کیا کسی کا عالم، محدث، فقیہ و مفسر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا عقیدہ ومنہج درست ہے؟ – شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ

Is being an Aalim, Muhaddith, Faqeeh and Mufassir proof enough for someone bearing the correct Aqeedah and Manhaj? – Shaykh Saaleh bin Abdul Azeez Aal-Shaykh

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ’’کشف الشبھات‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں۔۔۔‘‘۔

شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:

ان کشف الشبہات (شبہات کے ازالے) کی راہ میں جو علماء ِمشرکین دلوں میں ڈالتے ہیں یہ بہت اہم مقدمہ ہے ۔ پس جو توحید کے دشمن ہیں خصوصا ًاس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم میں سے جنہيں علماء میں شمار کیا جاتا ہے جو اس امت میں آئے۔ چنانچہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن بالکل ہی علم سے کورا ہوتا ہے ، نہ ہی یہ تصور کیا جائے کہ توحید کا دشمن فقیہ نہيں ہوسکتا، یا محّدث نہيں ہوسکتا، یا مفسر ِقرآن نہیں ہوسکتا، یا تاریخ دان نہيں ہوسکتا، بلکہ ہوسکتا ہے وہ ان بہت سے فنون میں سے کسی فن میں یا بہت سے فنون میں بہت نمایاں مقام رکھتا ہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اس دعوت کے امام رحمہ اللہ پر رد کیے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس مرتبے کے لوگ تھے کہ لوگ انگلیوں سے ان کی جانب اشارہ کرتے تھے ان علوم کی نسبت سے جن میں ان کا تخصص تھا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو فقیہ تھے، بعض ایسے تھے جو تاریخ دان تھے۔ اور یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جن پر آئمہ دعوت نے رد فرمایا۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن کوئی عالم نہیں ہوگا یا نہیں ہوسکتا۔

یہ شبہہ گمراہ قسم کے لوگ عوام کے دلوں میں ڈالتے ہیں ، پس وہ ایک عالم کا دوسرے عالم پر اعتراض کرنے کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ دونوں مذاہب (یا مواقف) ہی درست ہيں اور اس کا معنی میں وسعت ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض توحید کے مسائل تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دوسرے قول سے زیادہ صحیح ہے یا علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایسا ایسا ہے۔ حالانکہ توحید کے مسائل میں ایسا کہنا بالکل بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ جو توحید کے مسائل میں بھی مخالفت کررہا ہو وہ علماء توحید میں سے نہیں ہوسکتا، نہ ہی ان علماء اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے جن کی طرف کوئی قول منسوب کرنا درست ہوا کرتا ہے، یا اختلاف کی صورت میں ان کے قول کو بھی لیا جاتا ہے، بلکہ توحید کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس پر کتاب وسنت اور اجماع سلف سے کثیر دلائل دلالت کرتے ہیں ، اور آئمہ کرام نے بھی اسے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اب جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرتا ہے تو اگرچہ وہ کبار علماء میں سے ہو فقہ میں یا تاریخ میں یا حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی چیز میں تو اس کی مخالفت اس کی ذات تک ہی ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس مسئلے میں (اصل میں کوئی) اختلاف ہے۔

لہذا اس بارے میں متنبہ رہا جائے کہ کہ بلاشبہ مشرکین کے علماء میں سے جو توحید کے دشمن ہیں ان کا حال یہ نہيں ہوتا کہ وہ عالم نہ ہوں، بلکہ ہوسکتا ہے وہ عالم ہو بلکہ فنون میں سے کسی فن میں امام ہو، تفسیر میں امام ہو، فقہ میں امام ہو، یا قضاء وفیصلوں کے لیے وہ لوگوں کا مرجع ہو، یا اس جیسے رتبے کے ہوں جیسا کہ اس دعوت کے دشمنان جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی مخالفت کی اور اس دعوت کی مخالفت کی۔

یا جیسا کہ  متأخرین کا حال ہے مثال کے طور پر داود بن جرجیس  تو یہ بہت وسیع علم رکھنے والا شخص ہے، لیکن وہ علماء مشرکین میں سے ہے۔ یا جیسا حال ہے محمد بن حمید الشرقی مصنف کتاب ’’السحب الوابلة على ضرائح الحنابلة‘‘  کا، وہ بھی توحید کے دشمنوں میں سے تھا۔ تو اس نے مشایخ کرام پر رد لکھا اس بات پر کہ انہوں نے بوصیری کے مشہور ومعروف قصیدے المیمہ([1]) کا رد کیا تھا، تو اس نے ان کا رد کیا اور ثابت کرنا چاہا کہ اسے شرک کہنا باطل ہے، اور جو کچھ بوصیری نے کہا اس کا آخر تک اقرار کیا اور صحیح ثابت کیا۔ اور شیخ عبدالرحمن بن حسن مصنف ’’فتح المجید‘‘ جو کہ مجدد ثانی تھے کا ایک رسالہ بھی موجود ہے جس میں اس کتاب کے مصنف پر انہوں نے رد فرمایا ہے، حالانکہ وہ فقہ میں بہت نمایاں مقام رکھتا تھا، اور تفسیر وسوانح نگاری  اور آخر تک جو علوم ہیں ان کے تعلق سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کیے جاتے تھے۔۔۔ لیکن وہ درحقیقت علماء مشرکین میں سے اور دشمنان توحید میں سے تھا۔ کیونکہ یہ شرک کا دفاع اور پشت پناہی کرتے ہیں  اور اہل توحید کا رد کرتے ہيں، اور لوگوں کو توحید وشرک کی تعریف کے بارے میں، اور کس چیز سے ایک مسلمان مشرک ومرتد ہوجاتا ہے اس تعلق سے گمراہ کرتے ہیں، چنانچہ اس بارے میں وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

چنانچہ یہ مقدمہ اپنی جگہ بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ: یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس پائے کے علماء جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جاتا ہے وہ مشرکین نہیں ہوسکتے، بلکہ شیخ رحمہ اللہ کے دور میں اور اس کے بعد بھی ایسے علماء پائے جاتے تھے جن کی جانب اشارہ کیاجاتا، لیکن وہ مشرکین تھے جیساکہ شافعیہ کے مفتی بھی جو مکہ میں تھے احمد بن زینی دحلان اور ان جیسے لوگ۔ چنانچہ لوگ تو ان کی جانب رجوع کرتے اور فتاویٰ لیتےاور وہ انہیں ان باتوں سے پھیر دیتے۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ شرک کے واسطے اس کے علماء موجود نہ ہوں گے جو اس کا دفاع کرتے ہوں۔

پس بطور مقدمہ یہ بات سمجھ لیں کہ اس کتاب ’’کشف الشبہات‘‘  میں مسائل میں سے کسی بھی مسئلے کے تعلق سے جب شبہے کا ازالہ کیا جائے گا تو یہ نہ کہیں  کہ یہ فلاں عالم نے بھی تو کہا ہے، فلاں امام بھی تو اس کے قائل ہیں، (اگر یہ غلط ہے تو) آخر فلاں امام کیسے یہ کرسکتا ہے۔ اس قسم کا شخص یا تو جاہل ہے جس نے اس مسئلے کو صحیح طور پر ضبط نہيں کیا جیسا کہ بعض مشہور علماء جن کا خیر کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، یا پھر اس نے جانتے بوجھتے عناد و اعراض کی راہ اپناتے ہوئے شرک کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کے لیے یہ تصنیف کی ہوگی۔ جیسا کہ فخر الدین الرازی نے کیا جو تفسیر  ’’مفاتيح الغيب‘‘ کے مصنف ہیں، اس طرح کہ انہوں نے صابئہ (ستارہ پرستوں) کے دین کو خوبصورت بناکر پیش کرنے اور ان کا ستاروں سے مخاطب ہونے کے تعلق سے کتاب لکھی جسے ’’السر المكتوم في مخاطبة النجوم‘‘  کا نام دیا، اس کی وجہ سے اہل علم کی ایک جماعت نے ان کی تکفیر بھی کی([2])۔ تو انہوں نے خوبصورت بناکر پیش کیا ہے کہ وہ کیسے ستاروں سے مخاطب ہوتے ہیں ، کیسے ان سے استغاثہ (فریادیں) کرتے ہیں اور کیسے ان سے بارش طلب کرتے ہیں اور آخر تک جو وہ کرتے ہيں۔۔۔انہوں نے اس بارے میں تصنیف حران کے صابئہ کی ان کاموں کی جانب رہنمائی کے لیے کی، اور یہ بے شک پرلے درجے کی گمراہی ہے۔

لہذا ہرگز بھی یہ نہ کہا جائے جب کوئی بھی شبہہ آئے اور اس کا رد کیا جائے  یا اس کا رد آئمہ سنت و توحید کریں تو یوں نہ کہا جائے کہ فلاں عالم نے پھر اس طرح کیسے کہہ دیا؟! کیسے فلاں عالم کی نسبت سے یہ بات رواج پاسکتی ہے؟! یہ لوگ یا تو جاہل تھے کہ انہوں نے دشمنان توحید کے بارے میں نہ لکھا یا پھر انہوں نے شرک اور اسے خوبصورت بناکر پیش کرنے کے سلسلے میں تصنیف کی۔ یہاں شیخ کی مراد اس قسم کےلوگ ہیں اپنے اس فرمان سے کہ:

’’ہوسکتا ہے دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں‘‘۔

اگر آپ ان کا کلام پڑھیں گے تو کبھی وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ  تک سے نقول اور حوالے لے کر آتے ہیں، جیسا کہ داود بن جرجیس نے کیا جب اس نے اپنی کتاب ’’صلح الإخوان‘‘  تصنیف کی، اس میں اس نے شیخ الاسلام اور ابن القیم رحمہما اللہ سے نقول پیش کی، ساتھ ہی مفسرین کے اقوال اور بہت سے علماء کے اقوال بھی لے کر آیا ہے۔ یا جیسا کہ فی زمانہ تصنیف کی محمد بن علوی المالکی جیسے لوگوں نے ، اس نے بھی تصنیف کی جس میں یہاں وہاں سے دو سو یا تین سو اقوال پکڑ لایا ہے ان علماء کے جو اپنی کتب میں ان کی بعض شرکیات اور بعض واسطے وسیلوں اور اس جیسی چیزوں کے اقراری تھے، حالانکہ اصل اعتبار اس کا نہيں کیا جاتا۔

بلکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے جس پر ایک توحید پرست کے دونوں قدم جمے رہنے چاہیے کہ: مشرکین کے علماء کے پاس بھی کبھی بہت سا علم اور حجتیں ہوا کرتی ہیں، کیونکہ شرک سبب نہيں بنتا ان سے کلی طور پر علم چھن جانے کا، جیسا کہ اللہ عزوجل کا ان کے اولین لوگوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:

﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾ 

(پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر اِترا گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا)

(غافر: 83)

ہوسکتا ہے کبھی یہ علم الہیات کے تعلق سے ہو جیسا کہ وہ کہتے تھے:

﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا﴾ 

(کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا)

(ص: 5)

یہ اعتراض ِشبہہ تھا، اور کہا کہ:

﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى﴾ 

(ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے خوب اچھی طرح قریب کردیں)

(الزمر: 3)

اور کبھی وہ علم فقہیات تک سے متعلق ہوتا ہے، جیسا کہ کہا:

﴿قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ 

(انہوں نے کہا بیع (تجارت) بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا)

(البقرۃ: 275)

یا اس جیسی دیگر باتیں۔ پس اس امت کو مخاطب کرنے والے علوم کی جو جنس ہے وہ رسولوں کے دشمنوں کے پاس بھی تھی، یا تو الہیات کے پہلو سے یا پھر شرعیات کے پہلو سے۔ پس انہوں نے معارضہ اور ٹکراؤ کیا رسولوں سے اس علم کے ساتھ جو ان کے پاس تھا۔ بلکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے شبہہ کی قوت کے زاویے سے بطور تعظیم ان کے قول کو حجت بھی کہا ، پس فرمایا:

﴿ وَالَّذِيْنَ يُحَاجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّــتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ 

(اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اس کے بعد کہ اس کی دعوت قبول کرلی گئی، ان کی دلیل ان کے رب کے نزدیک باطل ہے)

(الشوریٰ: 16)

کیا اس شخصیت کی یہ بہت سی کتابیں، فقہیات وسوانح نگاری وتفسیر یا اس جیسی چیزیں اسے ایسا کردیں گی کہ وہ توحید کا دشمن نہيں ہوسکتا اگرچہ وہ توحید کی دشمنی میں لکھتا ہو، شرک کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے کے بارے میں لکھتا ہو، اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہو؟ جواب اس کا یہی ہے کہ نہيں! بلکہ وہ توحید کا دشمن اور شرک کی نصرت کرنے والا ہی کہلائے گا ، جس کی کوئی قدر واحترام نہيں، اگرچہ اس کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں، اگرچہ اس کی تالیفات ان سے بھی بڑھ کر ہوں جو باکثرت تالیفات کرنے میں مشہور تھے جیسے السیوطی وغیرہ۔ لہذا نہ یہ معتبر ہے نہ ہی اس کا کلام۔ کیونکہ یہ علماء توحید میں سے تو نہ ہوا چنانچہ اس کے علوم نقصان دہ ہیں ناکہ فائدہ مند اور علم نافع۔

اس کے بعد فرمایا: ’’جب آپ نے یہ جان لیا‘‘

یعنی جو کچھ پہلے ذکر ہوا کہ دشمنان ِرسل کے پاس کبھی علم بھی ہوتا ہے، کتب بھی ہوتی ہیں جو وہ تصنیف کرتے ہیں، حجتیں بھی ہوتی ہیں جو وہ پیش کرتے ہيں، بلکہ کبھی تو وہ کتاب وسنت سے اور اہل علم میں سے جو محققین ہیں ان کے اقوال تک سے حجت پکڑتےہیں۔ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ سے کچھ باتیں نقل کرتے ہيں، اور کچھ شیخ الاسلام اور ابن القیم وابن حجر رحمہم اللہ سے اور بھی دوسروں سے نقل کی جاتی ہیں۔۔۔یہ سب کے سب نقصان دہ علوم ہیں ناکہ علم نافع۔

امام رحمہ اللہ فرماتے ہيں:

’’جب آپ نے یہ اچھی طرح سے جان لیا اور یہ بھی جان لیا کہ اللہ تعالی کی طرف جو راہ ہے ضروری ہے کہ اس پر دشمن بیٹھے ہوں گے جو کہ بڑے اہل فصاحت وبلاغت، اہل علم وحجت ہوں گے‘‘۔

اس کلمہ پر ذرا غور کریں کہ فرمایا ’’ضروری ہے  کے اس راہ پر یہ دشمن موجود ہوں گے‘‘ یعنی توحید کی راہ میں اس کے دشمن ضرور بیٹھے ہوں گے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا۔ اب یہ جو دشمن ہیں ہوسکتا ہے علماء ہوں، اور ایسے علماء ہوں جو فصاحت وبلاغت اور علم وحجت کے اعلیٰ درجے پر ہوں۔ آپ کے پاس لازماً بچاؤ ہونا چاہیے کہ کہيں وہ آپ کو ہدایت کی راہ سے روک نہ دیں اور گمراہی کی راہ میں داخل نہ کردیں، اور کہیں وہ آپ پر دین کا معاملہ ملتبس وخلط ملط نہ کردیں۔کیونکہ یہ فصاحت کوئی معیار نہيں ہے، ورنہ تو ابلیس بھی بڑا فصیح ہوا کرتا تھا۔ اور نہ ہی علم فی نفسہ معیار ہے، بلکہ ضروری ہے علم علمِ نافع ہو۔ اور نہ ہی حجتیں، حوالہ جات اور ردود وجوابات معیار ہیں۔ جب یہ بات موجود ہے تو پھر شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اس وصیت کو اپنے پلے باندھ لیجیے جو انہوں نے اپنے اس عظیم رسالے ’’کشف الشبہات‘‘  کے مقدمے میں بیان فرمائی ہے۔

(آخری میں فرمایا کہ ایک توحید پرست علم نافع کے ہتھیار سے لیس ہو تاکہ ان کا مقابلہ کرسکے)۔


[1] اس سے مراد مشہور ومعروف قصیدہ بردہ ہےجس کے 162 اشعار ہیں، جسے ’’الكواكب الدرية في مدح خير البرية‘‘  کا نام دیا جاتا ہے، اسے نظم کرنے والے شر ف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید الدولاصی پھر البوصیری المتوفی سن 664ھ۔ دیکھیں کشف الظنون 2/1331۔

[2] دیکھیں: مجموع الفتاوی 13/180-181، بیان تلبیس الجہمیۃ 1/447، تفسیر ابن کثیر 1/146 اور المغنی فی الضعفاء 2/508۔

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: شرح كشف الشبهات.