کیا شیخ ربیع المدخلی رحمہ اللہ لوگوں کو اندھی تقلید کی دعوت دیتے تھے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Did Shaykh Rabee’ al-Madkhali invite people to Taqleed (Blind following)?

شیخ ربیع بن ہادی المدخلی  رحمہ اللہ  پر تقلید کی دعوت دینے کا اور ان کے تلامیذ وغیرہ پر تقلیدی سلفی ہونے کا الزام

رسالہ الحدیث شمارہ 11 ص 40 وما بعدھا (صفر 1426ھ اپریل 2005ع) میں ’’یمن کا سفر‘‘ مضمون میں حافظ زبیر علی زئی عفا اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

’’سعودی عرب میں سلفیوں کی ایک قسم ہے جسے تقلیدی سلفی (السلفی التقلیدی) کہتے ہیں دیکھئے الشرق الاوسط 14، رمضان 1425ھ 28 اکتوبر 2004 ع ص 2۔ تقلیدی سلفیوں میں شیخ فالح اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلی کا بڑا مقام ہے۔ برمنگھم (انگلیڈ) کے تقلیدی سلفیوں کے نزدیک جرح وتعدیل میں شیخ فالح الحربی کا بہت بڑا مقام تھا وہ جرح وتعدیل کے امام سمجھے جاتے تھے۔ مگر جب شیخ ربیع نے ان پر رد کردیا تو فوراً تقلیدی سلفیوں کے نزدیک شیخ فالح ہیرو سے زیرو ہوگئے۔ شیخ فالح الحربی کا ذکر میری کتاب انوار السبیل میں ہے دیکھیں ص 155۔۔۔شیخ ربیع کا مختصر اور جامع ذکر میں نے ’’انوار السبیل فی میزان الجرح والتعدیل‘‘ میں لکھا ہے۔ (ص 67) والحمدللہ۔۔۔کسی وجہ سے مدینہ منورہ کو چھوڑ کر آجکل شیخ ربیع مکہ مکرمہ کی عوالی میں قیام پذیر ہیں۔ میں ان کےپاس کچھ دن رہا ہوں۔ بہترین مکتبے کے مالک اور شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ بیماریوں میں مبتلا ہیں۔اپنے سوا دوسرے لوگوں کو (جو ان کے ہم نوا نہیں ہیں) احمق اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے بعض کبار علماء نے ان پر جرح کر رکھی ہے۔۔۔میں نے شیخ ربیع کو ان کے مکتبے (گھر) میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ: ’’ان التقلید واجب‘‘ (بے شک تقلید واجب ہے)۔ میں نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا: آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ شیخ ربیع المدخلی نے دوبارہ کہا: ’’ان التقلید واجب‘‘ یہ سن کر میں نے اپنا سامان (بیگ) اٹھایا اور عوالی کو خیرباد کہہ کر حرم (بیت اللہ) چلا آیا۔

تنبیہ: انگلیڈ وغیرہ کے تقلیدی سلفیوں نے کذب وافتراء اور تشدد کی راہ اپناتے ہوئے اہل حدیث علماء اور عوام پر رد شروع کررکھے ہیں۔ ذرہ سی بات یا اجتہادی خطاء پر وہ لوگوں کو سلفیت سے باہر نکال دیتے ہیں‘‘۔

شیخ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری   رحمہ اللہ   المتوفی 1414ھ اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ ربیع مقلدین کا رد کرتے ہیں

آپ  رحمہ اللہ  شیخ ربیع  رحمہ اللہ  کو حدیث کی اجازت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

امابعد: یہ اللہ کا بندہ اور اس کی جناب میں فقیرابو الحسن عبیداللہ تلمیذاً رحمانی، مسلکاً  سلفی اثری ، وطناً مبارکپوری بن علامہ شیخ عبدالسلام مبارکپوری  رحمہ اللہ  مؤلف ’’سیرۃ البخاري‘‘ کہتا ہے کہ: اللہ کے دین میں ہمارے بھائی، عالم گرامی قدر، فاضل، جلیل شیخ ربیع بن ہادی عمیر المدخلی رحمہ اللہ  نے مجھ سے روایتِ حدیث کی اجازت طلب کی ہے، اور ان کی سند اصحاب صحاح وغیرہ جیسے آئمہ حدیث تک پہنچتی ہے۔۔(پھر آپ کی تعلیمی قابلیت کا ذکر کرتے ہیں)۔۔اور آپ نے بیان کیا کہ آپ نے علامہ ابن باز  رحمہ اللہ  کے بخاری، مسلم اور کچھ جامع ترمذی کے دروس جو مسجد نبوی میں منعقد ہوتے تھے میں شرکت فرمائی، اور شیخ البانی  رحمہ اللہ  سے بھی کافی عرصہ شرف تلمذحاصل کیا  اور اسی طرح شیخ حماد الانصاری   رحمہ اللہ  وغیرہ جیسے کبار مشایخ  سے بھی استفادہ فرمایا ہے۔ آپ کو جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ کی جانب سے جامعہ سلفیہ، بنارس میں بھی مبعوث کیا گیا تھا جہاں میری اور ان کی علمی مسائل پر باتیں ہوا کرتی تھیں، اور کئی بار وہ مبارکپور بھی میرے گھر تشریف لائے۔ پس آپ صاحب فضیلت، علمی گہرائی ورسوخ، فہم سلیم، طبع مستقیم کی حامل شخصیت ہیں اور اعتقاداً وعملاً سلف صالحین کی منہج پر گامزن ہیں۔ کتاب وسنت کے متبع اور ان کی نصرت اور دفاع کرنے والے ہیں۔ اہل بدعت واہوا پر بہت سخت ہیں اور ایسے مقلدین کا رد کرنے والے ہیں جن کی حدیث شریف پڑھنے کی ساری مساعی اسے اپنے امام کے مذہب کے مطابق بنانے کے لئے ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی آپ کے علم میں برکت فرمائے اور ان کی بقاء سے مسلمانوں کو بہرہ ور فرمائے۔۔.

(الاجازۃ، 19 ذی القعدہ سن 1401ھ)

(الثناء البديع من العلماء على الشيخ ربيع)

شیخ ربیع کا شیخ علامہ محمد ناصر الدین البانی   رحمہ اللہ  المتوفی 1420ھ کے سامنے تقلید کا رد فرمانا

شیخ البانی رحمہ اللہ  بہترین کلام فرماتے ہوئے اپنی تقریر کے آخر میں فرماتے ہیں، فرمان الہی ہے:

﴿قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ  عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ  ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾

(یوسف: 108)

(کہہ دو یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں)

ہم تمام اسلامی جماعتوں سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ متفق ہوجائیں :

اولاً: اس بات پر کہ جس سلفی منہج کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں فکراً وعملاً اس منہج کو اپنائیں کیونکہ یہی منہج حق ہے۔

ثانیاً: بقدر استطاعت ہمارے ساتھ اس چیز پر چلیں جو بھی کتاب وسنت سے ثابت ہو۔ ایسا نہ کہیں جیسا کہ یہ جاہل مفتی کہتا ہے کہ: اس مسئلے کے بارے میں دو اقوال ہیں، جس نے کسی عالم کی تقلید کی تو وہ بروز قیامت اللہ سے سلامتی میں ملاقات کرے گا!

جو سوال کیا گیا تھا میرا اس کے بارے میں یہی جواب ہے۔

اس کے بعد شیخ ربیع  رحمہ اللہ  نے شیخ البانی  رحمہ اللہ  سے کچھ کہنے کی اجازت طلب فرمائی تو شیخ نے اجازت مرحمت فرمائی۔

شیخ ربیع فرماتے ہیں:

اس نسبت سے کہ سلفی اپنے مشایخ  کی تقلید کرتے ہیں تو اس بارے میں میرا اعتقاد ہے جیسا کہ شیخ نے فرمایا یہ جھوٹ افتراء ہے۔ اس طرح سے کہ ہم میں سے کوئی ایک بھی ۔۔۔فلاں شیخ کےقول کو مقدم کرتا ہے، (یہ بہتان ہے کہ) شیخ البانی کو اقوال آئمہ یا اقوال صحابہ پر(مقدم) کرتا ہے!جب شیخ البانی کا قول آئے تو تصویب کرتا ہے جبکہ صحابہ کا قول آئے تو کہتا ہے: وہ بھی رجال تھے ہم بھی رجال ہیں!!

واللہ یہ عظیم بہتا ن ہے:

﴿سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ﴾ (النور: 16)

(اے اللہ تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے)

میں شیخ البانی کو جانتا ہوں اس وقت سے جب میں جامعہ اسلامیہ کے پہلے سال میں تھا وہ کچھ بھی نہیں کہتے مگر۔۔(دلیل کے ساتھ)۔۔میں اور میرے ہم جماعت ساتھی اور شیخ کے تلامذہ ان سے مناقشہ کرتے تھے۔ نتیجتاً ہم یا تو ان کے دیے گئے قال اللہ اور قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے دلائل کے قائل ہوجاتے اور اتباع کرتے یاپھر ان کی رائے سے راضی نہ ہوکر اختلاف کرتے۔ اور میں (کچھ مسائل میں) ان کی مخالفت پر اس وقت سے لے کر اب تک مصر ہوں(یعنی دلائل کی روشنی میں مخالف رائے رکھتا ہوں)۔

میں ان کی کتابیں پڑھتا ہوں جیسے دوسرے ان کی کتابیں پڑھتے ہيں اور اس میں سے وہ لیتا ہوں جسے میں حق سمجھتا ہوں اور اسے چھوڑ دیتا ہوں جس کا حق ہونا مجھ پر ظاہر نہ ہوپائے۔

ان کے ساتھ میں وہی معاملہ رکھتا ہوں جو میں دیگر علماء کرام کے ساتھ رکھتا ہوں یعنی احترام کرنا ہم بطور استاد اور بطور ایک ایسے انسان جس نے بلاشبہ سنت کی بے نظیر خدمت کی احترام کرتا ہوں۔ میں یہ بات محض ان کے منہ پر نہیں کہہ رہا بلکہ ان کے پیٹھ پیچھے بھی کہتا ہوں۔

اسی طرح سے امام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  میرے نزدیک شیخ البانی سے بڑے ہیں لیکن اگر ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کہتے ہیں قال اللہ اور قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہم کہتے ہیں ہماری سر آنکھوں پر اللہ تعالی کا قول رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا قول۔اور اگر ان کا قول قال اللہ اور قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے خلاف جارہا ہو تو ان کی رائے کو آیت وحدیث کے سامنے ٹھکرا دیا جائے گا اور کہیں گے السلام علیکم۔ ہمیں اس رائے کی ضرورت نہيں کیونکہ یہ فرمان الہی وفرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے خلاف جارہی ہے۔

یہ ہے سلفیوں کا منہج وہ شیخ البانی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، شیخ محمد بن عبدالوہاب، امام شافعی واحمد رحمہم اللہ اور کسی بھی امام سے لیتے ہیں اگر وہ قال اللہ قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے موافق بات کریں۔ اور اگر آئمہ میں سے کسی بھی امام کا قول اللہ اور قول رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہو تو وہ قول اللہ اور قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو مقدم رکھتے ہيں۔یہ ہے منہج قرآن، منہج سنت ،منہج سلف صالحین اور منہج آئمہ ہدایت جن کی اتباع کی جاتی ہےکہ قول اللہ اور قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو تمام لوگوں کے اقوال پر مقدم رکھا جائے۔ اور اللہ کے راستے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے راستے کو تمام لوگوں کے راستوں پر مقدم رکھا جائے۔

یہی منہج ہم امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ  کے دونوں مشہور اصحاب (یعنی ابو یوسف اور محمد الشیبانی) کا دیکھتے ہیں کہ انہوں نے پورے ایک تہائی مذہب میں ان کی مخالفت کی۔ اپنی خواہشات کی پیروی میں یا اپنے امام کی تحقیر کرتے ہوئے نہیں بلکہ حق کی اتباع میں۔ اسی طرح سے ہم امام شافعی  رحمہ اللہ  کو دیکھتے ہیں کہ ۔۔۔ اسے جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی عنقریب جو کچھ وہ کہتا ہے اس کا حساب لے گا۔

ہم اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اس منہج کو اپنائیں کیونکہ یہی طریقہ دنیا وآخرت میں سعادت مندی کی ضمانت ہے۔ یہی طریقہ مسلمانوں کو عزت دلا سکتا ہے۔ اور اگر وہ یہ طریقہ نہیں اپنائیں گے تو عنقریب ان کی ذلت ورسوائی میں اضافہ ہوگا کیونکہ اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں:

﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ﴾ (النساء: 59)

(پس اگر تم کسی بات میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو)

﴿وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ﴾ (الانفال: 46)

(تنازع نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی)

اور ہم اس افسوس ناک بزدلی کو مسلمانوں کی زندگی میں دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ذلیل ترین لوگ بن کر رہ گئے ہیں اور اکثر لوگوں کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔ ذلت کے گڑھے میں گر چکے ہیں اور اب وہ اسلام کے آداب تک پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ ان سب باتوں کا سبب ان کا منہج الہی سے دور ہونا ہے۔

اور ہم مسلمانوں کی دنیا وآخرت میں سعادت مندی کی حرص کے پیش نظر اس پر اصرار کریں گے ،اور ان کی مصلحت کی خاطر، اور جو بات ان کی سعادت مندی کا باعث بنے اس کی خاطر ان تمام تکالیف کو سہیں گے، جب وہ اس منہج سے راضی نہیں ہوتے تو جو چاہے کہتے رہیں (ہم تو انہیں اسی منہج کی طرف بلاتے رہیں گے)۔

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں حق بات پر باہم الفت ڈال دےاور انہیں حبل اللہ (اللہ کی رسی ) کو مضبوطی سے پکڑنےکی توفیق دے۔ والسلام علیکم۔

(ویب سائٹ سحاب السلفیہ سے تفریغ)

شیخ ربیع  رحمہ اللہ نے فالح الحربی کا رد تقلید کے مسئلے پر ہی کیا تھا!

شیخ ربیع فرماتے ہیں: فالح الحربی علماء وداعیان کی بے لگام تبدیع کرتے تھے اور جب بعض نوجوانوں نے ان سے دلائل طلب کیے کہ کس بنیاد پر کسی کو بدعتی کہا ہے تو ان کے پاس مطلوبہ دلائل نہیں تھے۔ لہذا انہوں نے اپنی طرف سے ایک اصول گھڑ لیا وہ یہ کہ تبدیع یعنی کسی کو بدعتی قرار دینا آئمہ جرح وتعدیل کے اصول سے الگ چیز ہے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے روایت اور تبدیع میں فرق کیا۔ یعنی ان کے رائے میں راویوں کی تعلق سے تو پوچھنے کا حق ہے کہ فلاں راوی کی جرح کس بنیاد پر کی گئی ہے لیکن اگر کوئی کسی کوبدعتی سمجھتا ہے تو اسے حق حاصل نہيں کہ اس سے پوچھے آخر کن اسباب کی بنا پر آپ نے اس کی تبدیع کی ہے، اگرچہ وہ بہترین سلفیوں میں سے ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی بھی کسی کی تبدیع کے اسباب کےبارے میں سوال نہ کرے بلکہ وہ (فالح) انہی بھی بدعتی کہتا ہے جو کسی کی تبدیع کے بارے میں سوال کرے۔

 پس اس اصول نے ان کو یہ قول کہنے پر ابھارا کہ علماء کی تقلید واجب ہے اور ان سے دلیل کا سوال نہیں کرنا چاہیے۔  اور جنہیں یہ بات کہہ  رہے تھے (یعنی تقلید کرنے کی) وہ بھی عام لوگ نہيں تھے بلکہ ذہین طلاب علم  بلکہ اساتذہ موجود تھے جن میں سے کچھ ڈاکٹریٹ کیے ہوئے تھے عوام نہیں تھے انہیں یہ  کہہ رہے ہیں کہ جو علماء کی تقلید نہيں کرتا تو اس نے گویا کہ رسولوں کی رسالتوں کو اور جو کتب ان پر نازل ہوئیں انہیں اڑا کر رکھ دیایا اس نے کتاب وسنت اور اسلام کو جھٹلایا۔

وہ اور ان کے متبعین یہ گمان کرتے ہيں کہ وہی اکیلے امام ہیں کہ جو اس دین کی حفاظت کرتےہیں اور وہ اپنے متبعین کو ابھارتے ہیں اور وہ بھی انہیں خوب چڑھاتے ہیں۔ پس یہ لوگ قوی وضعیف اہل سنت کے سر بلا امتیاز باطل تبدیع وظالمانہ احکام تھوپ دیتے ہیں۔ اور جو کوئی ان کی تقلید نہیں کرتا خواہ وہ ڈاکٹریٹ کے درجے کا ہی کیوں نہ ہو اسے یہ کتاب وسنت اور اسلام کو جھٹلانے والے تصور کرتے ہیں۔ جو کوئی انتخابات کے تعلق سے ان کی رائے کی تقلید نہیں کرتا اگرچہ وہ بڑا استاد ہو اس پر یہ حکم لگا دیتے ہیں کہ وہ جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دینے والا داعی ہے اور اس نے رسولوں کی رسالتوں اور ان پر نازل کردہ کتب کو اڑا کر رکھ دیا۔

(اس گمراہ قول کے علاوہ) باقی گالم گلوچ، طعن وتشنیع، تحذیر وتجہیل تو الگ سے ہیں جوایسے امور میں جنہیں نہ شریعت جانتی ہے نہ عقل مانتی ہے۔ اور ان کے انصار مجہول قسم کے لوگ کہتے پھرتے ہيں کہ وہ بس عوام کو علماء کی تقلید کی طرف دعوت دیتے ہیں حالانکہ حقیقت اس سے بھی بڑھ کر کڑوی ہے۔وہ تو طلاب علم اور اساتذہ تک کی جرح کرکے انہیں جہالت وبیوقوفی کے گھڑے میں گرا دینے کے بعدان کو اپنی اندھی تقلید کی طرف بلاتے ہیں ۔

کتبہ: شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

21/5/1425ھ

(شیخ ربیع کی آفیشل ویب سائٹ سے مختصرا ًماخوذ، اس کے علاوہ بھی بہت سے قسط وار ردود فالح الحربی پر شیخ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں)

کیا جرح وتعدیل میں کسی ثقہ عالم کے قول کو لینا مذموم تقلید کہلاتا ہے؟

یہ دو اہم سوالات شیخ ربیع سے ایک مشترکہ تقریر جس میں شیخ ربیع اور (مدینہ نبویہ کے کبار سلفی علماء میں سے) شیخ علی بن ناصر الفقیہی رحمہما اللہ نے خطاب فرمایا میں بروز جمعرات، بتاریخ 28 شوال 1431ھ کو کیے گئے۔

سوال 1: کیا جرح وتعدیل کے مسائل اجتہادی ہیں اور ہم ایسے شخص پر کیسے رد کریں جو ایسا کہتا ہو۔ اور یہ بھی کہتا ہوں کہ مجھ پر لازم نہيں کہ فلاں شیخ کا قول مانو (یعنی کسی کی جرح کے تعلق سے)؟

جواب از شیخ ربیع رحمہ اللہ:

لوگوں کا ایک مجموعہ ہے جو سلفی منہج میں دسیسہ کاری کرتا ہے اور جنہوں نے سلفی منہج کا جھوٹا لبادہ اوڑھا ہواہے وہ اپنی تمام تر توجہ جرح وتعدیل کے مسئلے پر مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ اور اس قسم کے باطل اصول بنا رکھے ہیں جیسے ’’نصحح ولا نجرح‘‘ (ہم تصحیح کریں نہ کہ جرح)، ’’نريد منهجاً واسعاً أفيح يسع الامة كلها‘‘ (ہم ایسا وسعت پسند منہج چاہتے ہیں جس کے دائرے میں پوری امت آجائے)، ’’نصحح ولا نهدم‘‘ (تصحیح کریں انہدام نہيں، یا تعمیری سوچ اپنائیں نہ کہ تخریبی) یعنی منکر کو روکو ٹوکو نہیں نہ بدعت کو نہ کسی چیز کو (بس جو چل رہا ہے چلنے دو) اور پوری امت ایک وسیع منہج میں سمائے ہوئے ہیں یہاں تک کہ روافض بھی  اس میں داخل ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں! لہذا انہوں نے جرح وتعدیل اور جو اس کا بیڑا اٹھاتے ہيں پر تہمتیں شروع کردی ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض کاحال یہاں تک جاپہنچا کہ کہا:

’’جرح وتعدیل کی دلائل کتاب وسنت میں نہیں‘‘۔

اللہ اکبر! میں نے اس قائل سے کہا تم نے کیسے یہ کلام کیا، اس نے کہا: ’’بس لفظی خطاء ہے‘‘۔ کیسٹ میں یہ بات باقاعدہ نشر کرنے کے بعد کہتا ہے کہ یہ بس لفظی خطاء ہے۔ یہ لفظی نہیں بلکہ جوہری وبنیادی خطاء ہے۔ قرآن مجید جرح وتعدیل کے دلائل سے بھرا پڑا ہے قوم فرعون پر طعن، قوم نوح پر طعن، قوم ھود پر طعن، قوم صالح پر ،قریش پر، ابو لہب پر۔۔۔سنت بھی بھری پڑی ہے، منہج سلف بھی بھرا پڑا ہے۔

اور یہ اہل بدعت کے چہرے پر تانا ہوا ایک اسلحہ ہے۔ پس وہ اس اسلحہ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور سلفیوں کو اس اسلحے سے محروم کرنا چاہتے ہیں جو کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ماخوذ ہے۔ ایک آتا ہے اور جرح وتعدیل کے خلاف جنگ شروع کردیتا ہے، پھر دوسرا ابھرتا ہے، پھر تیسرا، پھر چوتھا۔۔۔دسواں، اور ان کی پیروی پوری ایک فوج شروع کردیتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن سے میں نے آپ کو خبردار کیا تھا۔ سلفیت کا لبادہ اوڑھتے ہیں اور سلفیوں کے ہی درمیان تفریق پیدا کرنا شروع کردیتے ہیں اپنے ان اختراع کردہ قواعد واصولوں کے ذریعے۔ بارک اللہ فیکم۔

اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے اور اسے دو عادل گواہ دیکھ لیتے ہیں۔ اور اپنی گواہی حاکم شرعی کے سامنے پیش کرتے ہیں، تو وہ کیا حکم کرے گا؟ قصاص کا حکم دے گا ورنہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی مخالفت کرنے والا کہلائے گا۔ فرمان الہی ہے:

﴿وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ﴾ (الطلاق: 2)

(اور اپنوں میں سے دو عادل گواہ بنا لو)

شہادت (گواہی) کے دلائل اور جرح وتعدیل کے دلائل ایک ہی چیز ہیں۔ کیونکہ غیرعادل کی گواہی قابل قبول نہيں اسی طرح سے غیرعادل کی روایت بھی قابل قبول نہیں جوکذاب، خائن ہو جو اپنے کلام کو ضبط نہ کرسکے۔ ایسے کی نہ گواہی قبول ہے نہ ہی اس کی جرح وتعدیل قبول ہے۔ لیکن اگر کوئی عالم، ضابط اور ماہر کسی شخص پر طعن کرے، کہے: فلاں کذاب ہے۔ تو لوگوں پر واجب ہے کہ اس کا قول قبول کریں۔ سلف صالحین اسی منہج پر چلتے آئے ہيں۔ فلاں کذاب ہے تو وہ واقعی کذاب ہے۔ فلاں کا حافظہ برا ہے تو وہ واقعی برے حافظے والا ہے۔ فلاں بدعتی، مرجئی، خارجی ومعتزلی وغیرہ ہے۔

خلاص، امام احمد نے کہہ دیا ، امام ابن معین نے کہہ دیا، امام ابن المدینی نے کہہ دیا، امام بخاری رحمہم اللہ نے کہہ دیا بات ختم، کیسے؟ کیونکہ اللہ تعالی نے عادل شخص کی خبر قبول کرنے کا حکم دیا ہے فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا﴾ (الحجرات: 6)

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لو)

خبر کی تحقیق کرو مگر صرف فاسق کی۔ یعنی خبرِ فاسق تک کو یہ نہ کہو کہ جھوٹ ہی ہوگی بلکہ احتمال ہے کہ صحیح بھی ہوسکتی ہے لیکن آپ اسے قبول نہ کریں بلکہ تحقیق کریں۔ جبکہ عادل کی خبر جب تک وہ عادل ہے ضابط ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے نقل کرتا ہے تو واجب ہے کہ اس خبر کو قبول کیا جائے۔ سنت کی کتب ایسے صادق لوگوں کی خبر سے بھری پڑی ہیں۔ صادق عادل روایت کرتا ہے کسی صادق عادل سے وہ روایت کرتا ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے۔ ہمارا دین تو قائم ہی اسی پر ہے۔ لہذا یہ لوگ تو وہ ستون ہی گرا دینا چاہتے ہیں جن پر ہمارا دین قائم ہے۔حدیث رسول، صحابہ سے روایت، آئمہ سے روایت (بارک اللہ فیک) ان میں سے بہت سی ایک عادل راوی سے مروی ہوتی ہیں اور وہ اسے قبول کرتے ہیں اس دلیل کے ساتھ کہ:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا﴾ (الحجرات: 6)

اور

﴿وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ﴾ (الطلاق: 2)

ایسی خبر بھی ہيں جن کا دارومدار فقط خبر واحد پر ہے ۔  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ایک شخص کو بھیجا کرتے تھے کسریٰ کی طرف جس کے ذریعے حجت تمام ہوجاتی ، اور قیصر کی طرف بھی ایک شخص جس کے ذریعے حجت تمام ہوجاتی۔ کیونکہ اگر اس عادل صادق کے اسلام کی تبلیغ کرلینے پر وہ اسلام نہ لاتے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اتباع کا انکار کردیتے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان کے خلاف لشکر کشی کا حکم دیتے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے روم کے خلاف غزوۂ تبوک میں جو لشکر تیار کیا اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں  نے محض ایک مبلغ کی خبر کو جھٹلا دیاتھا۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بحرین کی طرف، عمان اور یمن کی طرف افراد کو بھیجا تھا اور ان کی لائی ہوئی خبروں کو قبول کیا اور حجت کو تمام مانا۔ اور جنہوں نے ان مبلغوں کی خبرکو نہ مانا تو ان کےخلاف لشکرکشی فرمائی۔

اب کیا حالت ہے دس نہیں پندرہ سلفی متفق ہيں کسی معین معاملے میں اور آپ انکار کرتے ہیں۔ کہتے ہيں لازم ہے کہ اجماع ہو۔ ان لوگوں کے بنائے گئے قواعد میں سے یہ ہے کہ وہ جرح وتعدیل قبول ہی نہيں کرتے خواہ کسی شخص کے بارے میں دسیوں آئمہ معاصرین کلام کریں کہ فلاں بدعتی ہے، ان کے پاس یہ یہ گمراہیاں ہیں وہ ان سے قبول نہیں کرتے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن سے میں نے آپ کوخبردار کیا تھا کہ سلفیت کا دعویٰ کرتے ہيں مگر سلفی منہج اس کے قواعد واصول کو منہدم کرتے ہیں۔

ان کے کتنے ہی اختراع کردہ اصول ہیں جیسے ’’لا يلزمني‘‘ (مجھ پر لازم نہیں کہ میں کسی کے خلاف علماء کا رد مانوں)،  آپ اس کے پاس آئیں گے اور جس کا رد کیا جارہا ہے اس کی اپنی کتاب سے کچھ بیان کریں گے کہ فلاں نے اپنی فلاں کتاب کے فلاں صفحے پر یہ یہ کہا ہے، چڑھتے سورج کی طرح واضح گمراہی پھر بھی وہ آپ سے کہے گا ’’ما يلزمني هذا الكلام‘‘ (اس کے خلاف کیا گیا کلام ماننا مجھ پر لازم نہیں) ان کے پاس حق بات کو جھٹلانے ، حق بات کا رد کرنےاور جرح وتعدیل کے قواعد کا رد کرنے کے لیےباقاعدہ اپنے بنائے ہوئے قواعد ہیں ۔ پس آپ کو چاہیے کہ جرح وتعدیل کے قواعد کو جانیں، منہج سلف کو دیکھیں اور انہی کے منہج پر چلیں۔  اور ان اللہ کے دین حق اورسلفی منہج وسلفیوں کے تعلق سے گمراہ کرنے والے اور تشویش پیدا کرنے والوں کو چھوڑ دیں۔

اس کے بعد شیخ علی ناصر الفقیہی رحمہ اللہ   نے شیخ ربیع کے جواب پر تعلیق کرتے ہوئے  فرمایا:

جو موضوع (من گھڑت) احادیث ہوتی ہيں جنہیں علماء موضوع کہتے ہیں اس کا کیا معنی ہے؟! (یعنی ظاہر ہے علماء نے اس شخص اس راوی پر شدید جرح کی ہوگی، اور کتاب میں نقل کرنے والے محدث نے اس عالم یا علماء کی جرح کو تسلیم کیا ہوگا)۔

سوال 2: کیا طالبعلم کے لیے جائز ہے کہ وہ جرح وتعدیل کے مسائل میں تقلید کرے جبکہ یہ بات بھی معلوم ہے کہ وہ طالبعلم ان دلائل کو دیکھ سکتا ہے جو کسی عالم نے جو کہ اس باب میں مہارت، تقویٰ الہی اور جدوجہد کے لیے مشہور ہے نے کسی کے خلاف تنقید کرتے ہوئے پیش کیے ہیں۔ نصیحت فرمائیں؟

جواب: ثقہ شخص کی خبر قبول کرنا تقلید نہيں کہلاتا ورنہ تو نعوذباللہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی مقلد کہلائیں گے یعنی وہ اپنے بھیجے ہوئے رسول (پیغام رساں) کی خبر قبول کرتے تھےجب وہ کہتا: میں کسریٰ کے پاس گیا اس نے میری دعوت قبول نہیں کی۔ یعنی اس مذہب کے مطابق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی مقلد ہوئےنعوذباللہ۔ اللہ تعالی بیڑہ غرق کرے ایسے خبیث قواعد اور ایسے فاجر طعن وتشنیع کا۔  عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وغیرہ خبر آحاد کو قبول فرماتےہیں۔ اور یہ لوگ قواعد وضع کرتے ہيں کہ اخبار آحاد علم کا فائدہ نہیں دیتیں اور ان پر عقائد نہیں بنائے جاسکتے۔ لیکن اپنے اس طغیان کے باوجود انہوں نے جرح وتعدیل کے قواعد پر تو طعنہ زنی نہیں کی تھی(جیسا کہ مندرجہ بالا بیان کردہ سلفی کہلانے والے کرتے ہیں)البتہ انہوں نے یہ کیا کہ  وہ اشعری، ماتریدی، معتزلہ اورخوارج بن گئے۔ کہتے ہیں: اخبار آحاد عقائد میں قبول نہیں البتہ احکام میں قبول ہیں۔ تشریعی احکامات وحدود اور دیگر اشیاء میں قبول ہے لیکن عقائد میں خبر آحاد کو ہم قبول نہيں کریں گے۔ یہ کھلی گمراہی ہے اور اس پر سلف نے کافی رد فرمایا ہے۔ اور ایسے واضح وروشن دلائل بیان کیے ہیں کہ اخبار آحاد علم کا فائدہ دیتی ہیں اگر امت اسے تلقی بالقبول دے۔اور امام ابن القیم  رحمہ اللہ  اور علماء کی ایک تعداد فرماتے ہیں: ثقہ ، عادل، ضابط کی خبر اپنے جیسے سے نقل کرنا اس کا اپنے جیسے سے نقل کرنا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تک یہ ان کے نزدیک علم کا فائدہ دیتی ہے۔ اوریہی صواب ہے ان شاء اللہ۔ جو کوئی اسے قبول نہیں کرتا اور اس پر طعن کرتا ہے خواہ عقیدے میں ہو یا اس کے علاوہ تو وہ اہل ضلال وگمراہی میں سے ہے۔

آگے فرماتے ہیں: اس طرح سے یہ لوگ دین الہی سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ اب دین سے کھلواڑ ایسے لوگوں کی جانب سے نہیں ہوتا جو واضح بدعتی ہیں جیسے معتزلی، خارجی، رافضی، باطنی وغیرہ آپ کے پاس شبہات ان کی طرف سے نہیں آئیں گے بلکہ شبہات ان کی طرف سے آئیں گے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سلفی ہیں۔ یہ لوگ سلفی منہج اور جرح وتعدیل میں یہ شبہہ داخل کرتے ہیں۔ اور ان کا یہ مذہب اصول سنت ہی کو باطل قرار دینے پر منتج ہوتا ہے۔

پھرشیخ محمد بن ہادی المدخلی([1]) نے شیخ ربیع  رحمہ اللہ  سے اجازت طلب کرکے علامہ حافظ الحکمی  رحمہ اللہ  کی اسی موضوع  پر’’منظومة وسيلة الحصول إلى مهمات الأصول‘‘سے نظم پڑھی :

وَالْخَبَرَ اعْلَمْ مِنهُ ما تَوَاتَرَا – – – وَمِنهُ آحَادٌ إِلَينَا أُثِرَا

فَذُو تَواتُرٍ بِهِ العِلْمُ حَصَلْ – – – وَثَابِتُ الآحادِ يُوجِبُ العَمَلْ

بَلْ يُوجِبُ العِلمَ عَلَى التَّحقِيقِ – – – عِندَ قِيَامِ مُوجِبِ التَّصْدِيقِ

فَالْتَزِمِ القَولَ بِهِ فَإِنَّهْ – – – بِــــهِ يَقُولُ كُلُّ أَهلِ السُّنَّهْ

كَمْ أَرْسَلَ الرَّسُولُ مِنْ آحَادِ – – – يَدْعُونَ فِي الآفَاقِ للرَّشَادِ

مِثلَ مُعَاذٍ وَعَلِي وَالأَشْعَرِيْ – – – وَرُسْلِهِ إِلَى الْمُلُوكِ اِعْتَبِرِ

وَأَلْزَمَ الْمُبَلَّغِينَ الْحُجَّهْ – – – بِهِمْ وَبَانَت بِهُمُ الْمَحَجَّهْ

وَخَبَرُ القِبلَةِ فِي أَهلِ قُبَا – – – فَانْصَرَفُوا فَوراً بِمُطلَقِ النَّبَا

وَبَادَرُ الشِّرَّبَ بِنَثْرِ الْخَمرِ – – – حِيْنَ أَتَاهُمْ مُخبِرٌ بِالْحَظْرِ

وَأَمرُ رَبِّنَا بِنَصٍّ بَيِّنِ – – – فِي خَبَرِ الفَاسِقِ بَالتَّبَيُّنِ

يُشعِرُ أَنَّ خَبَر الأَثْبَاتِ – – – يُؤخَذُ بِالقَبُولِ وَالإِثبَاتِ

بَلْ لا سَبِيلُ لاِقْتِفَا الرَّسُولِ – – – إِلاَّ التَّلَقِّي عَنهُ بِالقَبُولِ

پھر شیخ ربیع  رحمہ اللہ  نے اپنا جواب ان کلمات کے ساتھ ختم فرمایا کہ: اہل سنت ایسے سیدھے منہج پر ہیں جس کی تائید کتاب اللہ وسنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور جس چیز پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف عظام رحمہم اللہ تھے کرتے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہمیں اور آپ کو اس منہج عظیم جو کہ منہج اللہ اور منہج رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے پر ثابت قدمی عطاء فرمائے۔

(ویب سائٹ سحاب السلفیہ سے ماخوذ)

کیا شیخ ربیع کے طلاب صحیح سلفی نہیں؟ شیخ احمد بن یحیی النجمی  رحمہ اللہ  

سوال: بعض نوجوان ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو ان سلفی نوجوانوں کو جو کہ شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ۔۔۔کے تلامیذ ہیں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ سلفی نہیں بلکہ زلفی (چاپلوس) ہیں۔ شرعی اعتبار سے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: سلفیوں کو خاص کرکے ان کا یہ کلام کرنا ان کی خباثت پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے تو اپنی طعن درازی، بغض اور مکروفریب سب کا سب توحید پرست سلفیوں پر مرکوز کردیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بدعتی گروہوں کے ساتھ بھائی چارہ اور تعاون کرتے ہیں، یہاں تک کہ رافضیوں کے ساتھ بھی۔

پس ان کا یہ عمل باطل ہے جو کہ ان کے لیے جائز نہیں۔ ان کا یہ قول باطل ہے حالانکہ درحقیقت چاپلوسی تو وہ ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں کہ حزبیت کا اعتقاد رکھتے ہیں اور اپنی جماعتوں کے بڑوں کے اقوال کی اندھا دھند اتباع کرتے ہيں۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔

(الفتاوى الجلية عن المناهج الدعوية)

البتہ اس مذکورہ حالت سے توتقلید ہی بھلی!

شیخ ربیع المدخلی  رحمہ اللہ  ’’فضل العلم والعلماء‘‘ میں فرماتے ہیں:

حافظ ابن القیم  رحمہ اللہ  نے فرمایا:

’’بلاشبہ علماء کرام کا احترام ، ان سے محبت اور اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں ان کی اطاعت ایسی  بات ہے جسے اللہ تعالی نے مشروع قرار دیا ہے، اور ایسا امر ہے جسے اللہ تعالی نے واجب قرار دیا ہے‘‘([2])۔

میں یہ کہتا ہوں: امت پر واجب ہےکہ وہ علماء کرام کی قدرومنزلت کو پہچانے اور اس کا اعتراف کرے، اور یہ بھی جانے کہ بے شک ان پر ان کی محبت اور اطاعت واجب ہے، اور ان سے بغض  دراصل اللہ تعالی کے دین سے بغض ہے، اور اس دین کے حاملین سے بغض ہے۔ علماء سے بغض رکھنا آخرکار اس حق کے علم سے بغض پر منتج ہوتا ہے  جو انہيں انبیاء کرام o سے وراثت میں ملا ہے۔ پس ہلاکت وبربادی ہے ان کے لیے جو ان سے اور ان کے عقائد سے بغض رکھتا ہے!

آجکل علماء کرام کے پاس جو کچھ ہے اسے قبول نہ کرنے کے تعلق سے یہ باطل مقولہ زبان زد عام ہے جس کا ظاہر حق معلوم ہوتا ہے  لیکن باطن میں باطل وشر ہے، اور وہ یہ  ہے کہ: ’’میں کسی کی تقلید نہيں کرتا‘‘!!۔ آپ اسے پائیں گے کہ نرا جاہل ہےاللہ کے دین میں سے کچھ سمجھتا نہيں، حالانکہ اسے تمام لوگوں سے بڑھ کر علماء کرام کی تقلید کی حاجت ہے، ان کی اتباع تو دور کی بات رہی۔

ایک تو ہوتی ہے تقلید اور ایک ہوتی ہے اتباع۔ ایک ایسا انسان جو بالکل احمق ہے اسے تقلید کی ضرورت ہے، تقلید اس کی ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے، اسے چاہیے کہ علماء کرام کی تقلید کرے۔

البتہ جو طالبعلم ہے  جو دلیل کے توسط سے اس بات کا ادراک کرسکتا ہے کہ یہ عالم صواب پر ہے تو پھر وہ عالم صاحبِ دلیل کی اتباع کرے۔ یہ درجہ تقلید سے بلند ہے، لیکن مجتہد کے درجے سے کم ہے۔ چنانچہ بعض یونہی کہہ دیتے ہيں میں کسی کی تقلید نہيں کرتا حالانکہ درحقیقت وہ عامی وجاہل ہوتا ہے، بلکہ کبھی تو فاسق وفاجر وخبیث ہوتا ہے اور ان مکارانہ اسالیب کے ذریعے وہ علماء کرام پر طعن اور ان سے لوگوں کو متنفر کرنا چاہتا ہے۔

پس نوجوانوں کو چاہیے کہ اس قسم کے بیوقوفوں کے دام فریب سے بچیں کہ جو علماء کرام پر طعن اس خوبصورت جملے کے ساتھ لپیٹ کرکررہے ہوتے ہیں کہ : میں فلاں کی تقلید نہيں کرتا۔ ہم ان سے کہتے ہیں: تمہیں کہتا کون تقلید کرنے کو اگر تم واقعی طالبعلم ہوتے؟! لیکن اگر یہ عالم جس کے بارے میں تم کہہ رہے ہو کہ میں اس کی تقلید نہيں کرتا، اس کے پاس حق ہو، تو کیا تمہارے لیے جائز ہوگا کہ اس حق کو ٹھکرا دو جو اس کے پاس ہے اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتوں کے ذریعے جسے تم کہتے تو تقلید ہو مگر مراد اس سے باطل ہوتی ہے؟!!

ہم نوجوانوں کو اس خسیس قسم کے اسلوب سے خبردار کرتے ہیں، یہ بات بہت ہی زیادہ کثرت کے ساتھ عوام جیسے لوگوں بلکہ بعض تو عوام کے اخلاقی و دینی  درجے سے بھی گرے ہوئے لوگوں میں عام ہے۔یہ بیماری بہت سے لوگوں کے دلوں میں پھیل چکی ہے: میں تقلید نہیں کرتا، میں تقلید نہیں کرتا! انٹرنیٹ  پر، منظر عام پر اور بہت سی جگہوں پر یہ بالکل عام ہوچکا ہے کہ: میں تقلید نہیں کرتا۔ حالانکہ ہوتا وہ جاہل ہے، بلکہ ممکن ہے تقلید تک صحیح طو رپر اسے کرنا نہ آتی ہو اتباع تو دور کی بات رہی، اور اجتہاد تو اس سے بعید بات ہے۔

پس میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ادب سیکھیں اور تواضع اختیار کریں، اور علماء کرام کا احترام کریں، اور اس برے لہجے کو دور پھینک دیں جو وہ رٹتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارج رٹا کرتے تھے کہ: ’’لاحکم الا للہ‘‘ (نہيں ہے حکم مگر صرف اللہ تعالی کا) جس پر  علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:

’’كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ‘‘([3])

(بات تو حق ہے لیکن اس سے مراد باطل لی گئی ہے)۔

میں ا س پر اللہ تعالی کی قسم کھاتا ہوں کہ جہاں تک میں نے اس کا کھوج لگایا اور اندازہ کیا ہے تو واقعی یہ لوگ اس سے باطل چاہتے ہیں، اور چاہتے ہيں کہ نوجوان علماء کرام سے بے نیاز ہوجائيں۔ پس اللہ تعالی اہل مکرو فریب  کو تباہ وبرباد کرے، اور اللہ تعالی ان کے مکرو فریب کو اس امت اور اس دین پر سے پھیر دے([4])۔۔۔


[1] مذکورہ شیخ کے سلفیوں کے خلاف مواقف کی بنا پران سے بھی کچھ عرصہ قبل تحذیر کی گئی ہے۔ (مترجم)

[2] اعلام الموقعین 2/237-238۔

[3] صحیح مسلم 1068۔

[4] کتاب ’’مرحبا ًیا طالب العلم‘‘ ص 60-62۔

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی