
The condition of ability and power in Jihaad
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جہاد طلب ودعوت صرف قوت وقدرت کی حالت میں ہی ہوسکتا ہے
اور یہی اصول ہے تمام تکالیف اسلام کا کہ کسی بھی شرعی تکلیف (جس کام کا اللہ نے مکلف بنایا ہے) کے لیے قدرت شرط ہے۔ فرمان الہی ہے:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی وسعت کے مطابق)
اور فرمایا:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰىهَا﴾ (الطلاق: 7)
( اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے)
اور فرمایا:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن: 16)
(سو استطاعت بھر اللہ تعالی سے ڈرتے رہو)
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’دَعُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘([1])
(جب تک میں تمہیں چھوڑے رہوں تم بھی مجھے چھوڑ دیا کرو کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ اسی لیے تو ہلاک ہوئے تھے کہ وہ (بلاوجہ باکثرت) سوال کرتے اور اپنے انبیاء کرام سے اختلاف کرتے تھے۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اس سے اجتناب کرو اور جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی استطاعت بھر اسے بجالاؤ)۔
اور مندرجہ ذیل امور کی وجہ سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ جہاد طلب کو شروع کرنے کے لیے طاقت شرط ہے:
1- اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ ۭوَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ﴾(الانفال: 60)
(اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کر سکو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو ڈراؤ گے، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمہاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا)
اور ابی علی ثمامہ بن شفی رحمہ اللہ سے حدیث مروی ہے کہ انہوں نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر کھڑے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾ أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ‘‘([2])
(اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ: (اور ان دشمنوں کے خلاف استطاعت بھر قوت سے تیاری رکھو) (الانفال: 60) سنو! قوت سے مراد تیراندازی ہے، سنو! قوت سے مراد تیراندازی ہے، سنو! قوت سے مراد تیراندازی ہے)۔
اس سے ثابت ہوا کہ دشمن سے قتال کے لیے طاقت شرط ہے اور سب سے مفید قوت رمی (تیر اندازی یا دور سے وار کرنے والا کوئی بھی ہتھیار) ہے۔ اور اس آیت او رحدیث میں اشارہ ہے کہ قتال وجہاد سے قبل قوت تیار کرنا ضروری ہے۔ اگر قوت نہ ہو تو کوئی جہاد وقتال نہیں الا یہ کہ دشمن ہماری زمین پر دھاوا بول دے!
2- اللہ تعالی نے جہاد کے وجوب کے لیے جس تعداد کی شرط لگائی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان مرد کے مقابلے میں دو دشمن، جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا ۭفَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفَيْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ (الأنفال: 66)
(اب اللہ نے تم سے (بوجھ) ہلکا کر دیا اور جان لیا کہ یقیناً تم میں کچھ کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)
اللہ تعالی نے مسلمانوں پر قتال واجب نہیں فرمایا اگر کافروں کی تعداد اس سے زیادہ ہو۔ اور ایسا جہاد طلب ودعوت میں ہوگا برخلاف دفاعی جہاد کے جیسا کہ معرکۂ احد وخندق میں ہوا۔ کیونکہ(جیسا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا) کفار یوم احد وخندق میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ تھے لیکن وہ جہاد ان پر واجب تھا کیونکہ وہ جہاد ضرورت ودفاع تھا ناکہ اختیاری جہاد([3])۔
3- اور مزید اس بات کی دلیل کہ جہاد کے لیے قدرت شرط ہے وہ حدیث بھی ہے جو نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا:
’’ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ: مَا شَأْنُكُمْ؟ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ!‘‘
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی تحقیر کی(یعنی گھٹایا) اور کبھی بڑا کر کے بیان فرمایا([4])یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے۔ پس جب ہم شام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے آثار ہمارے چہروں پر دیکھے توفرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح دجال کا ذکر کیا اور اس میں آپ نے کبھی تحقیر کی اور کبھی اس فتنے کو بڑا کر کے بیان کیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ یہیں کھجوروں کے ایک جھنڈ میں ہے!)۔
اس حدیث میں دجال کا ذکر ہے پھر عیسی ابن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے نزول کا ذکر ہے چناچہ آگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ مِنْهُ فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى: إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنْ النَّاسِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ ‘‘([5])
((دجال کےفتنے کے دوران ) اللہ تعالی عیسی بن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس زرد رنگ کے حلے پہنے ہوئے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں گے ۔جب وہ اپنے سر کو جھکائیں گے تو اس سے قطرے گریں گے اور جب اپنے سر کو اٹھائیں گے تو اس سے سفید موتیوں کی طرح قطرے ٹپکیں گے اور جو کافر بھی ان کی خوشبو سونگھے گا وہ مرے بغیر رہ نہ سکے گا اور ان کی خوشبو وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔ پس وہ اسے(دجال کو) تلاش کریں گے ،یہاں تک کے اسے باب لد پر پائیں گے تو اسے قتل کردیں گے ۔ پھر عیسی بن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے پاس وہ قوم آئے گی جسے اللہ نے دجال سے محفوظ رکھا تھا، پس وہ ان کے چہروں پر شفقت سے اپنا دست مبارک پھیریں گے اور انہیں جنت میں ملنے والے ان کے درجات بتائیں گے ۔ پس اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالی عیسی علیہ الصلاۃ والسلام پر وحی نازل فرمائیں گے کہ: یقیناً اب میں نے اپنے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں، لہذا آپ میرے بندوں کو حفاظت کے لیے طُور کی طرف لے جائیں۔ پھر اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچائی سے دوڑتے چلے آئیں گے ۔ ان کی اگلی جماعتیں بحیرہ طبرستان پر سے گزریں گی اور اس کا سارا پانی پی جائیں گی پھران کی آخری جماعتیں گزریں گی تو کہیں گی کہ اس جگہ کسی وقت پانی موجود ہوا کرتا تھا اور اللہ کے نبی عیسی علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے ساتھی محصور ہوجائیں گے ، یہاں تک کہ ان میں کسی ایک کے لیے (کھانے کی قلت کے سبب) بیل کی سری بھی تم میں سے کسی ایک کے لیے آج کل کے سو دینار سے افضل و بہتر ہوگی۔ پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے ساتھی اللہ سے دعاء کریں گے تو اللہ تعالی یاجوج ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کرے گا، وہ ایک جان کی موت کی طرح سب کے سب یک لخت مرجائیں گے ۔ پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے ساتھی زمین کی طرف اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت کی جگہ بھی یاجوج ماجوج کی لاشوں اور ان کے تعفن اور بدبو سے انہیں خالی نہ ملے گی۔ پھر اللہ کے نبی عیسی علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے ساتھی دعاء کریں گے تو اللہ تعالی بختی اونٹوں کی گردنوں کے برابر پرندے بھیجیں گے جو انہیں اٹھا کر لے جائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا وہ انہیں وہاں پھینک دیں گے۔ پھر اللہ تعالی بارش بھیجے گا جس سے ہر مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا بالوں کا آئینے کی طرح صاف ہوجائے گا اور زمین مثل باغ یا حوض کے دھل جائے گی ۔ پھر زمین سے کہا جائے گا: اپنے پھل کو اگا دے اور اپنی برکت کو لوٹا دے ۔ پس ان دنوں ایسی برکت ہوگی کہ ایک انار کو ایک پوری جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے میں سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں اتنی برکت دے دی جائے گی کہ ایک دودھ دینے والی اونٹنی (ولادت کے قریب جس کے تھن خوب بھرے ہوئے ہوتے ہیں) قبیلہ کے لوگوں کے لیے کافی ہوجائے گی اور ایسے ہی ایک دودھ دینے والی گائے ایک بڑی جماعت کے لیے کافی ہوگی، اور ایک دودھ دینے والی بکری پورے گھرانے کے لیے کفایت کرجائے گی۔ اسی دوران اللہ تعالی ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے تک پہنچ جائے گی ، پھر ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کرلی جائے گی اور صرف بدترین لوگ ہی باقی رہ جائیں گے ، جو گدھوں کی طرح کھلے عام آپس میں جماع کریں گے ، پس انہیں پر قیامت قائم ہوگی)۔
پس اس حدیث میں ہے کہ جب عیسی علیہ الصلاۃ والسلام اور جو ان کے ساتھ مومنین ہوں گے ان کے پاس یاجوج وماجوج سے قتال کی طاقت نہیں ہوگی تو اللہ تعالی انہیں حکم دیں گے کہ ان سے قتال وجہاد نہ کرو، پھر امت مسلمہ کا اب کیا حال ہے جبکہ ان کی قوت وقدرت بہت کمزور ہے؟!
اگر یہ کہا جائے کہ یہ حدیث تودفاعی جہاد سے متعلق ہے جبکہ ہمارا کلام تو جہاد طلب پر ہورہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر طاقت وقدرت دفاعی جہاد میں شرط ہے جیساکہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے تو پھر جہاد طلب ودعوت کے لیے تو بالاولیٰ شرط ہوگی۔
ایک ملاحظہ اور بھی ہے کہ عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کہ بارے میں جو ذکر ہوا کہ آپ امت اسلام امت دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوکر آئیں گے (یعنی اسی شریعت کے پابند ہوں گے) تو پھر کیا وجہ ہے کہ جہاد وقتال نزول عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کے وقت عدم طاقت وقدرت کی وجہ سے ممنوع ہوجائے لیکن آج واجب ہو؟!
[اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ جب سلفی بیان کرتے ہیں اہل بدعت کو کہ جہاد کے مراحل ہوتے ہیں جیسے مکہ میں کمزوری کی حالت میں اللہ نے مسلمانوں کو اپنے ہاتھ باندھ رکھ کر عبادت کرنے کا حکم دیا تھا، پھر مدینہ میں قوت اور انصار ملنے پر جہاد کا حکم دیا، تو اب بھی سیرت پر اسی طرح عمل ہوگا کمزوری اور طاقت کی حالت میں فرق، تو وہ پلٹ کر کہتے ہیں اب شریعت پوری ہوگئی ہے کوئی مکی مدنی دور کی تقسیم نہیں، حالانکہ اس حدیث میں واضح دلیل ہے کہ قریب قیامت تک جہاد کے لیے طاقت کی شرط قائم ہے، الحمدللہ]
سعودی عرب کی دائمی کمیٹی برائے فتوی نے بھی یہی فتوی دیتے ہوئے کہا:
’’جہاد اعلائے کلمۃ اللہ، دین اسلام کی حفاظت اور اس کے ابلاغ ونشر کے امکانات حاصل کرنے اوراس کی حرمتوں کی حفاظت کرنےکے لیے اس پر فرض ہوتا ہے جس کے لیے یہ ممکن ہو اور وہ اس کی قدرت رکھتا ہو۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ فوج کی تیاری وتنظیم ہو تاکہ کہیں افراتفری کا شکار نہ ہوا جائے اور ایسی بات کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کے ناقابل ستائش نتائج مرتب ہوں۔ اسی لیے اسے شروع کرنا اور اس میں داخل ہونا مسلمانوں کے حکام کا کام ہے، جبکہ حکام کے اعلان کے بعد علماء کو چاہیے کہ لوگوں کو اس پر ابھاریں۔ پس جب یہ شروع ہوجائے اور مسلمان نکل پڑیں تو پھر اس شخص پر واجب ہے جو اس کی قدرت رکھتا ہو کہ وہ بھی ان کی پکار پر لبیک کہے، خالص اللہ کی رضا کے لیے، حق بات کی نصرت کرنے اور اسلام کی حفاظت کرنے کی امید میں، جو شخص اس قسم کے جہاد سے پیچھے رہا جبکہ تمام داعیات موجود تھےاور کوئی عذر بھی نہ تھا تو وہ گناہ گار ہے‘‘([6])۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ (م 1421ھ) فرماتے ہیں:
’’جہاد کے لیے شروط لازمی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ مسلمانوں کے پاس اتنی قدرت وقوت ہو کے وہ قتال کرسکیں۔ اگر ان کے پاس قدرت نہ ہو تو پھر اپنے آپ کو جہاد میں ڈالنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے مسلمانوں پر اس وقت جہاد فرض نہیں فرمایا جبکہ وہ مکہ میں تھے کیونکہ وہ اس وقت عاجز او رکمزور تھے، پھر جب انہوں نے مدینہ ہجرت کی اور ایک اسلامی ریاست کا قیام ہوا اور انہیں وہ شان وشوکت (طاقت) حاصل ہوگئی تب انہیں قتال کا حکم دیا گیا‘‘([7])۔
جہاد ِدفاع جہاد ِطلب ودعوت سے ان امور میں مختلف ہوتا ہے کہ اس میں شرط نہیں کہ دشمن مسلمانوں کے دگنا ہوں یا اس سے کم، اس میں قوت کی بھی شرط نہیں، نہ ہی امام کی اجازت کی، اور نہ ہی والدین یا ان میں سے کسی ایک کی اجازت کی، اس میں کوئی بھی شرط نہیں، بلکہ حسب امکان دشمن سے دفاع کرے
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م 728ھ) فرماتے ہیں:
’’جہاں تک قتال دفاع کا تعلق ہے تو یہ دفع الصائل (ظالم سے اپنا دفاع کرنے) کی شدید ترین مثال ہے کہ انسان اپنی عزت ودین کی حفاظت کرتا ہے۔ پس یہ اجماعاً واجب ہے۔ وہ دشمن جو دین ودنیا میں فساد برپا کرنے کے لیے سر پر آکھڑا ہواسے دور کرنے کے لیے سوائے ایمان کے کوئی چیز واجب نہیں ہوتی، نہ ہی کوئی شرط باقی رہ جاتی ہے۔ بلکہ حسب امکان اس کے خلاف دفاع کیا جائے گا۔ اس بارے میں ہمارے علماء کرام وغیرہ نے نص بیان کی ہے ۔ لہذا ایک ظالم وکافر جو لڑنےاور نقصان پہنچانے آچکا ہے اس سے دفاع کرنے اور خود سے جہاد طلب کرنے میں تفریق کرنا واجب ہے‘‘([8])۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ (م751ھ) فرماتے ہیں:
’’اگر مقابلہ شروع ہوجائے تو ایک مومن کو چاہیے کہ قتال سیکھے، تیاری کرےاور اس کی ٹریننگ کرے۔ کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ مجاہد جب کبھی دشمن سے دفاع کررہاہوتا ہے تو اس اس وقت مجاہد مطلوب ہوتا ہے اور دشمن اس کا طالب ہوتاہے۔ جبکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ دشمن پر خود سے حملہ کرکے فتح چاہتا ہے تو اس وقت یہ طالب ہوتا ہے اور دشمن مطلوب۔ اور ہوسکتا ہے دونوں باتیں ہی مطلوب ہوں۔ ان تینوں اقسام میں ایک مومن کو جہاد کا حکم ہے۔ جہاد دفاع جہاد طلب سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ دفاعی جہاد دفع الصائل (ظالم کو کسی طور پر بھی دور کرنا) کی طرح ہے، اسی لیے مظلوم کے لیے یہ جائز قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے نفس کا دفاع کرے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا﴾ (الحج: 39)
(ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے، اجازت دے دی گئی ہے(کہ وہ بھی دفاع کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ‘‘([9])
(جو کوئی اپنے مال کا بچاؤ کرتے ہوئے مارا گیا تو وہ شہید ہے اور جوکوئی اپنی جان کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا تو وہ بھی شہید ہے)۔
کیونکہ دین کے سبب سے دفع الصائل کرنا جہاد وقرب الہی کا ذریعہ ہے، اور جان ومال کے لیے دفع الصائل کرنا مباح ورخصت ہے۔ اگر ان میں وہ مارا گیا تو وہ شہید ہے۔ چناچہ دفاعی جہاد قتالِ طلب سے زیادہ وسیع ہے اور وجوب کے اعتبار سے زیادہ عام ہے۔ لہذا ہر ایک پر یہ متعین ہوجاتا ہے کہ وہ کھڑا ہو اور جہاد کرے۔ غلام اپنے آقا کے اذن سے کرے خواہ بغیر اذن کے، بیٹا اپنے والدین کے اذن سے کر ےیا بغیر اذن کے، مقروض قارض کے اذن کے بغیر کرے اور یہ ایسا ہے جیسا کہ مسلمانوں کا یوم احد وخندق میں جہاد تھا۔ اس نوع کے جہاد (یعنی دفاعی جہاد) میں شرط نہیں کہ دشمن مسلمانوں کے مقابلے میں دوگنے ہوں یا اس سے کم۔ کیونکہ یوم احد وخندق میں کفار مسلمانوں سے کئی بڑھ کر تھے، لیکن ان پر جہاد اس وقت واجب تھا۔ کیونکہ اس وقت جہاد ضرورت ودفع تھا ناکہ اختیاری جہاد۔ لہذا اس میں صلاۃ خوف جائز تھی ۔ اور کیا جہاد طلب میں بھی صلاۃ خوف جائز ہے اگر دشمن کے نکل جانے کا خدشہ ہو اور پلٹ کر وار کرنے کا خطرہ نہ ہو؟ اس بارے میں علماء کرام کے دو اقوال ہیں اور یہ امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایتیں ہیں۔ یہ بات معلوم ہے کہ وہ جہاد جس میں انسان طالب ومطلوب ہوتا ہے وہ اس سے بڑھ کر واجب ہوتا ہے جس میں وہ صرف طالب ہوتا ہے ناکہ مطلوب، اور نفس اس میں دو وجوہات کی بنا پر زیادہ راغب ہوتا ہے۔ جبکہ جو خالص جہاد طلب ہوتا ہےاس میں کوئی راغب نہیں ہوتا سوائے دو انسانوں کے یا تو عظیم ایمان کا مالک ہو کہ وہ اللہ تعالی کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے لڑتا ہے، اور تاکہ دین تمام کا تمام اللہ تعالی کے لیے ہوجائے،یا پھر کوئی مال غنیمت وغلاموں میں رغبت رکھتاہو۔ جبکہ دفاعی جہاد کا قصد تو ہر شخص کرتا ہے اور اس سے وہی بھاگ سکتا ہے جو شرعاً وعقلاً مذموم بزدل ہو۔ اور اللہ تعالی کے لیے خالص جہاد طلب تو سادات مومنین کرتے ہیں۔ جبکہ وہ جہاد جس میں وہ طالب ومطلوب دونوں ہو تو یہ بھی چنیدہ بندے ہی کرتے ہیں، اعلائے کلمۃ اللہ ودین کے لیے اور وہ دشمن کے بیچ میں کود پڑتا ہے دین کے دفاع اور کامیابی کی چاہت میں‘‘([10])۔
ساتھ میں مندرجہ ذیل امور کو ملحوظ رکھا جائے:
1- دفاعی جہاد میں امام کی اجازت کی شرط نہ ہونا اس وقت ہے جب اچانک ہی دشمن ملک پر حملہ آور ہوجائیں۔ اور لوگوں کے لیے ممکن ہی نہ رہے کہ وہ امام کی طرف فورا ًسے رجوع کریں تاکہ دشمن سے دفاع کیا جاسکے۔ لیکن اگر ان کے پاس یہ عذر نہ ہو یعنی امام سے رابطہ ممکن ہو تو دفاعی جہاد میں بھی اصل یہی ہے کہ امام کی طرف رجوع کیا جائے ،اس کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے اور اس کے پیچھے رہ کر قتال کیاجائے۔ جیساکہ مسلمانوں نے اس وقت کیا جب مشرکوں نے ان سے معرکۂ خندق کے وقت جنگ کی۔
عبداللہ بن امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنے والد صاحب کو فرماتے ہوئے سنا کہ: اگر امام اجازت دے جہاد کی اور قوم تک اس کی نفیر (جہاد کا اعلان ، جہاد کی کال)پہنچ جائے تو کوئی حرج نہیں کہ وہ جہاد کے لیے نکل پڑیں۔ میں نے اپنے والد سے کہا: اگر وہ امام کی اجازت کے بغیر ہی نکل پڑھیں تو؟ فرمایا: نہیں، جب تک امام اجازت نہ دے، الایہ کہ دشمن اچانک ہی حملہ آور ہوجائیں اور ان کے لیے ممکن ہی نہ رہے کہ امام تک پہنچ سکیں اس کی اجازت کے لیے تو میں امید کرتا ہوں اس حالت میں لڑنا مسلمانوں کا دفاع کہلائے گا([11])۔
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کیونکہ جنگ کا معاملہ امام کے سپرد ہے ۔ وہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ دشمن کثیر ہیں یا قلیل اوران کا گھات لگانا وچالیں وہ بہتر جانتا ہے لہذا چاہیے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے۔ کیونکہ مسلمانوں کے لیے اسی میں زیادہ احتیاط ہے الا یہ کہ اس سے اجازت لینا ممکن نہ رہے اور دشمن اچانک ہی حملہ آور ہوجائے تو اس صورت میں اجازت واجب نہیں۔ کیونکہ اس موقع کی مصلحت نے ان پر قتال اور اس کے لیے نکلنا متعین کردیا ہے، اور کیونکہ اسے چھوڑنے میں فساد یقینی ہے۔ جب کفار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دودھ پلانے والی اونٹنیوں کو لوٹ لیا تھا تو سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ کے باہر جاپکڑا، ان کا پیچھا کیا اور بلا اجازت ان سے قتال بھی کیا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی تعریف فرمائی اور فرمایا:
’’خير رجالنا سلمة بن الأكوع‘‘
(ہمارے بہترین مرد سلمہ بن اکوع ہیں)۔
اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غنیمت کے دو حصے دیے گھڑ سوار کا بھی اور پیادے کا بھی‘‘([12])۔
2- اگر دفاعی جہاد میں دشمن سے لڑنے کی عدم قدرت ہو تو اس کے ساتھ صلح بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر امام اسے مناسب سمجھے۔ اس کا حال جہاد طلب کے حال کا سا ہوگا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح حدیبیہ میں مشرکین سے صلح کا معاہدہ کرلیا ، ان سے مکہ مکرمہ کا دفاع نہیں کیا حالانکہ مسلمانوں کے اموال وہاں موجود تھے۔
3- دشمن سے قتال کی عدم قدرت کی وجہ سے قتال چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کو اس کا حکم دیا جو حدیث پہلے گزری کہ: (یقیناً اب میں نے اپنے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں، لہذا آپ میرے بندوں کو حفاظت کے لیے طُور کی طرف لے جائیں)۔
ایمان کی معنوی قوت اور حسی قوت کی تیاری کرنا ضروری ہے([13])
ابی علی ثمامہ بن شفی رحمہ اللہ سے حدیث مروی ہے کہ انہوں نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر کھڑے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾ أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ‘‘([14])
(اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ: (اور ان دشمنوں کے خلاف استطاعت بھر قوت سے تیاری رکھو) (الانفال: 60) سنو! قوت سے مراد تیراندازی ہے، سنو! قوت سے مراد تیراندازی ہے، سنو! قوت سے مراد تیراندازی ہے)۔
اس سے ثابت ہوا کہ دشمن سے قتال کے لیے طاقت شرط ہے اور سب سے مفید قوت رمی (تیر اندازی یا دور سے وار کرنے والا کوئی بھی ہتھیار) ہے۔
ہم کبھی بھی اپنے دشمن پر اپنی تیاری یا اپنے تعداد کی وجہ سے غالب نہیں ہوں گے بلکہ ہم اپنے دل میں موجود تقویٰ الہی کی وجہ سے غالب ہوں گے۔ اس لیے لازم ہے کہ علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ معنوی تیاری بھی کی جائے۔ اس بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خَيْرُ الصَّحَابَةِ أَرْبَعَةٌ وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُ مِائَةٍ وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ وَلَا يُغْلَبُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ‘‘([15])
(بہترین رفیق چار ہیں، اور اچھا سریہ (چھوٹادستہ) چار سو آدمیوں کا ہے، اور بہترین لشکر چار ہزار کا ہے،اور بارہ ہزار افراد پر مشتمل لشکر تعداد کی کمی کی بناء پر مغلوب نہیں ہو سکتا)۔
ایمانی قوت اور اللہ کی نصرت کے باہمی تعلق سے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿بَلِ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ ۚ وَھُوَ خَيْرُ النّٰصِرِيْنَ ، سَـنُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا ۚ وَمَاْوٰىھُمُ النَّارُ ۭ وَبِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِمِيْنَ﴾ (آل عمران: 150-151)
(بلکہ اللہ ہی تمہارا مولیٰ ومددگار ہے اور وہ سب مدد ونصرت کرنے والوں سے بہتر ہے، ہم عنقریب ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے کفر کیا، رعب ڈال دیں گے، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ اس کو شریک بنایا جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری،اور ان کا ٹھکانا آگ ہے، اور وہ ظالموں کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہے)
ایمانی قوت اپنائی جائے تو اللہ سبحانہ وتعالی اپنے لشکروں اور فرشتوں تک کے ذریعے مدد فرماتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور سب پر غالب ہے:
﴿وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَلِتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ﴾ (آل عمران: 126)
(اور اللہ نے اسے نہیں بنایا مگر تمہارے لیے ایک خوشخبری اور تاکہ تمہارے دل اس کے ساتھ مطمئن ہو جائیں ورنہ تو درحقیقت مددونصرت نہیں ہوتی مگر صرف اللہ کے پاس سے، جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے)
﴿اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِھٖ ۭوَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (آل عمران: 160)
(اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو وہ کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے گا، چناچہ لازم ہے کہ مومن صرف اللہ ہی پر بھروسہ کریں)
﴿اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ﴾ (الحج: 39)
(ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے، اجازت دے دی گئی ہے(کہ وہ بھی دفاع کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، اور بےشک اللہ تعالی ان کی مدد کرنے پر یقیناً پوری طرح قادر ہے)
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ﴾ (محمد: 7)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ کی (یعنی اس کے دین کی) مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطاء فرمائے گا)
﴿وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ﴾ (آل عمران: 139)
(اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو ،(کیونکہ) اور تم ہی غالب ہواگر تم مومن ہو)۔
’’ضوابط الجہاد فی السنۃ النبویۃ‘‘ سے ماخوذ
[1] أخرجه البخاري في كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله، حديث رقم (7288)، ومسلم في كتاب الحج، باب فرض الحج مرة في العمر، حديث رقم (1337).
[2] أخرجه مسلم في كتاب الإمارة، باب فضل الرمي، والحث عليه، حديث رقم (1917).
[3] تضمين من كلام ابن القيم في الفروسية ص97.
[4] اس بارے دو قول ہیں حقیر اس معنی میں کہ اللہ نے اسے کانا کردیا ، اور وہ اللہ کے یہاں اس سے بھی آسان تر ہے، اور وہ کسی کو قتل تک نہیں کرپائے گا سوائے اس شخص کے پھر اس سے بھی عاجز آجائے گا اور اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور اس کے بعد وہ اوراس کے متبعین قتل کردیے جائیں گے۔ اور بڑا کرکے بیان کیا کا مطلب ہے کہ اس کا فتنہ وامتحان عظیم ہوگا کیونکہ اس کے پاس یہ خارق عادت امور ہوں گے، اور ہر نبی نے اس سے خبردار فرمایا ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کبھی اپنی آواز ہلکی کرتے تو کبھی بلند ۔ (شرح صحیح مسلم) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[5] أخرجه مسلم في كتاب الفتن وأشراط الساعة باب ذكر الدجال وصفته وما معه، حديث رقم (2937).
[6] فتاوى اللجنة (12/12) . وهذه الفتوى صدرت بتوقيع فضيلة المشايخ: عبدالله بن قعود، و عبدالله بن غديان، و نائب الرئيس عبد الرزاق عفيفي، ورئاسة عبد العزيز بن عبدالله بن باز، رحمهم الله وغفر لهم.
[7] الشرح الممتع (8/9-10).
[8] الاختيارات الفقهية ص532 .
[9] أخرجه أبوداود في كتاب السنة، باب في قتال اللصوص، حديث رقم (4772)، والترمذي في كتاب الديات، باب ما جاء فيمن قتل دون ماله فهو شهيد، حديث رقم (1421)، والنسائي في كتاب تحريم الدم، باب من قاتل دون دينه، حديث رقم (4095). وأخرج المقطع الأول منه: “من قتل دون ماله” البخاري في كتاب المظالم والغصب، باب من قاتل دون ماله، حديث رقم (2480)، ومسلم في كتاب الإيمان، باب الدليل على أن من قصد أخذ مال غيره، حديث رقم (141).اور ترمذی کے لفظ یہ ہیں: “عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ”. قَالَ الترمذي: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ”.
[10] الفروسية ص96 –98 .
[11] مسائل عبدالله لأبيه (2/258).
[12] المغني (8/367).
[13] ہمارے شیخ سماحۃ الشیخ عبداللہ بن محمد بن حمید رحمہ اللہ کا اس عنوان پر رسالہ ہے ’’الدعوة إلى الجهاد في القرآن والسنة‘‘ جو کہ علیحدہ سے بھی شائع ہوا ہے، اور آپ کے رسالے ’’هداية الناسك إلى أهم المناسك‘‘ و ’’تبيان الأدلة في إثبات الأهلة‘‘ کے ساتھ بھی شائع ہوا ہے۔
[14] حدیث کی تخریج گزر چکی ہے۔
[15] أخرجه أحمد (الرسالة 4/418، 451، تحت رقم 2682، 2718)، وأبوداود في كتاب الجهاد، باب فيما يستحب في الجيوش والرفقاء والسرايا، حديث رقم (2611)، والترمذي في كتاب السير باب ما جاء في السرايا، حديث رقم (1555)، وابن خزيمة (2538)، وابن حبان (الإحسان 11/17، تحت رقم 4717)، والحاكم (علوش 2/87، تحت رقم 1663). وعن أنس أخرجه ابن ماجه في كتاب الجهاد باب الرسايا، حديث رقم (2827)، وفي سند ابن ماجه أبوسلمة العاملي، متروك. والحديث اختلف في إسناده، قال الترمذي عقبه: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا يُسْنِدُهُ كَبِيرُ أَحَدٍ غَيْرُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَقَدْ رَوَاهُ حِبَّانُ بْنُ عَلِيٍّ الْعَنَزِيُّ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا”اهـ، وقال أبوداود عقبه: “والصحيح أنه مرسل”اهـ، وقال الحاكم: “هذا إسناد صحيح، على شرط الشيخين، ولم يخرجاه، والخلاف فيه على الزهري من أربعة أوجه قد شرحتها في كتاب التلخيص”اهـ قلت: صححه ابن خزيمة و ابن حبان، والحاكم، و حسنه لغيره محقق مسند أحمد، والألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة تحت رقم (986)، وصححه على شرط الشيخين محقق الإحسان. والاختلاف في وصله لا يؤثر لوجود متابعة لرواية جرير، وهو ثقة.