سلفیت کے نام سے بات کرنے والے ہر شخص کے لیے نصیحت ویاددہانی – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

Advice and reminder for everyone who speaks in the name of Salafiyyah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه ومن اتبع هداه.

أما بعد:

یہ ایک نصیحت اور یاددہانی ہےہر اس شخص کے لیے جو سلفیت کے نام سے بات کرتا ہے لیکن جب امتحان وجانچ کا مرحلہ آتا ہے اور جب سلفیت کے جگر کی طرف  اہل مکر  واہل فتن وفتنہ پرور تیر ونشتر تان لیتے ہيں ، تو ہم اسے سلفیت کا دفاع کرنے والے لشکروں میں نہیں پاتے، نہ ہی اس کے حامیوں اور دفاع کرنے والوں میں وہ نظر آتا ہے، بلکہ اس کی جانب سے ہمیں عجائب وغرائب دیکھنے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آج سلفیت کا لبادہ اوڑھ کر اس کے ایسے ایسے دعویدار ظاہر ہوچکے ہيں کہ جو خود اس سلفیت اور سلفیوں کے بارے میں گردش ایام کی تاک میں بیٹھے رہتے ہیں، ان مواقف، ان سلفیت مخالفت اعمال واصول کو اپنا کر جس سے پیشانیوں پر بوڑھوں کی طرح شکنیں پڑ جائيں۔

انہی مواقف میں سے کچھ یہ ہیں:

1- اہل بدعتِ کبریٰ  تک کا دفاع کرنا جیسے حلول ،وحدۃ الوجود ، وحدت ادیان([1])، اخوت ادیان ومساوات ادیان والوں، اسی طرح سے شرکیات وخرافات والوں کا دفاع کرنا۔ اور ان کے لیے گواہی دینا کہ یہ بھی بلاشبہ اہل سنت میں سے ہی ہيں۔ بلکہ ان کے بعض سربراہوں کا حال یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ وہ روافض کے اور صوفیوں کے بڑے سرکش سرغناؤں تک کا تزکیہ دیتے پھرتے ہیں۔ اور انہیں علماء ثقات کی صفت سے متصف کرتے ہيں۔ اور ان کے مذاہب تک کو تزکیہ فراہم کرتے ہيں۔ اور اس کے جاہل پیروکار ان تمام باتوں میں اس کی تائید کرتے ہیں۔

2- اہل سنت کے خلاف ظالمانہ وفاجرانہ جنگ کرنا اور ان کو، ان کے منہج اور اصولوں کو بدنما بناکر پیش کرنا۔

3- ایسے اصول اختراع وایجاد کرنا جو کہ اہل سنت اور ان کے منہج سے متصادم ہیں تاکہ اہل سنت ہی سے لڑا جائے اور اہل بدعتِ کبریٰ کا دفاع کیا جائے، مثال کے طور پر(ان لوگوں کے یہ خودساختہ اصول) :

الف- ’’نصحح ولا نجرح‘‘ (ہم تصحیح کریں جرح نہ کریں)۔

ب- یا جیسے ’’المنهج الواسع الأفيح الذي يسع أهل السنة ويسع الأمة كلها‘‘ (ایسا وسیع وکشادہ منہج اپنانا کہ جو تمام اہل سنت کو (ان کے اپنی اصطلاح کے مطابق جو اہل سنت ہیں) بلکہ پوری امت کو اپنے دامن میں سمو لے)۔ لیکن درحقیقت اس کے یہاں اہل سنت اور ان کے منہج واصول کے لیے تو تنگی ہی تنگی ہے۔

ج- منہج موازنات (یعنی گمراہوں کا رد کرتے ہوئے ان کے اچھے کارنامے بھی گنوائے جائيں اور لازمی تقابلہ کیا جائے)۔

د- گمراہ لوگوں کی بھی مجمل باتوں کو مفصل باتوں کی طرف لوٹایا جائے۔ حالانکہ مفصل باتیں تو ان کی پہلے ہی واضح ہیں جو ان مجمل باتوں سے قبل ہی بطور دین اپنا رکھی ہیں انہوں نے۔

اس کے علاوہ اور بھی ایسے اصول جن کی اہل سنت نے مذمت کی اور ان کا باطل ہونا واضح کیا۔

4- حق سے دوری اور باطل پر جم جانے کے نتیجے میں یہ قاعدے ایجاد کیے گئے:

الف: قاعدہ: ’’لايلزمني‘‘ (مجھ پر لازم نہیں (یعنی کسی عالم وغیرہ نے اگر دلیل کی روشنی میں بھی رد کیا ہے تو مجھ پر لازم نہيں اسے قبول کرنا))۔

ب: قاعدہ ’’لايقنعني‘‘ (مجھے مطمئن کرنے اور قناعت کروانے کے لیے کافی نہیں(یعنی کسی عالم وغیرہ نے اگر چہ دلیل کی روشنی میں بھی رد کیا ہے مگر مجھے تسلیم کروانے کے لیے اور اس پر قناعت کروانے کے لیے کافی نہیں))۔

ج: جرح مفسر (تفصیلی دلائل کے ساتھ واضح تنقید) کی جو اصل ہے اسی کے خلاف جنگ کرنا۔

د: ثقات (قابل اعتماد لوگوں) کی خبروں کو رد کرنا۔

ھ: کسی بھی بدعتی کی تبدیع (بدعتی قرار دینے ) کے لیے اجماع کی شرط عائد کرنا، اگرچہ کتنے ہی اس کے خلاف دلائل وبراہین کا انبار لگا دیا جائے جو اس کی تبدیع کا تقاضہ کرتے ہوں، اور اگرچہ اس تبدیع کا حکم کرنے والا کا کیسے بھی درجے ومنزلت پر ہو، اور اگرچہ (رد کرنے والوں کی) کتنی ہی کثرت کیوں نہ ہوجائے، لیکن بس اگر ایک بھی اہل اہوا میں سے کسی نے اس کی مخالفت کی تو وہ تبدیع ہی ساقط ہوجائے گی۔

و: ایسا قاعدہ وضع کرنا کہ جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب وشتم کیا جائے بدترین قسم کا سب وشتم یعنی انہيں غثائیہ (سطحی قسم کے بے وقعت) کے وصف سے متصف کرنا۔اور جب ایسے لوگوں سے معذرت طلب کرنے کو کہا جائے تو الٹا یہ کہنا کہ : یہ کوئی سب وشتم اورگالی تو نہيں، یہ سب وشتم نہيں ہے۔ کہتے ہیں: اگر یہ کسی سنی سے صادر ہو تو سب وشتم نہیں ہے اور اگر کسی رافضی سے ہو تو پھر سب وشتم قرار پائی گی۔ اور اس بات پر وہ سن 1424ھ سے آج کے دن تک قائم ہیں۔

چنانچہ یہ اصول فتنوں کا منبع بن چکے ہیں جیسے اندھیری رات کے ٹکڑے ہوں۔

ان تمام فتنوں کے باوجود جو لوگ انہیں نصیحت کرتے ہيں اور ان کے انحرافات وفساد ومتضاد باتوں کو واضح کرتے ہیں تو  اس کا سامنا یہ تکبر، عناد اور ہٹ دھرمی سے کرتے ہیں۔

لیکن ان تمام تر مصائب وبلاؤں وغیرہ کے ہوتے ہوئے بھی ہم ایسے لوگ پاتے ہیں کہ جو ان کو تزکیہ دیتے پھرتے ہیں اور ان کے بارے میں حکم کرتے ہيں کہ بلاشبہ یہ اہل سنت میں سے ہیں!

مندرجہ ذیل کچھ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو میں اس قسم کے لوگوں کو یاددلانا چاہتاہوں ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت پکڑیں، اور جس چیز پر وہ گامزن ہیں اس سے باز آجائيں۔

1- قیس بن ابی حازم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو‏ئے اور اللہ تعالی کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمانے لگے:

’’أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ: ﴿يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ﴾ وإنكم تَضَعُونَهَا فِي غَيْرِ مَوْضِعِهَا، وإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقُولُ: إِذَا رَأَى النَّاسُ الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُغِّيِروهُ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ‘‘

(اے لوگو! بے شک تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو: (اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم ہدایت پر ہو تو جو کوئی گمراہ رہے وہ تمہیں نقصان نہيں پہنچا سکتا) لیکن تم لوگ اس کے صحیح مفہوم سے ہٹ کر سمجھتے ہو، کیونکہ بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر لوگ منکر کو دیکھیں اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں، تو قریب ہے کہ اللہ تعالی ان سب پر عام عذاب بھیج دے)۔

اور یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے امام احمد نےاپنی مسند 1/5، امام ابو داود نے اپنی سنن 4338 اور امام ابن ماجہ نے اپنی سنن کتاب الفتن حدیث 4005 میں روایت فرمایا، اور ان کے علاوہ بھی آئمہ کرام نے اسے روایت فرمایا ہے۔

2- حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ، ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ‘‘

(اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور بالضرور نیکی ومعروف کا حکم کرو گے، اور ضرور بالضرور برائی ومنکر سے روکو گے، ورنہ قریب ہے ضرور اللہ تعالی اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیجے، پھر تم اسے پکارنے لگو لیکن تمہاری دعاء قبول نہ کی جائے)۔

 اسے امام ترمذی نے الفتن حدیث 2169 میں روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے، لیکن اس کی اسناد میں ضعف ہے۔ اور امام احمد نے اپنی مسند 5/388 میں اسے روایت فرمایا۔ اور امام ترمذی کا اس کی تحسین فرمانا تو شاہدوں کی وجہ سے ہے:

ایک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جسے امام احمد نے اپنی مسند 6/159 میں اسی کے ہم معنی روایت کی ہے اور اس کی سند میں بھی ضعف ہے۔

دوسرا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے جسے امام البزار نے اپنی مسند حدیث 8508 اورامام الخطیب نے اپنی تاریخ 13/92 میں روایت کیا ہے۔

چناچہ ان مجموعی طرق کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ اور علامہ البانی نے بھی اسے صحیح الجامع 6947 میں حسن قرار دیا ہے۔

3- ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي، إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ، يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ ‘‘

(کوئی بھی نبی ایسا نہیں جسے اللہ تعالی نے مجھ سے پہلے کسی امت کی طرف بھیجا ہو مگر یہ کہ اس کے لیے اس کی امت میں سے ایسے حواری اور صحابہ ہوتے تھے جو ا س کی سنت کو پکڑتے اور اس کے حکم کی اقتداء کرتے۔پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جو وہ بات کرتے جسے وہ کرتے نہیں، اور وہ کرتے جس کا انہی حکم ہی نہیں دیاگیا۔ جس کسی نے ان سے اپنے ہاتھ سے جہاد کیا وہ مومن ہے، اور جس کسی نے ان سے اپنی زبان سےجہاد کیا وہ مومن ہے، اور جس کسی نے ان سے اپنے دل سے جہاد کیا وہ مومن ہے، البتہ اس کے بعد تو رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں)۔

اسے امام مسلم نے الایمان حدیث 50 ، امام ابو عوانہ 1/36،35 اور امام ابن مندہ نے الایمان ص 184،183 میں روایت فرمایا ہے۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے منکرات، بدعات اور معاصی کی خطرناکی کا بیان ہے۔

اور یہ کہ اس کی خطرناکی اور انجام بد صرف اس کے مرتکبین تک محدود نہيں رہتا بلکہ  ان کو بھی لپیٹ میں لیتا ہے جو ان لوگوں کے لیے مداہنت اور خوشامد اختیار کرتے ہیں، اور بالاولیٰ ان کو بھی جو ان کا اور ان کے اہل کا دفاع کرتے ہيں۔  اور بات تو اس وقت اور زیادہ شدید تر ہوکر بڑھ جاتی ہے  جب وہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر ان اہل حق سے لڑتے ہیں جو حدود الٰہی پر قائم ہيں اور ان منکرات کا رد کرتے ہیں  اور وہ گمراہوں اور فتنہ بازوں کے خلاف جہاد کررہے ہوتےہیں۔

4- النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً، فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلَاهَا، فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِينَةِ، فَأَتَوْهُ، فَقَالُوا: مَا لَكَ؟ قَالَ: تَأَذَّيْتُمْ بِي، وَلَا بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ‘‘

(اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے اور اس میں مبتلا ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی (پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں)قرعہ اندازی کی۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا (تاکہ نیچے ہی سمندر یا دریا سے پانی لے لیا کرے) اب اوپر والے آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو (میرے اوپر آنے جانے سے) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے)۔

اسے امام البخاری نے اپنی صحیح، الشہادات، حدیث 2686، امام احمد نے اپنی مسند 4/269،268، امام ترمذی نے اپنی سنن، کتاب الفتن میں حدیث 2173 اور ابن حبان نے بھی روایت کیا جیسا کہ الاحسان 298،297 میں ہے۔

اور اس حدیث کے الفاظ امام احمد اور الترمذی کے یہاں یہ ہیں:

’’مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالْمُدْهِنِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ فِي الْبَحْرِ فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا، وَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا يَصْعَدُونَ فَيَسْتَقُونَ الْمَاءَ فَيَصُبُّونَ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا، فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا: لَا نَدَعُكُمْ تَصْعَدُونَ فَتُؤْذُونَنَا، فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا: فَإِنَّا نَنْقُبُهَا مِنْ أَسْفَلِهَا فَنَسْتَقِي فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ فَمَنَعُوهُمْ نَجَوْا جَمِيعًا، وَإِنْ تَرَكُوهُمْ غَرِقُوا جَمِيعًا‘‘

(حدودالہی کو قائم کرنے اور ان میں سستی برتنے والوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک قوم سمندر میں کشتی پر سوار ہوئی اور کشتی کے اوپر اور نیچے والے حصہ کے لیے قرعہ اندازی کی پس بعض کو اوپر والا اور بعض کو نیچے والا حصہ ملا، نچلے والے اوپر والے حصے میں جا کر پانی لاتے ہیں تو وہ پانی اوپر والوں پر تھوڑا بہت گرنے لگا پس اوپر والوں نے کہا ہم تمہیں اوپر نہیں آنے دیں گے کیونکہ تم ہمیں تکلیف دیتے ہو،  اس پر نچلے والے کہنے لگے کہ اگر ایسا ہے تو ہم ضرور نچلے حصے میں سوراخ کر کے (سمندر )سے پانی حاصل کریں گے، اب اگر اوپر والے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہيں  اس حرکت سے باز رکھیں تو سب محفوظ رہیں گے اور اگر نہ روکیں تو سب کے سب غرق ہو جائیں گے)۔

المدھن کا معنی ہے جو منکرات کو دیکھے اور سنے جیسے بدعات وغیرہ  مگر ان کا انکار نہ کرے، بلکہ جو اس  میں واقع ہوتے ہیں اور اس کے مرتکب ہیں، اور جو دفاع کرتے ہیں ان کے ساتھ مداہنت کا معاملہ کرے ۔ پھر اس کا کیا حال ہوگا جب معاملہ اس سے بھی تجاوز کرکے ان کے دفاع تک پہنچ جائے، اور ان کی صورت کو اچھا بنا کر پیش کیا جائے، اور گواہی دی جائے کہ بلاشبہ یہ لوگ اہل سنت میں سے ہیں۔

اور اس وقت کیا حال ہو جب مزید تجاوز کرکے ان لوگوں کا ساتھ ہی  چھوڑ دیا جائے جو انکار کا فریضہ انجام دیتے ہيں، اور الٹا لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ یہ (رد کرنے والے) حق پر نہیں، اور صحیح منہج کے مخالف ہيں۔

یہ ایسے مواقف ہیں جو ان منکرات کے مرتکب لوگوں کو ان کی گمراہی میں ہی پڑے رہنے کی،  اور جو ضعیف النفس لوگ ہوتے ہيں انہيں ان کے بار ےمیں حسن ظن رکھنے کی حوصلہ افزا‏ئی کرتے ہيں، اور انہیں ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہيں، اور ان کے نصرت ، سپورٹ اور دفاع کرنے والے بنادیتے ہيں۔ یہ وہ باتیں ہیں جنہوں نے بہت سے ممالک میں بہت سے لوگوں کو منہج سلف صالحین سے پھیر کر رکھ دیا ہے۔

اس صنف کے لوگوں کو چاہیے کہ اللہ تعالی سے ڈریں اور اپنے مواقف پر ذرا سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ نظرثانی کریں۔ اور اس بات کا ادراک کریں کہ ان کے ایسے مواقف اپنانے سے  کیا کیا خطرناک آثار مرتب ہوتے ہیں کہ جن کے بارے میں عنقریب وہ اللہ عزوجل کے سامنے جوابدہ ہوں گے، اس دن جس دن کوئی نفس کسی نفس کے کچھ کام نہ آئے گا۔

اور انہیں چاہیے کہ اپنے قریبی رازداروں ، ساتھیوں اور مشیروں پر بھی سنجیدگی سے نظر ثانی کریں کیونکہ معاملہ بہت خطرناک ہے۔

میں انہيں اللہ تعالی کے اس فرمان کو یاد دلاتا ہوں کہ:

﴿اَلْاَخِلَّاءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ﴾ (الزخرف: 67)

(سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے متقی لوگوں کے)

اور یہ فرمان بھی یاد دلاتا ہوں:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ ۔۔۔﴾ (النساء: 135)

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جاؤ، خواہ تمہاری ذاتوں یا والدین اور قریب ترین لوگوں رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی بھی یاددہانی کرواتا ہوں کہ:

’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، الدِّينُ النَّصِيحَةُ،ثَلَاثاً، قَالُوا: لِمَنْ يارسول الله؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ‘‘([2])

(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے ایسا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا، انہوں نے عرض کی: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور حکام  مسلمین اور عوام کے لیے)۔

اور انہیں جلیل القدر صحابی جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی بھی حدیث یاد دلاتا ہوں کہ زیاد بن علاقہ رحمہ اللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس دن کھڑے خطبہ دیتے ہوئے سنا جس دن مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی کہ:

’’عَلَيْكُمْ بِاتِّقَاءِ اللَّهِ عزوجل وَالْوَقَارِ وَالسَّكِينَةِ حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ، فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمُ الْآنَ، ثُمَّ قَالَ: اشْفَعُوا  لِأَمِيرِكُمْ فَإِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ الْعَفْوَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَاشْتَرَطَ  عَلَيَّ النُّصْحَ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ جَمِيعًا، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ‘‘

(تمہیں اللہ عزوجل کا ڈر لازم رکھنا چاہیے، اور تحمل مزاجی و سکون سے رہنا چاہیے اس وقت تک کہ کوئی دوسرا حاکم تمہارے اوپر آئے اور وہ ابھی آنے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ اپنے مرنے والے حاکم کے لیے اللہ سے بخشش کی سفارش کرو کیونکہ وہ  (مغیرہ) بھی معافی ودرگزرکو پسند کرتا تھا۔ پھر فرمایا کہ: اس کے بعد تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے بھی شرط لی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی، پس اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تم سب کا خیرخواہ ہوں، پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے)۔

اسے امام البخاری اپنی صحیح میں، کتاب الایمان،  بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الدِّينُ النَّصِيحَةُ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ، وَقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ﴾حدیث 58 میں لائے ہیں۔ اور امام احمد نے 4/357 میں، امام البخاری نے الایمان حدیث 57، اور امام مسلم نے الایمان حدیث 56 میں روایت کی ہے اور دونوں نے اسے مختصرا ًروایت فرمایا ہے۔

اور انہيں میں ان احادیث وآیات میں جو اللہ تعالی، اس کی کتاب، اس کے رسول، حکام مسلمین اور عوام کی خیرخواہی کے وجوب کا بیان ہے وہ یاد دلاتا ہوں، اور جو اس میں منکرات کے انکار کا وجوب ہے، اور جو ان واجبات کو ادا نہ کرے اور ان منکرات کا انکار نہ کرے اس پر شدید وعید بھی یاد دلاتا ہوں۔

اور میں انہيں وہی بات کہتا ہوں جو جریر رضی اللہ عنہ نے فرمائی: اس مسجد کے رب کی قسم میں ضرور آپ کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے والا امانت دار ہوں۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ: آسمان وزمین کے رب کی قسم میں یقیناً آپ کا خیرخواہی اور نصیحت چاہنے والا ہوں۔

اور انہیں انس رضی اللہ عنہ کے اس قول کی بھی یاد دلاتا ہوں کہ  فرمایا:

’’إِنَّكُمْ لَتَعْمَلُونَ أَعْمَالًا هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعَرِ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُوبِقَاتِ‘‘

(تم ایسے ایسے عمل کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں (تم اسے حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناہ نہیں سمجھتے) اور ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاک کر دینے والےکاموں میں سے سمجھتے تھے)۔

اسے امام البخاری نے اپنی صحیح میں، الرقائق، حدیث 6492، او رامام احمد نے اپنی مسند 3/157 اور امام ابو یعلیٰ نے اپنی مسند  میں حدیث 4207 اور 4314 میں روایت فرمایا۔

اور میری ان کو یہ بھی نصیحت ہے کہ وہ سلف صالحین کا منہج پڑھیں اس کے اصل مصادر سے، اور اسے لازم پکڑیں اور اس کی اپنے اور دوسروں پر تطبیق کریں۔

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ان لوگوں  کو اس چیز کی بصیرت دے جس سے وہ جہالت میں مبتلا ہیں، خواہ غلطی کرجاتے ہیں یا عمداً ایسا کرتے ہیں۔

وصلي الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم.

کتبہ

ربیع بن ہادی عمیر المدخلی

9/2/1432ھ


[1] کسی عقل مند سلفی کو علی الحلبی کی وحدت ادیان کی تکفیر کرنا دھوکے میں نہ ڈالے، کیونکہ بلاشبہ وہ ایک جہت سے اس پر تنقید کرتا ہے تو دوسری جہت سے وہ اور اس کے ساتھی اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور جو اس کی طرف دعوت دے اس کا تزکیہ دیتے ہیں، اور جو اس پر تنقید کرے اس سے لڑتے ہیں، اور انہیں غلاۃ اور خوارج کی صفت سے موصوف کرتے ہیں، ان کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے ہیں، اور کتنے ہی اس کے پاس یہ کھیل ہیں جو وہ اندھے جذبات کی رو میں کھیلتا رہتا ہے۔

[2] اخرجہ مسلم فی کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ، حدیث رقم 55۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: نصيحة وذكرى لكل من يتكلم باسم السلفية۔