فتنوں کے موقع پر حکام کی اطاعت پر زور دینا – شیخ عبدالسلام بن برجس آل عبدالکریم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Emphasizing obedience to the rulers during times of trails and tribulations – Shaykh Abdus Salam bin Barjas Aal-Abdul Kareem

جب کبھی بھی امت کو حکمرانوں کی اطاعت وفرمانبرادی کے اصول کی زیادہ احتیاج ہوتی تھی سلف اس بارے میں جو سلف کا قاعدہ ہے اس کے اہتمام وعنایت پر مزید زور دیتے تھے تاکہ حکمرانوں کے خلاف خروج کے دروازے و راستے کا سدباب کیا جاسکے، جوکہ دنیا ودین میں فساد کی جڑ ہے۔

پھر جو کچھ آئمہ دعوت نجدیہ رحمہم اللہ نے اس باب میں اس وقت لکھا جب اس بارے میں بعض بظاہر خیر وبھلائی کی جانب منتسب جماعتوں میں اس  قاعدے سے منحرف افکار سرایت کرگئے تھے تو آئمہ کی کاوش نے اس قاعدے کو مزید پختگی وجلا بخشی۔

چنانچہ انہوں نے کثرت سے اس بات کا بیان فرمایا، اس پر روشنی ڈالی، اور اسے باربار دہرایا تاکہ یہ بات بھرپور واضح ہوجائے اور اس سے متعلق کوئی بھی شبہ ہو تو وہ زائل ہوجائے۔ لہذا انہوں نے بس ایک بات یا کلمہ کہہ دینے پر یا ان میں سے کسی ایک شخص کے بیان کردینے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی خطرناکی اور اس سے جہالت  کے سبب لاحق ہونے والے مصائب اور وسیع پیمانے پر پھیل جانے والی برائی کے پیش نظر اسے ہر ایک نے اور باربار بیان کیا۔

اسی وجہ سے شیخ امام عبداللطیف بن عبدالرحمن بن حسن آل الشیخ رحمہم اللہ نے اپنے زبردست کلام میں اس باب میں وارد کیے جانے والے شبہات میں سے بعض کی نقاب کشائی فرمائی اور جاہلوں میں سے جو اس کی نشرواشاعت کررہے تھے ان پر رد فرمایا:

’’کیا یہ فتنہ زدہ لوگ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے اکثر حکمران یزید بن معاویہ کے دور سے لے کر آخر تک سوائے عمر بن عبدالعزیز اور بنی امیہ میں سے الا ماشاء اللہ سب سے بغاوتیں، بڑے حادثات، خروج وفساد حکومت اسلامی میں رونما ہوا مگر مشہور ومعروف آئمہ اسلام کی سیرت بھی ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں معروف ومشہور ہے کہ انہوں نے ان کی اطاعت سے ہاتھ نہیں کھینچا شریعت اسلام اور واجبات دین سے متعلق ہر اس چیز کے بارے میں جس کا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ہو۔

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں حجاج بن یوسف الثقفی کہ جس کا معاملہ امت میں بطور ظلم وستم، خون بہانے میں اسراف، محرمات الہی کی پامالی، امت کی عظیم شخصیتوں میں سے اس نے بہت سے قتل کیے جیسے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کو اور ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا جنہوں نے حرم شریف میں پناہ لے رکھی  تھی، مگر اس نے اس کی حرمت کو بھی پامال کردیا، اور ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کر ڈالا باوجویکہ کہ ابن الزبیر کی اطاعت قبول کرلی گئی تھی اور اور اہل مکہ، مدینہ و یمن کی پوری عوام نےاور عراق کے بہت سے گروہوں نے ان کی بیعت کرلی تھی، اور حجاج امیر مروان کا نائب تھا پھر اس کے بعد اس کے بیٹے عبدالملک کا[1]۔ حالانکہ کسی بھی خلیفہ نے مروان کو نامزد نہیں کیا تھا اور نہ ہی اہل حل وعقد نے اس کی بیعت کی تھی لیکن اس کے باوجود کسی بھی عالم نے اس کی اطاعت سے اور ارکان اسلام و اس کے واجبات میں سے جس میں فرمانبرداری کی جاتی ہے فرمانبرداری کرنے سے توقف نہیں فرمایا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جس نے حجاج کا زمانہ پایا ان میں سے کسی نے بھی اس سے تنازعہ نہیں فرمایا، اور ایسے کسی بھی کام میں اس کی فرمانبرداری سے نہیں رکے جس سے اسلام کا قیام اور ایمان کی تکمیل ہوتی ہو۔

اسی طرح سے ان کے زمانے میں جو تابعین تھے جیسے سعید بن المسیب، حسن البصری، ابن سیرین، ابراہیم التیمی اور ان کے جیسی دیگر امت کی قدآور شخصیات رحمہم اللہ۔

امت کے مشہور آئمہ کرام وعلماء عظام کا اس پر عمل جاری وساری رہا کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت، اس کے رسول کی اطاعت، اور فی سبیل اللہ جہاد کا ہر نیک وبد حکمران کے ساتھ حکم کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ یہ بات اصول دین وعقائد کی کتب میں معروف ہے۔

یہی حال بنوعباس کا تھا کہ انہوں نے امت پر غلبہ تلوار کے زور پر حاصل کیا جس میں کسی بھی اہل علم و دین نے ان کی اعانت نہ کی۔ انہوں نے بنو امیہ کے امراء و نوابوں میں سے ایک خلق کثیر اور جم غفیر کو قتل کیا۔ اور ابن ہبیرہ امیر عراق  اورخلیفہ مروان کو بھی قتل کیا۔ یہاں تک کہ نقل کیا جاتاہے کہ سفاح نے بنوامیہ میں سے ایک ہی دن میں 80 افراد کو قتل کیا اور ان کی لاشوں سے فرش کو سجا کر اس پر براجمان ہوا اور اکل وشرب نوش کیا۔

اس کے باوجود آئمہ کرام جیسے الاوزاعی، مالک، الزہری، اللیث بن سعد، عطاء بن ابی رباح وغیرہ رحمہم اللہ کی سیرت ان حکمرانوں کے ساتھ کسی بھی شخص جس کا علم واطلاع میں کچھ حصہ ہو پر مخفی نہیں ۔

پھر اہل علم میں سے طبقۂ ثانیہ کے علماء کرام جیسے احمد بن حنبل، محمد بن اسماعیل (البخاری)، محمد بن ادریس (الشافعی)، احمد بن نوح، اسحاق بن راہویہ اور ان کے دیگر ساتھی رحمہم اللہ۔۔۔ان کے دور میں بھی حکمران بڑی عظیم بدعات اور انکار صفات الہی میں مبتلا ہوئے اور اس کی طرف (بالجبر) دعوت بھی دینے لگے، اور اس باطل عقیدے کا لوگوں سے امتحان لینے لگے، اور اس میں جو قتل ہوا سو ہوا جیسے احمد بن نصر وغیرہ لیکن اس کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کسی نے ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا ہو یاان کے خلاف خروج کرنے کی رائے رکھتا ہو۔۔۔‘‘[2]۔

پس اس بے نظیر کلام پر غور کریں اور انصاف کی آنکھوں سے اسے پرکھیں تو آپ پائيں گے کہ یہ سلف صالحین کے روشن چراغ جو کتاب وسنت اور بغیر افراط وتفریط کے عمومی قواعد ہیں ان ہی سے ماخوذ ہے۔

اور اس باب کے تعلق سے آئمہ دعوت نجدیہ سلفیہ رحمہم اللہ کا بہت سا کلام موجود ہے۔ جس کی کچھ جھلکیاں آپ کتاب ’’الدرر السنیۃ في الاجوبۃ النجدیۃ‘‘ کی ساتویں جلد میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

یہ سب باتیں عقیدے کے اس اصول کے خصوصی اہتمام کی ضرورت کو، غلبۂ جہالت میں اس کو راسخ کرنے کو اور منہج اہل سنت سے منحرف افکار کے افشاء ہونے کی صورت میں اس کی تعلیم وتربیت کو  بھی مؤکد کردیتی ہیں۔

بلاشبہ ہم جس زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں یہ دو امور یکجا ہوگئے ہیں:

ایک تو غلبۂ جہالت ہے اور دوسرا اس بارے میں منحرف افکار کا رواج پانا اور عام ہونا ہے۔

پس واجب ہے اہل علم اور ان کے طلاب پر کہ وہ اس میثاق عہد و پیمان کا التزام کریں جو اللہ تعالی نے اپنے اس کلام کے ذریعہ ان سے لیا ہے:

﴿لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ﴾ (آل عمران: 187)

(کہ تم لوگوں کوضرور  کھول کھول کر بیان کردو گے اور کچھ چھپاؤ گے نہیں)

لہذا اس اصول کو لوگوں کے لیے کھول کھول کر واضح طور پر بیان کریں۔ اللہ تعالی سے ثواب کی امید کرتے ہوئے اور اس عمل کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔


[1] حالانکہ معروف یہی ہے کہ وہ صرف عبدالملک بن مروان کا نائب تھا۔

[2] الدرر اللسنیۃ في الاجوبۃ النجدیۃ: 7/177-178۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: معاملۃ الحکام فی ضوء الکتاب والسنۃ سے ماخوذ۔