بسم اللہ الرحمن الرحیم
Is it Sunnah to recite Surah Qaaf on the pulpit every Friday?
خطبۂ جمعہ میں سورۃ ق کو بارہا پڑھنا اور اس سے وعظ ونصیحت کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے:
ام ہشام بنت حارثہ بن النعمان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’لَقَدْ كَانَ تَنُّورُنَا وَتَنُّورُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاحِدًا سَنَتَيْنِ أَوْ سَنَةً وَبَعْضَ سَنَةٍ، وَمَا أَخَذْتُ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ إِلَّا عَنْ لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقْرَؤُهَا كُلَّ يَوْمِ جُمُعَةٍ عَلَى الْمِنْبَرِ، إِذَا خَطَبَ النَّاسَ‘‘ ([1])
(ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تنور دو سال یا ایک سال اور دوسرے سال کا کچھ حصہ ایک ہی ہوا کرتا تھا۔ میں نے سورۃ ق کو یاد نہیں کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی زبانی، اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جمعہ کو منبر پر جب لوگوں سے خطاب فرمارہے ہوتے، تو اسے تلاوت فرماتے)۔
الشیرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خطبے میں سورۃ ق پڑھنا مستحب ہے اور الدارمی وغیرہ فرماتے ہیں کہ پہلے خطبے میں اسے پڑھنا مستحب ہے اور اس کی مکمل تلاوت کرنا مستحب ہے کیونکہ اس بارے میں صحیح مسلم وغیرہ میں صحیح حدیث موجود ہے جیسا کہ پہلے گزری۔ کیونکہ اس میں وعظ و نصیحت و قواعد اور مرکر جی اٹھنے کا اثبات اور اس کے دلائل اور ترغیب و ترہیب وغیرہ ہیں۔([2])
النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ فرمان کہ میں نے سورۃ ق نہیں یاد کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ سے ہی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے ہر جمعہ خطاب فرماتے۔ علماء کرام فرماتے ہیں سورۃ ق کو اختیار کرنے کا سبب یہ ہے کہ بے شک یہ مرکر جی اٹھنے، موت، شدید وعظ و نصیحت و تاکیدی زجر و توبیخ (ڈانٹ ڈپٹ) پر مشتمل ہے۔ اور اس میں جیسا کہ پہلے گزرا دلیل ہے کہ اسے خطبے میں پڑھا جائے، اور اس میں یہ بھی ہے کہ سورۃ ق کی مکمل یا اس کے کچھ حصے کی قرأت مستحب ہے۔([3])
شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جمعے اس سے خطبہ ارشاد فرماتے۔ الطیبی فرماتے ہیں: اس سے مراد سورۃ کا ابتدائی حصہ ہے ناکہ پوری سورۃ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی خطبے میں اسے پورا نہیں پڑھا۔اھ اور القاری فرماتے ہیں: اس میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات محفوظ نہيں کہ آپ نے اس سورۃ کا ابتدائی حصہ ہر جمعے کو پڑھا ہو، ورنہ تو اس کی قرأت واجب ہوتی یا سنت مؤکدہ ہوتی، بلکہ جو بات ظاہر ہے وہ یہی ہے کہ اس کی تھوڑی تھوڑی تلاوت ہر جمعہ کرتے اور ان تمام جمعوں کو سن کر انہوں نے اسے حفظ کرلیا۔اھ اور ابن حجر المکی فرماتے ہیں: ان کا فرمانا کہ اسے پڑھا کرتے تھے یعنی پوری پڑھا کرتے تھے، جبکہ اس کو صرف ابتدائی حصے پڑھنے پر محمول کرنا نص کو اس کے ظاہر سے پھیرنا ہے۔اھ جبکہ میں یہ کہتا ہوں ابن حجر المکی کا قول اور جو کچھ الطیبی نے کہا وہ ظاہر کے خلا ف ہے۔([4])
الصنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس میں دلیل ہے ہر خطبۂ جمعہ میں سورۃ ق پڑھنے کی مشروعیت کی([5])۔
سوال: خطبۂ جمعہ میں سورۃ ق کی قرأت کرنا کیا سنتِ مہجورہ (وہ سنت جسے بھلا دیا گیا) میں شمار ہوگی، اس بارے میں بعض خطباء کو اشکال ہے اور وہ اس بارے میں پوچھتے ہيں اور اس کی کیفیت کیا ہوگی اور کیا وہ اس کی تفسیر بیان کریں؟ اور کیا اس پر مداومت اختیار کریں؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ :
اپنی پوری عمر میں ایک مرتبہ یا پانچ سالوں میں ایک مرتبہ یا اس طرح سے کچھ کرلے، اسے پہلے خطبے میں ترتیل سے پڑھے پھر دوسرے خطبے میں اس پر تعلیق کرتے ہوئے اس کے بعض معانی کو اجمالاً بیان کرے اور خطبے کے باقی اجزاء کو بیان کرتا جائے۔ اور جہاں تک اس عورت کی حدیث کا تعلق ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن سن کر اسے یاد کرلیا تو ظاہر یہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دو یا تین مرتبہ پڑھاہوگا، کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مداومت کے ساتھ پڑھا ہوتا تو باقی صحابہ رضی اللہ عنہم پر یہ بات مخفی نہ ہوتی اور نہ ہی یہ بات خلفاء سے منقول ہے تو یہ دلیل ہے کہ اس پر مداومت نہیں ہوا کرتی تھی، اور جو حدیث ہے کہ:
میں نے سورۃ ق نہیں یاد کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے کہ آپ اسے جمعہ میں یا خطبۂ جمعہ میں پڑھا کرتے تھے۔
یا جیسا کہ ذکر کیا پہلے خطبے میں ترتیل کے ساتھ اس کی تلاوت پھر دوسرے خطبے میں اس کو منتخب کرنے کا سبب بیان کرنا مثلاً کہے کہ: بے شک اللہ تعالی نے اس کی آیات میں وہ باتیں ذکر کی ہيں جو اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں جیسے:
﴿اَفَلَمْ يَنْظُرُوْٓا اِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنٰهَا وَزَيَّنّٰهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ، وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍۢ بَهِيْجٍ﴾ (ق: 6-7)
(تو کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کیسے اسے بنایا، اور اسے سجایا اور اس میں کوئی شگاف نہیں، اور زمین کہ ہم نے اسے پھیلایا اور لنگر کی طرح اس میں پہاڑ ڈال دیے، اور اس میں طرح طرح کی خوشمنا چیزیں اگادیں)
پھر کہے بلاشبہ اللہ تعالی نے جھٹلانے والے لوگوں کا انجام ذکر کرکے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے :
﴿كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ﴾ (ق: 12)
(ان سے پہلے نوح کی قوم، اصحاب الرس اور ثمود نے بھی جھٹلایا تھا)
اور ان کا کیسا انجام ہوا اور جنہوں نے ان کے بعد ایسا عمل کیا ان کا کیا انجام ہوا۔ پھر ذکر کرے کہ بے شک اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا اور اس کے دل میں اٹھنے والے خیالات کا بھی علم رکھتا ہے:
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ښ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ﴾ (ق: 16)
(اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان خیالات کو بھی جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے، اور ہم تو شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں)
پھر اللہ جل ذکرہ نے خبر دی جو کچھ قیامت میں ہوگا اپنے اس فرمان میں کہ:
﴿وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَاىِٕقٌ وَّشَهِيْدٌ﴾ (ق: 21)
(اور ہر شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہی دینے والا ہوگا)
اور جو اس کے بعد کی آیات ہیں اور آخر تک جن میں معاد (آخرت) کا ذکر ہے۔([6])
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورۃ ق کے ساتھ خطبہ دیتے اور اپنے خطبے میں یہ بھی فرماتے کہ: اما بعد بلاشبہ بہترین بات کتاب اللہ ہے اور بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت ہے اور بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے نکالے جائيں۔۔۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقط اس سورۃ کی قرأت پر اکتفاء نہیں فرماتے تھے۔بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر باتيں بھی ذکر فرماتے تھے۔اھ
سوال: کیا یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ جمعہ میں سورۃ ق قرأت فرمائی؟
جواب از شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ:
ان میں سے بعض میں ( قرأت فرماتے)۔ صحابیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہيں کہ میں نے ق والقرآن المجید نہيں یاد کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی، کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے ہر جمعہ منبر پر پڑھا کرتے تھے یعنی اس کا بعض حصہ پڑھتے اور دوسرے جمعے میں اسے مکمل کرلیتے، ایک خطبے میں اسے مکمل نہيں پڑھتے۔([7])
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے جمعہ کے دن منبر پر مکمل نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ محض اس میں سے کچھ پڑھا کرتے تھے اور آئندہ جمعہ مزید کچھ پڑھ کر مکمل کرلیتے تھے، ایک وقت میں پوری نہیں پڑھتے تھے جیسا کہ علماء کرام فرماتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بس اس میں سے (مختلف اوقات میں) آیات پڑھتے تھے یہاں تک کہ مکمل کرلیتے۔
[1] صحیح مسلم 875
[2] المجموع شرح المهذب لمحيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)، دار الفكر: 4/520.
[3] المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج: 6/161
[4] عون المعبود شرح سنن أبي داود، ومعه حاشية ابن القيم: تهذيب سنن أبي داود وإيضاح علله ومشكلاته لمحمد أشرف بن أمير بن علي بن حيدر، أبو عبد الرحمن، شرف الحق، الصديقي، العظيم آبادي (المتوفى: 1329هـ)، دار الكتب العلمية – بيروت، ط2، 1415 هـ: 3/316.
[5] سبل السلام لمحمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني ثم الصنعاني، (المتوفى: 1182هـ): دار الحديث 1/404.
[6] ویب سائٹ سحاب السلفیۃ: هل يسن قراءة سورة (قَ) على المنبر؟
[7] سوال من شرح فتح المجيد: هل ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم قراءة سورة ق في خطبة الجمعة؟
ترجمہ و ترتیب
طارق بن علی بروہی