانکہ خود وہ بھی  اچھی طرح سے جانتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں اور اس کے شیوخ بھی جھوٹے   و کذاب ہيں، لیکن بس اپنے باطل میں جمے رہتے ہیں۔ اور یہ مشہور و معروف ہيں اپنی شدید عناد و ہٹ دھرمی میں۔ ان کا شیخ جھوٹ بھی بولتا ہے اور دسیوں بار خیانت کا مرتکب بھی ہوتا ہے، مگر ان خیانتوں کے باوجود وہ ان کے نزدیک امام ہی رہتا ہے۔

حالانکہ جھوٹ، خیانت بدعت سے بھی زیادہ خبیث، خسیس اور گندی حرکت ہے۔ کیونکہ بلاشبہ  بدعت میں کبھی کوئی اچھی نیت کے ساتھ واقع ہوجاتا ہے تو اللہ تعالی اس سے درگزر فرماتا ہے، لیکن ایسا جھوٹا شخص تو  علماء کرام، علم اور قواعد اسلام وغیرہ  پر جھوٹ کا ارادہ و قصد رکھتے ہوئے ایسا کرتا ہے ۔ پس یہ بالکل ایک ظاہر مصیبت ہے اس فرقے کے ساتھ، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ زمین کو اس سے اور اس کے اہل سے پاک فرمادے۔

بہت سے لوگ اس فرقے کو نہيں جانتے[1]۔ ہم نے اسے تقریباً  سن 1414ھ سے جاننا شروع کیا۔ان کے جھوٹ اور خیانتوں کو جانا۔ ان کے جھوٹ، خیانت اور دھوکے بازی سے کوئی بھی بچا ہوا نہيں ہے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی بس قیل و قال ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:

اللہ کے شریر ترین بندوں میں سے وہ ہيں جو پیچیدہ مسائل کے پیچھے پڑتے ہيں، جس کی وجہ سے اللہ کے بندوں کو پریشانی میں مبتلا کرتے ہيں[2]۔

آجکل وہ جنس العمل کی اصطلاح کے ساتھ دندناتے پھرتے ہيں۔ آخر یہ جنس العمل ہے کیا؟ سلف کبھی بھی اسے نہيں جانتے تھے۔ اور میں نے یہ کہا کہ اللہ تعالی نے کلمۂ جنس سے قرآن وسنت کو پاک رکھا ہے، آپ کبھی بھی اسے ان میں نہيں پائیں گے، بلکہ یہاں تک کہ یہ لغت میں بھی زبردستی داخل کیا گیا ہے۔لیکن یہ لوگ اس کلمے سے چمٹے ہوئے ہيں، لہذا یہ ان کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کلمے سے اس لیے چمٹے ہوئے ہيں کیونکہ وہ اہل سنت کو گمراہ ثابت کرکے ان کو بدعتی قرار دینا چاہتے ہيں۔ میں نے ان سے کہا: اے جماعت! یہ کلام تو مبہم ہے اور تشویش کی طرف لے جاتا ہے، اور یہ کلام اہل بدعت نے  محض اہل سنت کے خلاف شور وشغب ڈالنے کے لیے اختراع کیا ہے۔اسے چھوڑ دو جبکہ آپ کے پاس ایمان کے بارے میں سلف کی پیش کردہ تعریف موجود ہے کہ بلاشبہ ایمان:

قول، اعتقاد اور عمل ہے، جو اطاعت فرمانبرداری سے بڑھتا ہے اور معصیت و نافرمانی سے گھٹتا ہے۔

آپ کے لیے یہی کافی ہے اور جنس العمل کے کلمے کی کوئی حاجت نہيں ہے۔ لیکن وہ اس سے چمٹے رہنے اور نہ چھوڑنے پر بضد تھے۔ کیونکہ انہیں اس میں وہ شر، فتنہ اور آزمائش میسر آتی ہے۔ حالانکہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہيں کہ ہماری طرف وہ باتيں منسوب کرتے ہيں جو ہم نے کبھی کہی نہيں۔ جیسا کہ اس مسئلے میں کہ (ایمان کے لیے) عمل  شرط کمال ہے یا شرط صحت ہے۔ میں یہ بارہا کہہ چکا ہو ں اور ابھی آپ کے سامنے اس مجمع میں بھی کہتا ہوں کہ :

خالد العنبری نے ایک ضخیم کتاب لکھی تھی تکفیریوں کے رد پر جس کا نام تھا حكم التكفير ،تو جب  میں ریاض گیا، پھر ریاض سے الخرج، ہمارے ساتھ سفر میں ساتھیوں کا ایک مجموعہ تھا، میرا خیال ہے اس میں باسم الجوابرہ اور عبدالرحمن الفریوائی اور دیگر لوگ موجود تھے۔ تو اس (العنبری) نے کہا کہ یا شیخ ہم سفر کے دوران راستے میں اسے آپ پر پڑھتے ہیں۔پس اس نے پڑھنا شروع کیا۔ پس ان باتوں میں سے جو اس نے پڑھی یہ بھی تھی کہ خوارج کے نزدیک عمل ایمان کی صحت کی شرط ہے جبکہ اہل سنت کے نزدیک اس کے کمال کی شرط ہے۔ تو میں نے اس سے کہا: اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ یہ اہل سنت کے کلام میں سے نہيں، اسے اپنی کتاب میں سے حذف کردو، اور تمہیں چاہیے کہ اسی چیز پر اکتفاء کرو جو سلف نے ایمان کے تعلق سے کہی ہے کہ بے شک ایمان قو ل و عمل کا نام ہے جو اطاعت سے بڑھتا ہے اور معصیت سے گھٹتا ہے۔ تو اس نے کہا حاضر، میں ابھی حذف کردوں گا اسے، نہ مجھ سے کوئی جدال کیا نہ کچھ۔ لیکن کچھ دنوں بعد مجھے بات پہنچی  کہ اس نے اس تعلق سے کویت میں کوئی مناظرہ کیا ہے۔ اور مجھے وہ کیسٹ موصول ہوئی جس میں شیخ البانی : سے مناظرہ کیا ہے اور اس میں شرط کمال اور شرط صحت کا ذکر کیا ہے، واللہ اعلم۔  حدادیوں نے یا کسی اور نے اسے نقل کیا اور اس کی تفریغ کرکے مجھے ارسال کی۔

پھر جب وہ میرے پاس آیا اور میں اس کے ساتھ بیٹھا تو میں نے کہا: اے بھائی خالد العنبری کیا میں نے تمہیں اس کلام سے منع نہیں کیا تھا شرط کمال و شرط صحت؟ تو اس نے کہا: میں نے تو اسے حذف کردیا تھا جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا۔ تو میں نے اس سے کہا: پھر کیوں جب تم کویت اور اردن گئے تو اس بارے میں جدال کیا؟

پھر میں مسلسل اس چیز کا انکار کرتا آیا ہمارے آج کے اس دن تک۔ کیونکہ یہ فتنے کی طرف لے جاتا ہے اور اس سے اہل فتن خوش ہوتے ہيں اور چمٹے رہتے ہيں، اور اس کو لے کر ان لوگوں پر تہمت لگاتے ہيں جو اس سے بری ہيں بلکہ (جن پر تہمت لگاتے ہيں وہ تو خود ) اس کے خلاف نبردآزما ہيں۔ لہذا وہ کہتے ہیں: ربیع کہتا ہے کہ عمل شرط کمال ہے اور یہ مرجئہ کے مذہب میں سے ہے اور اس کے علاوہ دیگر کلام۔ حالانکہ میں نے ہی تو سب سے پہلے اس کے خلاف جنگ کی تھی تو پھر کس طرح تم اسے میری طرف منسوب کرتے ہیں؟!!  وجہ یہی ہے کہ جھوٹ میں ان سے کوئی مقابلہ نہيں کرسکتا۔

اے بھائی! اگر کوئی ایسی بات ہو جس سے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہو تو اسے چھوڑ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بسا اوقات ایسی چیزیں بھی چھوڑ دیا کرتے تھے جو خیرو فضیلت میں اس مرتبے پر ہوا کرتی تھیں کہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہيں جانتا مگر چونکہ اس سے مسلمانوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہيں چھوڑ دیتے۔ تو پھر کیسے تم اسے نہيں چھوڑتے حالانکہ اس میں شر ہے؟

اور صحیح مسلم میں ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےفرمایا:

کُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَنَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا، فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ – وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ-  فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ مَا شَأْنُکَ؟  قُلْتُ: کُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِی. فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ: مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟  فَقُلْتُ: هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ. فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَجْهَشْتُ بُکَاءً وَرَکِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَی أَثَرِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟  قُلْتُ: لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي قَالَ ارْجِعْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: يَا عُمَرُ مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ؟  قَال:َ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْکَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّة؟ ِ قَالَ: نَعَمْ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّهِمْ [3]

(ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ،ہم ڈر گئے کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو، اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا۔ میں باغ کے چاروں طرف بہت گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا، میں اسی نالہ میں ایسے سمٹ کر اندر داخل ہوا جیسے لومڑی سمٹ کر داخل ہوتی ہے، اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ؟  میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کی: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آگیا ہو اس لئے ہم گھبرا گئے،اور سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی، پس میں  (تلاش کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (نالہ کے راستہ سے) اندر آگیا اور باقی لوگ بھی میرے پیچھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نعلین (جوتیاں) مجھے دے کر فرمایا: ابوہریرہ ! میری یہ دونوں جوتیاں لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو ۔ لہذا  سب سے پہلےجن سے میری ملاقات ہوئی وہ عمر رضی اللہ عنہ  تھے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ ! یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی جوتیاں ہیں،اور آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودحقیقی  نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ عمر رضی اللہ عنہ  نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینےکے درمیان  ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں کولہوں  کے بل گرپڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر رضی اللہ عنہ بھی آپہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ ! کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ  سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ پس انہوں نے میرے سینے کے درمیان ایسی ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں کولہوں کے بل گرپڑا اور کہنے لگے: لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا ؟ عمر رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا:  اے اللہ کے رسول  ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! کیا آپ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں ! عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ (عمل چھوڑ کر محض) اسی فرمان پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو چھوڑ دیں کہ عمل کرتے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (اچھا تو) رہنے دو )۔

جنت کی بشارت کو صرف اس لیے چھوڑ دیا تاکہ لوگ محض اس پر تکیہ کرنے کے بجائے عمل کریں۔

اسی طرح سے حدیث معاذ رضی اللہ عنہ  ہے (جس میں ہے کہ جو شرک نہ کرے اسے عذاب سے نجات کی بشارت ہے) تو صحابی نے عرض کی:

کیا میں لوگوں کو بشارت و خوشخبری نہ دے دوں؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا[4]

(انہيں بشارت نہ دو کہ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائيں گے (اور عمل ترک کردیں گے))۔

چنانچہ بڑے عظیم امور، فضائل و امتیازات کو چھوڑ دیا گیا جب ان کے نتیجے میں ایک ضرر کا خدشہ ہوا جو کہ تکیہ و بھروسہ کرکے بیٹھ جانا تھا۔کہ ان میں سے کوئی بس کہہ دے کہ   أشهد أن لا إله إلا الله واشهد أن محمدا رسول الله پھر کہے کہ یہی میرے لیے کافی ہے لہذا میں عمل نہيں کروں گا۔ پس اگر وہ سب کچھ چھوڑ دے اور کوتاہی کرے تو اسے یہ نقصان و ضرر پہنچائے گا۔

ہم نے ان سے کہا، انہيں تنبیہ کی اور انہیں یہ دلائل وغیرہ بھی دیے کہ وہ اس خبیث لفظ کو چھوڑ دیں کہ جو فتنے کی طرف لے جاتا ہے۔ اور ہم نے کہا کہ ہمارے پاس قرآن و سنت و سلف کے الفاظ موجود ہيں، لہذا اس لفظ کو چھوڑ دو کیونکہ اس میں شر و فتنہ ہے۔ لیکن وہ باز نہ آئے، کیونکہ وہ ایک ایسا فرقہ ہے جو فتنے کے لیے ہی وجود میں آیا ہے، اللہ ہی جانے اس کے پیچھے کون ہے؟

پس اے بھائیو! آپ لوگ ایسے الفاظ، کلمات، افعال و اقوال جن کی کتاب و سنت سے کوئی سند نہيں چھوڑ دو۔ میں کئی ایک بار بھائیوں کو کہہ چکا ہوں: اے بھائی! اگر تمہارے پاس کوئی رائے ہے جسے تم مستحسن و اچھا سمجھتے ہو اور علماء سے بھی پوچھا انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ ضرر رساں ہے اور تفرقے کی طرف لے جاتی ہے تو اسے چھوڑ دو۔ البتہ اگر تمہارے پاس کوئی نص ہے تو اس سے تمسک اختیار کیے رکھو اور اس سے تمسک کی دعوت دیتے رہو۔

اے بھائیو! تفرقے کے اسباب سے بچو، باہمی اخوت و بھائی چارہ اپناؤ، ایک دوسرے سے ہمدردی ، رحمت و شفقت کرو اور اللہ کے لیے محبت کرو۔ ان مطلوبہ باتوں کو ہرگز بھی فراموش نہ کرو۔ کیونکہ شیطان تمہارے درمیان یہ تشویش و فتنے و آزماشیں داخل کرتا رہتا ہے تاکہ تم سے یہ خیر چھن جائے ضائع ہوجائے، یعنی محبت و بھائی چارے کی نعمت۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس پر ایسی ایسی جزاء ملتی ہے کہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہيں جانتا، جن میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کو اللہ تعالی اپنا   سایہ دے گا اس دن جس دن اس کے (عرش کے) سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ پس شیطان چاہتا ہے کہ آپ کو اس خیر سے محروم کردے۔ اگر آپ کا کوئی بھائی غلطی کرتا ہے  تو اسے نرمی سے نصیحت کرو اور اس نرمی کے ساتھ حجت و برہان پیش کرو، اللہ تعالی اسے اس کے ذریعے نفع پہنچائے گا۔ لیکن حال یہ ہو کہ تم اس کی گھات لگائے بیٹھے ہو کہ کب وہ غلطی کرے اور میں یہاں وہاں سے دنیا اس پر جمع کردوں گے دیکھو فلاں نے یہ یہ کیا ہے۔ یہ شیطانی طریقے ہیں سلفی طریقے نہیں۔ ان چیزوں کو چھوڑ دو، اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو توفیق عطاء فرمائے۔ آپ کو چاہیے عمل کرو نہ کہ کثرت  سے کلام، کیونکہ کثرت کلام شرعی طور پر مطلوب نہيں۔ جو مطلوب ہے وہ بس ایک کلمہ بھی کافی ہے جس سے لوگوں کو نفع ہو، اور ایسا ایک کلمہ آپ کے لیے کئی جلدوں پر مبنی بس کلام ہی کلام سے بہتر ہے۔


[1] اس کا مختصر تعارف ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔ (مترجم)

[2] جامع العلوم والحكم، ص 174.

[3] أخرجه مسلم، كتاب الإيمان، باب: من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار 156.

[4] متفق عليه: أخرجه البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب: اسم الفرس والحمار 2701، ومسلم، كتاب الإيمان، باب: من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار 153.

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 22 ص 102۔